(حمد) امیر مینائی

0

نظم : حمد
شاعر : امیر مینائی حمد تشریح

دوسرا کون ہے، جہاں تو ہے
کون جانے تجھے، کہاں تو ہے

تعارفِ نظم

یہ شعر ہماری درسی کتاب کی نظم ”حمد“ سے لیا گیا ہے۔ اس نظم کے شاعر کا نام امیر مینائی ہے۔

تعارفِ شاعر

امیر احمد مینائی لکھنؤ کے ایک دینی و علمی خانوادے میں پیدا ہوئے۔ آپ نے طب، لسانیات، تصوف، فلسفہ، فقہ، منطق، تاریخ، موسیقی، ریاضی اور قانون کے علوم حاصل کیے۔ آپ کا شمار بڑے علما میں کیا جاتا ہے۔ آپ کی کتب ”انتخابِ یادگار، صنم خانہ عشق، امیر اللغات، مراۃ الغیب، مینائے سخن، خیابانِ آفرینش اور محامد خاتم النبیین“ قابلِ ذکر ہیں۔

تشریح

اس حمد میں شاعر اللہ تعالیٰ کی ثنا بیان کررہے ہیں۔ اس شعر میں شاعر اللہ تعالیٰ کو مخاطب کر کہ اے اللہ اس دنیا کا خالق کو مالک تو ہے۔ شاعر کہتے ہیں کہ اے رب تیرا جو مقام ہے وہ کسی اور کا مقام نہیں ہے۔ شاعر اللہ سے کہتے ہیں کہ جہاں تو ہے وہاں تو کوئی نہیں ہوسکتا ہے۔ شاعر مزید کہتے ہیں کہ اب رب تو خالق ہے اور ہم سب تیری مخلوق ہیں جو اس بات سے لاعلم ہیں کہ تو کہاں ہے۔ شاعر کہتے ہیں کہ کوئی بھی اس دنیا میں ایسا شخص نہیں ہے جو جانتا ہو کہ اللہ تعالیٰ کہاں ہیں۔

لاکھ پردوں میں ہے، تو بے پردہ
سو نشانوں پہ بے نشاں تو ہے

تعارفِ نظم

یہ شعر ہماری درسی کتاب کی نظم ”حمد“ سے لیا گیا ہے۔ اس نظم کے شاعر کا نام امیر مینائی ہے۔

تعارفِ شاعر

امیر احمد مینائی لکھنؤ کے ایک دینی و علمی خانوادے میں پیدا ہوئے۔ آپ نے طب، لسانیات، تصوف، فلسفہ، فقہ، منطق، تاریخ، موسیقی، ریاضی اور قانون کے علوم حاصل کیے۔ آپ کا شمار بڑے علما میں کیا جاتا ہے۔ آپ کی کتب ”انتخابِ یادگار، صنم خانہ عشق، امیر اللغات، مراۃ الغیب، مینائے سخن، خیابانِ آفرینش اور محامد خاتم النبیین“ قابلِ ذکر ہیں۔

تشریح

اس حمد میں شاعر اللہ تعالیٰ کی ثنا بیان کررہے ہیں۔ شاعر کہتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات ہماری آنکھوں کے پردے سے اوجھل ہے۔ ہم اسے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتے مگر اتنا اوجھل ہونے کے باوجود بھی وہ ظاہر ہے۔ اللہ بے نشان ہے مگر اللہ کی قدرت کی نشانیاں کائنات کے ہر زرے میں موجود ہیں۔ شاعر کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہزاروں پردوں کے پیچھے ہونے کے باوجود اپنی قدرتوں کی وجہ سے ہمیں ہر جگہ نظر آتا ہے۔ شاعر مزید کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بےنشان ہیں۔

تو ہے خلوت میں، تو ہے جلوت میں
کہیں پنہاں ، کہیں عیاں تو ہے

تعارفِ نظم

یہ شعر ہماری درسی کتاب کی نظم ”حمد“ سے لیا گیا ہے۔ اس نظم کے شاعر کا نام امیر مینائی ہے۔

تعارفِ شاعر

امیر احمد مینائی لکھنؤ کے ایک دینی و علمی خانوادے میں پیدا ہوئے۔ آپ نے طب، لسانیات، تصوف، فلسفہ، فقہ، منطق، تاریخ، موسیقی، ریاضی اور قانون کے علوم حاصل کیے۔ آپ کا شمار بڑے علما میں کیا جاتا ہے۔ آپ کی کتب ”انتخابِ یادگار، صنم خانہ عشق، امیر اللغات، مراۃ الغیب، مینائے سخن، خیابانِ آفرینش اور محامد خاتم النبیین“ قابلِ ذکر ہیں۔

تشریح

اس حمد میں شاعر اللہ تعالیٰ کی ثنا بیان کررہے ہیں۔ شاعر کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہر پل موجود ہے۔ وہ تنہائی میں بھی ہمارے ساتھ ہے اور ہجوم میں بھی ہر انسان کے ساتھ ہے۔ شاعر کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات مخفی ہوتے ہوئے بھی کائنات کے ہر زرے سے عیاں ہوتی ہے۔ شاعر اللہ کی بڑائی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اللہ پاک ہر وقت ہر جگہ موجود ہے۔ شاعر کہتے ہیں کہیں تو اللہ تعالیٰ ہم سب کی نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں اور کہیں وہ اپنی قدرت کے ذریعے ہمارے سامنے عیاں ہوجاتے ہیں۔

نہیں تیرے سوا ، یہاں کوئی
میزباں تو ہے ، مہماں تو ہے

تعارفِ نظم

یہ شعر ہماری درسی کتاب کی نظم ”حمد“ سے لیا گیا ہے۔ اس نظم کے شاعر کا نام امیر مینائی ہے۔

تعارفِ شاعر

امیر احمد مینائی لکھنؤ کے ایک دینی و علمی خانوادے میں پیدا ہوئے۔ آپ نے طب، لسانیات، تصوف، فلسفہ، فقہ، منطق، تاریخ، موسیقی، ریاضی اور قانون کے علوم حاصل کیے۔ آپ کا شمار بڑے علما میں کیا جاتا ہے۔ آپ کی کتب ”انتخابِ یادگار، صنم خانہ عشق، امیر اللغات، مراۃ الغیب، مینائے سخن، خیابانِ آفرینش اور محامد خاتم النبیین“ قابلِ ذکر ہیں۔

تشریح

اس حمد میں شاعر اللہ تعالیٰ کی ثنا بیان کررہے ہیں۔ شاعر کہتے ہیں کہ اللہ کے سوا اس دنیا میں کچھ بھی نہیں ہے، وہی اس دنیا کو بنانے والا ہے اور یہاں اسی کی بادشاہت ہے۔ وہی اس کا چلانے والا بھی ہے۔ شاعر اللہ تعالیٰ کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ اس دنیا کا میزبان بھی تو ہی ہے اور مہمان بھی تو ہی ہے۔ یعنی تیرے بغیر اس دنیا کا تصور بھی ناممکن ہے۔

رنگ تیرا ، چمن میں بو تیری
خوب دیکھا تو باغباں تو ہے

تعارفِ نظم

یہ شعر ہماری درسی کتاب کی نظم ”حمد“ سے لیا گیا ہے۔ اس نظم کے شاعر کا نام امیر مینائی ہے۔

تعارفِ شاعر

امیر احمد مینائی لکھنؤ کے ایک دینی و علمی خانوادے میں پیدا ہوئے۔ آپ نے طب، لسانیات، تصوف، فلسفہ، فقہ، منطق، تاریخ، موسیقی، ریاضی اور قانون کے علوم حاصل کیے۔ آپ کا شمار بڑے علما میں کیا جاتا ہے۔ آپ کی کتب ”انتخابِ یادگار، صنم خانہ عشق، امیر اللغات، مراۃ الغیب، مینائے سخن، خیابانِ آفرینش اور محامد خاتم النبیین“ قابلِ ذکر ہیں۔

تشریح

اس حمد میں شاعر اللہ تعالیٰ کی ثنا بیان کررہے ہیں۔ شاعر کہتے ہیں کہ اس دنیا کی ہر چیز اللہ کی قدرت کا نمونہ ہے۔ ہر طرف بکھرے رنگ برنگی پھول اور ان کی محسور کن خوشبو اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے۔ وہی تو ہے جس نے یہ پھول و خوشبو بنائے ہیں۔ وہی ان کی افزائش کا ذمہ دار بھی ہے۔ شاعر مزید لکھتے ہیں کہ اس دنیا میں ہر طرف اللہ کا رنگ اور اس ہی کی خوشبو موجود ہے۔ شاعر کہتے ہیں کہ مجھے غور کرنے سے پتہ چلا کہ اس دنیا کا باغبان بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے۔

محرم راز تو بہت ہیں امیر
جس کو کہتے ہیں راز داں ، تو ہے

تعارفِ نظم

یہ شعر ہماری درسی کتاب کی نظم ”حمد“ سے لیا گیا ہے۔ اس نظم کے شاعر کا نام امیر مینائی ہے۔

تعارفِ شاعر

امیر احمد مینائی لکھنؤ کے ایک دینی و علمی خانوادے میں پیدا ہوئے۔ آپ نے طب، لسانیات، تصوف، فلسفہ، فقہ، منطق، تاریخ، موسیقی، ریاضی اور قانون کے علوم حاصل کیے۔ آپ کا شمار بڑے علما میں کیا جاتا ہے۔ آپ کی کتب ”انتخابِ یادگار، صنم خانہ عشق، امیر اللغات، مراۃ الغیب، مینائے سخن، خیابانِ آفرینش اور محامد خاتم النبیین“ قابلِ ذکر ہیں۔

تشریح

اس حمد میں شاعر اللہ تعالیٰ کی ثنا بیان کررہے ہیں۔ شاعر کہتے ہیں کہ دنیا میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو ہمارے پوشیدہ اعمال اور باتوں سے آگاہ ہوتے ہیں مگر اس دنیا میں سب سے بہترین رازدار اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات ہے جس نے اپنے بندے کے ہر اچھے برے راز کو راز رکھا ہے۔ اس نظم کے آخری شعر میں شاعر اللہ تعالیٰ کے راز دار ہونے کی صفت کو بیان کرتے ہوئے ہمیں اس بات کا احساس دلا رہے ہیں کہ دنیا والوں کے سامنے اپنے راز عیاں کر کے پشیماں ہونے سے بہتر ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنے دل کا حال بیان کرے جو ہمارے دلوں کے حال سے واقف ہے اور جو ہمارا سب سے بڑا راز دار ہے۔

سوال 1 : “حمد” کے متن کو مدِ نظر رکھتے ہوئے نیچے دیے گئے ہر سوال کے درست جواب کے شروع میں (درست) کا نشان لگائیں۔

۱ : ایسی نظم جس میں اللہ تعالیٰ کی تعریف کی جائے اسے کیا کہتے ہیں؟

٭حمد(✓)
٭نعت
٭منقبت
٭قصیدہ

۲ : یہ “حمد” کس شاعر کی تخلیق ہے؟

٭مولانا ظفر علی خاں
٭امیر مینائی(✓)
٭بہزاد لکھنوی
٭ماہر القادری

سوال 2 : ہر شعر کے آخر میں آنے والے ہم آواز اور ہم وزن الفاظ کو قافیہ کہتے ہیں جبکہ قافیے کے بعد بار بار جوں کے توں دہرائے جانے والے الفاظ”ردیف”کہلاتے ہیں۔ اب آپ بتائیے۔

۱ :اس حمد میں ردیف کیا ہے؟

٭تو ہے(✓)
٭ہے
٭کہاں تو ہے
٭رازداں تو ہے

۲:اس حمد میں “قافیہ” کیا ہے؟

٭جہاں، کہاں، باغباں (✓)
٭تو ہے
٭ہے
٭بو تیری

سوال 3 : حمد میں شامل مندرجہ ذیل الفاظ کو اس طرح استعمال کریں کہ ان کی تذکیر و تانیث واضح ہو جائے۔

خلوت اللہ تعالیٰ خلوت میں بھی ہمارے ساتھ ہوتا ہے۔
جلوت ہمیں جلوت میں کسی کو بےعزت نہہں کرنا چاہیے۔
نشاں اللہ تعالیٰ کی ہر نعمت اس کی بادشاہی کا ایک نشان ہے۔
میزباں ہمارے دل کا میزباں اللہ تعالیٰ کی ذات ہونی چاہیے۔
چمن چمن کسی بھی جگہ کی خوبصورتی میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔
بو گلاب کے پھول کی بو بہت خوش گوار ہوتی ہے۔
جلوہ دن و رات کا بدلنا اللہ تعالیٰ کا جلوہ ہے۔

سوال 4 : اس حمد کا خلاصہ زیادہ سے زیادہ دس جملوں میں تحریر کریں۔

جواب : اس حمد کے شاعر امیر مینائی ہیں۔ اس حمد میں شاعر اللہ تعالیٰ کی ثنا بیان کررہے ہیں۔شاعر کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری آنکھ سے اوجھل ہے مگر وہ اس کائنات میں ہر جگہ موجود ہے اور اس کائنات کا زرہ زرہ اس موجودگی کا گواہ ہے۔ اللہ ہر پل ہر جگہ موجود ہے ، وہ ہماری تنہائی میں ہمارے ساتھ ہے اور ہزاروں لوگوں کے ہجوم میں بھی ہمارے ساتھ ہے اور وہی اللہ ہے جس نے اس کائنات کو خوب صورت رنگ و روپ بخشا ہے۔ حسین پھول اور ان کی محسور کن خوشبو تخلیق کی ہے اور صرف اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں کا رازدار ہے اور ان کے عیبوں پر پردہ ڈال کر ان کو رسوائی سے بچانے والا ہے۔ اس کائنات میں بس اللہ ہی اللہ ہے۔

سوال 5 : اس حمد کا مرکزی خیال ایک یا دو جملوں میں تحریر کریں۔

جواب : اس حمد میں امیر مینائی کہتے ہیں کہ اس کائنات کی ہر شے میں اللہ کی قدرت کا ظہور ہے۔ وہ ظاہر بھی ہے غائب بھی ہے، وہ خالق بھی ہے اور مالک بھی۔

سوال 6 :کسی اور شاعر کی کوئی اچھی سی “حمد” تلاش کرکے اپنی ڈائری میں لکھیں۔

حمدِ جنابِ باری
رکھ زباں پر جاری
کافی ہے وہ اکیلا
باقی ہے سب جھمیلا
وہ خالقِ جہاں ہے
وہ رازقِ جہاں ہے
حاکم ہے بحر و بر کا
مالک ہے خشک و تر کا
فرشِ زمیں اسی کا
عرشِ بریں اسی کا
ہر جا ظہور اس کا
ہر شے میں نور اس کا
ہر چیز میں نہاں ہے
ہر چیز سے عیاں ہے
سب سے قریب تر ہے
سب سے عجیب تر ہے
توصیف اس خدا کی
کیا لکھے مشتِ خاکی
بس کر کہ تیرے بس کا
ہر گز نہیں یہ قصہ