بابا فرید الدین گنج شکرؒ کے حالات و واقعات

0

تعارف

حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ برہان الشریعت ہیں،سلطان الطریقت ہیں، گنج الحقیقت ہیں! آپؒ کا نسب نامہ پدری امیر المؤمنین حضرت عمر بن خطابؓ تک پہنچتا ہے! آپؒ کابل بادشاہ فرخ شاہ کے خاندان سے تھے!    کابل کی لڑائی میں آپ کے مؤرث اعلی نے شہادت پائی۔آپؒ کے دادا حضرت قاضی شعیب فاروقؔ مع تین لڑکوں اور سامان کے لاہور تشریف لائے، لاہور سے   قصور تشریف لے گئے۔ ان کو کہتوال کا قاضی مقرر کیا گیا اور وہ کہتوال ہی میں رہنے لگے۔ آپؒ کے والد کا نام شیخ جمال الدین سلیمانؔ تھا۔  آپؒ کی والدہ محترمہ بی بی قرسم خاتونؔ مولانا وجیہہ الدین خجندیؔ کی صاحب ذادی تھی۔ آپؒ کے بڑے بھائی کا نام اعزا الدین محمودؔ ہے۔آپؒ کے چھوٹے بھائی حضرت نجیب الدینؔ متوکل آپ کے خلیفہ اور مرید تھے۔ آپ کؒی بہن کا نام  ھاجرہؔ ہے جو جمیلہ خاتون کے نام سے مشہور ہیں۔

   ولادت مبارک:☜

آپؒ نے ٥٧٥؁ میں  اس عالم کو زینت بخشی۔بعض اہل علم نے آپ کی پیدائش ٥٦٩؁ میں ہونا لکھا ہے۔

کرامت:☜

رمضان کا چاند واقع ہونے میں شک تھا۔ ایک بزرگ وہاں تشریف فرما تھے۔لوگوں نے ان سے دریافت کیا کہ روزہ رکھا جائے کہ نہیں؟  انہوں نے فرمایا کہ قاضیؔ(آپؒ کے والد) کے یہاں ایک بچہ پیدا ہوگا،اگر اس نے دودھ پیا تو روزہ نہیں رکھنا چاہیے۔اسی رات آپؒ کی پیدائش ہوئی اور آپؒ نے دودھ نہیں پیا ،اسطرح لوگوں نے روزہ رکھ لیا۔

فرید الدین کہلانے کی وجہ::☜

آپؒ کا نام مسعودؔ تھا، حضرت فرید الدین عطارؔ نے آپؒ کو فرید الدینؔ کا لقب عطاء کیا اور یہ بھی کہا جاتا ہے ،کہ فرید الدین لقب ہے ، جو بارگاہ ایزدی سے آپؒ کو عطاء کیا گیا ہے۔ آپؒ گنج شکرؔ کے لقب سے مشہور ہیں۔

لقب کی وجوہات:☜

آپؒ دہلی میں مقیم تھے۔ ایک دن خوب بارش ہوئی۔کیچڑ کی وجہ سے چلنا پھرنا دشوار ہو گیا تھا اور آپؒ کو اپنے پیر و مرشد خواجہ قطب الدین بختیارے کاکیؒ کی قدم بوسی کا شوق ہوا۔ کھڑاؤں پہنی اور روانہ ہوۓ۔ سات روز سے کچھ نہیں کھایا تھا۔ مسلسل روزے رکھ رہے تھے۔آپؒ کا پاؤں پھیسل گیا،اور آپؒ کے منھ میں تھوڑی کیچڑ جا پڑی،وہ کیچڑ خداوند کے حکم سے شکر ہو گئی۔جب آپؒ اپنے پیر و مرشد کی خدمت میں جا پہنچے تو انہوں نے فرمایا: اے فریدؒ جب تھوڑی کیچڑ تیرے منھ میں پہنچی اور وہ شکر ہو گئی، خداوند تعالی نے تیرے وجود کو شکر بنایا ہے۔  خداوند تعالی تجھ کو ہمیشہ میٹھا رکھیگا۔ اس کے بعد آپؒ جہاں بھی جاتے تو لوگ کہتے کہ شیخ فرید الدین مسعود گنج شکرؒ آتے ہیں۔

دوسری وجہ:☜

ایک سوداگر بیلوں پر شکر لادے لیے جا رہا تھا۔آپؒ نے اس سے شکر مانگی اس نے کہا کہ شکر نہیں ہے،نمک ہے۔”آپؒ نے فرمایا اچھا نمک ہی ہوگا۔ جب وہ سوداگر منزل مقصود پر پہنچا اور بورئیے کھولے، تو شکر کے بجاۓ،نمک ہی تھا۔وہ آپؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور دعا کا طالب ہوا۔ آپؒ فرمایا ” شکر ہو جائیگی۔ اس روز سے آپؒ گنج شکرؔ کے لقب سے مشہور ہو گئے۔

بچپن کا صدمہ:☜

ابھی آپؒ نے ہوش بھی نہیں سنبھالا تھا کہ آپؒ کے والد اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔

تعلیم و تربیت:☜

آپؒ کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی۔پارہ سال کی عمر میں آپؒ نے قرآن شریف حفظ کر لیا۔جب آپؒ کی عمر پندرہ سال ہوئی تو ملتان تشریف لے گئے اور مولانا منہاج الدیؔن ترمذیؒ سے علم فقہ کی مشہور کتاب “نافع” پڑھی،اور علوم دینیہ حاصل کیے۔پھر آپؒ قندھار تشریف لے گئے ،اور پانچ سال وہاں قیام فرمایا۔ تفسیر و حدیث، علم صرف و نحو، منطق وغیرہ میں اعلیٰ کامیابی حاصل کی۔

بیت و خلافت:☜

ایک دن آپ ایک مسجد میں جو محلہ سراۓ  حلوائی میں واقع تھی۔بیٹھے ہوئے تھے، مولانا منہاج الدین ترمذیؔ اسی مسجد میں درس دیا کرتے تھے۔آپؒ “نافع کا مطالع کر رہے تھے۔قطب الاقطاب حضرت خواجہ قطب دین بختیار کاکیؒ جب ملتان تشریف لاۓ تو پہلے اسی مسجد میں تشریف لائے۔حضرت خواجہ بختیارے کاکیؔ نماز سے فارغ ہو کر آپؒ کے پاس تشریف لائے اور ارشاد فرمایا کہ ” مسعود تم کیا پڑھتے ہو؟  آپؒ نے جواب دیا ” کتاب نافع”! یہ سن حضرتؒ نے فرمایا “تم جانتے ہو ” نافع سے تمہیں کیا نفع ہوگا۔ ؟آپؒ نے فرمایا کہ مجھے تو حضرت کی قدم بوسی سے نفع ہوگا۔یہ کہہ کر آپؒ اٹھے اور سر نیاز حضرت خواجہؒ کے قدموں پر رکھ دیا۔ملتان میں کچھ دن قیام کرکے حضرت قطب الدینؔ بختیار کاکیؒ دہلی روانہ ہو گئے۔آپؒ نے بھی دہلی جانا چاہا لیلن حضرت خواجہ قطب الدینؒ نے اجازت نہیں دی۔ آپؒ کی تعلیم جاری رکھنے کی تاکید فرمائی۔ آپؒ خواجہ قطب الدینؒ کے ساتھ تین منزل تک آۓ۔آپؒ نے ٥٧٩؁ میں خواجہ قطب الدینؔ بختیارے کاکیؒ کی بیت کی‌۔ اس وقت آپؒ کی عمر شریف بارہ سال تھی۔تحصیل علم سے فارغ ہو کر ٥٧٠؁ میں دہلی آے۔ اور غزنوی کے  دروازے کے قریب تشریف فرما ہوئے۔ بعدازاں خرقہ خلافت سے فارغ ہو کر آپؒ کے پیر و مرشد خواجہ بختیار نے اپنا خاص مصلہ اور عصاء آپکو عنایت فرمایا۔اور آپ ؒ سے مخطاب ہو کر فرمایا: میں تمہاری امانت یعنی سجادہ دستار،اور نعلین، جو کہ دست بہ دست پیران چشتیت سے مجھ کو پہن ی ہیں، قاضی حمید الدین ناگوریؔ کے حوالے کرونگا۔اور جب تم پانچویں روز ہانسی سے میری قبر پر آؤگے یہ امانت پیران تمتکو پہنچا دیں گے۔

” حسب قول خواجہ قطب الدین بختیارے کاکیؒ نے تمام  تبرکات قاضی حمید الدین ناگوری اور حضرت بدر الدین  غزنوی کے سپرد کر دی۔آپؒ نے اپنے پیر ومرشد کا خرقہ پہنا اور اس مصلے پر دوگانا اداء کیا اور اپنے پیر ومرشد کے مکان میں قیام کیا۔پھر آپؒ دہلی سے ہانسی روانہ ہوۓ اور وہاں پہنچ کر عبادت وریاضت میں مشغول ہو گئے۔

عبادت و مجاہدات:☜

آپ ؒ خود فرماتے ہیں کہ بیس برس علم تفکر میں کھڑا رہا بالکل نہیں بیٹھا۔ میرے پاؤں سوج گئے اور ان سے خون بہتا تھا۔مجھے یاد نہیں کہ ان بیس سالوں میں، میں نے کچھ کھایا ہو یا نہیں۔ آپؒ نے ایک مرتبہ طے” کا روزہ رکھا۔ ایک مرتبہ چلہ معکوس  کیا۔ ایک مرتبہ آپؒ نے روزہء داؤد رکھا۔

پیشن گوئی :☜

حضرت خواجہ غریب نواز نے آپؒ کے متعلق پیشن گوئی فرمائی اور قطبؒ صاحب سے آپؒ کے متعلق فرمایا۔قطبؒ بڑے شہباز کو دام میں لاۓ ہو۔ اس کا آشیانہ سدرة المنتہی ہوگا۔خواجہ غریب نوازؒ نے آپؒ کو خلعت عطاء فرما کر  سرفراز فرمایا۔حضرت قطب صاحبؒ نے آپؒ کو دستار مثال ، خلافت اور دیگر  لوازمات عطاء فرمائے۔

علمی ذوق:☜

آپؒ نے اپنی مشہور کتاب” فوائد السلکین ”  میں اپنے پیر و مرشد کے ملفوظات  جمع کئے ہیں۔رسالہ” موجود وجود” ، رسالہ گفتار” الہی نامہ بھی آپؒ کی تصانیف بتائی جاتی ہیں۔

فہم و ادراک:☜

حضرت بہاؤ الدین زکریاؔ نے اپنے ایک خط میں آپؒ کو لکھا:۔ (ہمارے اور تمہارے درمیان عشق بازی ہے)۔ آپؒ نے جواب دیا:۔( ہمارے اور تمہارے درمیان عشق ہے، بازی نہیں ہے)

تعلیمات:☜

آپؒ کی تعلیمات تصوف کا بیش بہاء خزانہ ہے۔ آپؒ فرماتے ہیں توبہ کی چھ قسمیں ہیں۔اول دل اور زبان سے توبہ کرنا،دوسرے آنکھ کی،تیسرے کان کی، چوتھے ہاتھ کی، پانچویں پاؤں ناک کی اور چھٹے نفس کی۔
آپؒ نے فرمایا محبت کے ساتھ سو مقام  یہ ہے کہ جو بلاء دوست کی طرف سے اس پر نازل ہو اس پر صبر کرے۔

  • ١۔عالم چشم یعنی آنکھ کو ناقابلِ دید چیزوں کو دیکھنے سے روکیں۔
  • ٢۔عالم گوش یعنی کانوں کو ناقابل شنید باتوں کے سننے سے روکیں۔
  • ٣۔ عالم زباں جب تو زبان کو نگاہ نہ بنائیگا۔ کلاہ کا مستحق نہیں۔
  • ٤۔عالم دات وپاء یعنی ہاتھ ہاؤں کو ممنوع اعمال سے نہ روکے گا کلاہ کا مستحق نہیں۔

چند سوالات کے جوابات

س1۔ آدمیوں میں سب سے زیادہ عقل مند ہے؟
ج
۔ گناہوں کو ترک کرنے والا۔

س2۔ آدمیوں میں سب سے زیادہ ہوشیار کون ہے؟
ج
۔ جو کسی چیز سے پریشان نہ ہو۔

س3۔ آدمیوں میں سب سے زیادہ غنی کون ہے؟
ج
۔ قناعت کرنے والا۔

س4۔آدمیوں میں سب سے زیادہ محتاج کون ہے ؟
ج
۔ قناعت کو ترک کرنے والا۔

اقوال:☜

  • کام سے واقف وہی لوگ ہیں جن میں یہ دونوں باتیں یعنی عشق و عقل پائ جاتی ہیں۔
  • تصوف مولی کی صفا دوستی کا نام ہے۔
  • زندہ دل وہ ہے جس میں محبت خدا ہے۔
  • اگر زندگی ہے تو علم میں ، راحت ہے تو معرفت میں ہے،اگر شوق ہے تو محبت میں ہے،اگر ذوق ہے تو ذکر میں ہے۔

کشف و کرامات:☜

آپؒ کے پاس ایک درویش آیا، آپؒ نے اس کو کچھ دے کر رخصت کرنا چاہا۔اس نے کنھگی جو مصلے ہر رکھی تھی مانگی؟ آپؒ نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس  نے پھر کہا؟ آپؒ خاموش رہے۔تیسری مرتبہ کہا ، آپؒ خاموش رہے۔ آخر کار اس نے باآواز بلند کہا:۔ “وہ کنگھی مجھ کو دو تمہارے واسطے برکت ہوگی؟” آپؒ نے کہا، “جاؤ میرے حال میں دخل نہ دو۔ تجھ کو اور تیری برکت کو میں نے رواں دریا میں ڈال دیا” آخرکار وہ درویش رخصت ہوا اور اجودھن سے باہر نکلا تو دریا میں نہانے لگا اور پھر باہر نہ نکل سکا ڈوب کر مر گیا۔

وفات شریفہ:☜

آپؒ یاحی” یا قیوم” کہتے ہوۓ محرم الحرام  ٦٧٠؁ ھجری کو جوار رحمت میں داخل ہوئے۔بعض اہل علم نے آپ کا سن وفات٦٦٤؁ لکھا ہے۔مزار پر انوار پاک پٹن میں فیوض و برکات کا سرچشمہ ہے۔