حضرت بشر حافیؒ کے حالات و واقعات

0

تعارف:☜

آپؒ کا سلسلہ نصب ابو  نضر بشر بن الحارث بن عبد الرحمٰن بن عطاء المروزی البغدادیؒ ہے۔ آپ بشر حافیؒ کے نام سے مشہور ہیں۔ مرو میں ولایت ہوئی اور بغداد میں مقیم رہے۔آپؒ کو کشف و مجاہدات میں مکمل دسترس حاصل تھی اور اصول شرع کے بہت بڑے عالم تھے۔اور اپنے ماموں  علی حشرم کے ساتھ بیعت تھے۔

آپؒ کی توبہ کا واقعہ:☜

ایک مرتبہ حالت دیوانگی میں آپؒ کہیں جا رہیں تھے۔راستہ میں آپؒ کو ایک کاغذ پڑا ہوا ملا جس پر”بسم اللہ الرحمن الرحیم ” لکھا ہوا تھا۔ آپؒ نے اسے عطر سے معطر کرکے کسی بلند مقام پر رکھ دیا اور اسی شب خواب میں ایک درویش کو منجانب اللہﷻ  یہ حکم ملا کہ بشر حافی کو یہ خبر دے دو کہ ہمارے نام کو  معطر کرکے جو تم نے تعظیماً بلند مقام پر رکھا ہے۔اس کی وجہ سے ہم تمہیں بھی پاکیزہ مراتب عطاء کرینگے۔اور بیداری کے بعد جب ان بزرگ کو یہ تصور آیا کہ بشر حافی تو فسق و فجور میں مبتلا ہیں۔شائد میرا خواب صحیح نہیں ہے۔لیکن جب دوسری مرتبہ اور تیسری مرتبہ بھی یہی خواب آیا تو وہ درویش آپؒ کے گھر پہنچے تو درویش کو معلوم ہوا کہ آپؒ میکدے میں ہیں۔اورجب وہ درویش میکدے میں پہنچے تو دیکھا کہ بشر حافی نشے میں چور بد مست پڑے ہیں۔انہوں نے لوگوں سے کہا کہ آپؒ سے جاکر کہہ دے کہ کوئی درویش آپؒ کے لیے ضروری پیغام لایا ہے۔چناچہ جب لوگوں نے آپؒ سے کہا تو آپؒ نے سوچا کہ نہ پتہ عتاب الہی کا پیغام ہے، یا سزاء کا۔۔۔۔۔ یہ کہہ کر میکدے سے ہمیشہ کے لیے توبہ کرکے نکلے۔اس کے بعد اللہﷻ نے آپؒ کو وہ مراتب عطاء کیے جن کی وجہ سے آپؒ کا ذکر بھی قلوب کا سکون بن گیا۔ 

آپؒ اس احساس کی وجہ ننگے پاؤں چلا کرتے تھے کہ اللہﷻ نے زمین کو فرش بنایا ہے۔اسی لیے شاہی فرش پر جوتے پہن کر چلنا آداب کے منافی ہے۔یہی وجہ ہے کہ آپؒ کو حافی کہا جاتا ہے۔

اولیاء اکرام کی ایک ایسی جماعت بھی تھی جو نہ تو ڈھیلے سے استنجاء کرتے تھے اور نہ ہی زمین پر تھوکتے تھے کیونکہ انہیں ہر سو نور الہی کا ظہور  محسوس ہوتا  تھا۔ اور بشر حافیؒ کا تعلق بھی ان ہی جماعت کے ساتھ تھا۔اور بعض صوفیاں کے نزدیک چونکہ نور الہی چشم سالک میں ہوا کرتا ہے۔اسی لیے اسے ہر جگہ سواۓ خدا کے کچھ نظر نہیں آتا۔

ایک روایت میں آتا ہے کہ آپ ثعلبہؓ کی میت کے  ہمراہ انگوھٹوں کے بل تشریف لے جا رہے تھے۔اور یہ فرما رہے تھے کہ مجھے یہ ڈر ہے کہ کہی ملائکہ کے پروں پر میرا قدم نہ پڑ جاۓ۔

آپؒ کی صحبت:☜

حضرت امام احمد ابن حنبلؒ ہمیشہ آپؒ کی ہی معیت میں رہا کرتے تھے۔آپؒ کے عقیدت مندوں میں سے تھے۔ احمد ابن حنبلؒ   کے شاگردوں نے آپؒ سے پوچھا کہ فقیہ ، محدث ہونے کے باوجود آپؒ ایک خطبی کے ہمراہ کیوں رہتے ہیں۔فرمایا کہ مجھے اپنے علم پر مکمل عبور حاصل ہے لیکن وہ خطبی اللہﷻ کو مجھ سے زیادہ جانتا ہے۔اسی وجہ سے امام صاحب آپ بشر حافیؒ سے ہمیشہ استداء کیا کرتے تھے کہ مجھے خدا کی باتیں سناؤ۔

منقول ہے  کہ ایک مرتبہ میدان بنواسرایئل میں حضرت خواص کی ملاقات حضرت خضر سے ہوگئی تو بلال خواص نے فرمایا کہ آپؒ کی امام شافعی کے متعلق کیا راۓ ہے؟ فرمایا کہ وہ اوتار میں سے ہیں۔ اور فرمایا امام احمد ابن حنبلؒ کے متعلق آپؒ کی  کیا راۓ ہے؟ فرمایا کہ ان کا شمار صدیقین میں ہوتا ہے۔ اور جب بشر حافیؒ کے متعلق دریافت کیا ؟ تو فرمایا کہ وہ منفرد زمانہ ہیں۔

حضرت عبد اللہ کہتے ہیں کہ میں نے ذوالنون مصری کو عبادت سے متصف پایا اور حضرت  سہیل کو اشاروں پر چلنے والا۔ اور بشر حافی کو تقوٰی میں ممتاز پایا۔ لوگوں نے سوال کیا کہ آپ کا رجحان کس طرف ہے؟ فرمایا بشر حافیؒ کی طرف کیونکہ وہ میرے استاذ بھی ہیں۔

حضرت بشر حافیؒ نے محدث ہونے کے بعد تمام  علوم کی کتابوں کو  زیر زمین  دفن کر دیا تھا۔ اسکے بعد بھی کبھی حدیث بیان نہیں کی۔اور یہ فرماتے تھے کہ میں اس وجہ سے حدیث بیان  نہیں کرتا کہ میرے اندر حصول شہرت کا جذبہ ہے۔ اور اگر یہ خامی نہ ہوتی تو میں ضرور بالضرور حدیث بیان کرتا۔

ایک مرتبہ لوگوں نے کہا کہ بغداد میں اکل حلال کی رسم باقی نہ رہی تو آپؒ کے کھانے کا کیا نظام ہے۔؟ فرمایا کہ جس جگہ سے تم کھاتے ہو میں بھی وہیں سے کھاتا ہوں۔

آپؒ کے عظیم مراتب کا حصول:☜

لوگوں نے دریافت کیاکہ آپؒ کو ایسے عظیم مراتب کیسے حاصل ہیں؟ فرمایا ایک لقمہ بھوک چھوڑ کر۔ کیونکہ ہسنے والا کھا کر رونے والے کے برابر نہیں ہو سکتا۔اور اکل حلال میں بھی فضول خرچی کا اندیشہ باقی رہتا ہے۔ کسی نے آپؒ سے سوال کیا کہ کس چیز کا کھانا چاہیئے ؟ فرمایا کہ عافیت کا سالن کھاؤ۔

مشہور ہے کہ خواہش کے باوجود آپ نے چالیس سال تک کبھی بکری کی سری نہیں کھائی اور ہمیشہ باقلہ کی ترکاری کا سالن کھانے کا جی چاہتا رہا لیکن کھائی  کبھی نہیں۔اور کبھی حکومت کی جاری کردہ نہر سے پانی نہیں پیا۔

عظیم مراتب پر لوگوں کے سوال:☜

ایک مرتبہ آپؒ سے لوگوں نے سوال کیا کہ آپکو عظیم مراتب کیسے ملے؟ تو آپؒ نے فرمایا کہ میں نے کبھی خدا کے سواء کسی سے اظہار حال نہیں کیے۔اور میں واعظ و نصیحت سے یہ بہتر تصور کرتا ہوں کہ لوگوں کے سامنے میں خدا کا ذکر کرتا رہوں۔

دوسروں کے درد کے حساس:☜

ایک مرتبہ  کسی نے آپؒ کو سردی کے موسم میں  بنا کپڑوں کے کپکپاتے دیکھ کر سوال کیا کہ آپؒ ایسا کیوں کرتے ہیں۔کیوں اتنی اذیت برداشت کرتے ہیں؟؟؟ فرمایا کہ اس سردی میں فقراء صاحب حاجت ہونگے انکا کیا حال ہوگا ؟؟؟

ایک مرتبہ ایک قافلہ حج کے لیے روانہ ہو رہا تھا۔آپؒ سے بھی ساتھ چلنے کی درخواست کی۔ آپؒ نے تین شرطیں پیش کر دیں۔
اول یہ کہ کوئی اپنے ساتھ توشہ نہ لے۔
دوم یہ کہ کوئی بھی کسی سے کچھ طلب نہ کرے۔
سوم اگر کچھ پیش بھی کرے تو اسے قبول نہ کرے۔
یہ سن کر اہل قافلہ نے  کہا کہ پہلی دو شرطیں تو ہمیں منظور ہیں لیکن تیسری شرط قابل قبول نہیں۔ آپؒ نے فرمایا کہ توکل حاجیوں کا توشہ سفر ہے اور اگر آپ لوگ یہ قصد کر لیتے کہ کسی سے کچھ نہیں لینگے تو خدا پر توکل بھی اور درجہ ولایت بھی حاصل ہوتا۔

آپؒ فرماتے ہیں کہ ایک دن جب میں اپنے مکان پر پہنچا تو دیکھا کہ ایک صاحب  میرے منتظر ہیں اور میرے اس سوال پر کہ بلا اجازت مکان میں کیوں داخل ہوۓ۔ فرمایا کہ میں خضر ہوں!!!پھر میںؒ نے عرض کیا کہ میرے لیے دعا فرما دیجیئے۔ آپ نے فرمایا کہ خدا تیرے لیے عبادت کو آسان کر دے۔اور تیری عبادت کو تجھ سے پوشیدہ رکھے۔

آپؒ  کی نظر بصارت:☜

کسی نے آپؒ سے کہا کہ میرے پاس ایک ہزار درہم ہیں اور میں حج کاخواہش مند ہوں۔ آپؒ نے فرمایا کہ یہ رقم کسی مقروض کے قرض کی ادائیگی میں دے دو۔یا یتیموں ،یا مفلس عیال داروں میں تقسیم کر دو تو تمہیں حج سے بھی زیادہ ثواب ملیگا۔اس نے عرض کیا کہ میں حج کا بہت شدت سے خواہش مند ہوں ۔آپؒ نے فرمایا کہ تونے یہ رقم ناجائز طریقہ سے حاصل کی ہے۔اس لیے تو زیادہ ثواب کا مستحق بننا چاہتا ہے۔

آپؒ کا کشف :☜

ایک دن آپؒ قبرستان میں مردوں کو لڑتے دیکھ کر عرض کیا کہ یا اللہﷻ  یہ راز مجھے بھی معلوم ہو جاۓ۔ اور جب آپؒ نے ان مردوں سے پوچھا تو ان مردوں نے کہا کہ ایک ہفتہ قبل کسی شخص نے سورہ اخلاص پڑھ کر ہمیں بخش دیا تھا۔اور ایک ہفتہ سے ہم اسکی تقسیم میں مصروف ہیں اور وہ ابھی تک ختم نہیں ہوا ہے۔

حضورﷺ کی بشارت کا شرف:☜

آپؒ فرماتے تھے کہ میں”  ایک مرتبہ خواب میں حضور کی زیارت سے مشرف ہوا۔ تو آپﷺ نے دریافت کیا کہ اے بشر کیا تجھے علم ہے کہ تیرا مرتبہ تیرے دور کے بزرگوں سے  بلند کیوں کیا گیا؟؟؟ میںؒ نے عرض کیا کہ مجھے تو معلوم نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تونے سنت کا اتباع کرتے ہوۓ بزرگوں کی تعظیم کی اور مسلمانوں کو راہ حق دکھاتا رہا اور میرے اصحاب اور اھل بیت کو ہمشہ محبوب رکھا۔ اسی لیے اللہﷻ نے تجھے یہ مرتبہ عطاء کیا۔

پھر دوبارہ جب حضورﷺ کی زیارت سے مشرف ہوۓ تو عرض کیا کہ مجھے کوئی نصیحت فرما دیجیئے۔ تو حضورﷺ نے فرمایا کہ امراء حصول ثواب کی نیت سے جو فقراءکی خدمت کرتے ہیں وہ پسندیدہ ہیں۔ لیکن اس سے زیادہ افضل وہ ہیں کہ فقراء کبھی امراء کے آگے دست دراز طلب نہ کرے بلکہ اللہﷻ پر مکمل بھروسہ رکھیں۔

ارشادت :☜

آپؒ ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ پانی جب تک رواں رہتا ہے تو صاف وشفاف رہتا ہے اور جب رک جاتا ہے تو گدلہ اور کیچڑ بن جاتا ہے۔
فرمایا کہ جو دنیا میں عزت چاہتا ہے اسے تین چیزوں سے کنارہ کش رہنا چاہیئے۔
اول مخلوق سے اظہار حاجت کرنا۔
دوم دوسروں میں عیب نکالنا۔
سوم کسی مہمان کے ہمراہ جانا۔

فرمایا کہ دنیاوی نمود کاخواہا لذت آخرت سے محروم ہو جاتا ہے۔فرمایا کہ قانع رہ کر صرف دنیا ہی میں عزت ملتی ہے۔جب بھی قناعت بہتر تھی۔

نفس پر قابو:☜

فرمایا کہ لوگ ہمیں بہتر سمجھے صرف حب د نیا کا مظہر ہے۔اور جب تک بندہ نفس کے سامنے فولادی دیوار قائم نہیں کرلیتا اس وقت تک عبادت میں لذت و حلاوت حاصل نہیں کر سکتا۔

فرمایا کہ یہ تین کام بہت مشکل ہیں۔
اول مفلسی میں سخاوت۔
دوم خوف میں صداقت۔
سوم خلوت میں تقوٰی۔

تقوٰی کیا ہے؟؟:☜

فرمایا کہ تقوٰی نام ہے شکوک و شبہات سے پاک ہونے اور قلب کی ہمہ وقت گرفت کرنے کا۔ فرمایا کہ اللہﷻ نے بندوں کو صبر و معرفت سے زیادہ کوئی عظیم شے نہیں عطاء کی۔

اہل معرفت ہی خدا کے مخصوص بندے ہیں۔اور جو بندہ اللہﷻ کے ساتھ قلب کو صاف رکھتا ہے اسکو صوفی کہتے ہیں۔ اور اہل معرفت وہ ہے جنکو خدا کے سواء نہ کوئی جانتا ہے اور نہ عزت کرتا ہے۔ اور جو شخص حلاوت آزادی کے ساتھ ہمکنار ہونا چاہے۔ انکو اپنے خیالات پاکیزہ بنانے چاہیئے۔ اور جو صدق دلی کے ساتھ عبادت کرتا ہے وہ لوگوں سے خوفزدہ رہتا ہے۔

دنیا سے بے رغبتی:☜

آپؒ نے فرمایا کہ نہ تو مجھے کبھی اہل دنیا میں بیٹھنا گوارا ہوا نہ کبھی انہیں میری صحبت ہی اچھی لگی۔کسی نے عرض کیا کہ میں متوکل علی اللہ  ہوں۔ فرمایا کہ تو متوکل  ہے۔تو خدا کے احکام پر بھی راضی ہوگا۔

 خوف خدا وندی :☜

انتقال کے وقت جب آپؒ شدید مضطرب ہوۓ تو کسی نے عرض کیا کہ کیا ترک دنیا کا غم ہے۔ فرمایا نہیں بلکہ بارگاہ خداوندی میں جانے کا خوف ہے۔

کسی شخص نے آپؒ کی وفات کے وقت آپؒ سے اپنی مفلسی کا رونا رویا۔تو آپؒ نے اپنا پیرہن اتار کر اسکو دے دیا اور خود دوسرے سے مانگ کو پہن لیا۔

انتقال کے بعد کسی نے آپؒ کو خواب دیکھ کر آپکا حال دریافت کیا۔ فرمایا کہ اللہﷻ   مجھ سے اس لیے ناراض ہوا  کہ تو دنیا میں اس سے اتنا زیادہ کیوں خائف رہتا تھا۔اور کیا تجھے میری کریمی پر یقین نہیں تھا؟؟؟۔

پھر اسی شخص نے اگلے دن خواب میں دیکھ کر آپؒ سے حال دریافت کیا تو فرمایا کہ اللہﷻ نے مجھے معاف کر دیا ہے۔اور میری مغفرت فرما دی اور یہ بھی فرمایا کہ خوب کھا  اور پی۔اس لیے کہ تونے دنیا میں میری یاد کی وجہ سے نہ کچھ کھایا نہ پیا۔

ہر  کسی نے آپؒ کو خواب میں دیکھ کر حال دریافت کیا تو فرمایا کہ اللہﷻ نے میری مغفرت فرما دی۔ اور نصف  بہشت میرے لیے جائز فرما دی۔اور یہ بھی فرمایا کہ اگر تو آگ پر ہی سجدہ ریزی کرتا رہتا جب بھی اس چیز کا شکریہ اداء نہیں کر سکتا تھا۔کہ ہم نے لوگوں کے قلوب  میں تجھے جگہ عطاء کر دی۔

پھر ایک اور شخص نے آپؒ کو خواب میں دیکھ کر حال دریافت کیا تو آپؒ نے فرمایا کہ اللہﷻ نے میری مغفرت فرما دی۔ اور یہ بھی فرما دیا کہ جب ہم نے تجھے اس دنیا سے اٹھایا تو تجھ سے بہتر کوئی اور نہیں تھا۔

آپؒ کا مقام “☜

ایک عورت  نے امام احمد ابن حنبلؒ سے یہ مسلہ دریافت کیا کہ میں اپنی چھت پر سوت کات رہی تھی راستہ میں شاہی روشنی کا گزر ہوا۔اور اسی روشنی میں تھوڑا سا سوت کات لیا۔اب فرمایئے کہ وہ سوت جائز ہے یا ناجائز ؟ یہ سن کر امام صاحبؒ نے فرمایا کہ تم کون ہو اور اس قسم کا مسلہ کیوں دریافت کرتی ہو؟ اس عورت نے جوا  دیا کہ میں بشر حافیؒ کی ہمشیرہ ہوں۔ امام صاحبؒ نے فرمایا کہ تمہارے لئے وہ سوت جائز نہیں کیونکہ تم اہل تقوٰی کے خاندان سے ہو۔ اور تمہیں اپنے بھائی کے نقشے قدم پر چلنا چاہیئے جو مشتبہ کھانے پر اگر ہاتھ  بڑھاتے تو انکا ہاتھ بھی انکی پیروی نہیں کرتا تھا۔