حضرت شیخ جلال الدین تبریزیؒ کے حالات و واقعات

0

تعارف

حضرت شیخ جلال الدین تبریزی سلطان الاصفیاء ہیں۔ آپؒ شیخ ابو سعید تبریزی کے مرید تھے۔حضرت نظام الدین اولیاء انکی (حضرت ابو سعید تبریزی) بابت فرماتے ہیں کہ آپؒ بزرگ شیخ اور اعلی درجہ کے تارک دنیا تھے۔چناچہ اکثر آپؒ پر قرض ہو جاتا تھا۔لیکن کسی سے کوئی چیز نہ لیتے اور ایسا  بھی ہوا  ہے کہ ایک مرتبہ تین دن تک خانقاہ میں کھانا نہیں پکا اور آپؒ اور آپکے ساتھی تربوز سے ہی افطار کرتے رہے اور گزارا کرتے رہے۔

جب یہ خبر وہاں کے حاکم کو پہنچی اس نے کہا کہ یہ ہماری چیز قبول نہیں کرتے۔ تو اس نے کہا کہ نقدی لے جاؤ اور شیخ کے خادم کو دے دو اور اس سے کہنا تھوڑا تھوڑا خرچ کرتے رہیں۔ لیکن شیخ صاحب کو اسکا ذکر تک نہ کرے۔چناچہ شاہی حاکم کے نوکر نے آکر خادم کو کچھ نقدی دی اور کہا کہ مصلحت کے مطابق خرچ کرنا اور شیخ صاحب کو نہ بتلانا۔ البتہ جب روپیہ لایا گیا اور خرچ کیا تو اس روز شیخ صاحب کو طاعت میں جو آرام حاصل ہوتا تھا نہ ہوا۔ چناچہ خادم کو بلا کر پوچھا کہ رات کو تو نے جو کھانا ہمیں دی ا تھا کہاں سے آیا تھا۔ خادم چھپا نہ سکا سارا حال بیان کر دیا۔پوچھا کون شخص لایا تھا اور کہاں کہاں قدم رکھا تھا۔ فرمایا کہ جہاں جہاں اس نے قدم رکھا وہاں سے مٹی کھود کر پھینک دو۔ اور اس خادم کو بھی اس قصور کے عوض خانقاہ سے نکال دیا۔

خدمت:☜

آپؒ اپنے شیخ پیر ومرشد حضرت ابو سعید تبرزی کی وفات کے بعد آپؒ شیخ شہاب الدین سہرورویؒ کی خدمت میں رہنے لگے اور انکی ایسی خدمت کی کہ مثال مشکل سے ملے گی۔ حضرت شیخ شہاب الدین سہرورویؒ ہر سال بغداد سے حج کے لیے جاتے تھے۔جب آپؒ بوڑھے ہو گئے تو آپؒ سے ٹھنڈا کھانا نہیں کھایا جاتا تھا۔آپؒ نے یہ انتظام کیا انگیٹھی اور دیگچی اپنے سر پر رکھ کر چلتے تھے لیکن سر کو نہ ہلنے دیتے تھے۔جب حضرت شیخ شہاب الدین سہرورویؒ  کھانا طلب کرتے تو آپؒ گرم کھانا پیش کر دیتے تھے۔

واقعات

ایک مرتبک کا واقعہ ہے کہ شیخ شہاب الدین سہرورویؒ حج کرکے بغداد تشریف لاے۔لوگ آپؒ کی خدمت میں تشریف لانے لگے۔جو بھی آتا کچھ نہ کچھ لے کر آتا۔ ایک بڑھیا آئی اسکے پاس کچھ نہیں تھا۔اس  نے اپنی پرانی چادر کے دامن سے آپؒ کو ایک درھم نکال کر پیش کیا۔ آپ نے قبول کیا اور آپ نے اس درہم کو سب تحائف کے اوپر رکھا۔

بعد از حاضرین سے مخاطب ہو کر شیخ شہاب الدین سہرورویؒ نے فرمایا کہ جو جسکو لینا ہو لے لیں۔ہر ایک نے جو چاہا اٹھا لیا۔آپ( جلال الدین تبریزی) وہاں موجود تھے۔حضرت شیخ شہاب الدین نے سہرورویؒ نے آپؒ کو دیکھ کر فرمایا کہ تم بھی کچھ لےلو۔ آپؒ یہ اشارہ پا کر اٹھے اور وہ درہم اٹھا لیا جو بڑھیا نے پیش کیا تھا۔اور جو سب سے اوپر رکھا تھا۔ شیخ شہاب الدین سہرورویؒ نے یہ دیکھ کر آپؒ سے فرمایا:یہ تو سب کچھ لے گیا۔

آپؒ جب تشریف لاۓ تو سلطان التمش نے آپؒ کا استقبال کیا۔ یہ بات نجم الدین صغریٰ کو جو اس وقت شیخ السلام تھے، ناگورا ہوئی اور بربناے حسد وہ آپؒ سے کدورت رکھنے لگے اور آپؒ کا اقتدار گرانے کے لیے مختلف قسم کی ترکیبیں اور سازشیں کرنے لگے۔ پانچ سو اشرفیوں کا لالچ دےکر ایک طوائف کو جسکا نام گرہر تھا، اس بات پر آمادہ کیا کہ آپؒ پر زنا کا الزام لگائے۔ ڈھائی سو اشرفیاں اس طوائف کو دے دی گئیں۔اور ڈھائی سو طے پایا کہ بعد دی جائیگی۔ بقیہ ڈھائی سو اشرفیاں احمد اشرف بقال کے پاس امانت کے طور پر رکھ دی گئیں۔

جب سلطان التمش کو خبر پہنچی تو اس نے تمام مشاہیر اور مشائخ کو دہلی بلایا۔ دو سو سے زیادہ اولیاء اکرام دہلی آۓ۔جمعہ کی نماز کے بعد سب مسجد مینار میں جمع ہوئے‌۔ سلطان نے نجم الدین صغریٰ کو اجازت دی کہ جسکو چاہے ثالث بنا لیں۔ انہوں نے حضرت بہاؤ الدین زکریا کو ثالث بنایا۔انکو خیال تھا کہ حضرت بہاؤ الدین زکریا سے آپؒ کی نیشاءپور میں کشیدگی ہو گئی تھی اس کے لئے وہ کشیدگی کارآمد ہوگی۔گو حاضری ہوئ ، سب داخل ہوۓ آپؒ( شیخ جلال الدین تبریزی )  بھی حاضر ہوۓ تو تمام حضرات آپؒ کی تعظیم کے لیے کھڑے ہو گئے۔ حضرت بہاؤ الدین زکریا آگے بڑھے اور آپؒ کے جوتے اپنے ہاتھ میں اٹھا لیے۔سلطان التمش نے دیکھ کر یہ کہا کہ جب ثالث نے اتنی عزت کی تو معاملہ طے ہو گیا۔

حضرت بہاؤ الدین زکریا نے کہا کہ میرے اوپر واجب ہے کہ شیخ جلال کہ خاک پاء کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بناؤں کیونکہ وہ سات برس تک سفر و خضر میں میرے پیرو مرشد کی خدمت میں مقیم رہے ۔امر حق اللہﷻ پر بخوبی ظاہر ہے لیکن پھر بھی ضروری ہے کہ امیر حق کا انکشاف ہو۔ حضرت بہاؤ الدین زکریا نے جب اس کا مطربہ پوچھا کہ تو اس نے سازش کا پورا حال بیان کر دیا۔ دہلی میں آپؒ نے خواجہ بختیارے کاکیؒ سے فیوض و برکات حاصل کئے تھے۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپؒ نے خواجہ بختیارے کاکیؒ کا خرقہ خلافت بھی حاصل کیا تھا۔

کچھ عرصہ قیام کرکے آپؒ نے دہلی چھوڑ دی اور روانگی کے وقت یہ فرمایا کہ جب اس شہر میں آیا تھا تو خالص سونے کی طرح تھا اور اب چاندی کی طرح چلے جا رہا ہوں۔

بدائیوں میں قیام:☜

آپؒ نے کچھ عرصہ بدائیوں میں قیام فرمایا۔ایک دن کا واقعہ ہے کہ آپؒ اپنے مکان کی دہلیز پر تشریف فرما تھے۔ایک شخص جو مواسی کا رہنے والا تھا سر پر چھاچھ کا مٹکا رکھے اس طرف سے گزرا۔وہ شخص ڈاکوؤں کے گروہ سے تھا۔جب اس نے آپؒ کو دیکھا ؛ دیکھتے ہی خود رفتہ ہوگیا اور مشرف با اسلام ہو گیا۔آپؒ نے اسکا نام علی رکھا۔

ترک سکونت:☜

آپؒ بدائیوں سے سکونت ترک کرکے بنگال روانہ ہوۓ۔آپؒ کے مرید  بھی آپ کے ساتھ ہو لیے۔ آپؒ نے منع فرمایا لیکن علی نے کہا کہ میں کس کے پاس جاؤں۔آپؒ کے سوا کسی کو جانتا بھی نہیں۔آپؒ نے علی سے دوبارہ نہ جانے کے لیے کہا۔علی نے عرض کیا کہ آپؒ ہی میرے پیر ومخدوم  ہیں۔آپؒ کے بغیر میں کیا کرونگا۔اس پر آپؒ نے علی کو حکم دیا کہ واپس جاؤ کہ شہر تیری حمایت میں ہے۔

سیرت:☜

آپؒ کا اخلاق حمیدہ اور اوصاف ستودہ اور صفات پسندیدہ کے مالک تھے۔کمالات صوری اورمعنوی سے آراستہ تھے۔آپؒ نماز اشراق پڑھ کر سو جاتے تھے اور نماز عشاء پڑھ کر مراقبہ کرتے تھے۔رات بھر جاگتے تھے۔

تعلیمات:☜

آپؒ فرماتے ہیں کہ عالموں کی نماز اور ہوتی ہے اور فقیروں کی اور۔اور علماء کی نماز اس طرح ہوتی ہے کہ انکی نظریں کعبہ پر رہتی ہیں اور نماز اداء کرتے ہیں ۔اور اگر کعبہ دکھائی نہ دے۔تو اس کی طرف منھ کرکے نماز اداء کرتے ہیں۔اور اگر ایسے مقام پر ہو جہاں سمت معلوم نہ ہو تو جس طرف چاھے قیاسًا اداءکر لیتے ہیں۔علماء کی نماز انہی تین قسم کی ہوتی ہے۔لیکن فقراء جب تک عرش کو نہیں دیکھ لیتے نماز ادا نہیں کرتے۔

اقوال:☜

  • جس نے شہوت پرستی کی وہ کبھی فلاح نہیں پاتا۔
  • جس کسی نے صنعت میں دل لگایا وہ دنیا کا بندہ ہو گیا۔

کشف و کرامت:☜

ایک دن آپؒ دریا کے کنارے بیٹھے ہوۓ تھے۔آپؒ نے وضوء کیا اور لوگوں سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ “دہلی کے شیخ الاسلام کا انتقال ہو گیا نماز جنازہ پڑھیں۔نماز سے فارغ ہو کر آپؒ نے فرمایا کہ شیخ الاسلام دہلی نے ہم کو شہر سے باہر کیا” بعد میں معلوم ہوا کہ شیخ الاسلام دہلی کا اسی وقت انتقال ہوا تھا جس وقت آپؒ نے فرمایا تھا۔

وفات:☜

آپؒ ٦٤٢؁ میں واصل بحق ہوۓ۔آپؒ کا مزار فیض آثار دیو محل بندر(سلہٹ) میں مرجع عام و خاص ہے۔