امام احمد بن حنبل کے حالات و واقعات

0

تعارف:☜

ریاضت و تقوٰی میں آپؒ کا مقام بہت بلند ہے۔آپؒ ذہین اور ذکی ہونے کے ساتھ ساتھ مستجاب الدعوات بھی تھے۔آپؒ کے معاصرین نے جو آپؒ کے اوپر بحتان باندھے ہیں آپؒ کی ذات گرامی ان سے قطعًا مبراء ہے۔

آپؒ کے صاحبزادے ایک مرتبہ یہ حدیث بیان کر رہے تھے۔  (اخمر طینیہ ادم بیدہ) یعنی اللہﷻ نے آدم کا خمیر اپنے ہاتھ سے گوندھا۔اور حدیث بیان کرتے وقت آپ نے اپنا ہاتھ دراز کر دیا۔لیکن امام احمد ابن حنبلؒ نے منع کرتے ہوۓ فرمایا کہ جب ید اللہ کا مفہوم بیان کیا کرو ہاتھ دراز کرکے نہ سمجھایا کرو۔

امام صاحب نے بہت سے جلیل القدر بزرگوں سے شرف نیاز حاصل کیا تھا اور بشر حافیؒ کا قول تو یہ ہے کہ امام احمد ابن حنبلؒ مجھ سے بدر جہاں افضل ہیں۔کیونکہ میں تو صرف اپنے ہی واسطہ اکل حلال کی کوشش کرتا ہوں لیکن وہ اپنے اہل و عیال کے لیے بھی اکل حلال حاصل کرتے ہیں۔

آپؒ پر معتزلہ کاظلم:☜

حضرت سری سقطیؒ کا قول ہے کہ معتزلہ نے آپؒ کے اوپر جتنی طعنہ زنی کی ہے آپؒ موت کے وقت ان سے بالکل پاک تھے۔مثلًا بغداد کے معتزلہ نے   ہنگامہ کھڑا کرکے یہ چاہا کہ آپؒ یہ تسلیم کر لیں کہ قرآن ایک مخلوق ہے۔اور اس سلسلہ میں دربار خلافت میں بہت بڑی بڑی سزایں بھی سنائی گئیں۔حتٰی کہ جس وقت آپؒ کو ایک ہزار کوڑے لگائے جا رہے تھے تو اتفاق سے آپؒ کا کمر بند کھل گیا۔لیکن غیب سے دو ہاتھ نمودار ہوۓ اور کمر بند باندھ کر غائب ہو گئے۔مگر اتنی شدید اذیتوں کے بعد آپؒ نے قرآن کو مخلوق نہیں بتایا۔ اور جب آپؒ چھوٹ گئے تو لوگوں نے پوچھا کہ جن فتنہ پردازوں نے آپؒ کو اتنی اذیتیں دی انکے لئے آپؒ کی کیا رائے ہے؟؟؟فرمایا کہ وہ مجھے اپنے خیال کے مطابق گمراہ تصور کرتے ہیں۔اور اس لئے تمام تکلیفیں صرف  خدا کے لئے دی گئی ہیں۔ اسلیے  میں ان سے کوئی مواخذہ نہیں کرونگا۔

منقول ہے کہ ایک نوجوان کی ماں کے ہاتھ پیر شَلْ ہوگئے تھے۔اس نوجوان نے آپؒ سے دعا کے لئے کہا تو آپ نے وضو کرکے نماز شروع کر دی۔ جب وہ نوجوان گھر پہنچا تو اسکی ماں صحت یاب ہو چکی تھی۔اور خود آکر دروازہ کھولا۔

آپؒ کی تعظیم کا صلہ:☜

آپؒ دریاء کے کنارے وضوء کر رہے تھے اور ایک شخص بلندی پر بیٹھا ہوا وضوء کر رہا تھا۔لیکن آپؒ کو دیکھ کر تعظیمًا نیچے آ گیا۔پھر اسکے انتقال کے بعد کسی نے اسے خواب میں دیکھ کر پوچھا کہ کس حال میں ہو؟ اس نے کہا کہ خدا تعالی محض اس تعظیم کی وجہ سے جو میں نے امام احمد ابن حنبلؒ کی وضوء کرتے وقت کی تھی مغفرت فرما دی۔  

واقعات:☜

آپؒ فرمایا کرتے تھے میں جنگل میں راستہ بھول گیا۔جب ایک اعرابی سے راستہ معلوم کیا تو وہ پھوٹ، پھوٹ  کر رونے لگا۔مجھے خیال ہوا کہ یہ شائد فاقہ سے ہے۔اور جب میں نے کھانا دینا چاہا تو بہت ناراض ہو کر کہنے لگا کہ اے امام حنبلؒ کیا تجھے خدا پر اعتماد نہیں جو خدا کی طرح مجھے کھانا دیتا ہے جبکہ تو خود گم کردہ راہ ہے۔

مجھے خیال آیا کہ اللہﷻ نے اپنے نیک بندوں کو کہاں کہاں پوشیدہ رکھا ہے۔وہ میری نیت کو بھانپ کر بولا کہ خدا کے بندے تو ایسے ہوتے ہیں کہ اگر وہ پوری سرزمین کو سونا بن جانے کے لئے کہہ دے تو پورا عالم سونے کابن جائے اور میں نے جب نگاہ اٹھائی تو پورا صحرا سونے کا نظر آیا۔اور غیب سے ندا آئی کہ میرا محبوب بندہ ہے اور اگر یہ کہہ دے تو ہم پورے عالم کو زیر وزبر کر دیں۔ لہذا تجھے شکر اداء کرنا چاہیئے کہ تیری ملاقات ایسے بندے سے ہو گئی۔لیکن آج کے بعد اسکو کبھی نہ دیکھ سکے گا۔

تقوٰی :☜

آپؒ کے صاحبزادے صالح، اصفہان  کے قاضی تھے۔اور ایک مرتبہ امام حنبلؒ کے خادم نے حضرت صالح کے مطبخ میں سے خمیرے لیکر روٹی تیار کی اور جب روٹی امام صاحب کے سامنے پہنچی تو امام صاحب نے پوچھا کہ روٹی اس قدر گداز کیوں ہے۔خادم نے پوری کیفیت بتا دی۔آپؒ نے فرمایا کہ جو شخص اصفہان کا قاضی رہا ہو اس کے یہاں سے خمیرہ کیوں لیا۔لہذا یہ روٹی میرے کھانے کے لائق نہیں رہی۔اور یہ کسی فقیر کے سامنے پیش کرکے پوچھ لینا کہ اس روٹی میں خمیر تو صالح کا ہے  اور اٹا امام احمد ابن حنبلؒ کا اگر تمہاری طبیعت گوارا کر لے تو لے لو۔لیکن چالیس یوم تک کوئی سائل نہیں آیا۔اور جب روٹیوں میں بو پیداء ہو گئی تو خادم نے دریا دجلہ میں پھینک دی۔لیکن امام صاحب کے تقوٰی کا یہ عالم تھا کہ آپؒ نے اس دن سے دریا دجلہ سے مچھلی نہیں کھائی۔اور آپؒ لوگوں سے فرماتے تھے کہ جسکے پاس چاندی کی سرمہ دانی ہو اسکے پاس بھی مت بیٹھو۔

ارشادات:☜

شرعی مسائل تو آپؒ خود بتا دیا کرتے تھے۔ لیکن مسائل طریقت کے سلسلے میں آپؒ لوگوں کو بشر حافیؒ کی خدمت میں بھیج دیتے تھے۔ اور اکثر فرمایا کرتے تھے کہ میں نے خدا سے خوف طلب کیا ہے۔تو اس نے اتنا خوف عطا کر دیا کہ مجھے زوال عقل کا خوف پیدا ہو گیا۔

فرمایا کہ اللہ تعالی نے مجھ سے فرمایا ہے کہ تجھے میرا قرب صرف قرآن سے مل سکتا ہے۔ پھر فرمایا کہ اعمال کی مشقتوں سے چھٹکارے کا نام اخلاص ہے۔ اور خدا پر اعتماد ہی توکل ہے۔ اور تمام امور کو خدا کے سپرد کر دینے کا نام رضا ہے۔

زہد:☜

جب لوگوں نے محبت کا مفہوم پوچھا۔فرمایا کہ جب تک بشر حافی حیات ہیں ان سے دریافت کرو۔ پھر فرمایا کہ زہد کس کو کہتے ہیں؟ فرمایا کہ عوام کا زہد تو حرام اشیا ترک کر دینا ہے اور خواص کا زہد حلال چیزوں میں زیادتی کی طمع کرنا ہے۔اور عارفین کے زہد کو خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا۔

پھر سوال کیا کہ جاہل قسم کے صوفیاء مسجد میں  متوکل بن کر بیٹھ جاتے ہیں انکے متعلق کیا راۓ ہے؟؟؟ فرمایا کہ ایسے لوگوں کو غنیمت سمجھو کیونکہ علم کی وجہ سے انہوں نے توکل اختیار کیا اور جب لوگوں نے عرض کیا کہ یہ تو محض روٹیاں حاصل کرنے کا بہانہ ہوتا ہے۔تو فرمایا کہ دنیا میں کوئی جماعت بھی روٹی سے بے نیاز نہیں ہے۔

وفات:☜

انتقال کے وقت جب  صاحبزادے نے طبیعت پوچھی تو فرمایا کہ جواب کا وقت نہیں ہے۔بس دعا کرو کہ اللہﷻ ایمان پر خاتمہ کر دے کیونکہ شیطان لعین مجھے سے کہہ رہا ہے کہ تیرا ایمان سلامت لے جانا میرے لئے باعث ملال ہے۔ اس لئے دم نکلنے سے قبل مجھے سلامتی ایمان کے ساتھ مرنے کی توقع نہیں ہے۔اللہﷻ اپنا فضل فرما دے یہ کہتے کہتے روح پرواز ہو گئی۔   انا للہ وان الیہ راجعون۔