کچھ غلط بھی تو نہیں تھا میرا تنہا ہونا تشریح

0

شاعر : احمد ندیم قاسمی

تعارفِ غزل :

یہ شعر ہماری درسی کتاب کی غزل سے لیا گیا ہے۔ اس غزل کے شاعر کا نام احمد ندیم قاسمی ہے۔

تعارفِ شاعر :

اردو ادب کے بہترین ناول و افسانہ نگار ، ڈراما نویس ، کالم نویس ، صحافی، ادیب، نقاد اور دانشور احمد ندیم قاسمی صاحب ۲۰ نومبر ۱۹۱۴ کو سرگودھا کی تحصیل خوشاب کی کورنگی میں پیدا ہوئے۔ گھروالوں نے ان کا نام احمد شاہ رکھا۔قاسمی صاحب نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں خوشاب سے ہی حاصل کی بعد ازیں انھوں نے پنجاب یونی ورسٹی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے لاہور میں بطور مصنف کام بھی کیا۔ احمد ندیم قاسمی نے سماجی حقیقت نگاری کے ذریعے نہ صرف اپنے افسانوں میں دیہی رہن سہن، طبقاتی تضاد، سماج کے پسے ہوئے استحصالی طبقات اور ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کو موضوع بنایا بلکہ سیاست اور مذہب کے ٹھیکے دار بھی جو اپنے مفاد کے لیے دوسروں کا استحصال کرتے ہیں ان کے قلم کی زد سے بچ نہ پائے۔

کچھ غلط بھی تو نہیں تھا میرا تنہا ہونا
آتش و آب کا ممکن نہیں یک جا ہونا

تشریح : یہ غزل شاعر احمد ندیم قاسمی کی لکھی ہوئی ہے، احمد ندیم قاسمی ہمہ جہت شخصیت ہیں، اس شعر میں وہ کہتے ہیں کہ جب عاشق اپنی تمام تر محبتیں محبوب کے سامنے رکھ دیتا ہے تو محبوب کی خوشنودی ہی اس کا سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے۔ مگر محبوب اس پر اس سے متاثر نہیں ہوتا اور اس کی ان محبتوں کو ٹھکرا دیتا ہے۔ جس کے عاشق کی وفاؤں پر گراں گزرتا ہے۔ عاشق محبوب کی اس بے رخی کا ذمہ دار کسی کو نہیں ٹھہراتا۔ بلکہ وہ یہ کہتا ہے کہ ضروری تو نہیں محبوب کا قرب حاصل وہ جائے۔ جیسے آگ اور پانی ایک جگہ نہیں رہ سکتے ویسے ہی عاشق اور محبوب کا ملن بھی ناممکن سا ہوتا ہے۔

ایک نعمت بھی یہی، ایک قیامت بھی یہی
روح کا جاگنا اور آنکھ کا بیِنا ہونا

تشریح : یہ غزل شاعر احمد ندیم قاسمی کی لکھی ہوئی ہے، احمد ندیم قاسمی ہمہ جہت شخصیت ہیں، اس شعر میں وہ کہتے ہیں کہ ایسا انسان جو بصیرت ، فہم و فراست رکھتا ہے وہ معاشرے کی ریاکاری ، مصنوعی پن اور مال و دولت کی چمک ومک سےمتاثر نہیں ہوتا بلکہ وہ ریاکاری اور دھوکہ باز لوگوں کے بھیانک چہروں کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتاہے۔ دنیا والوں کی طمع حرص کو وہ برداشت نہیں کرتا۔ وہ معاشرتی بگاڑ ، ظلم و ستم اور حق تلفی پر لڑتا ہے احتجاج کرتا ہے۔ شاعر نے بھی یہاں گلا کیا ہے کہ میں نے جب حق کے لیے آواز بلند کی تو میرے اوپر بھی کیچڑ اچھالا گیا۔ اسی وجہ سے شاعر نے بصیرت و بینائی ، چشم قلب کو قیامت قرار دیا ہے۔

جو برائی تھی، میرے نام سے منسُوب ہوئی
دوستو! کِتنا بُرا تھا میرا اچھا ہونا

تشریح : یہ غزل شاعر احمد ندیم قاسمی کی لکھی ہوئی ہے، احمد ندیم قاسمی ہمہ جہت شخصیت ہیں، اس شعر میں وہ کہتے ہیں کہ مجھے معاشرے کی برائیاں نظر آتی تھیں۔ جب کسی کی حق تلفی ہوتی تھی تو میں اس بات پر احتجاج کرتا ہوں۔جب کسی کے ساتھ ظلم ہوتا تو میں اس کی آواز بنتا ہوں یہی وجہ ہے کہ میرے دوست مجھے زمانے کے رنگ ڈھنگ سے الگ سمجھ کر مجھے برا کہتے تھے۔ میری انھی اوصاف کی بناپر وہ مجھےزمانے کے طور طریقہ سے نابلد قرار دیتے تھے۔ دوست مجھے اس لیے تنہا چھوڑ گئے کہ میں ان کو ان کے عیب بتاتا ہوں تاکہ وہ اپنی اصلاح کر لیں۔ شاعر کہتے ہیں کہ آج میں اسی لیے تنہا رہ گیا ہوں کہ مجھ میں ایک برائی ہے وہ یہ کہ میں معاشرے کو بہتر دیکھنا چاہتا ہوں۔

قعرِ دریا میں بھی آ نکلے گی سوُرج کی کرن
مجھ کو آتا نہیں محروُم تمناّ ہونا

تشریح : یہ غزل شاعر احمد ندیم قاسمی کی لکھی ہوئی ہے، احمد ندیم قاسمی ہمہ جہت شخصیت ہیں، اس شعر میں شاعر اپنے حوصلہ و جدوجہد کا ذکرکرتا ہے۔ شاعر اپنے ارادوں پر سچا ہے۔ وہ ایک مقصد پر پرعزم ہے۔ دنیا میں ہر کام ممکن ہے۔ اس دنیا میں کسی کام کو ناممکن نہیں کہا جا سکتا بس جذبہ و ہمت سے کام کرنے سے منزل قریب آتی جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میرا مقصد بھلے بہت مشکل ہے دشوار گزار ہے مگر میں اس مشکل سے گزر جاؤں گا آگے ہمواریاں ہیں۔ ہمیں بس صدق دل سے مقصد کو سامنے رکھ کر محنت کرنا چاہئے راستے اللہ کی ذات بنانے والی ہے۔

شاعری روزِ ازل سے ہوُئی تخلیق ندیمؔ
شعر سے کم نہیں انسان کا پیدا ہونا

تشریح : یہ غزل شاعر احمد ندیم قاسمی کی لکھی ہوئی ہے، احمد ندیم قاسمی ہمہ جہت شخصیت ہیں، اس شعر میں شاعر نے انسان کی تخلیق کو شعر سے مماثل قرار دیا ہے۔ جیسے ایک شعر پر پہلے غور و فکر ہوتی ہے عالم تخیل میں اس کے الفاظ کا چناؤں ہوتا ہے۔ ویسے ہی انسان بھی تخلیقی مراحل سے گزرتا ہے۔ شعر اور انسان دونوں ہی تحلیقی عمل سے گزر کر وجود میں آتے ہیں۔جیسے انسان مخلوقات میں اشرف ہے ویسے شعر بھی زبان و بیان میں اہمیت رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مٹی سے بنایا ہے اور شاعر بھی ایسے شعر کو عروض و وزن پر باندھتا ہے۔ یہی دو اقدار انسان اور اشعار میں مشترک ہیں۔