مالک بن دینارؒ کے حالات و واقعات

0

تعارف:☜

آپؒ حضرت حسن بصریؒ کے ہم عصر ہیں۔آپ کا شمار بھی دینی پیشواؤں اور سالکان الشریعت میں ہوتا ہے۔آپؒ کی پیدائش آپکے والد کے دور غلامی میں ہوئی۔ان کا نام دینار تھا۔ ظاہری اعتبار سے گو آپؒ غلام زادے ہیں لیکن باطنی طور پر فیوض و برکات کا سرچشمہ ہیں اور بااعتبار کرامرت و ریاضت  میں آپؒ کا درجہ بہت بلند ہے۔

دینار کی وجہ تسمیہ:☜

ایک مرتبہ آپ کشتی میں سفر کر رہیں تھے اور منجدھار میں پہنچ کر جب ملاح نے کرایہ طلب کیا تو فرمایاکہ میرے پاس دینے کو  کچھ بھی نہیں ہے۔اس پر ملاح نے بد کلامی کرتے ہوئے آپؒ کو اتنا زد و کوب کیا کہ آپؒ کو غش آ گیا اور جب غشی دور ہو گئی تو ملاح نے دوبارہ کرایہ طلب کرتے ہوئے کہا کہ تم نے اگر کرایہ نہ دیا تو دریا میں پھنک دونگا۔اسی وقت کچھ مچھلیاں منھ میں ایک ایک دینار دبائے ہوئے پانی کے اوپر کشتی کے پاس آئیں۔ آپؒ نے ایک مچھلی کے منھ سے دینار لے کر کرایہ اداء کیا۔ملاح یہ دیکھ کر قدموں میں گر گیا اور آپؒ کشتی سے دریا پر اتر گئے اور پانی پر چلتے ہوئے نظروں سے اوجھل ہو گئے۔اسی وجہ سے لفظ دینار آپؒ کے نام کا حصہ بن گیا۔

آپؒ کی نظر میں دنیا کی حقیقت:☜

بصرہ میں کوئی امیر آدمی فوت ہو گیا اور اس کی ساری جائیداد اسکی اکلوتی بیٹی  کو ملی جو انتہائی خوبصورت تھی۔ ایک دن اس نے حضرت ثابت بنانیؒ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میں نکاح کرنا چاہتی ہوں، لیکن میری خواہش ہے کہ نکاح مالک بن دینارؒ کے ساتھ ہو تاکہ ذکر الٰہی اور دنیا کے کاموں میں وہ میری مدد کر سکیں۔ چنانچہ ثابت بینائیؒ نے اسکا پیغام مالک بن دینارؒ تک پہنچایا لیکن انہوں نے فرمایا کہ میں دنیا کو طلاق دے چکا ہوں اور عورت کا شمار بھی دنیا میں ہی ہوتا ہے۔اس لیے طلاق شدہ عورت سے نکاح جائز نہیں۔ ایک مرتبہ آپ کسی درخت کے سائے میں آرام فرما رہے تھے، چشم دید گواہوں نے بتایا ہے کہ ایک سانپ نرگس کی شاخ سے آپؒ کو پنکھا جھل رہا تھا۔

تکلیف کا انجام راحت ہے:☜

آپ اکثر فرمایا کرتے تھے میں جہاد کا خواہش مند ہوں، لیکن  جب  جہاد کا ایک موقع آیا تو مجھے  ایسا بخار آیا کہ جانے کا نام ہی نہ لیتا تھا۔چناچہ اس غم میں ایک شب  میں “یہ کہتا ہوا سو گیا کہ اگر خدا کے نزدیک میرا کوئی مرتبہ ہوتا تو مجھے اس وقت بخار کبھی نہ آتا۔ پھر خواب میں دیکھا کہ ندائے غیبی سے کوئی کہہ رہا تھا کہ اے مالک! اگر آج تو جہاد کے لئے چلا جاتا تو قیدی بنا دیا جاتا اور کفار تجھے قید کرکے تجھے سور کا گوشت کھلا کر تیرا دین ہی برباد کر دیتے۔ لہذٰا یہ بخار تیرے لیے نعمت عظمٰی ہے۔پھر میں نے بیدار ہو کر خدا کا شکر اداء کیا۔

کیفیت ولایت:☜

کسی ملحد سے آپ کا مناظرہ ہوا اور دونوں اپنے کو حق پر کہتے رہے، حتٰی کہ لوگوں نے یہ فیصلہ کیا کہ دونوں کے ہاتھ آگ میں ڈلوائے جائیں، اور جسکا ہاتھ آگ سے محفوظ رہے اسی کو حق پر تصور کیا جائے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ دونوں میں سے کسی کے ہاتھ کو بھی ضرر نہ پہنچا۔لوگوں نے فیصلہ کر دیا کہ دونوں حق پر ہیں۔اور آپؒ نے دل تنگ ہو کر اللہ تعالٰی سے عرض کیا کہ ستر سال میں نے عبادت میں گزاردیئے مگر تونے مجھے ایک ملحد ( الحاد کیا ہوا، دین سے پھر جانے والا، منکر الہی )کے برابر کر دیا۔غیب سے ندا آئی کہ اے مالکؒ تیرے ہاتھ کی برکت سے ہی ایک ملحد کا ہاتھ بھی آگ سے بچ گیا۔ اگر وہ اکیلا آگ میں ہاتھ ڈالتا تو یقیناً جھلس جاتا۔

ایک مرتبہ آپ شدید بیمار ہوکر صحت یاب ہوئے لیکن کسی ضرورت کے تحت بہت ہی دشواری سے آپؒ کو بازار جانا پڑا۔لیکن اتفاق سے اسی وقت بادشاہ کی سواری آ رہی تھی اور لوگوں کو ہٹانے کے لیے ایک شور بلند ہوا۔ آپؒ اس وقت اس قدر کمزور تھے کہ ہٹنے میں دشواری ہو گئی۔اور پہرےدار نے آپؒ کو ایسا کوڑا مارا کہ آپؒ کے منھ سے کہ  یہ کلمہ نکلا؛ ” خدا کرے تیرا ہاتھ قطع کر دیا جائے”۔چناچہ دوسرے ہی دن اسکے ہاتھ کاٹ کر کسی چوراہے پر ڈلوا دئیے۔لیکن آپؒ کو اسکی حالت دیکھ کر بہت رنج ہوا۔

ضبط و نفس:☜

آپؒ  برسوں سے ترش یا میٹھی چیزیں نہیں کھاتے تھے اور رات کو روکھی روٹی خرید کر افطار کر لیا کرتے تھے۔ایک مرتبہ بیماری میں گوشت کھانے کی خواہش ہوئی، تو بازار سے گوشت کے تین پارچہ خرید کر چلے، اور قصائی نے ایک شخص کو آپؒ کے پیچھے اس غرض سے بھیجا کہ یہ دیکھو کہ آپؒ گوشت کا کیا کرینگے۔آپؒ نے کچھ دور چل کر گوشت کو سونگھ کر فرمایا کہ اے نفس! سونھگنے سے زیادہ تیرا حصہ نہیں اور یہ کہہ کر وہ گوشت  ایک فقیر کو دے دیا۔پھر یہ فرمایا کہ اے نفس! میں تجھے کسی دشمن کی وجہ سے اذیت نہیں دیتا بلکہ تجھ کو صبر کا مرتبہ حاصل کرانے کے لئے ایسا کرتا ہوں تاکہ اس کے بدلے تجھے لازوال نعمت حاصل ہو جائے۔ پھر فرمایا کہ یہ مثل میرے فہم سے بالا تر ہے۔کہ جو شخص چالیس دن گوشت نہیں کھاتا اسکی عقل کمزور ہو جاتی ہے۔جبکہ میں نے بیس سال سے گوشت نہیں چکھا لیکن میری عقل میں کوئی کوتاہی نہیں ہوئی۔بلکہ کچھ زیادتی ہی نظر آتی ہے۔  اس شخص نے آ کر  یہ پورا کا پورا واقعہ قصائی کو بیان کیا جس نے اس کو آپؒ کے پیچھے لگایا تھا۔

آپؒ نے بصرہ  میں قیام کے باوجود ایک کھجور بھی نہیں کھائی اور لوگوں سے فرمایا کہ میں نے کبھی کھجور نہیں کھائی اور نہ کھانے سے نہ میرا پیٹ کم ہو  گیا ،اور نہ تمہارا پیٹ بڑھ گیا۔لیکن چالیس سال بعد ایک مرتبہ کھجور کھانے کی خواہش ہوئی۔ تو فرمایا کہ اے نفس! میں تیری خواہش کی کبھی تکمیل نہیں ہونے دونگا اور جب  آپؒ کو خواب میں کھجور کھانے کا اشارہ ملا اور یہ فرمایا گیا کہ تو نفس پر سے پابندی ختم کر دے۔تو آپؒ نے بیداری کے بعد نفس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ میں اس شرط کے ساتھ تیری تمنا پوری کر سکتا ہوں کہ تو ایک ہفتہ تک مسلسل روزے رکھے۔ چنانچہ نفس کشی کے لئے ہفتہ بھر کے روزے رکھے۔ اسکے بعد کھجورے خرید کر مسجد تشریف لے گئے۔وہاں کھانے سے قبل آپؒ کو ایک لڑکے نے دیکھ لیا، اور اس  لڑکے نے اپنے باپ کو آواز دے کر کہا،کہ مسجد میں کوئی یہودی آ گیا ہے۔اسکا باپ یہودی کا نام سنتے ہی ڈنڈا لیکر دوڑا۔ لیکن آپؒ کو شناخت کرکے معافی کا طلب گار ہوتے ہوۓ کہا کہ ہمارے محلے میں دن میں یہودیوں کے سواء کوئی نہیں کھاتا اور سب لوگ روزہ رکھتے ہیں اس لئے بچہ کو آپؒ کے یہودی ہونے کا شبہ ہوا۔آپؒ اس کی خطاء معاف فرما دیں۔یہ سنتے ہی آپؒ نے جوش میں آکر فرمایا کہ بچوں کی زبان غیبی زبان ہوتی ہے۔پھر اللہ تعالٰی سے عرض کیا کہ بغیر کھجور کھائے تو آپ نے مجھے یہودیوں میں شامل کر دیا اور اگر کھا لیتا تو نامعلوم میرا کفار سے بھی زیادہ برا انجام ہوتا۔لہٰذامیں قسم کھاتا ہوں کہ اب کبھی کھجور کا نام بھی نہیں لونگا۔

گناہوں کا اثر:☜

آپؒ کسی مریض کی بیمار پرسی کے لئے تشریف لے گئے اور چونکہ وہ مرنے کے قریب تھا اس لیے آپؒ نے اسے کلمہ پڑھنے کی تلقین فرمائی۔ لیکن وہ کلمہ پڑھنے کی بجائے دس اور گیارہ کہتا رہا۔پھر جب آپؒ نے زیادہ اصرار کیا۔ تو اس نے کہا کہ میرے سامنے آگ کا ایک پہاڑ ہے ، جب میں کلمہ پڑھنے کا قصد کرتا ہوں تو وہ آگ میری جانب جھپٹتی ہے۔آپؒ نے جب اسکے متعلق لوگوں سے پوچھا تو پتہ لگا کہ وہ سود خور تھا، اور کم تولنے والا بھی۔

ایک مرتبہ بصرہ میں آگ لگ گئی اور آپؒ اپنے جوتے اور عصاء لیکر چھت پر چڑھے تو لوگوں کو ایسی مصیبت میں دیکھا کہ کچھ تو آگ میں جل رہے ہیں اور کچھ کود کر نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں اور کچھ اپنا سامان نکالنے کے چکر میں ہیں۔تو آپؒ نے فرمایا کہ ہلکے پھلکے لوگ تو نجات پا گئے اور بھاری بھرکم لوگ ہلاک ہوۓ اور قیامت کے دن بھی یہی منظر ہوگا۔

خوف خدا:☜

ایک مرتبہ جعفر بن سلیمانؒ آپؒ کے ہمراہ سفرِ حج پر تھے۔جس وقت آپؒ “لبیک اللھم لبیک” پڑھنا شروع کیا تو آپؒ پر غشی طاری ہو گئی۔اور ہوش میں آنے کے بعد جعفر بن سلیمانؒ نے غشی طاری ہونے کا سبب دریافت کیا تو فرمایا کہ میں اس خوف سے بے ہوش ہو گیا تھا کہ کہیں” لا لبیک” کی آواز نہ نکل جائے۔جب آپؒ ” ایاک نعبد وایاک نستعین؎ قرٵت کرتے ،تو مضطرب ہو کر رونے لگتے اور فرماتے کہ اگر یہ آیت قرآن کی نہ ہوتی تو میں کبھی نہ پڑھتا۔کیونکہ اسکا مفہوم یہ کہ “اے اللہ میں تیری عبادت کرتا ہوں؛اور تجھ ہی سے مدد چاہتا ہوں”۔اور حالانکہ ہم نفس کے ایسے بے چارے ہیں کہ خدا کو چھوڑ کر دوسروں کی اعانت کے طالب ہوتے ہیں۔

خوشناسی:☜

کسی عورت نے آپؒ کو ریاء کار کے نام سے آواز دی تو آپؒ نے فرمایا کہ  بیس سال سے کسی نے میرا اصلی نام لیکر نہیں پکارا تھا۔لیکن شاباش تو نے اچھی طرح پہچان لیا کہ میں کون ہوں؟پھر فرمایا کہ جب مخلوق کو اچھی طرح پہچان لیا تو مجھکو اسکی قطعاً خواہش نہ رہی کہ مجھے کوئی نیک یا بد کہے۔اس لئے کہ میں نے ہر اچھا یا برا کہنے والے کو مبالغہ کرنے والا پایا۔لہٰذا لوگ خواہ مجھے نیک یا بد کہیں ، میں روز حشر ان سے کوئی بدکہ نہیں لونگا۔

اقوال زریں:☜

جس سے قیامت کے دن کوئی فائدہ حاصل نہ ہو، اسکی صحبت سے کیا فائدہ ؟؟؟ کیونکہ اہل دنیا تو فالودہ کی طرح ہیں جو کہ ظاہر میں خوش رنگ  اور باطن میں بد مزہ ہے۔اور اس دنیا سے اسی لیے اجتناب بہتر ہے۔کہ “امل(امید، آرزو، خواہش)   نے علماء کو بھی اپنا تابع بنایا ہے۔

فرمایا جو لغو باتیں زیادہ کرتا ہے اسکا علم قلیل ، اور قلب اندھا،اور عمر رائیگاں ہے۔ کیونکہ میرے نزدیک اخلاص سے بہتر  کوئی عمل نہیں۔

فرمایا اللہﷻ نے حضرت موسٰی علیہ السلام کو بذریعہ وحی حکم دیا کہ فولادی عصاء لیکر زمین پر چلو، اور ہر جدید اور عبرت انگیز شے کی جستجو کرو، اور اس وقت تک ہماری حکمت و نعمت کا مشاھدہ کرتے رہو، جب تک جوتے گھس نہ جائیں ،اور عصاء ٹوٹ نہ جاۓ۔  (اسکا مفہوم یہ ہیکہ ضبط و فکر سے کام لینا چاہیئے)

منقول ہے کہ کسی نے آپؒ سے مرتے وقت وصیت کرنے کا اظہار کیا، تو فرمایا کہ تقدیر الٰہی پر راضی رہ تاکہ تجھکو عذابِ حشر سے نجات مل سکے۔پھر   انتقال کے بعد کسی شخص نے خواب میں اسکا حال دریافت کیا تو اس نے کہا کہ ” میں بہت ہی گنہگار تھا،صرف حسن خیال کی وجہ سے میری نجات ہو گئی، جو مجھے اللہﷻ کی بندہ نوازی پر تھا”۔

صبر کا پھل:☜

کسی بزرگ نے خواب میں دیکھا کہ آپؒ کو اور حضرت محمد واسعؒ کو بہشت کی طرف لے جایا جا رہا ہے۔ اس بزرگ کے دل میں خیال آیا کہ دیکھو ” مالک بن دینارؒ جنت میں پہلے پہنچتے ہیں یا محمد واسعؒ؟؟؟ چناچہ یہ دیکھ کر کہ مالک بن دینارؒ کو پہلے داخلِ بہشت کیا تو بزرگ نے پوچھا کہ محمد واسعؒ تو مالک بن دینارؒ سے زیادہ عامل اور کامل تھے؟؟؟ فرشتوں نے جواب دیا ” تم صحیح کہتے ہو محمد واسعؒ کے پاس پہننے کے لیے دو لباس تھے اور مالک بن دینارؒ کے پاس صرف ایک ہی لباس تھا لہٰذا صبر و ضبط کی نسبت مالک بن دینارؒ کی جانب زیادہ ہے۔اس لیے انہیں جنت میں پہلے بھیجا گیا۔

https://www.youtube.com/watch?v=73_McLKMjNw