محمد الیاس عطار قادری کے حالات زندگی

0

ولادت باسعادت:☜

شیخ طریقت امیر اہلِ سنت بانی دعوت اسلامی علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری رضوی  دامت برکاتہم العالیہ کی ولادت باسعادت 26 رمضان المبار1369ھ بمطابق 12 جولائی 1950ء بروز بدھ پاکستان کے مشہور شہر باب المدینہ ( کراچی) کے علاقہ بمبئ بازار کہارا میں وقت مغرب سے قبل ہوئی۔ آپ کے والد محترم حاجی عبد الرحمٰن قادری بن عبد الرحیم ہیں۔

نام و نسب:☜

آپ دامت برکاتہم العالیہ کا اسم گرامی محمد ہے۔ آپ دامت برکاتھم العالیہ کا عرفی نام الیاس ہے۔ حضرت سیدنا غوث الاعظم رحمةاللہ علیہ سلسہ عالیہ قادریہ میں بیت ہونے کی نسبت سے آپ دامت برکاتھم العالیہ قادری امام اہل سنت مجدد دین امام احمد رضاء خانؒ (جو دامت برکاتھم العالیہ کے دادا پیر بھی ہیں)، کی تحقیقات انقیہ پر مکمل کار بند ہونے اور والہانہ عقیدت و محبت کی بناء پر رَضوی؛ اور خلیفہ اعلی حضرت ؛ قطب مدینہ ؛ حضرت مولانا ضیاءالدین مدنی رحمةاللہ علیہ کے مرید ہونے کی نسبت سے ضیائی کہلاتے ہیں۔ اعتقاد کے اعتبار سے سچے پکے سنی اور فقہ میں آپ دامت برکاتھم العالیہ ائمہ اربعہ یعنی (امام اعظمؒ امام شافعیؒ امام احمد ابن حنبلؒ امام مالکؒ) میں امام اعظمؒ کے پیروکار ہیں۔اس نسبت سے حنفی ہیں۔ آپ دامت برکاتھم العالیہ کی کنیت ابو بلال اور تخلص عطار ہے۔

آباؤ اجداد:☜

آپؒ کے آباؤ اجداد ہند کے گاؤں کتیانہ ( جونا گڑھ) میں مقیم تھے۔آپ دامت برکاتھم العالیہ کے دادا جان عبد الرحیم علیہ رحمةاللہ الکریم کی نیک نامی اور پارسائی پورے کتیانہ میں مشہور تھی اور ہر سو آپؒ کے اخلاق کے چرچے تھے۔آپ انتہائی سادہ طبیعت اور منکسر المزاج تھے۔آپؒ کے مرحوم نانا جان کا نام حاجی محمد ہاشمؒ تھا۔

حصول علم :☜

امیر اہلِ سنت دامت برکاتھم العالیہ نے حصول علم کے ذرائع میں سے مطالعہ کتب اور صحبت علماء کے ذریعہ کو اختیار فرمایا۔اس سلسلہ آپؒ سب سے زیادہ استفادہ مفتی اعظم پاکستانؒ کی صحبت بابرکت سے مستفید ہوتے رہے۔حتٰی کہ مفتی وقار الدین قادری رضویؒ نے امیر اہل سنت کو 1404ھ بمطابق اپریل 1984ء اپنے گھر سمن آباد گلبرگ ٹاؤن باب المدینہ کراچی میں اپنی خلافت و اجابت سے بھی نوازا۔ مشہور ہے کہ امیر اہل سنت دامت برکاتھم العالیہؒ مفتی وقار الدینؒ کے دنیا بھر میں واحد خلیفہ ہیں۔

اپنے ذوق مطالعہ کی تسکین کے لئے دامت برکاتھم العالیہ نے کتاب گھر بھی بنایا۔ جسکی کتابوں میں رفتہ رفتہ اضافہ ہوتا گیا۔اور آج علم قرآن و حدیث و فقہ و عقائد و تصوف کے درجنوں موضوعات پر سینکڑوں کتب و رسائل آپ کے کتب گھر کی زینت ہیں۔جن میں ترجمہ “کنزل الایمان مع تفسیر و خزائن العرفان ؛ فتاوٰی رضویہ شریف؛ بہارِشریعت؛ احیاء العلوم سرِ فہرست ہیں۔

امیر اہلِ سنت دامت برکاتھم العالیہ دور شباب ہی سے علوم دینیہ کے زیور سے آراستہ ہو چکے تھے۔کثرت مطالع بحث و تمحیص اور اکابر علماء سے تحقیق و تدقیق کی وجہ سے آپؒ کو مسائلِ شریعہ ؛ تصوف و اخلاق پر دسترس حاصل ہے۔

بیعت وارادت:☜

امام اہل سنت مجدد دین و ملت شاہ امام احمد رضاء خانؒ سے حد عقیدت کی بناء پر آمیر اہل سنت کو آپ رحمةاللہ علیہ کے سلسلہ میں داخل ہونے کا شوق پیدا ہو گیا۔ جیسے کہ امیر اھل سنت لکھتے ہیں کہ “مرید ہونے کے لئے ایک ہستی مرکز توجہ بنی” اس مقدس ہستی کا دامن تھام کر ہی ایک واسطہ سے اعلی حضرت رحمةاللہ علیہ سے نسبت ہو جاتی تھی۔اور اسی ہستی میں ایک کشش یہ بھی تھی کہ براہ راست گنبد خضراء کا سایہ اس پر پڑا رہتا تھا۔اس مقدس ہستی سے میری مراد حضرت شیخ الفضیلت آفتاب رضویت ؛ ضیاء الملت؛ مقتداۓ اہل سنت مرید و خلیفہ اعلی حضرت پیر طریقت رہبر شریعت قطب مدینہ حضرت مولانا ضیاء الدین احمد مدنی قادری رضوی رحمةاللہ علیہ کی ذات گرامی ہے۔

خلافت و اجازات:☜

امیر اہلِ سنت دامت برکاتھم العالیہ مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی وقار الدین قادری رحمةاللہ علیہ کے خلیفہ ہیں۔آپ کو شارح بخاری ؛ فقیہ اعظم ؛ ہند مفتی شریف حق امجدی رحمةاللہ علیہ نے سلاسل امجدیہ قادریہ؛ چشتیہ؛ نقشبندیہ؛ قادریہ اور سہروردیہ کی خلافت و کتب احادیث وغیرہ کی اجازت بھی عطاء فرمائی۔ جاں نشین حضرت قطب مدینہ حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب رحمةاللہ علیہ نے بھی اپنی خلافت اور حاصل شدہ اسانید و اجازت سے نوازا۔ دنیائے اسلام کے اور بھی کئی اکابر علماء و مشائخ سے آپ کو خلافت حاصل ہے۔