حضرت احمد رضا خان بریلوی کے حالات و واقعات

0

ولادت باسعادت:☜

آپ کیؒ ولادت باسعادت دس شوال 1672ھ بمطابق 14 جون 1856ء بروز شنبہ ظہر کے وقت شہر بریلی شریف میں محلہ جسولی میں ہوئی۔پیدائشی نام محمد اور تاریخی نام المختار ہے۔جد امجد مولانا رضاء علیؒ نے آپکا اسم شریف احمد رضاء رکھا۔خود حضرت اعلی حضرت نے اپنا سن ولادت آیت کریمہ سے نکالا ہے۔

القابات:☜

حضرت سید اعلی حضرتؒ کے بے شمار القابات ہیں۔جن میں سے آپ کا مشہور ترین لقب اعلی حضرت ہے۔

بسم اللہ خوانی:☜

حضرت اعلی حضرت کے بسم اللہ خوانی کی رسم کے موقع پر ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔آپ کے استاذ محترم نے  حسب دستور “بسم اللہ الرحمٰن الحیم کے بعد *الف ؛ ب ت ث ج وغیرہ حروف تہجی آپکو پڑھانا شروع کیا۔ استاذ کے بتانے کے مطابق آپ پڑھتے گئے۔جب *لام الف* کی نوبت آئی تو استاذ نے فرمایا کہو لام الف تو اعلی حضرت خاموش ہو گئے اور لام الف نہیں پڑھا۔ استاذ صاحب نے دوبارہ کہا میاں صاحب زادے کہو لام الف، حضرت نے کہا یہ دونوں حرف میں پڑھ چکا ہوں۔الف بھی پڑھا اور لام بھی پڑھ چکا ہوں۔اب دوبارہ کیوں پڑھایا جارہا ہے؟؟؟

محفل بسم اللہ خوانی میں حضور کے جد امجد حضرت مولانا شاہ علی رضاء خاں قدس سرہ العزیز موجود تھے۔ فرمایا بیٹا! استاذ کا کہا مانو جو کہتے ہیں پڑھو۔اعلحضرت نے حکم کی تعمیل کرتے ہوۓ لام الف پڑھا۔ لیکن حضرت نے جد امجد کی طرف مستفسرانہ نگاہ ڈالی۔حضرت جد امجد نے اپنے فراست ایمانی سے بھانپ لیا۔ کہ گویا یہ ننھا بچہ کہہ رہا ہے کہ آج کے سبق میں تو حروف مفردہ کا بیان ہے۔پھر انکے درمیان ایک مرکب لفظ کیسے آ گیا۔

تعلیمی سلسلہ:☜

بسم اللہ خوانی کے بعد اعلیٰ حضرت کا تعلیمی سلسلہ شروع ہو گیا۔آپ نے اپنی چار برس کی ننھی سی عمر میں جب عموماً دوسرے بچے اس عمر میں اپنے وجود سے بھی بے خبر رہتے ہیں۔آپ نے قرآن مجید ناظرہ مکمل کر لیا۔6 سال کی عمر میں ربیع الاول شریف کے موقع پر منبر پر رونق افروز ہو کر بہت بڑے مجمع کی موجودگی میں ذکر میلاد شریف پڑھا۔ فارسی کی کتابیں پڑھنے کے بعد حضرت مرزا غلام قادر بیگؒ سے میزان منشب وغیرہ کی تعلیم حاصل کی۔ پھر آپ نے اپنے والد ماجد سے مندرجہ ذیل اکیس علوم پڑھے۔

  • علم قرآن
  • علم تفسیر
  • علم حدیث
  • اصول حدیث
  • کتب فقہ حنفی
  • کتب فقہ شافعی مالکی و حنبلی
  • اصول فقہ
  • جذل مہذب
  • علم العقائد والکلام
  • علم نحو
  • علم صرف
  • علم معانی
  • علم البجان
  • علم البدیع
  • علم منطق
  • علم مناظرہ
  • علم حساب وغیرہ۔

بچپن کے حالات:☜

اعلیٰ حضرت بچپن ہی سے تقوٰی طہارت اتباع سنت پاکیزہ اخلاق حسن و سیرت کے اوصاف سے مزین ہو چکے تھے۔تقریباً ساڑھے تین سال کی عمر تھی ایک نیچا کرتہ پہنے ہوۓ باہر سے دولت خانے کی طرف تشریف لیے جا رہے تھے کہ سڑک پر ایک گاڑی میں کچھ طوائفیں بیھٹی ہوئی کسی ریئس کی تقریب میں گانا بجانے کے لئے جا رہی تھیں۔انکا سامنا ہوتے ہی آپ نے فورًا کرتے کا دامن اٹھا کر آنکھوں پر رکھ لیا۔یہ واقعہ دیکھ کر طوائفیں ہنسنے لگی اور ان میں سے ایک بولی واہ میاں صاحبزادے آنکھوں کو چھپا لیا اور ستر کھول دیا۔

آپؒ برجستہ جواب دیا کہ جب نظر بہکتی ہے تبھی دل بہکتا ہے۔اور جب دل بہکتا ہے تو ستر بہکتا ہے۔ یہ جواب سن کر وہ سکتہ کے عالم میں ہو گئی۔

زندگی کے عام حالات:☜

جب عمر شریف تیرہ سال دس ماہ تھی۔آپ جلیل الشان عالم عظیم المرتبت فاضل ہو گئے تھے۔اور اس وقت سے مسلسل دینی خدمات انجام دیتے رہے۔ آپکا ظاہر باطن ایک تھا جو کچھ دل میں ہوتا وہی زبان پاک سے ادا فرماتے۔اس پر آپکا عمل ہوتا کوئی کیسا ہی پیارا ہو کتنا ہی معزز ہو کبھی اسکی رعایت سے کوئی بات خلاف شرع زبان سے نہیں نکالتے تھے۔ نہ تحریر کرتے رعایت مصلحت کا وہاں گزر ہی نہ تھا۔ آپ کے سب کام محض اللہﷻ  کے لیے تھے۔کسی تعریف سے مطلب نہ کسی کی ملامت کا خوف کرتے۔

حدیث شریف : “من احب للہ و ابغض للہ واعطی للہ ومنع للہ فقد استکمل ایمان”
کہ مطابق آپ کسی سے محبت کرتے تو اللہ کے لیے کسی سے مخالفت کرتے تو اللہ کے لئے کسی کو کچھ دیتے تو اللہ کے لئے اور نہ دیتے تو اللہ ہی کے لیے۔

ہفتہ میں دومرتبہ جمع یا منگل کو لباس تبدیل فرماتے۔ہاں اگر عید یا بقرہ عید یا عید میلاد النبی ﷺ یعنی بارہوی ربیع الاول کا دن جمعرات یا سنیچر کو پڑتا تو دونوں دن لباس تبدیل فرماتے۔

تصنیف و تالیف کتب مبنی فتوی نوسی اور اشغال خیال سے خلوت میں تشریف رکھتے تھے۔پانچوں نمازوں کے وقت مسجد میں حاضر ہوتے تھے۔اور ہمیشہ نماز باجماعت اداء فرماتے تھے۔

استاذہ اکرام:☜

اعلی حضرت کے استاذہ اکرام کی فہرست بہت مختصر ہے۔

  • حضرت والد ماجد شاہ نقی علی خاںؒ
  • جناب مرزا غلام قادر بیگ صاحبؒ
  • حضرت مولانا عبد العلی رامپوری صاحبؒ
  • شیخ احمد بن زین دحلان مکیؒ
  • شیخ عبد الرحمٰن سراج مکیؒ وغیرھم

تلامیذہ:☜

اعلیٰ حضرت نے کتب درسیہ سے فراغت کے بعد تدریس و افتاء اور تصنیف کی توجہ فرمائی۔ لیکن ابتداء میں تدریس کی جانب سے زیادہ میلان تھا کیونکہ بریلی شریف میں سنیوں کا کوئی مدرسہ نہ تھا۔صرف اعلی حضرت کی ذات واحد مرجع طلبہ و علماء تھی۔ پھر جب آپکے علم و فضل کا سکہ ہر طرف رواں ہوا تو صوبوں کے تشنگان علوم نے آکر آپ سے مستفیض ہوئے۔بارگاہ رضویہ اگر چہ ایک عظیم الشان درس گاہ تھی جس میں آپ خالص لوجہ اللہ تعالی درس و تدریس کی خدمت انجام دیتے تھے۔جہاں لا تعداد طلباء اپ کے علم و کمال سے فیض یاب ہوتے تھے جسکے باعث اعلی حضرت کے طلباء کی صحیح  تعداد معلوم نہیں جا سکتی۔
چند مشاہر تلامذہ کے اسماء گرامی پیش کیے جاتے ہیں؛

  • مولانا حسن رضاء خاں بردران اوسط اعلی حضرت
  • اعلی حضرت حجت الاسلام مولانا محمد رضاء خان
  • سلطان المناظرین مولانا سید احمد اشرف کچھوچھوی
  • محدث اعظم ہند مولانا سید محمد جیلانی کچھوچھوی
  • ملک العلماء مولانا سید ظفر الدین فاضل بہاری

وصال:☜

اعلی حضرتؒ نے اپنی وفات سے چار ماہ بائیس روز پہلے اپنے وصال کی خود اطلاع دی تھی۔ 25 صفر المظفر 1340ھ بمطابق 1961ء کو بروز جمعة المبارک عالم سنت و ھدایت کا یہ آفتاب اپنی تمام تر تابانیوں کے ساتھ ہمیشہ ہمیش کے لیۓ اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔

مزار مبارک:☜

حضرت اقدس اعلیٰ حضرتؒ کا مزار پر نور محلہ سوداگران بریلی شریف میں ہے۔ جہاں ہر سال 25 صفر المظفر کو عرس مبارک منایا جاتا ہے۔