شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے حالات و واقعات

0

تعارف:☜

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ المتوفی 1176ھ کے چند اصحاب فکر علماء میں سے ہیں جنہوں نے بارہوی صدی ہجری میں دنیائے اسلام کی جو فکری اور ذہنی کیفیت تھی، اسکا گہرا مطالعہ کیا تھا۔اور اس وقت کے حالات سیاسی کو غور سے دیکھا تھا۔ اسکا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ شاہ صاحب نے افراد و جماعتوں  کی حیات کے لئے ایک قابل غور و فکر نقشہ دین اسلام کی سرمدی اور لاہوتی روشنی میں مرتب فرمایا۔بلکہ اسے پوری جرأت اور ہمت کے ساتھ پوری دنیا کے سامنے پیش بھی کیا۔ظاہر ہے کہ ہر گوشہ سے اسکی مخالفت ہونا تھی اور خوب ہوئی۔ ہر جانب سے شاہ صاحب کو اس وجہ سے بہت تکالیف سے گزرنا پڑا۔اور حق تو یہ ہے کہ بلا مخالفت کے صداقت ظاہر کہاں ہوتی ہے۔اہل حق پر مخالفتوں کے پہاڑ ٹوٹا ہی کرتے ہیں۔ شاہ صاحب پر بھی ٹوٹتے رہے لیکن یہ اپنے کام میں لگے رہے اور ایسے لگے رہے کہ بعد کی آنے والی نسلوں نے ان کے کام کو رہنمائی تسلیم کر ہی لیا۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کو آج ہماری ذہنی و فکری  دنیا میں وہ مقام حاصل ہے جو بر صغیر کے کسی دوسرے عالم کو حاصل نہیں ہے۔

فتنوں کے اس دور  میں شاہ ولی اللہؒ صاحب کی آمد

ایک ایسے باپ سے جو مشربًا صوفی اور تعلیماً مشہور ومعقول و منطقی عالم مرزا زاہد ہروی صاحب زاوہد ثلثہ کے رشید شاگردوں میں سے تھے۔اور کیسے رشید؟؟؟ خود شاہ ولی اللہ صاحب نے اپنے والد کی زبانی نقل کیا ہے۔ ” مرزا زاہد کی توجہ میری جانب اس قدر مبذول تھی کہ میں کہتا کہ آج میں نے مطالعہ نہیں کیا ہے۔اس لئے میں نہیں پڑوھوں گا۔تو مرزا کہتے کہ ایک یا دو سطر ہی پڑھ لو تاکہ ناغہ نہ ہو۔”

مرزا زاہد کی سب سے بڑی معرکتہ الآرا تصنیف حواشی امور عامہ شرح مواقف کے متعلق شاہ ولی اللہ کا بیان ہے کہ ” حاشیہ شرح نگاہ کی مسودہ نگاری کا کام مرزا اسی سلسلہ میں کیا جب والد ان سے یہ کتاب پڑھتے تھے۔” بہر حال اسی معقول فلسفی کے ایک صوفی شاگرد کے صلب سے حق تعالی نے اپنے فضل و کرم سے بڑے سخت اور کٹھن وقت میں ہندی مسلمانوں کو وہ گرامی ہستی عطاء فرمائی جسکا نام حضرت سیدنا الامام الشاہ ولی اللہ  محدث دہلوی قدس سرہ العزیزؒ ہے۔

شاہ ولی اللہؒ کے والد شاہ عبد الرحیم کی شخصیت:☜

اگر چہ واقعہ یہ کہ شاہ ولی اللہؒ جو کچھ ہونے والے تھے۔ اور ہندوستان میں جس دینی اور علمی موسم کو انکی مخلصانہ کوششوں نے پیداء کیا۔اس موسم کی ابتدا خود انکے والد ماجد شاہ عبد الرحیم سے ہو چکی تھی۔ پہلی بازی جو شاہ عبد رحیم نے جیتی وہ اس وقت کی بات تھی جب وہ طالب علم تھے اور فتاوٰی عالمگیری کی تدوین ہو رہی تھی۔انکے ایک ساتھی جنکا نام شیخ حامد تھا، ان کے بھی کام کا کچھ حصہ دفتر تدوین سے عطاء ہوا تھا۔براہ محبت و دوستی شیخ حامد نے عبد الرحیم صاحب کو شریک کار کرکے کچھ یومیہ تنخواہ کی امید دلائی۔لیکن جو کسی آنے والے سال نو کی بہار تھا۔ انہوں نے ملتی ہوئی تنخواہ سے انکار کر دیا۔

اس انکار کی خبر جب شاہ عبد الرحیم کی بیوہ والدہ کو ہوئی تو برہم ہوئی(پریشان ہوئی) اور اصرار کرکے حکمًا نوکری قبول کرنے کو کہا۔ جب اس ملازمت کی خبر آپکے مرشد خلیفہ ابوالقاسم کو ہوئی تو اب یہ برہم ہوۓ اور ترک ملازمت پر قدغن (تاکید یا مناہی) شروع کیا۔شاہ صاحب نے والدہ کے حکم کا عذر پیش کیا لیکن پیر صاحب نے اپنے حکم کی پیروی کا فیصلہ صادر فرما دیا۔یہاں پھسل جانے کا شائد موقعہ تھا۔لیکن شاہ عبدالرحیم سنبھل گئے اور مرشد سے عرض کیا کہ آپ ہی دعا فرمائیں کہ نوکری چھوٹ جائے ورنہ یوں نوکری چھوڑونگا تو والدہ کی سخت آزدگی(خفگی،ناراضگی) کا اندیشہ ہے۔

حصول ملازمت کے لیے نہیں بلکہ ترک ملازمت کے لیے دعا کرائی گئی اور کی گئی اور قبول ہوئی۔عالمگیر کے تدوین فتاوٰی کے ملازموں کی فہرست وقتًا وقتًا پیش ہوتی رہتی تھی۔حسب دستور پیشی کا عالمگیر نے حکم دیا اور بلا وجہ شاہ عبدالرحیم کے نام پر قلم پھیر دیا۔مگر امتحان کی ایک اور منزل باقی تھی۔ اورنگ زیب نے تنخواہ بند کرکے اس سے بھی بڑا لقمہ پیش کیا۔فرمان ہوا کہ ۔۔۔

              (گر خواستہ باشد ۔ ایں قد زریں بد ہید)
معنی:☜    (اگر چاھے تو اتنی زمین انکو دے دی جاۓ)         

آپؒ کے والد نے نوکری چھوڑی جاگیردار بناے گئے۔قدرت جسکا ارادہ کچھ اور تھا ایک بار پھر انکے بازوں تھام لیے۔ شاہ عبد الرحیم صاحب سے شاہی فرمان کے بمؤجب  جب استصواب کیا گیا تو باوجود تنگی اور معاش اور محض بے وسیلہ ہونے کے خود کو فرماتے ہیں۔👇

  “قبول نہ کر دم و شکرانہ بجا”
“آوردم و حمد خدا تعالی گفتم”
معنی:☜میں نے قبول نہیں کیا شکر اداء کیا اور خدا تعالی کی حمد کی۔

نوکری چھوٹی جاگیر سے محروم ہوۓ لیکن اس پر بھی حمد خدا تعالی گفتم” جسکا یہ حال ہو۔اسکا اور اسکی زریت طیبہ کا قدرت کسی اہم خدمت کے لیے انتخاب کرائے۔ تو۔۔ 👇 
لئن شکرتم لا ازیدنکم۔۔۔۔۔اگر تم شکر کروگے تو میں تمہیں بڑھاتا چلا جاؤنگا۔

شاہ ولی اللہؒ کی ولادت سے پہلے شاہ عبدالرحیم کو انکے کمالات کی بشارت:☜

شاہ ولی اللہؒ نے خود بھی اور دوسروں نے بھی لکھا ہے کہ انکے کمالات و مقالات کی بشارت شاہ عبدالرحیم کو پہلے ہی مل چکی تھی۔ ایک واقعہ انفاس العارفین میں درج ہے۔ اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ شاہ ولی اللہؒ کی ولادت شاہ عبدالرحیم نے کسی غیبی اشارہ کے ماتحت ہی ساٹھ سال کی عمر میں دوسری شادی کی تھی۔بعض لوگوں کو اس پر اعتراض بھی ہوا کہ اس عمر میں شادی مناسب نہ تھی؟؟؟ شاہ عبدالرحیم نے یہ سن کر فرمایا کہ میری عمر کا ایک بڑا حصہ ابھی باقی ہے۔ اور ان شاء اللہ چند لڑکے ابھی اور پیداء ہونگے۔

شاہ ولی اللہ صاحب فرماتے ہیں کہ اس کے بعد والد صاحب سترہ سال زندہ رہے اور دو لڑکے پیداء ہوئے جن میں ایک شاہ صاحب خود ہیں۔

علماء دین میں شاہ ولی اللہؒ کی امتیازی شان اور آپکے خاص کارنامے:☜

عام اہل علم یا ارباب درس و تدریس یا تصنیف و تالیف کے مسعی کی جو نوعیت ہوتی ہےشاہ ولی اللہ کی علمی خدمات کی نوعیت ان سے مختلف ہے۔  شاہ صاحب کی علمی سرگرمیوں خصوصًا انکی تصنیفی کاروبار کے پیچھے بعض اہم مقاصد و اغراض کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ یہ مقصد اور منصوبے انکے دل میں جن اسباب و علل سے پیدا ہو سکتے تھے۔آپکے ان منصوبوں کی ایک اجمالی فہرست ذیل میں درج کی جاتی ہے۔جنکو ہم شاہ صاحب کے شش جہتی کارناموں کا نام بھی دے سکتے ہیں۔

شاہ صاحب کے شش جہتی کارناموں پر اجمالی نظر:☜

واقعہ یہ ہے کہ شاہ ولی اللہؒ صاحب کی حیرت انگیز فقید النظر کوششوں کی جو نوعیت ان شش جہتی کارناموں میں نظر آتی ہے۔انمیں ہر ایک  بجاۓ خود ایک مستقل موضوع ہے کہ ایک کیا اگر علماء کی ایک جماعت بھی ان سے عہد برآ ہونا چاہتی تو جتنی کامیابی حضرت شاہ صاحب کو انمیں سے ہر ایک شعبہ میں ہوئی کسی ایک شعبہ میں بھی اتنا کامیاب ہونا آسان نہیں تھا۔انہوں نے قرآنی آیات کی جن  مشکلات کو حل کیا ہے، قرآن فہمی کے متعلق جن کلیات کی انہوں نے خود تاسیں فرمائی ہے۔حدیث و فقہ کے باہمی تعلقات کو صحیح تاریخی و شائق کی روشنی میں جس طرح انہوں نے حل فرمایا ہے۔پھر خصوصیت کے ساتھ علم اصرارالدین کے سلسلے میں حدیث اور فقہ کے تقریباً تمام ابواب میں جن حقائق کو رموز کو انہوں نے بے نقاب کیا۔

اس باب میں واقعہ یہ ہے کہ انکے اس دعوی کی کوئی تردید نہیں کر سکتا۔ کہ۔۔۔۔۔
۞ حدیث کے اسرار اور اسلامی احکام و قوانین کی مصلحتیں اور ترغیبات کی حکمت اور وہ ساری باتیں جو پیغمبر خدا صعلم اللہ تعالٰی کی جانب سے لاۓ ہیں۔ اور جنکی آپ نے تعلیم دی ہے۔ان سب کے اسرار و رموز کا بیان کرنا ایک مستقل فن ہے۔اس فقیر سے پہلے جتنی پختہ بات میں نے کہی ہے کسی سے یہ بن آیا۔ اس فن کے بلندی مقام کے باوجود اگر کسی کو مکرے بیان میں شبعہ ہے۔؟؟؟ تو چاہیئے۔۔۔۔ کہ کتاب قواعد کو دیکھے شیخ عبد السلام بن عبد العزیز نے اس میں کیا کچھ کوشش نہیں فرمائی۔ مگر اس فن کے عشیر عشیر تک کوئی رسائی نہ ہو سکی۔

اس طرح فن معارف و حقائق اور تصوف کے متعلق جن حقیقی مباحث تک وہ پہنچتے ہیں۔نیز اھل سنت والجماعت کے عقائد کی تشریح اور تطبیق منقول بر معقول کے سلسلہ میں انہوں نے جو خدمتیں انجام دی ہے۔جیسا کہ وہ خود ارشاد فرماتے ہیں۔۔۔۔

۞اھل سنت کے عقائد کو دلائل و براہین کی روشنی میں جس طرح ثابت کیا ہے۔اور معقولیوں کے خس و خاشاک ہے۔جیسے انکو پاک کیا ہے۔اور ایسے طریقہ سے اس کی بنیاد قائم کی ہے۔ کہ اب بحث و مباحثہ کی اسمیں گنجائش ہی باقی نہ رہی۔

ما سوا اسکے انہوں نے قرآنی نصوص اور ارشاد نبویﷺ کی روشنی میں جو دو مستقل فن ایجاد کیۓ ہیں۔ جن کی تعبیر انہی کے الفاظ میں یہ ہے ۔ کہ یعنی اک تو علم کمالات عربہ یعنی ابداع و خلق تدبیر و تدلی باایں غرض و طو

شاہ صاحب نے علم کلام اور  تصوف کے نظری حصہ کے مباحث کو مخلوط کرکے ایک نیا فلسفہ” تیار کیا۔ اور ایسا فلسفہ” جسکو فلسفہ قرار دینا میرے خیال میں اسکی تحقیر ہے۔

کیونکہ اس باب میں انکی سب سے بڑی خصوصیت یہی ہے ۔ کہ ایسی کسی چیز کو اسلامی کلام اور اسلامی تصوف میں وہ دیکھنا نہیں چاہتے جسکی تائید قرآن و حدیث اور آثار صحابہ سلف و صالح کی شہادتوں سے نہ ہوتی ہو۔خود فرماتے ہیں کہ اس قسم کے کچھ مسائل میں حق تعالیﷻ نے انکو ” اس بات کی توفیق دیبکہ کتاب و سنت و آثار صحابہ سے اسکی بنیادوں کی مستحکم کرے۔نیز وہ دین جو نبی کریم ﷺ سے منقول ہیں۔ اور جو دین میں باہر سے چیزیں داخل ہو گیئ ہیں۔ان دونوں تمیز کا جو سلیقہ اور یہ کہ انمیں جو باتیں تحریفی ہیں ۔ کون کون سی چیزیں سنت ہیں ۔ اور اسلام کے مختلف فرقوں  میں کن نئ بدعتوں کو شریک کیا (ان تمام امور کا انکشاف جیسا شاہ صاحب نے کیا ہے؛ شائد ہی کسی نے کیا ہو) ۔

شاہ صاحب کی ولادت و وفات شاہ عبد العزیز کی زبانی:☜

تاریخوں کو ملانے سے جیسا کہ ہونا بھی چاہئے، شاہ عبد العزیز کے بیان ہی کی توثیق ہوتی ہے۔ بہر کیف مقصد تو یہ کہ شاہ ولی اللہؒ کی عمر جب کل 61 سال 4 مہینہ ہی مانی جاۓ۔تو اسکا صاف مطلب یہی ہے۔ کہ اس 61 میں تقریباً 33 یا 34 انہی مشغولیتوں میں بسر ہو گئ۔

اب کل 27 یا 28 سال کی مدت بچ جاتی ہے۔جسمیں وہ سارا کام انجام پایا۔جسے دنیا شاہ ولی اللہؒ کا کام سمجھتی ہے۔ بلکہ اسی کے ساتھ مرحوم حضرت امیر شاہ خاں صاحب جو داللہی خانوادہ کے گویا”روایہ” تھے۔

اگر ان کے اس بیان کا بھی اضافہ کیا جاۓ کہ۔۔”دہلی میں نجف علی خاں کا تسلط تھا۔جسنے شاہ ولی اللہؒ صاحب کے پہنچے اتروا کر ہاتھ بیکار کر دیۓ تھے۔تاکہ وہ کوئی کتاب یا مضمون تحریر نہ کر سکیں۔

(“بحولہ اسرار الرویات ص 44)

اگر چہ اس واقعہ کی تاریخی شہادت مجھے میسر نہیں آئی لیکن امیر شاہ کا بیان کم از کم خود میرے نزدیک ایک زندہ شہادت ہے۔ پھر چونکہ یہ نہی معلوم کہ ناگوار سانحہ حضرت کے ساتھ کس وقت پیش آیا ۔ اس لیۓ کوئی معین مدت تو مقرر نہیں کی جا سکتی۔ لیکن بقیہ 27 یا 28 سال والی مدت لا محالا  اس بنیاد پر اور گھٹ کر رہ جاتی ہیں۔

اتنی قلیل مدت میں سے ایسے عجیب و غریب گونا گوں کام کیسے شاہ صاحبؒ سے بن آۓ۔؟ یہ یقینًا محل حیرت ہے۔کوئ شبہ نہی اسمیں بہت کچھ دخل انکے خداداد فطرت اور خاص دل و دماغ کو بھی ہے۔ بھلا جس شخص کی ختنہ اور ختم قرآن ساتھ ساتھ ہوا ہو۔

جیسا کہ خود فرماتے ہیں۔۔۔۔۔

عمر کے ساتویں سال میں والد بزرگوار نے مجھے نماز پر کھڑا کیا۔ اور روزہ رکھنے کا حکم دیا۔اور ختنہ بھی اسی سال میں واقع ہوئی۔اور خیال ایسا ہے کہ اسی سال کے آخر میں۔۔۔ میں نے قرآن مجید بھی ختم کیا۔ اور دس سال کی عمر میں جو شرح ملا تک پہنچ گیا۔اور کس طرح پہنچا ہو کک مطالع کی قوت بھی پیداء ہو چکی ہو۔ آپؒ فرماتے ہیں کہ دسويں سال میں میں شرح ملا پڑھ چکا تھا۔ فی الجملہ مطالع کی راہ اسی وقت سے مجھ پر کھلی “اور ٹھیک عمر کے پندرہوے سال میں باضابطہ دستار کی فضیلت جس کے سر پر بندھ گئ ہو۔

جیسا کہ آپؒ فرماتے ہیں۔

خلاصہ یہ کہ تمام متداول علوم اس کے درس میں جسکا رواج ہے۔ان سے پندہوی سال فراغت حاصل ہو گئ۔” اس علوم متداولہ میں صرف درس نظامی کی ہی کتابیں داخل نہی ہے ۔ بلکہ ان عام کتابوں کے سواء طب اور تصوف کی ایک نہیں متعدد کتابیں چھوٹی بڑی بھی شریک ہیں۔
مبلکہ شائد علم خواص الاسماء وغیرہ کے طرز کی بعض چیزیں بھی اپنے والد سے آپنے ہڑھ لی تھی۔ پھر سترہ سال پھر سترہ سال کی عمر سے ہر علوم و فنون عقلی کا درس دینا شروع کر دیا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ باتیں انکی خاص دماغی اور ذہنی قابلیت پر دلالت کرتی ہیں۔

متن قرآن کے درس کے متعلق شاہ صاحب کی ھدایت:☜

قرآن عظیم کا درس دینا چاہیئے۔ اس طریقے سے کہ صرف قرآن پڑھا جاۓ۔ یعنی تفسیر کے بغیر ښرف متن قرآن اور ترجمہ پڑھایا جاۓ۔پھر قرآن کے متن کے متعلق جو دشواری پیش آۓ مثلا نحو کے متعلق یا شان نزول کے متعلق تو رک جانا چاہیئے۔ کہ اسکی تحقیق کی جاۓ۔ پھر جب قرآن ختم ہو جاۓ ۔ تو نصاب تک جلالین شریف پڑھائ جاۓ۔اس طریقہ میں بڑے بڑے فیض ہیں۔

وفات سے قبل چاروں صاحبزادوں کی خلافت:☜

شاہ صاحبؒ نے اس دنیا سے جاتے وقت باضابطہ طور پر ان چاروں حضرات کو اپنا جانشین بنایا تھا۔ شاہ عبد العزیز کے ملفوظات ہی میں سے ہے۔ کہ وفات سے کچھ دیر پہلے ہی آپؒ نے چاروں صاحبزادوں کے سر پر دستار مبارک رکھ دی تھی۔ یا باندھ دی تھی۔جسکا مطلب یہی ہوا کہ حضرت نے اپنے چاروں صاحبزادوں کو اپنا خلیفہ اور جانشین بنایا تھا۔ یہاں سوچنے نہی بلکہ عبرت کی ایک بات ہے۔ کہ اسی دلی میں ایک دیندار بادشاہ نے اپنے چند بیٹوں کو اسی طرح دنیا میں اپنا جانشین قرار دیا تھا۔

جیسا کہ مؤرخ فرید آبادی رقمطراز ہیں۔کہ اورنگ زیب نے اپنی زندگی میں بڑے بیٹے محمد معظم کو شمالی ہند اور کابل کی حکومت سونپ دی تھی۔وسط ہند گجرات باپ کے چہیتے بیٹے محمد اعظم کے زیر انتظام تھے۔اور جنوبی ہندوستان شہزادہ کام بخش کے حوالے کر دیا تھا۔فرید آبادی اپنی راۓ کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ”اسی انتظام کے مطابق وہ سلطنت کو اپنے بیٹوں میں تقسیم کرنا چاہتا تھا۔ لیکن دنیا کے ان تین بادشاہوں نے ہندوستان ؛ کابل؛  جیسے وسیع و عریض علاقوں میں اپنے لیۓ گنجائش نہ پائی۔لیکن اسی دلی میں دین کا ایک سردار تین نہی بلکہ اپنے چار بیٹوں کے سر پر خلافت کی دستار باندھتا ہے۔پھر دین کے ان چار شہزادوں نے زندگی کس طرح گزاری اسکا اندازہ ان تعلقات سے کو سکتا ہے۔ جو ان بھائیوں میں آخیر عمر تک باقی رہے۔