ابو حازم مکی رحمة اللہ کے حالات و واقعات

0

تعارف:☜

آپ مخلص اہل تقوٰی میں سے  تھے۔مشائخ کے مقتداء اور فقر و غناء کے حامل تھے۔مجاہدات اور مشاہدات میں آپؒ اپنی مثال آپ تھے اور آپ کا کلام لوگوں کے قلوب پر اثرانداز تھا۔ طوالت عمر کی وجہ سے بہت سے مشائخ کی اقتداء فرمائی۔ انہیں میں ہی عثمان مکیؒ بھی آپؒ کے مداحوں میں سے تھے۔آپؒ کو بہت سے صحابہ کے علاوہ  حضرت انس بن مالکؓ اور حضرت ابو ھریرہؓ  سے شرف نیاز حاصل ہے۔

ارشادات:☜

ہشام بن عبد الملکؒ نے آپؒ سے یہ سوال کیا کہ وہ کونسا عمل ہے جس سے نجات حاصل ہو سکے؟۔۔۔فرمایا   حلال جگہ سے جو  دام حا صل ہو اسکو حلال جگہ ہی خرچ  کرو۔ اس نے کہا اتنا دشوار کام کون کر سکتا ہے؟    فرمایا جس کو جنت کی خواہش اور جہنم کا خوف رکھتے ہوئے ، رضائے الٰہی کی طلب ہوگی۔

دنیا سے اجتناب:☜

آپؒ فرمایا کرتے تھے کہ دنیا سے اجتناب بناے رکھو، کیونکہ جو عبادت گزار دنیا کو محبوب تصور کرتا ہے۔اس کو روز محشر کھڑا کرکے ملائکہ   یہ منادی کرینگے کہ یہ وہ شخص ہے جس نے اللہﷻ کی ناپسندیدہ شے کو پسند کیا۔ فرمایا کہ دنیا میں ایسی کوئی شے نہیں جس کا انجام غم و اندوہ نہ ہو۔ کیونکہ دنیا میں کوئی چیز  ایسی نہیں پیدا کی گئی جس کا انجام حزن و ملال نہ ہو اور دنیا کی حقیر سے حقیر شے بھی لوگوں کو اپنی جانب مائل کر لیتی ہے،کہ جنت کی بڑی چیز بھی انکی  توجہ  کا باعث نہیں بنتی۔

اشیاء دنیا کا دارومدار:☜

فرمایا کہ دنیا کی تمام چیزوں کا دارومدار صرف دو چیزوں  پر منحصر ہے۔
” ایک تو وہ جو میرے لیے ہے، اور دوسری وہ جو میرے لیے نہیں ہے، خواہ میں اس شے سے کتنا ہی دور نہ بھاگوں پھر بھی وہ مجھ تک پہنچے گی۔ اور جو دوسروں کے لیے ہے میں اسکے حصول میں کتنی ہی سعی نہ کر لوں وہ مجھے ہر گز حاصل نہیں ہوگی۔

دعا سے محرومی باعث اذیت:☜

فرمایا کہ اگر میں دعا کرنے سے محروم ہو جاؤں، تو اسکی عدم  قبولیت سے مجھ پر شدید مشکلات آ پڑے۔ فرمایا کہ اے لوگو تم ایسے دور کی پیداوار ہو، جو فعل کو چھوڑ کر قول پر راضی ہو جاتے ہیں اور یہ عمل کو ترک کرکے علم پر مسرور ہونے کا دور ہے۔اس لیے تم بدترین لوگوں میں ، اور بہترین دور میں ہو۔

آپؒ کی خبرگیری :☜

ایک شخص نے جب حال دریافت کیا،تو فرمایا کہ میرا حال اللہﷻ کی خوشنودی حاصل کرنا ہے اور مخلوق سے بے نیاز رہنا ہے۔ اور جو خدا تعالٰی سے راضی رہتا ہے وہ مخلوق سے بے نیاز رہتا ہے۔ آپؒ کی بے نیازی کایہ عالم تھا کہ ایک قصاب کی دکان کی جانب سے آپؒ کا گزر ہوا جس کی دکان میں بہت عمدہ گوشت تھا۔   تو آپؒ کی  نظر  گوشت کی جانب اٹھ گئی۔ تو قصاب نے فرمایا کہ بہت عمدہ گوشت ہے ، خرید لیجیے۔ فرمایا کہ میرے پاس رقم نہیں ہے، اس نے کہا کہ قرض لے جایئے۔ فرمایا کہ میں پہلے اپنے نفس کو قرض پر آمادہ تو کر لوں۔ اس نے کہا کہ بس اس غم میں آپؒ سوکھ گئے ہیں، اور ہڈیاں نکل آئی ہیں۔آپؒ نے فرمایا کہ اسکے باوجود میں قبر کے کیڑوں کے لیے بہت کافی ہوں۔

نبی کریمﷺ  کی زیارت

ایک بزرگ حج کا قصد کرکے بغداد میں ابو حازم سے ملاقات کے لیے پہنچے تو آپؒ آرام فرما رہیں تھے۔چناچہ جب کچھ دیر آرام کرنے کے بعد  جب آپؒ بیدار ہوۓ تو فرمایا کہ میں خواب حضور اکرمﷺ کی زیارت سے مشرف ہوا ہوں اور حضورﷺ نے آپ تک پیغام پہنچانے کا حکم دیا ہے کہ آپ اپنی والدہ کے حقوق نظرانداز نہ کریں۔ کیونکہ یہ حج کرنے سے کہیں  زیادہ بہتر ہے۔ لہٰذا واپس جائیے اور والدہ کی خوشی کا خیال رکھیئے۔چناچہ وہ  بزرگ حج کا قصد ترک کرکے واپس گئے۔