مولانا اشرف علی تھانوی کے حالات زندگی

0

آپ کا نام نامی:☜

آپ کا نام اشرف علی بن عبد الحق اور لقب حکیم الامت ہے۔آپ قصبہ تھانہ بھون ضلع مظفر نگر میں 5 ریبع الآخر 1280ھ بمطابق 19 ستمبر سن 1864ء  کو دو شنبہ کے دن صبح صادق کے وقت پیداء ہوئے۔ آپؒ کا تاریخی نام کرم ِعظیم ہے۔

حصول علم اور آپکی  خدمات :☜

آپؒ کی ابتدائی تعلیم میرٹھ میں ہوئی۔ قرآنِ کریم حفظ ؛ حافظ حسین علی صاحب دہلوی سے کیا۔پھر تھانہ بھون آکر حضرت مولانا فتح محمد صاحب تھانویؒ فارسی متوسطات تک اور عربی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں۔اور فارسی کی تکمیل اپنے ماموں واجد علی صاحب سے کی جو فارسی ادب کے استاذ کامل تھے۔

اسکے بعد تکمیل علوم کے لئے اوخر ذیقعدہ 1295ھ بمطابق 1878ء میں داروالعلوم میں داخلہ لیا۔اور تقریباً 5 سال رہ کر بیس سال کی عمر میں تمام علوم سے فراغت حاصل کر لی۔ عربی متوسطات حضرت شیخ الہندؒ اور دیگر استاذہ اکرام سے پڑھیں۔اور دورۂ حدیث شریف حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتویؒ سے پڑھی۔

1301ھ کے آخر میں مدرسہ فیض عام کانپور میں 25 روپے ماہوار مشاہرہ پر آپ کا تقرر ہوا اور صدر مدرس ہوۓ۔کچھ عرصہ بعد آپ نے وہیں مدرسہ جامع العلوم قائم فرمایا اور اسی کی صدارت فرمائی۔ اسی زمانے میں حج بیت اللہ کے لئے تشریف لے گئے۔اور ایک طویل عرصہ تک حضرت حاجی امداد اللہ صاحب تھانوی مہاجر مکیؒ کی خدمت میں رہ کر فیضِ باطنی سے مالا مال ہوۓ۔

تجوید و قرأت میں امامِ فن شیخ القراء حضرت مولانا مقری عبدالرحمٰن صاحب مکیؒ کے بڑے بھائی شیخ العرب و العجم حضرت مولانا قاری مقری عبد اللہ صاحب مکیؒ سے استفادہ کیا۔ مشق و لب و لہجے اور ادایئگی میں اس درجے مہارت حاصل کی کہ جب حضرت قاری صاحب مدرسہ صولتیہ کی بالائی منزل میں آپکو مشق کراتے تھے تو باہر سے سننے والے یہ تمیز نہیں کر پاتے تھے کہ استاذ پڑھ رہا ہے یا شاگرد۔

کانپور میں چودہ سال قیام کرنے کے بعد ایک خاص داعیہ قلبی کے تحت اپنے وطن تھانہ بھون تشریف لائے اور خانقاہِ امدادیہ میں جانشین ہو گئے۔اور پھر یہاں 47 سال تک مسند تلقین و ارشاد پر متمکن رہ کر ایک عالَم کو اپنے فیوضِ ظاہری و باطنی سے سیراب کیا۔

تصانیف:☜

آپ کی تصنیفات کی تعداد تقریباً 910 ہے۔جن میں سے 13 کتابیں عربی میں ہیں اور باقی اردو میں۔ ہر فن میں آپ نے کتابیں تصنیف فرمائی ہیں۔ چناچہ فن تجوید میں نہایت مقبول و مشہور رسالہ “جمال القرآن” ہے۔جو تجوید کے طلباء کے لئے ایک بے مثال تحفہ ہے۔اور جو بر صغیر کی عظیم درس گاہ داروالعلوم دیوبند میں بھی داخلِ نصاب ہے۔

انکے علاوہ 400 کے قریب مواعظ حسنہ اور تقریباً 60 جلدوں پر مشتمل ملفوظاتِ طیبہ ہیں۔جن کی روشنی نے مشرق و مغرب کو روشن کر دیا۔اور لاکھوں قلوب آپ کے فیضِ باطنی سے جگمگا اٹھے۔

وفات:☜

وفات سے تقریباً 5 سال پہلے 77 سال کی عمر میں علالت شروع ہوئی۔جو بتدریج بڑھتی گئی۔بالآخر 17 رجب 1362ھ بمطابق 20 جولائی 1943ء کی شب میں 82 سال 3 ماہ 10 دن کی عمر میں داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔إنا للہ وإنا إلیہ راجعون

       از قلم حسنٰی تبسم انصاری