حضرت نظام الدین اولیاء کے حالات و واقعات

0

نام و نسب

نام سید محمد نظام الدین، والد ماجد کا نام احمد بن علی ،سادات حسینی میں سے تھے۔ نانہال بھی سادات میں سے تھا۔ دادا خواجہ علی اور نانا خواجہ عرب دونوں ہم جد تھے، دونوں بخارا سے آکر کچھ مدت لاہور رہے، وہاں سے بدایوں آئے۔

ولادت باسعادت

632ھ میں بدایوں میں آپکی ولادت ہوئی اور سادات قدیم مسکن تھا۔ بہت سے سادات کرام اور مشائخ عظام نے ایران و خراسان سے آکر یہاں سکونت اختیار کی۔

ابتدائی تعلیم

حضرت نظام الدین پانچ سال کے تھے کہ باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ والدہ ماجدہ جو اپنے وقت کی ایک صالحہ اور با خدا خاتون تھیں اس دُریتیم کی پرورش کی اور دینی اخلاقی تربیت کا مردانہ ہمت پدرانہ شفقت کے ساتھ اہتمام کیا۔ کتابیں پڑھنے کے قابل ہوے تو مولانا علاؤالدین اصولی کے سامنے نوازِ تلمذ تہہ کیا اور فقہ کی ابتدائی تعلیم ان سے حاصل کی۔

طالب علمی کا زمانہ

16 سال کی عمر میں حضرت خواجہ دہلی سے بدایوں آگئے، آپ نے دہلی میں آکر طالب علمی کا سلسلہ جاری رکھا یہ مدت تین چار سال رہی اور اس وقت کے بڑے استاذ مولانا شمس الدین خوارزمی کے حلقہ درس میں شریک ہو گئے۔ آپ نے حدیث اپنے زمانے کے مشہور محدث شیخ محمد بن احمد الماریکی مشہور کمال الدین زاہد سے پڑھی جو مصنف مشارق الانوار علامہ حسن ابن محمد الصغافی کے براہ راست شاگرد تھے۔ فقہ ان کو بیک واسطہ صاحب ہدایہ علامہ براہان الدین المرغیانی سے تلمذ تھا۔ آپ نے ان سے مشارق الانوار کا درس لیا اور حدیث کی اجازت لی۔

والدہ ماجدہ کا انتقال

دہلی کے قیام میں حضرت خواجہ کی والدہ ماجدہ نے انتقال فرمایا۔ ایک روز حضرت خواجہ نے اپنی والدہ ماجدہ کے انتقال کا ذکر کیا، ذکر کرتے ہوئے آپ پر اتنا گریہ طاری ہوا کہ جو کچھ فرماتے تھے پورے طور پر سننے میں نہیں آتا تھا۔

دہلی کی قیام گاہیں

خواجہ صاحب رحمتہ اللہ اہل دہلی بلکہ اہل ہند کی خدمت کے لیے جب دہلی پہنچے تو باوجود اسکے کہ دہلی کا کوچہ ،کوچہ محلوں اور ایوانوں سے آباد تھا اور ہر روز نئی نئی عمارتیں بن رہی تھیں، خواجہ صاحب رحمتہ اللہ کے قیام کا کوئی ٹھکانا نہ تھا، جب تک کہ غیاث پور کا قیام اختیار نہیں فرمایا۔ آپ نے اتنی قیام گاہیں اختیار کیں اور اتنے مقامات تبدیل کیے کہ معلوم ہوتا ہے کہ شہر میں اس فقیر کے لیے اپنا درویشانہ سامان رکھنے اور اپنا بوریہ بچھانےکے لیے جگہ ہی نہیں تھی۔ سید مبارک محمد کرمانی جو حضرت خواجہ نظام الدین رحمتہ اللہ کے دوست اور رفیق تھے، اس نقل مکانی کی تفصیل بیان کرتے ہیں کہ جتنے سال سلطان اللمشائخ شہر دہلی میں رہے کوئی مکان آپکی ملکیت میں نہ تھا‌ اور ساری عمر آپ نے کوئی جگہ اپنے اختیار میں نہیں فرمائی۔

جب آپ دہلی پہنچے تو سرائے میاں بازار میں پہنچے جسکو نمک کی سرائے بھی کہتے ہیں، والدہ اور ہمشیرہ کو وہیں رکھا اور خود قواس کی بارگاہ میں جو سرائے مذکورہ کے سامنے تھی مقیم ہوئے۔ امیر خسرو رحمتہ اللہ کا بھی مکان اسی جگہ پر تھا۔ کچھ عرصہ بعد آپ خواجہ صاحب رحمتہ اللہ نے اس مکان میں رہائش اختیار کی اور کم و بیش دو سال تک اس مکان میں مقام پذیر رہے۔ جب آپ نے یہ مکان خالی کیا تو آپکا سامان آپکی کتابوں کے سواء کچھ نہ تھا جسے سر پر رکھ کر چھپر والی مسجد میں لے آئے۔ دوسرے روز کاغذی نے جو شیخ صدرالدین کے مرید تھے، نے آپکی ملاقات کا شرف حاصل کیا اور آپ نے خواجہ صاحب رحمتہ اللہ کا سارا حال جانا تو سلطان اللمشائخ کے پاس آکر آپکو بڑی عزت و خوشامد کے ساتھ اپنے مکان پر لے آئے۔ سلطان اللمشائخ ایک مہینہ وہاں ٹھرے، اس درمیان شمس الدین شراب دار ﴿بادشاہ کو پانی پلانے والا﴾کے لڑکے اور عزہ جو آپکے معتقد تھے آپ خواجہ صاحب رحمتہ اللہ کو بڑی عزت و احترام کے ساتھ سمش الدین شراب دار کے مکان میں لے آئے۔ کئی سال سلطان اللمشائخ اس مکان میں رہے۔ اس مکان میں انہیں بڑی راحت و سکون خاطر میسر آیا۔

اخلاق و صفات

حضرت خواجہ نظام الدین رحمتہ اللہ کے اوصاف کا خلاصہ اور انکا صحیح ترین و جامع تعارف ان الفاظ میں ہے جوعطاے خلافت کے وقت انکے صاحب نظر شیخ و مرشد ﴿شیخ کبیر حضرت خواجہ فرید الدین گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ﴾کی زبان سے نکلے۔ انہوں نے فرمایا کہ؛ “اللہ تعالی نے تم کو علم و عقل و عشق کی دولت عطا کی ہیں اور جو ان صفات کا جامع ہو وہ مشائخ کی صفات کی ذمہ داریاں خوب ادا کر سکتا ہے”

حضرت خواجہ نظام الدین رحمتہ اللہ علیہ کی سیرت اسی جامعیت کا مرقع ہے۔ یہاں علم عقل اور عشق تینوں پہلو نظر آتے ہیں۔ محبت و معرفت حقیقی اور مشائخ کبار کی تربیت و صحبت جو بہترین اثرات و نتائج پیدا کرتی ہے اور جنکے بہترین مجموعہ کا نام دور آخر میں تصوف پڑ گیا ہے، یعنی اخلاص و اخلاق اسکی بہترین نمود انکی زندگی میں نظر آتی ہے۔

اخلاص

ان کی زندگی کا بہترین جوہر جس نے ان کو اپنے معاصرین ہی میں نہیں بلکہ مشائخ اسلام میں ایک بلند مقام اور اپنے آنے ہی میں نہیں بلکہ تاریخ اسلام کے مختلف ادوار میں قبول عام اور بقاے دوام عطاء کیا اور انکو محبوبیت کے خاص انعامات سے نوازا، وہ توحید و اخلاق کی وہ خاص کیفیت و ذوق ہیں،جس میں محبت اور رضاے الہی کے سوا کوئی چیز مطلوب و مقصود ہی نہیں رہی۔ محبت و یقین کے شعلہ نے ہر طرح کے خس و خاشاک کو جلا کر رکھ دیا۔ حب دنیا ،حب جاہ اور اسی طرح کی تمام محبتوں اور طلبوں کا استیصال کلی ہو چکا تھا، حضرت خواجہ کی ساری زندگی دل سوختگی اور خود باختگی کا نمونہ ہے اور اسی چیز نے انکی صحبت میں کیمیا اور اکسیر کی خاصیت پیدا کر دی تھی۔

پردہ پوشی اور نکتہ نوازی

سیرالاولیاء میں ہے کہ اکثر معمول تھا کہ جو لوگ باہر سے تشریف لاتے تھے وہ کوئی تحفہ یا شیرنی ساتھ لاتے تھے۔ ایک مرتبہ کچھ لوگ اسی ارادے سے آرہے تھے، ایک مولوی صاحب بھی ساتھ تھے انہوں نے سوچا کہ لوگ مختلف تحائف پیش کرینگے اور وہ اکٹھا حضرت کے سامنے رکھینگ۔ خادم سب کو اٹھا کر لے جائے گا۔ کیا پتہ چلے گا کون کیا لایا؟ انہوں نے تھوڑی سی مٹی رستہ ست اٹھا کر ایک کاغذ میں باندھ لی، جب سلطان اللمشائخ کی خدمت میں حاضر ہوے سب نے اپنی چیزسامنے رکھ دی۔ مولوی صاحب نے بھی اپنی پڑیا سامنے رکھ دی۔ خادم سب چیزیں اٹھا کر لے جانے لگا، پڑیا کو بھی اٹھانا چاہا”حضرت خواجہ صاحب نے فرمایا اسکو یہیں رہنے دو یہ میری آنکھوں کا سرمہ ہے”یہ اخلاق و اعلی ظرفی دیکھ کر مولوی صاحب نے توبہ کی اور مرید ہوئے۔

ذوق قرآن کریم

قرآن مجید کا ذوق، اسکے حفظ کا اہتمام اور تلاوت کی کثرت مشائخ مشت کا خصوصی ذوق اور انکی قدیم روایت ہے۔ “خواجہ بزرگ معین الدین چشتی سے لیکر حضرت خواجہ نظام الدین تک سب کے یہاں قرآن کریم کا خصوصی ذوق اور شغف ملتا ہے اور ہر ایک نے اپنے خلفاء خاص اور مرین با اختصاص کو حفظ قرآن اور اشتغال بالقرآن کی تاکید کی ہے۔

جماعت کا اہتمام

ضعف و پیری اور شدید مجاہدات کے بعد جماعت سے نماز پڑھنے کا بے انتہاء اہتمام تھا۔ صاحب سیرالاولیاء لکھتے ہیں کہ؛ “عمر شریف 80 سال سے متجاوز ہو گی،جب بھی پانچ وقت کی نماز جماعت سے پڑھنے کے لیے بالاخانہ سے جماعت خانہ میں اتر کر آتے تھے اور ان درویشوں اور ساتھیوں کے ساتھ جو وہاں موجود ہوتے تھے، جماعت کے ساتھ نماز اداء کرتے تھے۔ اس کبر سنی کے باوجود ہمیشہ روزہ رکھتے تھے،کم افطار کرتے تھے﴿یعنی کبھی کبھار ہی ایسا ہوتا جو کہ آپ روزے سے نہ ہوتے۔﴾

شریعت کی پابندی اور اتباع سنت کا اہتمام

حضرت خواجہ نظام الدین رحمتہ اللہ علیہ خود بھی اتباع سنت کا اہتمام کرتے اور اپنے اصحاب و خدام کو بھی بڑی تاکید فرمایا کرتے تھے۔ سنن کے علاوہ تاکید تھی کہ مستحباب و آداب تک فوت نہ ہوں۔ سیرالاولیاء میں آپ خواجہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کا ارشاد منقول ہے کہ”رسول اللہ کی پیروی و اتباع پر مضبوطی و ثابت قدمی رکھنی چاہیے اور کوئی مستحب و آداب بھی فوت نہ ہونے پائے”

کشف و کرامات حجاب راہ

اولیاء سے جو کچھ اظہار ہوتا ہے وہ انکی سکر و مستی کا نتیجہ ہوتا ہے، اس لیے کہ وہ اصحاب سکر ہیں اسکے برخلاف انبیاء اصحاب صحو ہیں۔ سالک کے لیے کشف و کرامات حجاب راہ ہیں۔ محبت سے ہی استقامت پیدا ہوتی ہے۔

چشتی خانکاہیں

اللہ تعالی نے حضرت خواجہ کو بڑے جلیل و قدر خلفاء عطاء کیے تھے-جن میں حسب ذیل خاص طور پر مشہور و ممتاز ہیں۔

1-مولانا شمس الدین یحی
2-شیخ نصر الدین محمود
3-شیخ کتب الدین منور ہانسوی
4-مولانا علاء الدین نیلی
5-مولانا برہان الدین غریب
6-مولانا سراج الدین اخی سراج
7-مولانا شہاب الدین وغیرہ
*مرید بااختصاص*
1-خواجہ ابو بکر
2-مولانا محی الدین کاشانی
3-مولانا فصیح الدین
4-امیر خسرو
5-مولانا جلال الدین
6-قاضی شرف الدین
7-مولانا نظام الدین شیرازی
8-مولانا فخر الدین میرٹھی
9-خواجہ سالار وغیرہ
10-شیخ نصر الدین چراغ دہلی

اشاعت اسلام

سلسلۂ چشتیہ کی بنیاد ہندوستان میں پہلے ہی دن سے اشاعت تبلیغ و اسلام پر پڑی تھی اور اسکے عالی مرتب و بانی “‘خواجہ معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ کے ہاتھ پر اس کثرت سے لوگ مسلمان ہوئے کہ تاریخ کے اس اندھیرے میں انکا اندازا لگانا مشکل ہے۔ عام طور پر تسلیم کیا جاتا ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد کی یہ کثرت بہت کچھ حضرت خواجہ کی کوششوں اور روحانیت کی رہین منت ہے۔ ان میں ایک بڑی تعداد حضرت خواجہ کی روحانی قوت ،اشراقی کمال،اور عند اللہ مقبولیت کے واقعات سے مسلمان ہوئی۔ خواجہ صاحب کے اہل سلسلۂ میں سے حضرت خواجہ فرید الدین گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ کی کوششوں اور توجہات کو اشاعت اسلام کے سلسلے میں خاص اہمیت حاصل ہے۔ ہندوستان میں اشاعت اسلام کا سب سے بڑا ذریعہ صوفیہ اکرام و فقراۓ اسلام ہیں اور ظاہر ہے کہ انکے سلاسل تصوف میں سلسلۂ چشتیہ اور اسکے مشائخ کو اولیت اور اہمیت حاصل ہے۔

وفات کا حال

وفات سے40روز پیشتر استغراق و تحیر کی کیفیت پیداء ہوگئی۔ جمعہ کا دن تھا سلطان اللمشائخ پر ایک کیفیت تھی۔ نور تجلی سے انکا باطن منور ہو رہا تھا، نماز کی حالت میں بار بار سجدے فرماتے تھے۔ اسی حالت تحیر میں مکان میں تشریف لائے، گریہ میں ترقی ہوگئی۔ روزانہ کئی کئی مرتبہ غیبوبیت و استغراق ہو جاتا تھا، پھر توجہ ہو جاتی تھی۔ یہی فرماتے تھے کہ آج جمعہ کا دن ہے دوست کو دوست کا وعدہ یاد آ جاتا ہے اور وہ اس کیفیت میں غرق ہو جاتا ہے۔ اسی حالت میں دریافت فرماتے کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے اور میں نماز پڑھ چکا ہوں؟اگر جواب دیا جاتا کہ آپ نماز پڑھ چکے ہیں، تو فرماتے کہ پھر پڑھ لیں۔ ہر نماز کو مکرر اداء کرتے۔ جتنے دن اس عالم میں رہے یہ دو باتیں مکرر فرماتے رہے کہ آج جمعہ کا دن ہے اور ہم نماز پڑھ چکے ہیں ؟

وفات سے 40روز پہلے غذا بالکل ترک کر دی تھی۔ کھانے کی خوشبو بھی گوارا نہ تھی۔ گریہ اتنی شدت سے طاری ہوا کہ ایک گھڑی بھی آنسوں نہیں تھمتے تھے۔ سید حسین نے عرض کیا کہ کئی دن ہو گے ہیں آں مخدوم نے کھانا بالکل ترک کر دیا ہے اسکا کیا نتیجہ ہوگا؟فرمایا سید جو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات کا مشتاق ہو اس سے دنیا میں کھانا کیسے کھایا جاے؟ بلآخر چارشنبہ کے دن آپکی وفات ہوئی تب تک یہی حال رہا۔ 18ربیع الآخر 725 ہجری کو طلوع آفتاب کے بعد زہد و عبادت حقیقت و معرفت اور ہدایت دارشاد کایہ آفتاب غروب ہوگیا۔

تجہیز و تدفین

نماز جنازہ شیخ الاسلام رکن الدین نبیرہ شیخ الاسلام بہاءالدین زکریا ملتانی نے پڑھائی۔ آپ خواجہ صاحب کی منشاء تھی کہ میں جنگل میں آسودہ خاک ہو جاؤں”چناچہ ایسا ہی ہوا کہ آپکو باہر میدان میں دفن کیا گیا ، بعد میں سلطان محمد تغلق نے اس پر گنبد تعمیر کرا دیا۔