خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کے حالات و واقعات

0

تعارف:☜

حضرت خواجہ قطب صاحبؒ چشتیہ خاندان کے بہت بڑے کامل اور واصل درویش تھے۔آپکی موجودگی عظمت کا نہ صرف شہر نہ صرف ہند و پاکستان میں ہے بلکہ سارا جہاں آپؒ کے کمالات باطن اور درجات روحانی کا مدح اور معترف ہے۔ آپکی نظر کو قدرت نے وہ جازبیت اور اثر عطاء فرمایا تھا جس پر آپکی ایک نظر پڑ جاتی تھی ولی کامل بن جاتا تھا۔ہزارہا فاسق و فاجر آپکی ولیت سے صالح متقی بن جاتے تھے۔ بےشمار صالحین آپکی روحانی برکات سے بڑے بڑے درجہ پر فائز ہو گئے۔

حضرت خواجہ غریب نواز کے بعد چشتیوں کے سالار اور سلطان المشائخ میں حضرت خواجہ قطب صاحب کی عظمت و جلالت کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ حضرت خواجہ غریب نوازؒ نے چالیس روز تک نبی کریم ﷺ کو خواب میں دیکھا: حضورﷺ فرماتے رہے ۔۔۔ کہ اے معین الدین قطب رحمةاللہ علیہ ہمارا دوست ہے۔تمہارا خلیفہ اور سجادہ نشین ہوگا۔تمہیں جو نعمتیں سینہ بہ سینہ اپنے بزرگوں سے ملی ہیں اسے دینا اس سے بہتر قائم مقام تمہیں نہیں مل سکتا۔

چناچہ ابھی حضرت سن شباب کو بھی پہنچے تھے، ڈاڑھی بھی نہیں نکلی تھی، حضرت خواجہ غریب نواز نے آپکوؒ خلعت و خلافت عطاء فرمایا اور قطب المشائخ رحمةاللہ علیہ بنا کر تعینات فرمایا۔ تمام مشائخ آپؒ کے معتقد اور حلقہ بگوش خادم تھے۔بڑی شان والے تھے اور بلند مرتبہ رکھتے تھے۔زبان مبارک سے جو فرما دیتے تھے ہوبہو ظہور آجاتا تھا۔جو شخص آپؒ کی پاک صحبت اختیار کرتا وہ خدا پرست بن جاتا ہے۔اس پر حضرت قطبؒ خاص عنایت فرماتے ہیں۔

خاندانی عظمت:☜

حضرت خواجہ قطبؒ اوس کے سادات اکرام میں سے تھے۔حضرت امام حسینؓ کی اولاد مجاد میں سے تھے۔آپ کا شجرۀ نسب مہرالاقلاب اس طرح مذکور ہے؛ حضرت خواجہ قطب الدین بختیارے کاکیؒ بن سید موسٰی بن سید احمد بن سید  کمال الدین بن سید محمد بن سید احمد بن سید اسحاق حسین بن سید المعروف بن سید احمد چشتی بن سید رضی الدین بن سید رشید الدین بن سید جعفر بن امیرالمؤمنین حضرت امام محمد الحوادؓ بن امیرالمؤمنین حضرت امام علی موسٰی رضاء بن بام المسلمین حضرت امام موسٰی کاظمؓ بن امیرالمؤمینین حضرت امام محمد باقر بن امیرالمؤمنین حضرت زین العابدین بن امیرالمؤمنین و امام محقیقین سیدنا حضرت علی شیر خداؓ 2 واسطوں سے حضرت خواجہ قطب صاحب کا سلسلہ نسب آقاۓ کائینات سیدنا علی مرتضی شیر خداء پر منتہی ہو جاتا ہے۔

ولادت باسعادت:☜

افسوس کسی تذکرہ میں قطب صاحب کی سن پیدائش مذکور نہیں۔ حضرت خواجہ غریب نواز کا سن وصال 634ھ ہے۔مصنف الحسن الحسیر نے لکھا ہے کہ وقت وصال حضرت خواجہ غریب نوازؒ کے حضرت قطب الدینؒ کی عمر 64 سال تھی۔اس روایت کی روشنی میں قطب صاحب کی سن وفات 969ھے۔ حضرت قطب صاحبؒ کا سنہ ولادت نہ مانا جاۓ تو حضرت قطب صاحب کا 524ھ بمقام بغداد شریف مرید ہونا تاریخی اعتبار سے غلط ہو جاتا ہے۔اس لئے کہ حضرت قطب صاحبؒ نے دلیل العارفین کی پہلی مجلس میں جہاں اپنا سال مریدی 514 ھ تحریر کیا ہے وہاں یہ بھی رقام فرمایا ہے کہ اس وقت حضرت شیخ شہاب الدین سہرورویؒ بھی حاضر مجلس تھے۔حضرت شیخ سہرورویؒ کی عمر کہ خواجہ صاحبؒ نے آپکو سربراہ آوردہ مشائخ میں شمار کر دیا۔اور آپکی موجودگی مجلس میں تحریر فرمائی۔

بہر حال حضرت قطب صاحبؒ کی سن پیدائش میں اتنا اشکال ہے کہ تاریخ ولادت اور ماہ قمری کا دریافت کرنا تو امر محال ہے۔ حضرت خواجہ قطب صاحب تو عالم ظاہر میں تشریف لاۓ۔آپکی تشریف آوری حسب قانون و مصلحت خداء وندی تھی۔

نام مبارک:☜

مستند تذکروں سے معلوم ہوتا ہے کہ والدین ماجدین کے اپنے لخت جگر نور نظر کا اسم گرامی بختیار رکھا تھا۔جونہی والدین نے یہ نام تجویز کیا قدرت نے آپکو قطب الدینؒ کا خطاب عطاء کیا۔

حضرت خواجہ قطب صاحب مادر ذات ولی پیداء ہوۓ:☜

حضرت قطب صاحبؒ کی والدہ محترمہ کا بیان ہے کہ جب آپ میرے بطن میں تھے۔نصف شب کے بعد سے ایک پہر دن تک بلند آواز سے اللہ اللہ کا ذکر کیا کرتے تھے۔جس وقت آپؒ نصف شب کے بعد اس عالم فانی میں تشریف لاۓ یکا یک میرا گھر نور سے معمور ہو گیا۔ اس وقت ایسا نور ظاہر ہوا کہ میرا گھر منور ہو گیا۔اور والدہ محترمہ خیال کرنے لگیں کہ سورج نکل آیا۔ یہ حالت دیکھ کر والدہ محترمہ پر ہیبت طاری ہو گئی۔ انہوں نے دیکھا کہ :☜آنحضرتﷺ در سجدہ رفتہ رفتہ اللہ حضرت قطب صاحبؒ سر بسجود ہیں جل جلاہ می گوید اللہ اللہ فرما رہے ہیں۔کچھ دیر بعد وہ نور آہستہ آہستہ کم ہو گیا۔ہم نے تیرے بیٹے کے دل کو اسرار الہی کا خزانہ بنا دیا۔یہ نور جو تجھے نظر آرہا ہے۔یہ بھی خدا تعالیﷻ کا اسرار تھا۔

والدہ ماجدہ کا انتقال:☜

یتیمی حضور ﷺ کی سنت ہے۔حضورﷺ کی پیدائش سے پہلے ہی والد ماجد عبد اللہ کا انتقال ہوگیا تھا۔ وہ آپ کے خلفاء اور جانشینوں میں بھی جاری رہی۔حضرت خواجہ غریب نوازؒ کا لڑکپن ہی تھا کہ انکے والد گزر گئے۔حضرت خواجہ قطب صاحبؒ ؛ خواجہ غریب نوازؒ کے نائب  تھے۔آپکے والد ماجد بھی شیر خوار بچہ چھوڑ کر جنت نشین ہو گئے۔حضرت خواجہ قطب صاحبؒ یتیم ہو گئے۔والد ماجد کے انتقال کے بعد آپکی تعلیم و تربیت کا بوجھ والدہ محترمہ پر آ گیا۔والدہ محترمہ نے اسکو نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دیا۔دودھ چھڑانے کے بعد جب آپؒ کی عمر 2 سال اور 4 ماہ ہوئی۔حضرت قطب صاحبؒ آغوش مادر ہی میں ابتدائی تعلیم سے فارغ ہو گئے تھے۔

حضرت قطب صاحبؒ مکتب میں:☜

حضرت سید محمد گیسودرازؒ نے جوامع الکلم میں لکھا ہے۔کہ جب آپؒ کی عمر 4سال 4 ماہ ہوئی۔والدہ محترمہ نے ایک خادم کے ساتھ آپکو تعلیم کے لئے شیرینی اور کچھ زر نقد دیکر مسجد کے مکتب کی جانب روانہ کیا۔راستہ میں ایک بزرگ ملے انہوں نے خادم سے دریافت کیا۔کہ اس نیک بخت بچہ کو کہاں لے جا رہے ہو؟ خادم نے جواب دیا کہ مکتب میں۔۔۔۔فرمایا کہ اس بچہ کو مولانا ابو حفصؒ کے پاس لے جانا وہ بہت بڑے عالم اور بزرگ ہیں۔وہی اس بچہ کو تعلیم دینگے۔اور خود بھی انکے ساتھ ہو لیے۔اور مولانا ابو حفصؒ کے پاس جاکر فرمایا کہ اس بچہ کو اچھی طرح تعلیم دینا اس بچہ سے بہت بڑے بڑے کام لینے ہیں۔الغرض وہ بزرگ حضرت قطب صاحبؒ کو ابو حفصؒ کے پاس چھوڑ کر چلے گئے۔

مولانا موصوف نے خادم سے فرمایا جانتے ہو۔۔۔وہ بزرگ کون تھے؟؟؟عرض کیا مجھے معلوم نہیں! آپ نے فرمایا یہ حضرت خضر علیہ السلام تھے۔رہنمائی کے لئے تشریف لاۓ تھے۔

سیرالاقطاب میں آپکی ابتدائی تعلیم کا سال اس طرح مذکور ہے:☜

4 سال 4 مہینے کی عمر میں والدہ محترمہ نے آپؒ کو مکتب بھیجا۔ خادم آپؒ کو حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کی خدمت میں لے گیا۔حضرت خواجہ غریب نوازؒ نے قطب صاحب کے ہاتھ سے تختی لیکر کچھ رقم فرمانا چاہا۔آواز آئی اے معین تھوڑی دیر توقف کرو۔ حمید الدین ناگوریؒ آرہا ہے۔وہی اس بچہ کو تعلیم دیگا۔البتہ کمالات اور نعمتیں روحانی اس بچہ کو تم ہی سے ملیں گی۔۔

اتنے میں قاضی حمید الدین ناگوریؒ تشریف فرما ہوۓ۔حضرت قطب صحب نے تعظیم ادا کی۔ حضرت قاضی صاحب کے ہاتھ سے تختی لیکر دریافت کیا۔بتاؤ کیا لکھوں؟ حضرت قطب صاحبؒ نے فرمایا کہ لکھو “سبحان الذی اسری بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الی مسجد الاقصٰالاقصٰی” قاضی صاحب نے فرمایا کہ یہ تو پندرہوے پارے کی آیتیں ہیں۔۔۔تونے قرآن شریف کس سے پڑھا؟؟؟ حضرت خواجہ قطب صاحبؒ نے فرمایا کہ میری والدہ محترمہ کو پندرہ پارے یاد تھے۔میں نے شکم مادر میں تعلیم زبانی سے یاد کر لیے تھے۔

حضرت قاضی صاحب نے تختی پر پوری سورة اسریٰ لکھ دی ۔ قطب صاحب نے باقی پندرہ پارے 4 روز میں یاد کر لیے۔ اسکے بعد قاضی صاحب نے حضرت قطب صاحب کو ظاہری و باطنی تعلیم فرما کر سرکار غریب نوازؒ کے سپرد کر کے تشریف لے گئے۔ جب حضرت قطب صاحب علوم دینی کی تحصیل میں سر گرم عمل ہو کر تھوڑے ہی عرصہ میں عالم فاضل یگانہ بن گئے۔

حضرت خواجہ غریب نوازؒ کو سرکار دوعالمﷺ کا اشارہ:☜

سبع سابل میں ہے کہ حضورﷺ نے چالیس روز تک خواجہ غریب نوازؒ کے خواب میں آ کر یہ فرماتے رہے۔۔کہ اے معین۔۔۔ قطب الدینؒ ہمارا دوات ہے اور تمہارا سجادہ نشین اور خلیفہ ہے۔تمہیں جو نعمتیں بزرگوں سے سینہ بسینہ ملی ہیں۔اسے دے دو تمہیں اس سے بہتر قائم مقام نہیں مل سکتا۔

دہلی کی ولایت:☜

سرکار غریب نوازؒ نے فرمان رسالت کی تعمیل کرتے ہوئے قطب صاحبؒ کو خرقہ خلافت عطاء کیا اور دہلی کی ولایت عطاء کی۔

حضرت خواجہ قطب صاحبؒ کی دہلی کو روانگی اور ملتان میں قیام:☜

کچھ وقت بعد حضرت قطب صاحب کو معلوم ہوا کہ پیر دستگیر حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ ہندوستان تشریف لے گئے تو حضرت خواجہ قطب صاحب بھی ہندوستان تشریف لے گئے۔ہندوستان پہنچ کر ملتان قیام کیا۔اور شیخ الاسلام حضرت مولانا زکریؒا ملتانی کو حضرت کی تشریف آوری کی اطلاع ہوئی۔تو خود بخود بنفس نفیس حضرت قطب صاحب کے استقبال کے لیے تشریف لے گئے۔اور نہایت تعظیم و تکریم کے ساتھ انکو اپنی خانقاہ میں ٹھہرایا اور دعوتیں کیں۔

حضرت قطب صاحبؒ سے ملتان میں قیام کی درخواست:

سلطان ناصر الدینؒ نے حضرت خواجہ قطب صاحب سے والہانہ عقیدت تمندانہ انداز میں عرض کیا کہ اگر ملتان میں قیام فرماۓ تو ہمارے لئے خوش نصیبی کا باعث ہوگی۔حضرت قطب صاحب نے فرمایا کہ میں بلا اجازت پیر ومرشد کسی جگہ پر قیام نہیں کر سکتا۔یہاں میرے بھائی حضرت شیخ  بہاؤ الدین زکریاؒ شاہ کی ولایت ہے۔حق تعالٰی نے انکے لئے یہی جگہ مقرر فرمائی ہے۔میں یہاں کسی حال میں قیام نہیں کر سکتا۔

حضرت قطب صاحب کا دہلی میں شہانا استقبال:☜

مسالک السالکین بحوالا سیر العارفین مذکور ہے۔ کہ جب آپؒ دہلی میں رونق افروز ہوئے اس وقت سلطان شمس الدینؒ مرید خلیفہ حضرت خواجہ غریب نوازؒ اورنگ شاہی پر فائز تھے۔سلطان شمس الدین التمشؒ ایک فوجی دستہ کے ساتھ حضرت قطب صاحب کے استقبال کے لئے شہر سے باہر آئے اور شکر خداوندی فرما کر التماس کیا کہ آپ شہر میں قیام فرمایئے۔لیکن آپ نے منظور نہ کیا اپنی رہائش کے لئے موضع کیلوکھڑی جو جمنا کے کنارے فائز تھا پسند فرمایا۔

معاشرت اخلاق و صفات عالیہ عبادات:☜

مراة الاسرار میں ہے کہ حضرت خواجہ قطب صاحب فرائض پنجگانہ کے بعد دن رات میں 300 رکعت نماز نفل پڑھا کرتے تھے۔ حضرت خواجہ قطب صاحب حافظ قرآن تھے۔قرآن ختم کرنا آپکا روز مرہ کا معمول تھا۔رات کو سوتے وقت 3000 مرتبہ درود شریف پڑھتے تھے۔ رات دن تلاوت قرآن میں مشغول رہتے تھے۔

شہرت اور ناموری سے تنفر:☜

حضرت خواجہ قطب شہرت اور ناموری سے سخت متنفر تھے۔اس لئے آپ اپنا حال چھپانے کی بے حد کوشش کرتے تھے۔مریدوں کو بھی یہی نصیحت تھی کہ شہرت اور ناموری فقیروں کے لئے سامان آفت ہے۔

امراء اور سلاطین کا نظرانہ قبول کرنے سے انکار:☜

مسالک السالکین میں ہے کہ ایک مرتبہ سلطان التمش کا وزیر چھ گاؤں اور ایک کشتی اشرفیوں کی لے کر حاضر خدمت ہوا۔اور عرض کیا کہ حضرت سلطان نے خدام آستانہ کے لئے یہ نظرانہ پیش کیا ہے۔اور عاجزی کے ساتھ عرض کیا ہے کہ حضور اس حقیر نظرانے کو قبول فرما کر  عزت افزائی فرمائیے۔ حضرت قطب صاحبؒ نے جواب دیا کہ یہ کام تو میرے پیرو نے کبھی نہیں کیا۔جاؤ اسے واپس لے جاؤ۔ اگر میں نے یہ نظر قبول کر لی تو قیامت کے دن انکو کیا منھ دکھاؤنگا۔

عسرت اور فقر و فاقہ کی زندگی:☜

سیر الاقطاب اور مسالک السالکین میں ہے کہ حضرت قطب صاحبؒ زہد و قناعت میں درجہ کمال رکھتے تھے۔فقر و فاقہ میں یگانہ وقت تھے۔آپکے گھر میں اکثر فاقہ رہتا تھا۔لیکن مرید یا کسی شخص پر ظاہر نہ ہوتا تھا۔

حضرت قطب صاحب کے گھر میں دسترخوان رکابی پیالہ تک موجود نہیں تھا۔:☜

شیخ الاسلام حضرت بابا فرید فرمایا کرتے تھے کہ ابتدائی احوال میں قطب الاقطابؒ کے مکان میں دسترخوان رکابی اور پیالہ تک موجود نہیں تھا۔آپکی زندگی نہایت عسرت اور تنگی سے گزرتی تھی۔

حضرت قطب صاحبؒ کا وصال:☜

حضرت قطب صاحبؒ کا وصال ہوتے ہی کہرام مچ گیا۔صف ماتم بچھ گئی۔ جنازہ تیار کیا گیا۔سلطان شمس الدین اولیاء رحمةاللہ مرید خاص و خلیفہ اور دیگر فقراء خلفاء اور مشائخ دہلی کے عوام و خواص جمع ہو گئے۔نماز جنازہ کی تیاری ہوئی۔ حضرت مولانا ابو سعید نے اعلان کیا کہ ہمارے خواجہ کی وصیت ہے کہ میرے جنازے کی نماز وہ آدمی پڑھائے جو کسی فعل حرام کا مرتکب نہ ہوا ہو اور جسکی عصر کی سنت اور تکبیر اولیٰ فوت نہ ہوئی ہو۔ باوجود یہ کہ اس مجمع میں سیکڑوں اولیاء علماء و فضلاء موجود تھے۔ اور بہت حیران تھے کہ حضرت قطب صاحب کا جنازہ کون پڑھایئگا۔سلطان شمس الدینؒ چب وار است نظر ڈال رہے تھے کہ کون خدا کا بندہ نماز جنازہ پڑھانے کے لئے آگے بڑھے۔

لیکن صداۓ بر نحاست آخر  جب جنازہ رکھے رکھے دیر ہو گئی تو سلطان شمس الدینؒ یہ فرماتے ہوۓ آگے بڑھے کہ ۔۔۔ میں نہیں چاہتا کہ کسی شخص کو میرے حال کی اطلاع ہو۔لیکن چونکہ میرے خواجہ کا حکم کی تعمیل کے سوا چارہ نہیں نماز جنازہ کے بعد ایک جانب سے جنازے کو کندھا شمس الدینؒ نے دیا۔اور تین طرف سے مشائخ نے دیا اور جاۓ مزار مبارک پر لے جا کر سپرد آغوش خاک کر دیا۔
انا لله وانا اليه راجعون۔