مولانا ظفر علی خاں

0

تعارفِ سبق :

سبق ”مولانا ظفر علی خاں “ کے مصنف کا نام ”چراغ حسین حسرت“ ہے۔ یہ سبق کتاب ”مردمِ دیدہ“ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

خلاصہ :

اس سبق میں مصنف ظفر علی خان کی شخصیت نگاری کررہے ہیں۔ وہ اس سبق میں مولانا کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو ہمارے سامنے اجاگر کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ مصنف بتاتے ہیں کہ مولانا کی توند عمر کے ساتھ نہ بڑھی کیونکہ مولانا ڈنٹر پیلتے ، مگدر ہلاتے اور دوڑ لگاتے تھے۔ اس طرح باقاعدہ ورزش کرنے کی وجہ سے ان کی توند نہ بڑھی۔ مصنف مولانا کے صبح کے معمول کے متعلق لکھتے ہیں کہ نہر کے کنارے میلوں دوڑ لگانا اور پھر ڈنٹر پیلنا ان کا معمول تھا۔ مصنف کہتے ہیں کہ وہ صبح سویرے کبھی بھی مولانا کے ساتھ نہ جاتے تھے کیونکہ مولانا کی طرح ورزش کرنے سے مصنف کی جان جاتی تھی۔

اس سبق میں مولانا کی چند نظموں کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ جیسا کہ : بحرۂ قلزم، لندن کی ایک صبح ، رامائن کا ایک سین اور ”پتھر نکال … ہمسر نکال‘ وغیرہ۔ مصنف بتاتے ہیں کہ مولانا دیگر شعراء کی طرح ایک نظم کو زیادہ وقت نہ دیتے تھے بلکہ وہ عموماً ایک نظم پر آدھے گھنٹے سے زیادہ وقت صرف نہیں کرتے تھے۔ شاید ہی ان کی کوئی نظم ہو جو دو گھنٹے میں کہی گئی ہو۔

جب کہ مصنف کے مطابق عام شعراء حکیم فقیر چشتی سے مسہل لے کر گھر میں بیٹھے رہتے ہیں۔ کہیں آتے جاتے نہیں ، اور پھر اس طرح کامل یکسوئی کے ساتھ شعر کہنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس سبق میں مصنف مولانا کے اخبار کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ کتابت اور زبان کی غلطیاں اور کمزوریاں دیکھ کر مولانا چیخے چلاتے ، ناراض ہوتے ، کبھی ایک کو آواز دیتے کبھی دوسرے کو طلب کر کے پوچھتے کہ غلطی کیوں ہوئی، دھمکی دیتے کہ اخبار نہیں نکلے گا۔ ان کے سخت ردِ عمل کے سبب سب کی جان پر بنی رہتی۔ اس کے علاوہ وہ اپنے اخبار کے لیے کتابت وغیرہ کرنے والوں کو داد دیتے اور حوصلہ افزائی کے لیے نقد انعامات دیتے۔

سوال 1 : مختصر جواب لکھیے :

الف- کیا سبب تھا کہ مولانا توند سے محروم تھے؟

جواب : مولانا ڈنٹر پیلتے ، مگدر ہلاتے اور دوڑ لگاتے تھے۔ اس طرح باقاعدہ ورزش کرنے کی وجہ سے ان کی توند نہ بڑھی۔

ب- صبح صادق کے وقت مولانا ظفر علی خاں کے معمولات کیا تھے؟

جواب : نہر کے کنارے میلوں دوڑ لگانا اور پھر ڈنٹر پیلنا ان کا معمول تھا۔

ج۔ مصنف صبح کے وقت مولانا کے ساتھ سیر پر جانے سے کیوں گریزاں تھے؟

جواب : مولانا کی طرح ورزش کرنے سے مصنف کی جان جاتی تھی اس لیے وہ صبح کے وقت مولانا کے ساتھ جانے سے گریزاں تھے۔

د۔ سبق میں مولانا کی کن کن نظموں کا ذکر آیا ہے؟

جواب : سبق میں مولانا کی بحرۂ قلزم، لندن کی ایک صبح ، رامائن کا ایک سین اور ”پتھر نکال … ہمسر نکال‘ والی نظم کا ذکر آیا ہے۔

ہ- مولانا ظفرعلی شعر یا نظم کہنے میں کتنا وقت صرف کرتے تھے؟

جواب : وہ عموماً ایک نظم پر آدھے گھنٹے سے زیادہ وقت صرف نہیں کرتے تھے۔ شاید ہی ان کی کوئی نظم ہو جو دو گھنٹے میں کہی گئی ہو۔

و- مصنف کے خیال میں عام شاعر حضرات شعر کہنے سے پہلے کیا انداز اختیار کرتے ہیں؟

جواب : حکیم فقیر چشتی سے مسہل لے کر گھر میں بیٹھے رہتے ہیں۔ کہیں آتے جاتے نہیں ، اس طرح کامل یکسوئی کے ساتھ شعر کہنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ز۔ مولانا ظفر علی خاں اپنے اخبار میں لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کس طرح کرتے تھے۔

جواب : ان کو داد دیتے اور حوصلہ افزائی کے لیے نقد انعامات دیتے۔

ح- کتابت اور زبان کی غلطیاں اور کمزوریاں دیکھ کر مولانا کس ردِعمل کا اظہار کرتے تھے۔

جواب : چیخے چلاتے ، ناراض ہوتے ، کبھی ایک کو آواز دیتے کبھی دوسرے کو طلب کر کے پوچھتے کہ غلطی کیوں ہوئی، دھمکی دیتے کہ اخبار نہیں نکلے گا۔ ان کے سخت ردِ عمل کے سبب سب کی جان پر بنی رہتی۔

سوال نمبر ۲ : مندرجہ ذیل جملوں کی وضاحت اپنے الفاظ میں کیجیے۔

الف۔ اپنے گدیلے پر بیٹھے پانوں کی جگالی فرما رہے تھے۔

جواب : اپنے گدیلے پر بیٹھے مسلسل پان چباۓ جارہے تھے ۔ جگالی کرنا کے معنی ہوتے ہیں : چبائی ہوئی چیز کو بھی جانوروں کی طرح مسلسل چباتے رہنا۔

ب۔ قبہ شکم گنبد فلک سے ہمسری کرتا ہے۔

جواب : پیٹ بہت زیادہ بھرا ہوا ہے یا توند آسمان کے گنبد کی طرح بڑھی ہوتی ہے، اس جملے میں مبالغے سے کام لیا گیا ہے۔

ج۔ آنکھوں تلے موت کا نقشہ پھر گیا۔

جواب : انتہائی خوف زدہ ہو گئے جیسے سیر کے لیے نہیں جارہے ، سوۓ دار لے جاۓ جارہے ہیں۔

د۔ ہر طرف سے تحسین وآفرین کا غلغلہ بلند ہوا۔

جواب : پورے ہجوم نے اس کے اس کارنامے ( نیزہ بازی) پرکھل کر داد دی۔

ہ۔ نیزہ بازی اور شہسواری میں بھی برق ہیں۔

جواب: ان دونوں کھیلوں کے ماہر ہیں۔

و۔ یہ سن کر ان کا اوپرکا سانس اوپر اور تلے کا تلے رہ گیا۔

جواب : بے حد حیران ہوۓ ، حیرت سے منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ حیرت سے سانس لینا بھول گئے۔

ز۔ ہائے عنقائے مضمون دام میں آکے چلا گیا۔

جواب : افسوس کہ اتنا عمدہ خیال ذہن میں آیا تھا مگر شور کی وجہ سے ذہن سے نکل گیا۔

سوال 3 : مندرجہ ذیل محاورات کو اپنے جملوں میں اس طرح استعمال کیجیے کہ ان کا مفہوم واضح ہو جائے :

محفل برہم ہونا : افسوس کہ خوشیوں بھری محفل جلد برہم ہوگئی۔
کھینچا تانی ہونا : پرنسپل کے تبدیل ہو جانے کے بعد چارج کے لیے فیض اور عامر میں کھینچا تانی ہو گئی۔
پنڈ چھوڑنا : اگر بدعنوان عناصر سیاست کا پنڈ چھوڑ دیں تو لوگ امن اور سکون سے رہ سکیں گے۔
ڈنٹر پیلنا : آسودہ حال واجد کو تن سازی کا شوق ہے اور وہ صبح صبح خوب ڈنٹر پیلتا ہے۔
طبیعت لہرانا : کسان کی طبیعت جو لہرائی تو کان پر ہاتھ رکھ کر ماہیا الاپنا شروع کر دیا۔
غائب غلہ ہو جانا ادھار لے کر وہ ایسا غائب غالہ ہوا کہ کئی دن نظر نہ آیا۔
غل غپاڑا مچانا : دیکھ بھئی غل غپاڑا مچانے سے مسائل حل نہیں ہوتے ، بیٹھ کر دلیل اور سنجیدگی سے بات کریں۔

سوال 4 : متن کو پیش نظر رکھتے ہوئے خالی جگہ کے لیے مناسب لفظ کا انتخاب کیجیے :

الف۔ میں ایک نئی دنیا کا۔۔۔۔۔۔تھا۔

٭دریافت کنندہ
٭واسکوڈی گاما
٭کولمبس ✓

ب۔ نہ نئی دنیا رہی نہ پرانی دنیا، رہے نام۔۔۔۔کا

٭اللہ ✓
٭خدا
٭رب

ج۔ مولانا نے اپنی تمام نظمیں بہت۔۔۔۔۔وقت میں کہی ہیں۔

٭تھوڑے ✓
٭زیادہ
٭مناسب

د۔ مولانا ظفر علی خاں زبان اور محاورے کے۔۔۔۔ہیں۔

٭فنکار
٭استاد ✓
٭ماہر

ہ۔ مولانا جب تک دفتر میں رہتے تھے بڑی۔۔۔۔۔رہتی تھی۔

٭سراسیمگی
٭چہل پہل ✓
٭افسردگی