مومن خان مومن | Momin Khan Momin biography In Urdu

0

مومن خان نام اور مومن تخلص تھا۔مومن 1800ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔والدکانام حکیم غلام نبی کشمیری تھا، خاندانی پیشہ طبابت تھا۔مومن کے دادا مغلیہ سلطنت کے آخری دور میں کشمیر سے دہلی جا کر آباد ہو گئے۔وہاں مغلیہ دربار میں رسائی حاصل ہوئی اور شاہی طبیبوں میں شامل ہو گئے۔مومن نے ابتدائی تعلیم شاہ عبدالقادر دہلوی سے حاصل کی۔فارسی کی تعلیم بھی حاصل کی،علم طب اپنے چچا اور والد سے سیکھا علم نجوم اور رمل میں بھی کمال حاصل کیا۔مگر سب سے زیادہ دلچسپی شاعری اور طیب سے تھی۔شاعری کا شوق بچپن ہی سے تھا۔تاریخ گوئی میں خاص مہارت رکھتے تھے۔مومن نے 1852ء میں دہلی میں وفات پائی۔

مومن نے شاعری کی ابتدا بچپن سے ہی کی۔ابتداءمیں شاہ نصیر دہلوی سے اصلاح لیتے رہے لیکن تھوڑے ہی عرصہ میں شاعری میں مہارت حاصل کی۔خود استاد بن گئے اور اصلاح لینا چھوڑ دی۔مومن کا دل عشق کی لذت سے خوب واقف تھا اس لئے مومن کے کلام کی سب سے پہلی خصوصیت رنگ تغزل ہے۔ان کی غزلیں فلسفیانہ ساخت سے بھی خالی نہیں ہیں، نازک خیالی میں وہ مرزا غالب سے سبقت لے گئے۔اس سلسلہ میں حالی نے بھی اعتراف کیا ہے۔مومن نے حیات و موت کی کشمکش کو مختلف انداز میں بیان کیا ہے۔ان کا کلام کہیں کہیں الفاظ اور تخیل کا مفہوم پورا نہیں کرتا لیکن الجھاؤ اور ابہام سے پاک ہے۔مومن کی شاعری کا اہم جزو حسن مقطع ہے اور اپنے تخلص کو اس طرح باندھا ہے کہ وہ شعر کا ایک حصہ بن گیا ہے۔ان کا رنگ تغزل منفرد ہے۔

خصوصیات کلام یا شاعرانہ عظمت

مومن نے یوں تو بہت سی اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ہے لیکن ان کی شہرت ان کی غزلوں کی وجہ سے ہے جہاں حسن و عشق کا ایک نگارخانہ آباد نظر آتا ہے۔یہ غزلیں اپنے بانکپن، شگفتگی اور رنگینی کے اعتبار سے ایک سدا بہار عظمت کی حامل ہیں۔مومن نے غزل کی روایات کو بڑی کامیابی کے ساتھ ہر جگہ برقرار رکھا ہے۔اس کے خدوخال بڑے دلکش انداز میں ابھارے ہیں۔

غالب کے بعد مومن عہد زرین کے دوسرے بڑے شاعر ہیں۔غزل ان کا اصل میدان ہے اور ان کی غزل کا دائرہ حسن و عشق تک محدود ہے لیکن اس محدود دائرے میں انہوں نے ایسے کمال کا مظاہرہ کیا ہے کہ آج اتنا زمانہ بدل جانے کے بعد بھی اہل نظر ان کی غزل پر فریفتہ ہیں۔

غزل اپنے اصل معنی میں عورتوں سے گفتگو یا عورتوں کے بارے میں گفتگو ہے یعنی اس میں حسن و عشق کی باتیں بیان کی جاتی ہیں لیکن رفتہ رفتہ اس میں وسعت پیدا ہوتی گئی اور زندگی کے تمام موضوعات اس میں داخل ہوگئے۔لیکن مومن کی غزل حسن و عشق ہی کے گرد گھومتی ہے۔گویا انہوں نے اپنی غزل کا دائرہ محدود کردیا لیکن ان کا کمال یہ ہے کہ اسی محدود دائرے میں انہوں نے جدت پیدا کی ہے اور معاملات عشق کی جزئیات کو ایسی خوبصورتی اور فنکاری کے ساتھ پیش کیا ہے کہ نہ کہیں پستی کا احساس ہوتا ہے اور نہ یکسانیت کا۔

ممکن ہے غزل مومن کی اس خصوصیت کا سبب یہ ہوا کہ مومن نے زندگی میں واقعتاً عشق کیا تھا اور ایک پردہ نشین خاتون کو چاہا تھا۔یہ شاعرہ تھی اور حجاب تخلص کرتی تھی۔مومن کے کلام میں اس کے اشارے ملتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کے شعروں میں اصلیت کا رنگ پیدا ہو گیا ہے اور جذبات کی شدت بھی صاف ظاہر ہوتی ہے۔مختصر یہ کہ انہوں نے عاشقانہ مضامین ایسے دلکش انداز میں پیش کیے ہیں کہ قدم قدم پر تازگی کا احساس ہوتا ہے۔اس سے تغزل کی نرالی شان پیدا ہوگئی ہے۔انہیں تشبیہوں اور استعاروں کے برتنے کا بہت سلیقہ ہے۔نازک خیالی اور مضمون آفرینی کلام مومن کی اہم خصوصیات ہیں۔

مومن نے اردو غزل میں ایک اچھوتے انداز کی بنیاد ڈالی اور اپنی بات کہنے کا ایک ڈھنگ نکالا۔وہ اپنے محبوب سے کوئی بات اس طرح کہتے ہیں جیسے اسی کے بھلے کی کہہ رہے ہوں اور اس میں محبوب ہی کا فائدہ مد نظر ہو لیکن ذرا غور کیجئے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ تو صرف بات کہنے کا انداز ہے ورنہ فائدہ اپنا ہی مقصود ہے۔مثلا اپنے محبوب سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ تم محفل میں چوری چوری میرے رقیبوں کو دیکھ رہے ہو لیکن اس سے تمہاری بدنامی ہوگی۔ اگر یہ رسوائی گوارا ہے تو شوق سے ان کی طرف دیکھو؀

محفل میں تم اغیار کو ذر دیدہ نظر سے
منظور ہے پنہاں نہ رہے راز تو دیکھو

ایک جگہ کہتے ہیں محفل میں تم سب کی طرف دیکھتے ہو مگر مجھ سے نظریں چرا لیتے ہو۔اس سے تو لوگ یہ سمجھیں گے کچھ دال میں کالا ہے۔اس لئے کبھی کبھی میری طرف بھی دیکھ لیا کرو۔؀

غیروں پہ کھل نہ جائے کہیں راز دیکھنا
میری طرف بھی غمزہ غماز دیکھنا

ایسے مضامین سے کہیں کہیں الجھاؤ اور پیچیدگی پیدا ہوجاتی ہے۔ شاعری میں ابہام حسن ہے یعنی بات کو کھول کر بیان نہ کیا جائے لیکن ابہام اتنا زیادہ ہو کہ شعر پہلی بن جائے تو یہی عیب بن جاتا ہے۔مومن کے کلام میں اکثر جگہ ابہام اس طرح ہے کہ وہ حسن بن جاتا ہے لیکن کہیں کہیں یہ صفت عیب کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔کیونکہ پڑھنے والے کا ذہن شعر کے اصل مفہوم تک نہیں پہنچ پاتا۔بعض جگہ یہ بھی ہوتا ہے کہ لفظ معنی کاساتھ نہیں دیتے یعنی شاعر جو کچھ کہنا چاہتا ہے وہ لفظوں سے ادا نہیں ہوتا۔

مومن غزل کے شاعر ہیں۔ درباری زندگی اور مدح گوئی کو انہوں نے پسند نہیں کیا۔بادشاہوں اور امیروں کی خوشامد انہیں گوارا نہیں ہوئی۔تاہم ان کے دیوان میں چند قصیدے بھی موجود ہیں اور اپنے رنگ میں خوب ہیں۔بزرگان دین کی مدح سرائی کو مومن باعث عزت اور موجب نجات خیال کرتے تھے۔مومن نے اردو میں کل 9 قصیدے لکھے ہیں جن میں دو قصیدہ حمدونعت کے ہیں، 4 قصائد خلفائے راشدین کی شان میں، ایک قصیدہ امام حسین کی شان میں،ایک قصیدہ وزیرالدولہ امیر الملک نواب محمد وزیر خان والی ٹونک کی تعریف میں اور ایک قصیدہ ہتھنی کے شکرانہ کے طور پر ریئس پٹیالہ کے بھائی راجا اجیت سنگھ کی تعریف میں۔یعنی مومن نے7 مذہبی اور 2 غیر مذہبی قصیدے لکھے ہیں۔

مومن نے مثنویاں بھی کہی ہیں۔ان میں زندگی کی حقیقیتیں بیان کی گئی ہیں۔ یعنی مثنویوں میں زندگی کی سیدھی اور سچی باتیں آسان اور رواں زبان میں پیش کی گئی ہیں۔ لیکن یہاں بھی ان کی توجہ کا اصل مرکز معاملات عشق ہی ہے۔ان کی کلیات میں کل 12 مثنویاں ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں۔

  • (١) شکایت ستم
  • (٢) قصہ غم
  • (٣) قول غمیں
  • (٤) کف اتشیں
  • (٥) حسنین مغموم
  • (٦) آہ وزاری مظلوم
  • (٧) مثنوی جہاد
  • (٨) اسرار عشق
  • (٩) در ماتم حکیم غلام نبی خان
  • (١٠) نکاح یار جانی کی تاریخ
  • (١١) نامۂ مومن جاں باز بہ جانب محبوبہ دل نواز
  • (١٢) نامہ با سوزوگداز بہ سمت معشوقہ طناب۔

مومن کی پہلی مثنوی “شکایت ستم” ہے جو انھوں نے سولہ سال کی عمر میں لکھی تھی۔ان کی 12 مثنویوں میں سے 6 کا موضوع خود ان ہی کا عشق ہے۔

مومن کو علم نجوم میں بڑی مہارت حاصل تھی اکثر حساب لگا کر کوئی بات بتاتے تھے اور وہ عموما پوری ہوتی تھی۔تاریخ گوئی میں بھی مومن کو کمال حاصل تھا۔نت نئے انداز کی تاریخیں کہتے تھے جن میں ظرافت بھی پیدا ہوجاتی تھی۔موت سے چند مہینے پہلے مومن گر پڑے تھے۔ہاتھ پاؤں ٹوٹ گئے تھے اس حادثہ کی تعریف کہی جو آخرکار موت کی تاریخ بھی ثابت ہوئی اور ان کے مزار پر کندہ ہے۔

دست و بازو بشکست (یعنی ہاتھ پاؤں ٹوٹ گئے)
مومن کی شاعری کو “مکر شاعرانہ” کا نام ضیاء احمد بدایونی نے دیا تھا۔ان کے ایک شعر کے متعلق غالب نے فرمایا تھا کہ اگر مومن مجھے اپنا یہ شعر دے دیں تو میں ان کو اپنا پورا دیوان دینے کو تیار ہوں۔وہ شعر یہ ہے۔؀

اسی طرح نیاز فتح پوری نے کہا تھا”اگر میرے سامنے تمام شعرائے متقدمین کے کلام رکھ کر مجھ کو صرف ایک دیوان حاصل کرنے کی اجازت دی جائے تو میں بلا تامل کہہ دونگا کہ مجھے کلیات مومن دے دو باقی سب اٹھا لے جاؤ”اس عبارت سے بھی مومن کی اردو شاعری میں عظمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔بے شک مومن ایک بہت ہی اعلی پائے کے شاعر تھے اور رہتی دنیا تک ہمیشہ ان کا نام زندہ جاوید رہے گا۔