حضرت رابعہ بصریؒ علیہا کے حالات ‌و واقعات

0

تعارف:☜

آپؒ خاصان خداوندی اور پردہ نشینوں کی مخدومہ،سوختہ  عشق اور قرب الٰہی کی شیفتہ، اور پاکیزگی میں مریم ثانی تھیں۔ اگر معترض یہ کہے کہ مردوں کے تذکرے میں عورتوں کا ذکر کیوں کیا گیا ؟؟؟ تو اسکا جواب یہ ہے کہ رسولﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اللہﷻ صورت کے بجائے قلب کو دیکھتا ہے۔اسی لیے روز محشر تمام  لوگوں کا محاسبہ صورت کےبجائے نیت پر ہوگا۔لہٰذا جو عورت عبادت و ریاضت میں مردوں کے مماثل ہو، اس کو بھی مردوں ہی کی صف میں شامل کرنا چاہیئے۔ اس لیے کہ جب  قیامت کے دن مردوں کو پکارا جائے گا تو مریم علیہا السلام  سب سے قبل آگے بڑھیں گی۔ دوسرا سوال یہ ہےکہ اگر رابعہ بصریؒ ،حضرت حسن بصریؒ کی مجلس میں شرکت نہ کرتیں، تو شائد رابعہ بصریؒ کے ذکر کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ اور ابو علی فارمدیؒ کے اس قول کے مطابق مرد و زن میں فرق کرنا بے سود ہے “کہ نبوت عین امتیاز و وفعت ہے، اس میں چھوٹے بڑے کا کوئی امتیاز نہیں۔ اسی طرح ولایت کے مراتب بھی ہیں جس میں مرد و زن کا امتیاز نہیں۔”

چونکہ رابعہ بصریؒ باعتبار ریاضت و معرفت میں ممتاز زمانہ تھیں اس لیے تمام اہلِ اللہ کی نظر میں معتبر اور ذی عزت تصور کی جاتی تھیں اور آپ کے احوال اہل دل حضرات کے لئے حجت کا درجہ رکھتے ہیں۔

پیدائش :☜

ولادت کے دن آپ رابعہ بصریؒ کی والدہ کے یہاں نہ تو اتنا تیل تھا جس سے ناف کی مالش کی جاتی اور نہ ہی اتنا کپڑا جس میں آپکو لپیٹا جاتا۔حتٰی کہ بدحالی کا یہ  حال تھا کہ گھر میں چراغ تک نہ تھا۔ چونکہ آپ اپنی تین بہنوں کے بعد تولد ہوئیں اسی نسبت سے آپکا نام رابعہ رکھا گیا۔اور جب آپ کی والدہ نے آپ کے والد سے کہا کہ جاؤ پڑوس میں سے تھوا تیل مانگ لاؤ تاکہ گھر میں کچھ دیر روشنی ہو جائے۔ تو آپ کے والد نے شدید اصرار پر ہمسائے کے دروازے پر صرف ہاتھ رکھ کر گھر میں آکر کہہ دیا کہ وہ دروازہ نہیں کھول رہا۔  کیونکہ آپ کے والد عہد کر چکے تھے ،کہ خدا کے سواء کسی سے نہیں طلب کرونگا۔ تو اسی پریشانی میں نیند آ گئی اور خواب میں نبی کریم ﷺ کی بشارت ہوئی۔

آپﷺ نے تسلی وتشفی دیتے ہوئے فرمایا کہ تیری یہ بچی بہت مقبولیت حاصل کرئے گی اور اس کی شفاعت سے میری امت کے ایک ہزار افراد بخش دیے جایئں گے۔اس کے بعد حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ والئی بصرہ کے پاس ایک کاغذ تیار کرکے لے جاؤ کہ تو مجھ ﷺپر ہر روز ایک سو مرتبہ دورود شریف بھیجتا ہے اور شب جمعہ چار سو مرتبہ لیکن آج جو جمعہ کی رات گزری ہے اس میں تو دورود بھجنا بھول گیا۔لہٰذا بطور کفارہ حامل ہذا کو چار سو دینار دے دے۔ والئی بیدار ہونے کے بعد بہت روئے اور خط تحریر کرکے دربان کے ہاتھ والئی بصرہ کو بھیجا۔ اس نے مکتوب پڑھتے ہی حکم دیا کہ حضورﷺ کی یاد آوری کے شکرانے میں دس ہزار درہم تو فقراء کو تقسیم  کئے جائیں اور چار ہزار اس شخص کو دیدو۔ اسکے بعد والئی بصرہ خود آپ رابعہ بصری کے والد سے ملاقات کے لیے پہنچے اور عرض کیا کہ جب بھی آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہو مجھے اطلاع کر دیں۔

حالات:☜

حضرت رابعہ بصریؒ نے جب ہوش سنبھالا تو والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا اور قحط سالی کی وجہ سے آپ رابعہ بصریؒ   کی تینوں بہنیں بھی آپ سے جدا ہو کر نہ جانے کہاں مقیم ہو گیئں۔آپ بھی ایک طرف کو چل دیں اور ایک ظالم نے پکڑ کر آپ کو اپنی کنیز بنا لیا۔اور کچھ دنوں کے بعد بہت ہی کم رقم میں فرخت کر دیا اور اس شخص نے گھر لاکر بے حد مشقت آمیز کام آپ سے لیناشروع کردیے۔ایک مرتبہ آپ کہیں جا رہی تھیں کسی نامحرم کو اپنے سامنے دیکھ کر اتنی زور سے گری کہ آپ کا ہاتھ ٹوٹ گیا۔ اس وقت آپ نے سر بسوجود ہو کر کہا؛ یااللہ!  میں بے یارومدگار تو پہلے ہی تھی اور اب ہاتھ بھی ٹوٹ چکا ہے۔ اسکے باوجود تیری رضاء چاہتی ہوں۔ چنانچہ غیبی آواز آئی کہ اے رابعہ غمگین نہ ہو کیونکہ کل تجھے وہ مقام ملےگا کہ فرشتے بھی تجھ پر رشک کریں گے۔ یہ سن کر خوشی خوشی آپ اپنے مالک کے یہاں پہنچ گیئں اور آپ کا معمول یہ رہا کہ آپ دن میں روزہ رکھتیں اور رات کو عبادت کرتیں۔

کرامات

  • ایک دن جب  آپ کے مالک کی آنکھ کھلی تو آپ کو ایک گوشہ میں سر بسجود پایا اور معلق نور آپ کے سر پر فروزاں دیکھا۔  جبکہ اللہﷻ سے یہ عرض کر رہی تھیں کہ اگر میرے بس میں ہوتا تو میں ہمہ وقت تیری عبادت کرتی لیکن چونکہ تونے مجھے غیر محکوم بنا دیا ہے اس لیے تیری بارگاہ میں دیر سے حاضر ہوتی ہوں۔یہ سن کر آپ کا آقا بہت پریشان ہوا اور سوچا کہ مجھے اپنی خدمت لینے کے بجائے ، انکی خدمت کرنی چاہیئے۔

چنانچہ صبح ہوتے ہی آپ کو آزاد کرنے کی استدعا کی اور آپ رابعہ بصریؒ سے عرض کیا کہ  یہیں قیام فرمایئں تو میرے لیے سعادت ہے۔ اگر آپ اور کہیں جانا چاہیں تو آپ کو اختیار ہے۔یہ سن کر آپ حجرے سے باہر نکل آیئں اور ذکر و شغل میں مشغول ہو گیئں۔ آپ شب و روز ایک ہزار رکعت پڑھا کرتی تھیں اور گاہے بگاہے حضرت حسن بصریؒ کے واعظ میں بھی شریک ہوتیں تھیں۔

  • ایک روایت میں آتا ہے کہ آپ گاتی بجاتی تھیں پھر تائب ہو کر ایک جنگل میں گوشہ نشین ہو گیئں۔ پھر جس وقت سفر حج پر گیئں تو آپ کا ذاتی گدھا بہت کمزور تھا۔جب آپ اس پر سامان لاد کر روانہ ہوئیں تو راستہ میں گدھا مر گیا۔یہ دیکھ کر اہل قافلہ آپ کو تنہاء چھوڑ کر آگے بڑھ گئے۔ آپ نے بارگاہ خداوندی میں عرض کیا کہ نادر وعاجز کے ساتھ یہی سلوک کیا جاتا ہے کہ پہلے تو اسے اپنے گھر کی جانب مدعو کیا پھر راستہ میں گدھے کو مار ڈالا اور مجھے جنگل میں تنہاء چھوڑ دیا۔ابھی آپ کا شکوہ ؔختم نہیں ہوا تھا کہ گدھے میں جان آگئی اور آپ اس پر سامان لاد کر عازم مکہ ہویئں۔ جب آپ مکہ پہنچی تو چند روز بیابان میں قیام کرکے رب کی بارگاہ میں عرض کیا کہ میں اس لئے دل گرفتہ ہوئی   کہ میری تخلیق تو خاک سے ہوئی ہے اور کعبہ پتھر سے تعمیر کیا گیا ہے۔ اس لئے میں تجھ سے بلا واسطہ ملاقات کی خواہش مند ہوں۔ چنانچہ بلا واسطہ اللہﷻ نے مخاطب ہو کر فرمایا!!!  کہ اے رابعہ! کیا نظام عالم درہم برہم کرکے سارے عالم کا خون اپنے سر پر لینا چاہتی ہے؟؟؟ کیا تجھے معلوم نہیں کہ جب موسٰی نے دیدار کی خواہش کی اور ہم نے اپنی تجلیات میں سے ایک چھوٹی  سی تجلی طورِ سینا پر ڈالی تو وہ پاش پاش ہو گیا۔  اسکے بعد جب دوبارہ حج کو گیئں  تو دیکھا کہ خانہ کعبہ خود آپ کے استقبال کے لیے چلا آرہا ہے۔آپ نے فرمایا مجھے مکان کی حاجت نہیں بلکہ مکین کی ضرورت ہے۔کیونکہ مجھے حسن کعبہ  سے زیادہ جمال خداوندی کے دیدار کی تمنا ہے۔”
  • حضرت ابراہیم دہمؒ جب سفر حج کے لیے روانہ ہوے تو ہر گام،  ہر سو رکعت نماز اداء کرتے ہوئے چلے اور مکمل چودہ سال میں مکہ معظمہ پہنچے اور کہتے ہوئے جا رہے تھے کہ کچھ لوگ تو قدموں کے بل چل کر جاتے ہیں اور میں سر آنکھوں کے بل پہنچونگا۔ چنانچہ جب مکہ میں داخل ہوئے تو خانہ کعبہ غائب تھا۔ آپ اس تصور سے آب دیدہ ہو گئے کہ شائد  میری بصارت زائل ہو چکی۔تو غیب سے نداء آئی کہ بصارت نہیں گئی ہے ، بلکہ کعبہ ایک ضعیفہ کے استقبال کے لیے گیا ہوا ہے۔ یہ سن کر آپ کو احساس ندامت ہوا اور گریہ کناں عرض کیا کہ  یا اللہﷻ ٓ! وہ کون ہستی ہیں؟؟؟  نداء آئی کہ وہ بہت ہی عظیم المرتبت ہستی ہیں۔ چنانچہ آپ کی نظر اٹھی تو دیکھا کہ سامنے سے حضرت رابعہ بصریؒ  لاٹھی کے سہارےتشریف لا رہی ہیں اور کعبہ اپنی جگہ پر پہنچ چکا ہے۔   یہ دیکھ کر آپ نے حضرت رابعہ بصریؒ سے کہا کہ تم نے کیوں نظام کو درہم برہم کیا ہوا ہے۔؟؟؟ جواب ملا کہ میں نے نہیں  بلکہ تم نے ہنگامہ کھڑا کر رکھا ہے جو چودہ برس میں کعبہ پہنچے ہو۔

حضرت دہم نے عرض کیا کہ میں ہر کام پر دو دو رکعت نماز پڑھتا ہوا آیا ہوں جسکی وجہ سے اتنی تاخیر سے پہنچا ہوں۔حضرت رابعہ بصریؒ  نے عرض کیا کہ تم نے نماز پڑھ کر راستہ طے کیا ہے اور میں عجزو انکسار کے ساتھ یہاں پہنچی ہوں۔

  • ایک مرتبہ دو بھوکے افراد حضرت رابعہ بصریؒ  سے بغرض ملاقات حاضر ہوۓ اورباہمی گفتگو کرنے لگے کہ اگر اس وقت رابعہ بصریؒ کھانا پیش کر دیں، تو بہت ہی اچھا ہو کیونکہ ان کے یہاں رزق حلال میسر آ جائیگا۔ آپ کے یہاں اس وقت دو ہی روٹیاں تھیں وہی ان کے سامنے رکھ دیں۔ دریں اثنا کسی سائل نے سوال کیا تو آپ نے دونوں روٹیاں اٹھا کر اسکو دے دیں۔ یہ دیکھ کر مہمان حیران رہ گئے۔کچھ وقفہ کے بعد ایک  کنیز بہت ہی گرم روٹیاں لے کر حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ یہ میری مالکہ نے بھجوائی ہیں۔جب آپ نے وہ روٹیاں شمار کیں تو وہ تعداد میں  اٹھارہ تھیں۔یہ دیکھ کر کنیز سے فرمایا کہ تجھے غلط فہمی ہو گئی ہے۔ یہ روٹیاں میرے یہاں کی نہیں بلکہ کسی اور کے یہاں بھیجی گئی ہیں۔لیکن کنیز نے وثوق کے ساتھ عرض کیا کہ یہ آپ ہی کے لیے بھجوائی ہیں۔مگر آپ نے کنیز کے مسلسل اصرار کے بعد روٹیاں واپس کر دیں اور جب کنیز نے واقعہ اپنی مالکہ  کو سنایا تو اس نے عرض کیا کہ اس میں کچھ اور روٹیوں کا اضافہ کرکے لے جاؤ۔ چنانچہ جب آپ نے بیس روٹیاں شمار کی تو آپؒ نے مہمانوں کے سامنے رکھیں اور وہ محو حیرت ہو کر کھانے میں مصروف ہو گئے۔جب فراغت طعام کے بعد رابعہ بصریؒ سے واقعہ کی نوعیت معلوم کرنا چاہی تو انہوں نے فرمایا کہ تم یہاں حاضر ہوئے تو مجھے معلوم ہو گیا تھا کہ تم بھوکے ہو۔اور جو کچھ گھر میں حاضر تھا میں نے تمہارے سامنے پیش کر دیا اور اسی دوران وہ سائل آ گیا تو میں نے وہ روٹیاں اسے دیکر اللہﷻ سے دعا کی کہ تیرا وعدہ ایک کا دس دینے کا ہے اور مجھے تیرے قول صادق پر مکمل یقین ہے اور کنیز کے اٹھارہ روٹیاں لانے پر میں نے سمجھ لیا کہ اس میں کوئی سہو ہیں۔ اسی لیے میں نے واپس کر دیا اور جب پوری بیس لے کر آئی تو میں نے وعدہ کی تکمیل سمجھ  کر رکھ لیا۔
  • ایک مرتبہ بوجہ تھکاوٹ کے نماز اداء کرتے ہوئے نیند آ گئی۔ اسی دوران ایک چور آپ رابعہ بصریؒ کی  چادر اٹھا کر فرار ہونے لگا  لیکن اسے باہر جانے کا راستہ نظر نہیں آیا ، لیکن چادر واپس اسکی جگہ پر رکھتے ہی راستہ نظر آ گیا۔  اس نے بوجہ حرص پھر سے چادر اٹھا کر فرار ہونا چاہا ، لیکن پھر سے راستہ نظر بند ہو گیا۔غرض یہ کہ اس نے کئی مرتبہ ایسا کیا اور ہر مرتبہ راستہ مسدود نظر آیا۔  حتٰی کہ اس نے ندائے غیبی سنی کہ تو اپنی جان  کیوں ہلاک کرنا چاہتا ہے؟ اس لیے کہ چادر والی نے برسوں سے خود کو ہمارے حوالے کر دیا ہے۔اس وقت شیطان تک اس کے پاس نہیں بٹھک سکا۔ پھر کسی دوسرے کی کیا مجال ہے جو چادر چوری کر سکے۔کیونکہ اگر چہ ایک دوست  محو خواب ہے تو دوسرا بیدار ہے۔
  • ایک مرتبہ کئی یوم سے آپ نے کچھ نہیں کھایا تھا اور جب خادمہ  کھانا تیار کرنے لگی، تو گھر میں پیاز تھا اور اس نے آپ سے پڑوس میں سے پیاز مانگ لانے کی اجازت طلب کی۔آپ نے فرمایا کہ میں تو برسوں سے اللہﷻ سے یہ عہد کیے ہوئے ہوں، کہ تیرے سواء کسی سے کچھ نہیں طلب کرونگی۔ لہٰذا اگر پیاز نہیں ہے تو کوئی حرج نہیں۔۔۔ ابھی آپ کی بات مکمل نہیں ہوئی تھی کہ ایک پرندہ چونچ میں پیاز لیکر آیا، اور ہانڈی میں ڈال گیا۔ آپ نے اسکو فریب شیطانی سمجھتے ہوئے بغیر سالن سے روٹی کھائی۔
  • ایک مرتبہ آپ ایک پہاڑی پر تشریف لے گیئں اور تمام جانور آپ کے ارد گرد جمع ہو گئے۔  لیکن اسی وقت خواجہ حسن بصریؒ وہاں پہنچے تو تمام جانور بھاگ گئے۔ حسن بصریؒ نے حیرت زدہ ہوکر سوال کیا کہ یہ سب مجھے دیکھتے ہی کیوں بھاگ گئے؟؟؟؟ رابعہ بصریؒ نے پوچھا آج آپ نے کیا کھایا ہے؟  انہوں نے کہا گوشت روٹی!  فرمایا جب تم انکا گوشت کھاؤگے تو یہ سب تم سے کیوں مانوس ہونگے۔

مقام ولایت:☜

ایک مرتبہ آپ رابعہ بصریؒ حضرت حسن بصریؒ کے مکان پر پہنچی، حسن بصریؒ اس وقت مکان کی چھت پر اس درجہ مصروف گریہ تھے کہ اشکوں کا پرنالہ بہہ پڑا۔ یہ دیکھ کر رابعہ بصریؒ نے کہا کہ اگر آپ کا یہ گریہ وزاری  فریب کا راز ہے تو اسے بند کیجئے تاکہ آپ باطن میں ایسا بحر بیکراں موجزن ہو جائے۔کہ اگر اسکی گہرائیوں میں اپنے قلب کو تلاش کرنا چاہو تو نہ مل سکے۔کیونک اللہﷻ کو ایسا کر دینے میں قدرت حاصل ہے اور آپ کی یہ باتیں حسن بصریؒ کے لیے بار خاطر ہوئی، اور آپ نے خاموشی اختیار کر لی۔

ساحل فرات پر ملاقات :☜

جب ایک مرتبہ رابعہ بصریؒ ساحل فرات پر موجود تھیں تو حسن بصریؒ بھی وہاں پہنچ گئے اور پانی پر مصلٰی بھچا کر فرمایا کہ آیئے ہم دونوں نماز اداء کریں۔ رابعہ بصریؒ نے جواب دیا کہ اگر یہ مخلوق کے دکھاوے کے لیے ہے تو بہت اچھا ہے کیونکہ دوسرے لوگ ایسا کرنے سے قاصر ہیں۔ یہ کہہ کر رابعہ بصریؒ نے اپنا مصٰلی ہوا کے دوش پر بچھایا اور فرمایا کہ آییے یہاں نماز اداء کریں تاکہ مخلوق کی نظروں سے اوجھل رہیں۔ پھر بطور دلجوئی رابعہ بصریؒ نے فرمایا کہ جو فعل آپ نے انجام دیا ہے وہ تو پانی کی مچھلیاں بھی کر سکتی ہیں ، اور جو میں نے کیا وہ ہوا کی ایک حقیر مکھی بھی کر سکتی ہے۔ لیکن حقیقت کا ان دونوں سے کوئی تعلق نہیں۔

حضرت حسن بصریؒ ایک مرتبہ شب ورز رابعہ بصریؒ کے یہاں مقیم رہے اور حقیقت و معرفت کے موضوع پر گفتگو کرتے رہے۔حسن بصریؒ  کہتے ہیں کہ نہ تو اس دوران مجھے یہ محسوس ہوا کہ میں ایک مرد ہوں،اور نہ یہ کہ رابعہ عورت ہیں۔ چنانچہ میں نے وہاں سے واپسی کے وقت خود کو مخلص پایا۔

ایک مرتبہ حضرت رابعہ بصریؒ نے حضرت حسن بصریؒ کے لیے بطور ہدیہ موم ،سوئی،اور بال روانہ کیے۔  اور یہ پیغام دیا کہ موم کی مانند خود کو پھگلا  کر روشنی فراہم کرو  اور سوئی کی مانند برہنہ ہو کر مخلوق کے کام آؤ اور جب تم ان دونوں چیزوں کی تکمیل کر لوگے تو بال مانند ہو جاؤگے۔اورکبھی تمہارا کوئی کام خراب نہیں ہوگا۔

معرفت:☜

ایک مرتبہ حضرت حسن بصریؒ نے  آپ سے عرض کیا کہ تمہیں یہ مراتب عظیم کیسے حاصل ہوئے؟؟ فرمایا کہ ہر شئے کو یاد الہی میں گم کرکے۔ پھر فرمایا کہ تم نے خدا کو کیونکر پہچانا؟ فرمایا کہ بے مایہ اور بے کیف ہونے کی وجہ سے۔

ایک مرتبہ حسن بصریؒ نے آپ سے فرمائش کی کہ مجھے علم کی بابت سمجھاؤ،جو تمہیں اللہ تعالٰی سے بلا واسطہ حاصل ہوۓ ہیں؟ فرمایا کہ تھوڑا سا سوت کات کر تکمیل حاجت کے لئے دو درہم میں فروخت کیا۔ اور دونوں ہاتھوں میں ایک درہم لیکر اس خیال میں گم ہو گئیں۔یہ اگر میں نے دونوں کو ایک ہاتھ میں لیا تو یہ جوڑا بن جائیگا اور یہ بات وحدانیت کے خلاف اور میری گمراہی کا باعث ہو سکتی ہے۔بس اسکے بعد میری تمام راہیں کھلتی گئیں۔

ایک مرتبہ لوگوں نے آپ رابعہ بصریؒ سے بیان کیا  کہ حضرت حسن کہتے ہیں اگر قیامت کے دن میں دیدار خدا وندی سے ایک لمحہ کے لئے بھی محروم رہا تو  اتنا گریہ وزاری کرونگا کہ اہل جنت کو بھی مجھ پر رحم آ جائیگا۔ حضرت رابعہ نے کہا کہ انہوں نے ٹھیک کہا ہے۔لیکن یہ شئے بھی اسکے شیان شان ہے۔ جو آنِ واحد کے لئے بھی یاد الٰہی سے غافل نہ ہو۔

رابعہ بصریؒ کا نکاح نہ کرنے کی وجہ:☜

جب آپ کا نکاح نہ کرنے کی وجہ دریافت کی گئی تو آپ نے فرمایا کہ تین چیزیں  میری وجہ غم بنی ہوئی ہیں اور اگر تم یہ غم دور کر دو تو میں یقیناً نکاح کر لونگی۔ اول یہ کہ میری موت اسلام پر ہوگی یا نہیں؟ دوم یہ کہ روز محشر میرا اعمال نامہ سیدھے ہاتھ میں ہو، یا الٹے میں؟؟اور روز محشر ایک جماعت کو داہنی طرف سے اور دوسری جماعت کو بائیں طرف سے بلائینگے، تو نہ جانے میرا شمار کونسی جماعت میں ہوگا؟؟؟ تو لوگوں نے عرض کیا انکا جواب ہمارے پاس نہیں ہے۔آپ نے فرمایا جس کو یہ فکر لگی ہو تو اسکو نکاح کی کیا تمنا ہو سکتی ہے؟؟؟

سائل کے سوال:☜

جب لوگوں نے آپ سے عرض کیا کہ آپ کہاں سے آئی ہیں اور کہاں جایئنگی؟  تو آپ نے عرض کیا کہ میں  جس جہاں سے آئی ہوں، اس جہاں میں لوٹ جاؤنگی۔ اور سوال کیا گیا کہ اس جہاں میں آپکا کیا کام ہے؟؟ فرمایا کفِ افسوس ملنا، اور جب وجہ افسوس دریافت کی گئی،تو فرمایا کہ میں رزق تو اس جہاں کا کھاتی ہوں، اور کام اس جہاں کا کرتی ہوں۔

اللہﷻ کا نظر آنا:☜

ایک مرتبہ کسی نے آپ سے کہا جسکی آپ عبادت کرتی ہیں کیا وہ آپکو نظر بھی آتا ہے؟ فرمایا اگر نظر نہیں آتا تو عبادت کیوں کرتی۔

آپ ہمہ وقت گریہ وزاری کرتی رہتی تھیں۔ جب لوگوں نے وجہ دریافت کی تو فرمایا کہ میں اس فراق سے خوف زدہ ہوں جسکو محبوب تصور کرتی ہوں اور کبھی ایسا نہ ہو کہ دم نزع یہ نداء نہ آ جاۓ کہ تو لائق بارگاہ نہیں ہے۔

حقائق:☜

آپ سے لوگوں نے سوال کیا کہ خدا بندے سے کس وقت خوش ہوتا ہے؟ فرمایا  کہ جب بندہ محنت پر اسکا شکر اداء کرتا ہے جیسا کہ نعمت صرف کرتا ہے۔ لوگوں نے فرمایا کہ عاصی کی توبہ قبول ہوتی ہے یانہیں؟ فرمایا کہ اس وقت تک وہ توبہ نہیں کر سکتا جب تک خدا توفیق نہ دے اور جب توفیق حاصل ہو گئی تو پھر قبولیت میں کوئی شک نہیں رہا۔

آپ ہمیشہ فرمایا کرتیں کہ صرف زبانی توبہ کرنا جھوٹے لوگوں کا فعل ہے کیونکہ اگر صدق دل سے توبہ کی جائے تو دوبارہ توبہ کی ضرورت ہی نہ پیش آئے۔ ایک مرتبہ آپ نے شب و روز مسلسل روزے رکھے اور شب میں قطعاً آرام بھی نہیں کیا۔لیکن جب  آٹھویں دن   بھوک  کی شدت کی فریاد نفس نے کی کہ مجھے کب تک اذیت دوگی۔ تو اسی وقت کوئی شخص کھانے کی کوئی شئے پیالہ میں لیکر حاضر ہوا۔آپ لے کر شمع روشن کرنے اٹھی۔اسی وقت ایک بلی کہیں سے آئی اور وہ پیالہ الٹ دیا۔اور جب پانی سے روزہ کھولنے اٹھی تو شمع بجھ گئی، آب خورہ گر کر ٹوٹ گیا۔ اس وقت آپ نے دلدوز آہ بھر کر اللہﷻ سے عرض کیا کہ یہ میرے ساتھ کیسا معاملہ کیا جا رہا ہے؟  تو غیب سے نداء آئی  کہ اگر تم دنیاوی نعمتوں کی طالب ہو تو ہم عطاء کیے دیتے ہیں لیکن اسکے عوض ہم اپنا درد تمہارے قلب سے نکال دینگے۔ اس لئے کہ  ہمارا غم اور غم روزگار کا ایک قلب میں اجتماع ممکن نہیں۔ اور نہ کبھی جدا گانے مرادیں ایک قلب میں جمع ہو سکتی ہیں۔ یہ نداء سنتے ہی اپنا دامن امید چھوڑ کر اپنا قلب حب دنیا سے اس طرح خالی کر لیا کہ جیسے موت کے وقت مرنے والا امید زندگی کو ترک کرکے قلب کو دنیاوی تصورات سے خالی کر دیتا ہے۔ اس کے بعد آپ بھی دنیا سے کنارہ کش ہو گئیں۔اور ہر صبح یہ دعا کرتیں کہ اے اللہﷻ  مجھے اسی طرح اپنی جانب متوجہ کر لے کہ اہل دنیا مجھے کسی اور  کام میں مشغول نہ دیکھ سکیں۔

مشائخ  بصرہ میں سے ایک شیخ آپ کے یہاں  جا کر سرہانے کی جانب بیٹھ کر دنیا کے مصائب کی شکایت کرنے لگے تو رابعہ نے فرمایا غالباً آپ کو دنیا سے بہت لگاؤ ہے۔کیونکہ جو شخص جس سے زیاہ محبت کرتا ہے اسکا تذکرہ بھی زیادہ کرتاہے۔اگر آپ کو دنیا سے لگاؤ نہ ہوتا تو آپ اسکا تذکرہ کبھی نہ چھیڑتے۔

توکل:☜

ایک مرتبہ حضرت حسن بصریؒ آپ کے یہاں ایسے وقت میں پہنچے کہ آپ رابعہ بصریؒ  چولہے پر سالن تیار کر رہی تھیں۔لیکن آپ کی گفتگو سن کر فرمانے لگیں کہ یہ باتیں سالن پکانے سے کہیں زیادہ بہتر ہیں۔
اورنماز مغرب کے بعد جب ہنڈیاں کھول کر دیکھا تو سالن خود بخود پک چکا تھا۔ چنانچہ آپ نے اور حسن بصریؒ نے ساتھ مل گوشت کھایا۔ حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ ایسا لذیذ گوشت میں نے زندگی بھر نہیں کھایا۔

وفات:☜

وفات کے وقت آپ نے حاضرین مجلس مشائخین سے  فرمایا  کہ آپ لوگ یہاں سے ہٹ کر ملائکہ کے لیے جگہ چھوڑ دیں۔ چنانچہ سب باہر نکل آۓ اور دروازہ بند کر دیا۔ اس کے بعد اندر سے آواز آئی  کہ یٵیتھا النفس المطمئنة الرجعی ” یعنی اے مطمئن نفس اپنے مولا کی جانب لوٹ کر چل۔  اور جب کچھ دیر بعد اندر سے آواز آنی بند ہو گئی تو لوگوں نے جب اندر جاکر دیکھا  تو روح قفسِ عنصری (قلب خاکی، جسم انسانی)سے پرواز کر چکی تھی۔ مشائخین کا قول ہے کہ رابعہ نے خدا کی شان میں کبھی گستاخی نہ کی اور نہ کبھی دکھ سکھ کی پرواہ کی اور مخلوق سے کچھ  طلب کرنا تو دور اپنے مالک حقیقی سے بھی کچھ نہیں مانگا۔ اور انوکھی شان کے ساتھ اس دار فانی سے رخصت ہو گیئں۔ ان للہ وانا الیہ راجعون۔