جشن بے چارگی

0

تعارفِ نظم

یہ شعر ہماری درسی کتاب کی نظم ”جشن بےچارگی“ سے لیا گیا ہے۔ اس نظم کے شاعر کا نام احسان دانش ہے۔

تعارفِ شاعر 

قاضی احسان الحق نام اور احسان تخلص تھا۔ ان کے والد قاضی دانش علی باغ پت ضلع میرٹھ کے رہنے والے تھے لیکن انہوں نے بعد میں کاندھلا میں سکونت اختیار کرلی۔ احسان یہیں 1913ء میں پیدا ہوئے۔ یوں تو احسان کے والد قاضی تھے اور ان کا نام قاضی دانش علی تھا۔ ان کے پاس اچھی خاصی جائیداد بھی تھی لیکن آہستہ آہستہ سب کا خاتمہ ہوگیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ انہیں بھی مزدوری کرنی پڑی۔ احسان کی تعلیم کا مسئلہ سامنے تھا۔ جب وہ چوتھے درجے میں آئے تو ان کی کتابوں کے لئے گھر کے برتن بھی بیچنے پڑے۔ تعلیم جاری رکھنا تقریباً ناممکن ہوگیا اور آخرکار یہ بھی اپنے والد کے ساتھ مزدوری کرنے لگے۔ آپ نے اپنی شاعری میں بھی مزدوروں اور غریب طبقے کے لوگوں کی جذبات کی عکاسی کی ہے اس لیے آپ کو شاعرِ مزدور بھی کہا جاتا ہے۔

ہے داغِ دل اک شام سیہ پوش کا منظر
تھا ظلمتِ خاموش میں شہزادۂ خاور

اس نظم میں شاعر ایک غریب خاندان میں ہونے والی شادی کا حال بیان کررہے ہیں۔ شاعر بیان کرتے ہیں کہ چونکہ شادی ایک غریب خاندان میں ہورہی تھی تو اس خوشی کے موقع پر بھی وہاں غم کے آثار ہی نظر آرہے تھے۔ شاعر کہتے ہیں کہ اس شادی میں دولہا دلہن اور باقی گھر والے تیار نہیں ہوئے تھے بلکہ پرانے کپڑوں میں ہی شادی میں شریک ہورہے تھے۔ شاعر نے اس شادی کی الم ناک منظر کشی کی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک سیاہ پوش شام کا منظر ہے، جب سب کے دل دکھ سے بھرے ہوئے تھے۔ ہر جانب خاموشی تھی اور اس خاموشی کے اندھیرے میں ایک خوبصورت شہزادہ یعنی دولہا اپنی دلہن کو لینے جارہا تھا۔

عالم میں مچلنے ہی کو تھے رات کے گیسو
انوار کے شانوں پہ تھے ظلمات کے گیسو

اس نظم میں شاعر ایک غریب خاندان میں ہونے والی شادی کا حال بیان کررہے ہیں۔ شاعر بیان کرتے ہیں کہ چونکہ شادی ایک غریب خاندان میں ہورہی تھی تو اس خوشی کے موقع پر بھی وہاں غم کے آثار ہی نظر آرہے تھے۔ شاعر کہتے ہیں کہ اس شادی میں دولہا دلہن اور باقی گھر والے تیار نہیں ہوئے تھے بلکہ پرانے کپڑوں میں ہی شادی میں شریک ہورہے تھے۔ شاعر نے اس شادی کی الم ناک منظر کشی کی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ دن ڈھلنے کے قریب تھا اور رات اپنے عروج پر آنے کو بےتاب تھی۔ دن میں موجود نور کے کندھوں تک اب رات کے اندھیرا پہنچ چکا تھا اور وہ نور اب اندھیرے کے پیچھے چھپ چکا تھا۔

یہ وقت اور اک دخترِ مزدور کی رخصت
اللہ قیامت تھی قیامت تھی قیامت

اس نظم میں شاعر ایک غریب خاندان میں ہونے والی شادی کا حال بیان کررہے ہیں۔ شاعر بیان کرتے ہیں کہ چونکہ شادی ایک غریب خاندان میں ہورہی تھی تو اس خوشی کے موقع پر بھی وہاں غم کے آثار ہی نظر آرہے تھے۔ شاعر کہتے ہیں کہ اس شادی میں دولہا دلہن اور باقی گھر والے تیار نہیں ہوئے تھے بلکہ پرانے کپڑوں میں ہی شادی میں شریک ہورہے تھے۔ شاعر نے اس شادی کی الم ناک منظر کشی کی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ رات کا اندھیرا چھا چکا تھا اور اب ایک مزدور کی بیٹی کے رخصت ہونے کا وقت ہوا چاہتا تھا۔ وہ لڑکی اب اپنے شوہر کے گھر جانے والی تھی اور آس پاس اب قیامت کا سا منظر نظر آرہا تھا۔

نوشاہ کہ جو سر پہ تھا باندھے ہوئے سہرا
بھرپور جوانی میں تھا اترا ہوا چہرا

اس نظم میں شاعر ایک غریب خاندان میں ہونے والی شادی کا حال بیان کررہے ہیں۔ شاعر بیان کرتے ہیں کہ چونکہ شادی ایک غریب خاندان میں ہورہی تھی تو اس خوشی کے موقع پر بھی وہاں غم کے آثار ہی نظر آرہے تھے۔ شاعر کہتے ہیں کہ اس شادی میں دولہا دلہن اور باقی گھر والے تیار نہیں ہوئے تھے بلکہ پرانے کپڑوں میں ہی شادی میں شریک ہورہے تھے۔ شاعر نے اس شادی کی الم ناک منظر کشی کی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ دلہے کے سر پر سہرا تو بندھا ہوا تھا لیکن اس کے چہرے پر شادابی ڈھونڈنے سے بھی نظر نہیں آرہی تھی۔ بلکہ دولہے کے جوان ہونے کے باوجود اس کا چہرہ اترا ہوا تھا۔

اندوہ ٹپکتا تھا بشاشت کی نظر سے
مرجھائے سے رخسار تھے فاقوں کے اثر سے

اس نظم میں شاعر ایک غریب خاندان میں ہونے والی شادی کا حال بیان کررہے ہیں۔ شاعر بیان کرتے ہیں کہ چونکہ شادی ایک غریب خاندان میں ہورہی تھی تو اس خوشی کے موقع پر بھی وہاں غم کے آثار ہی نظر آرہے تھے۔ شاعر کہتے ہیں کہ اس شادی میں دولہا دلہن اور باقی گھر والے تیار نہیں ہوئے تھے بلکہ پرانے کپڑوں میں ہی شادی میں شریک ہورہے تھے۔ شاعر نے اس شادی کی الم ناک منظر کشی کی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ دولہے کی آنکھوں میں بھی غم اور پریشانی صاف نظر آرہی تھی۔ اور دولہے کے رخسار اندر کی جانب دھنسے ہوئے تھے ، شاعر کہتے ہیں کہ رخساروں کا اندر کی جانب دھنسا ہونا اور اس غم و پریشانی کی وجہ فاقے معلوم ہوتے ہیں۔

کرتا بھی پرانا سا تھا پگڑی بھی پرانی
مجبور تھی قسمت کے شکنجوں میں جوانی

اس نظم میں شاعر ایک غریب خاندان میں ہونے والی شادی کا حال بیان کررہے ہیں۔ شاعر بیان کرتے ہیں کہ چونکہ شادی ایک غریب خاندان میں ہورہی تھی تو اس خوشی کے موقع پر بھی وہاں غم کے آثار ہی نظر آرہے تھے۔ شاعر کہتے ہیں کہ اس شادی میں دولہا دلہن اور باقی گھر والے تیار نہیں ہوئے تھے بلکہ پرانے کپڑوں میں ہی شادی میں شریک ہورہے تھے۔ شاعر نے اس شادی کی الم ناک منظر کشی کی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ دولہے نے جو کُرتا پہن رکھا تھا وہ پرانا تھا اور اس کے سر پر سجی پگڑی بھی پرانی تھی۔ وہ نوجوان اپنی قسمت کے شکنجے میں اس قدر پھنسا ہوا تھا کہ اپنی شادی پر نیا جوڑا بھی نہیں لے سکتا تھا۔

ہم راہ نفیری تھی، نہ باجا تھا، نہ تاشا
آنکھوں میں تھا بے مہری عالم کا تماشا

اس نظم میں شاعر ایک غریب خاندان میں ہونے والی شادی کا حال بیان کررہے ہیں۔ شاعر بیان کرتے ہیں کہ چونکہ شادی ایک غریب خاندان میں ہورہی تھی تو اس خوشی کے موقع پر بھی وہاں غم کے آثار ہی نظر آرہے تھے۔ شاعر کہتے ہیں کہ اس شادی میں دولہا دلہن اور باقی گھر والے تیار نہیں ہوئے تھے بلکہ پرانے کپڑوں میں ہی شادی میں شریک ہورہے تھے۔ شاعر نے اس شادی کی الم ناک منظر کشی کی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ اس بارات کے سنگ نہ بہت زیادہ لوگ تھے اور نہ ہی باجا بجانے والے تھے۔ شاعر کہتے ہیں کہ دولہے کی آنکھوں میں اس کی بے مہری کا تماشہ نظر آرہا تھا اور اس کی آنکھیں اس کی پریشانی کو صاف ظاہر کررہی تھیں۔

مجمع تھا یہ جس خستہ و افسردہ مکاں پر
تھا بھیس میں شادی کے وہاں عالمِ محشر

اس نظم میں شاعر ایک غریب خاندان میں ہونے والی شادی کا حال بیان کررہے ہیں۔ شاعر بیان کرتے ہیں کہ چونکہ شادی ایک غریب خاندان میں ہورہی تھی تو اس خوشی کے موقع پر بھی وہاں غم کے آثار ہی نظر آرہے تھے۔ شاعر کہتے ہیں کہ اس شادی میں دولہا دلہن اور باقی گھر والے تیار نہیں ہوئے تھے بلکہ پرانے کپڑوں میں ہی شادی میں شریک ہورہے تھے۔ شاعر نے اس شادی کی الم ناک منظر کشی کی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ مجمعے کی شکل میں آنے والی یہ بارات جس پرانے اور خستہ مکان پر موجود تھی وہاں شادی کی شکل میں محشر کا عالم سجا ہوا تھا اور وہاں تمام لوگ افسردہ تھے۔

دالان تھا گونجا ہوا رونے کی صدا سے
اک درد ٹپکتا تھا عرق ناک ہوا سے

اس نظم میں شاعر ایک غریب خاندان میں ہونے والی شادی کا حال بیان کررہے ہیں۔ شاعر بیان کرتے ہیں کہ چونکہ شادی ایک غریب خاندان میں ہورہی تھی تو اس خوشی کے موقع پر بھی وہاں غم کے آثار ہی نظر آرہے تھے۔ شاعر کہتے ہیں کہ اس شادی میں دولہا دلہن اور باقی گھر والے تیار نہیں ہوئے تھے بلکہ پرانے کپڑوں میں ہی شادی میں شریک ہورہے تھے۔ شاعر نے اس شادی کی الم ناک منظر کشی کی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ اس گھر کے صحن سے رونے کی آوازیں آرہی تھیں۔ اور وہاں چلتی ہوئی ہوا سے بھی عرق ناک قسم کا درد ٹپک رہا تھا۔

اماں کی تھی بیٹی کی جدائی سے یہ حالت
چیخوں میں ڈھلے جاتے تھے جذباتِ محبت

اس نظم میں شاعر ایک غریب خاندان میں ہونے والی شادی کا حال بیان کررہے ہیں۔ شاعر بیان کرتے ہیں کہ چونکہ شادی ایک غریب خاندان میں ہورہی تھی تو اس خوشی کے موقع پر بھی وہاں غم کے آثار ہی نظر آرہے تھے۔ شاعر کہتے ہیں کہ اس شادی میں دولہا دلہن اور باقی گھر والے تیار نہیں ہوئے تھے بلکہ پرانے کپڑوں میں ہی شادی میں شریک ہورہے تھے۔ شاعر نے اس شادی کی الم ناک منظر کشی کی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ دلہن کی ماں اپنی بیٹی سے جدا ہونے کا تصور کرتے ہی تکلیف سے تڑپ اٹھتی تھی اور اس کے یہ جذباتِ محبت چیخوں کی شکل میں سب کے سامنے آرہے تھے اور وہ زار و زار رو رہی تھی۔

تھا باپ کا یہ حال کہ اندوہ کا مارا
اٹھتا تھا تو دیوار کا لیتا تھا سہارا

اس نظم میں شاعر ایک غریب خاندان میں ہونے والی شادی کا حال بیان کررہے ہیں۔ شاعر بیان کرتے ہیں کہ چونکہ شادی ایک غریب خاندان میں ہورہی تھی تو اس خوشی کے موقع پر بھی وہاں غم کے آثار ہی نظر آرہے تھے۔ شاعر کہتے ہیں کہ اس شادی میں دولہا دلہن اور باقی گھر والے تیار نہیں ہوئے تھے بلکہ پرانے کپڑوں میں ہی شادی میں شریک ہورہے تھے۔ شاعر نے اس شادی کی الم ناک منظر کشی کی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ دلہن کا باپ بھی غم زدہ تھا۔ وہ جیسے ہی اٹھنے کی کوشش کرتا تھا غموں کے بوجھ سے لڑکھڑا جاتا اور اسے دیوار کا سہارا لینا پڑتا تھا۔

لڑکی کا یہ عالم تھا کہ آپے کو سمیٹے
گڑیا سی بنی بیٹھی تھی چادر کو سمیٹے

اس نظم میں شاعر ایک غریب خاندان میں ہونے والی شادی کا حال بیان کررہے ہیں۔ شاعر بیان کرتے ہیں کہ چونکہ شادی ایک غریب خاندان میں ہورہی تھی تو اس خوشی کے موقع پر بھی وہاں غم کے آثار ہی نظر آرہے تھے۔ شاعر کہتے ہیں کہ اس شادی میں دولہا دلہن اور باقی گھر والے تیار نہیں ہوئے تھے بلکہ پرانے کپڑوں میں ہی شادی میں شریک ہورہے تھے۔ شاعر نے اس شادی کی الم ناک منظر کشی کی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ جو دلہن تھی اس کا عالم یہ تھا کہ وہ اپنے آپ کو سمیٹ کر ایک گڑیا کی مانند بیٹھی ہوئی تھی۔ اس نے اپنے ارد گرد اچھے طریقے سے چادر کو پھیلایا ہوا تھا اور خاموشی سے وہاں بیٹھی ہوئی تھی۔

تھی پانو میں پازیب نہ پیشانی میں ٹیکا
اس خاکۂ افلاس کا ہر رنگ تھا پھیکا

اس نظم میں شاعر ایک غریب خاندان میں ہونے والی شادی کا حال بیان کررہے ہیں۔ شاعر بیان کرتے ہیں کہ چونکہ شادی ایک غریب خاندان میں ہورہی تھی تو اس خوشی کے موقع پر بھی وہاں غم کے آثار ہی نظر آرہے تھے۔ شاعر کہتے ہیں کہ اس شادی میں دولہا دلہن اور باقی گھر والے تیار نہیں ہوئے تھے بلکہ پرانے کپڑوں میں ہی شادی میں شریک ہورہے تھے۔ شاعر نے اس شادی کی الم ناک منظر کشی کی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ وہ لڑکی جو دلہن تھی وہ تیار بھی نہ ہوئی تھی۔ اس کے پاس زیور کے نام پر کچھ بھی موجود نہیں تھا، نہ ہی اس نے اپنے پاؤں کو پازیب سے سجایا تھا اور نہ ہی اس کی پیشانی پر ٹیکا لگا ہوا تھا۔ شاعر کہتے ہیں کہ اس غریب گھرانے میں پیدا ہونے والی، غربت کی ماری دلہن کا ہر رنگ پھیکا سا تھا۔

آخر نہ رہا باپ کو جذبات پہ قابو
تھرانے لگے ہونٹ ٹپکنے لگے آنسو

اس نظم میں شاعر ایک غریب خاندان میں ہونے والی شادی کا حال بیان کررہے ہیں۔ شاعر بیان کرتے ہیں کہ چونکہ شادی ایک غریب خاندان میں ہورہی تھی تو اس خوشی کے موقع پر بھی وہاں غم کے آثار ہی نظر آرہے تھے۔ شاعر کہتے ہیں کہ اس شادی میں دولہا دلہن اور باقی گھر والے تیار نہیں ہوئے تھے بلکہ پرانے کپڑوں میں ہی شادی میں شریک ہورہے تھے۔ شاعر نے اس شادی کی الم ناک منظر کشی کی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ دلہن کا باپ بہت غم زدہ تھا کہ اس کی لاڈلی بیٹی اب اس کے گھر سے رخصت ہورہی ہے۔ لیکن اس نے اپنے جذبات پر بندھ باندھا ہوا تھا لیکن آخر کار اس کا وہ بندھ ٹوٹ گیا اور دلہن کے والد کے ہونٹ کپکپانے لگے اور اس کی آنکھوں سے بے آواز آنسو گرنے لگے۔

کہنے لگا نوشہ سے اے جانِ پدر سن
اے وجہِ سکوں، لختِ جگر، نورِ نظر سن

اس نظم میں شاعر ایک غریب خاندان میں ہونے والی شادی کا حال بیان کررہے ہیں۔ شاعر بیان کرتے ہیں کہ چونکہ شادی ایک غریب خاندان میں ہورہی تھی تو اس خوشی کے موقع پر بھی وہاں غم کے آثار ہی نظر آرہے تھے۔ شاعر کہتے ہیں کہ اس شادی میں دولہا دلہن اور باقی گھر والے تیار نہیں ہوئے تھے بلکہ پرانے کپڑوں میں ہی شادی میں شریک ہورہے تھے۔ شاعر نے اس شادی کی الم ناک منظر کشی کی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ دلہن کے والد جب اپنے جذبات پر بندھ نہ باندھ سکے تو انھوں نے اپنے داماد کو مخاطب کیا اور کہنے لگے کہ میری جان، میرے سکون کی وجہ ، میرے جگر کے حصے، میری آنکھوں کے نور میری بات سنو۔

گرچہ مری نظروں میں ہے تاریک خدائی
حاضر ہے مری عمر کی معصوم کمائی

اس نظم میں شاعر ایک غریب خاندان میں ہونے والی شادی کا حال بیان کررہے ہیں۔ شاعر بیان کرتے ہیں کہ چونکہ شادی ایک غریب خاندان میں ہورہی تھی تو اس خوشی کے موقع پر بھی وہاں غم کے آثار ہی نظر آرہے تھے۔ شاعر کہتے ہیں کہ اس شادی میں دولہا دلہن اور باقی گھر والے تیار نہیں ہوئے تھے بلکہ پرانے کپڑوں میں ہی شادی میں شریک ہورہے تھے۔ شاعر نے اس شادی کی الم ناک منظر کشی کی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ دلہن کے والد نے اپنے داماد کو مخاطب کر کے کہا کہ میں حالانکہ کچھ زیادہ تو نہیں کرسکا لیکن میری عمر بھر کی کمائی جو کہ میری بیٹی ہے وہ میں تمھیں سونپ رہا ہوں، اور مجھے امید ہے کہ تم میری اس کمائی کی قدر کروگے اور اس کا خیال رکھو گے۔

اس سانولے چہرے میں تقدس کی ضیا ہے
یہ پیکرِ عفت ہے یہ فانوسِ حیا ہے

اس نظم میں شاعر ایک غریب خاندان میں ہونے والی شادی کا حال بیان کررہے ہیں۔ شاعر بیان کرتے ہیں کہ چونکہ شادی ایک غریب خاندان میں ہورہی تھی تو اس خوشی کے موقع پر بھی وہاں غم کے آثار ہی نظر آرہے تھے۔ شاعر کہتے ہیں کہ اس شادی میں دولہا دلہن اور باقی گھر والے تیار نہیں ہوئے تھے بلکہ پرانے کپڑوں میں ہی شادی میں شریک ہورہے تھے۔ شاعر نے اس شادی کی الم ناک منظر کشی کی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ دلہن کے والد نے اپنے داماد کو مخاطب کر کے کہا کہ میری بیٹی کے اس سانولے سے چہرے پر عزت کی روشنی ہے، جو اس کے چہرے کو روشن بناتی ہے۔ اور مزید یہ کہا کہ میری بیٹی سر سے پاؤں تک حیا والی ہے اور اس میں حیا و شرم موجود ہے۔

اس کے لئے چکی بھی نئی چیز نہیں ہے
بیٹی ہے مری دخترِ پرویز نہیں ہے

اس نظم میں شاعر ایک غریب خاندان میں ہونے والی شادی کا حال بیان کررہے ہیں۔ شاعر بیان کرتے ہیں کہ چونکہ شادی ایک غریب خاندان میں ہورہی تھی تو اس خوشی کے موقع پر بھی وہاں غم کے آثار ہی نظر آرہے تھے۔ شاعر کہتے ہیں کہ اس شادی میں دولہا دلہن اور باقی گھر والے تیار نہیں ہوئے تھے بلکہ پرانے کپڑوں میں ہی شادی میں شریک ہورہے تھے۔ شاعر نے اس شادی کی الم ناک منظر کشی کی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ دلہن کے والد اپنے داماد کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ میری بیٹی کے لیے چکی بھی نئی چیز نہیں ہے بلکہ میری بیٹی کی بچپن سے چکی سے واقفیت ہے کیونکہ وہ ایران کے بادشاہ پرویز کی نہیں بلکہ ایک عام سے مزدور کی بیٹی ہے۔

غربت میں یہ پیدا ہوئی غربت میں پلی ہے
خود داری و تہذیب کے سانچے میں ڈھلی ہے

اس نظم میں شاعر ایک غریب خاندان میں ہونے والی شادی کا حال بیان کررہے ہیں۔ شاعر بیان کرتے ہیں کہ چونکہ شادی ایک غریب خاندان میں ہورہی تھی تو اس خوشی کے موقع پر بھی وہاں غم کے آثار ہی نظر آرہے تھے۔ شاعر کہتے ہیں کہ اس شادی میں دولہا دلہن اور باقی گھر والے تیار نہیں ہوئے تھے بلکہ پرانے کپڑوں میں ہی شادی میں شریک ہورہے تھے۔ شاعر نے اس شادی کی الم ناک منظر کشی کی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ دلہن کے والد اپنے داماد کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ میری بیٹی نے پیدا ہوتے ہی غربت کا مقابلہ کیا ہے اور آج تک وہ غربت میں ہی رہی ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتی ہے بلکہ وہ بہت خود دار اور تہذیب یافتہ ہے اور اسے جتنا ملے اس پر صبر و شکر کرتی ہے۔

زنہار یہ زیور کی تمنا نہ کرے گی
ایسا نہ کرے گی کبھی ایسا نہ کرے گی

اس نظم میں شاعر ایک غریب خاندان میں ہونے والی شادی کا حال بیان کررہے ہیں۔ شاعر بیان کرتے ہیں کہ چونکہ شادی ایک غریب خاندان میں ہورہی تھی تو اس خوشی کے موقع پر بھی وہاں غم کے آثار ہی نظر آرہے تھے۔ شاعر کہتے ہیں کہ اس شادی میں دولہا دلہن اور باقی گھر والے تیار نہیں ہوئے تھے بلکہ پرانے کپڑوں میں ہی شادی میں شریک ہورہے تھے۔ شاعر نے اس شادی کی الم ناک منظر کشی کی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ دلہن کے والد اپنے داماد کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ میری بیٹی تم سے کبھی پیسوں اور زیور کی مانگ نہیں کرے گی۔ وہ ہمیشہ تمھارے ساتھ صبر و شکر کے ساتھ زندگی گزارے گی۔

شکوہ اسے تقدیر کا کرنا نہیں آتا
ادراک کی سرحد سے گزرنا نہیں آتا

اس نظم میں شاعر ایک غریب خاندان میں ہونے والی شادی کا حال بیان کررہے ہیں۔ شاعر بیان کرتے ہیں کہ چونکہ شادی ایک غریب خاندان میں ہورہی تھی تو اس خوشی کے موقع پر بھی وہاں غم کے آثار ہی نظر آرہے تھے۔ شاعر کہتے ہیں کہ اس شادی میں دولہا دلہن اور باقی گھر والے تیار نہیں ہوئے تھے بلکہ پرانے کپڑوں میں ہی شادی میں شریک ہورہے تھے۔ شاعر نے اس شادی کی الم ناک منظر کشی کی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ دلہن کے والد اپنے داماد کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ میری بیٹی کبھی بھی اپنی قسمت سے شکوہ نہیں کرتی ہے اور ہمیشہ صبر و شکر کے ساتھ زندگی گزارتی ہے۔ میری بیٹی کبھی بھی صبر کی سرحد کو پار نہیں کرتی ہے۔

ہے صبر کی خوگر اسے فاقوں کی ہے عادت
ماں باپ سے پائی ہے وراثت میں قناعت

اس نظم میں شاعر ایک غریب خاندان میں ہونے والی شادی کا حال بیان کررہے ہیں۔ شاعر بیان کرتے ہیں کہ چونکہ شادی ایک غریب خاندان میں ہورہی تھی تو اس خوشی کے موقع پر بھی وہاں غم کے آثار ہی نظر آرہے تھے۔ شاعر کہتے ہیں کہ اس شادی میں دولہا دلہن اور باقی گھر والے تیار نہیں ہوئے تھے بلکہ پرانے کپڑوں میں ہی شادی میں شریک ہورہے تھے۔ شاعر نے اس شادی کی الم ناک منظر کشی کی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ دلہن کے والد اپنے داماد کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ میری بیٹی کو صبر کرنے کی عادت ہے۔ اس نے فاقے بھی دیکھے ہیں لیکن ہم نے اسے قناعت پسندی کے ساتھ زندگی گزارنے کی سیکھ دی ہے۔ اس لیے یہ ہر مشکل میں تمھارا ساتھ دے گی۔

اسکی بھی خوشی ہو گی تمہاری جو رضا ہو
تم اس کے لئے دوسرے درجے پہ خدا ہو

اس نظم میں شاعر ایک غریب خاندان میں ہونے والی شادی کا حال بیان کررہے ہیں۔ شاعر بیان کرتے ہیں کہ چونکہ شادی ایک غریب خاندان میں ہورہی تھی تو اس خوشی کے موقع پر بھی وہاں غم کے آثار ہی نظر آرہے تھے۔ شاعر کہتے ہیں کہ اس شادی میں دولہا دلہن اور باقی گھر والے تیار نہیں ہوئے تھے بلکہ پرانے کپڑوں میں ہی شادی میں شریک ہورہے تھے۔ شاعر نے اس شادی کی الم ناک منظر کشی کی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ دلہن کے والد اپنے داماد کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ میری بیٹی کی خواہشات اب سے تمھاری خواہشات کے مطابق ہی ہوں گی۔ وہ تمھاری خوشی میں خوش رہے گی کیونکہ اب تم اس کے شوہر اور اس کے مجازی خدا ہو۔

پھر آ کے کہا بیٹی سے یہ نرم زباں سے
بچی مری رخصت ہے تو اب باپ سے ماں سے

اس نظم میں شاعر ایک غریب خاندان میں ہونے والی شادی کا حال بیان کررہے ہیں۔ شاعر بیان کرتے ہیں کہ چونکہ شادی ایک غریب خاندان میں ہورہی تھی تو اس خوشی کے موقع پر بھی وہاں غم کے آثار ہی نظر آرہے تھے۔ شاعر کہتے ہیں کہ اس شادی میں دولہا دلہن اور باقی گھر والے تیار نہیں ہوئے تھے بلکہ پرانے کپڑوں میں ہی شادی میں شریک ہورہے تھے۔ شاعر نے اس شادی کی الم ناک منظر کشی کی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ دلہن کے والد اپنی بیٹی کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ اب تم اپنے گھر جارہی ہو۔ اب تم مجھ سے اور اپنی ماں سے رخصت ہورہی ہو، اب تم اپنے گھر جاؤ اور اپنا گھر سنبھالو۔

امید ہے ہر بات کا احساس رہے گا
ماں باپ کی عزت کا بہت پاس رہے گا

اس نظم میں شاعر ایک غریب خاندان میں ہونے والی شادی کا حال بیان کررہے ہیں۔ شاعر بیان کرتے ہیں کہ چونکہ شادی ایک غریب خاندان میں ہورہی تھی تو اس خوشی کے موقع پر بھی وہاں غم کے آثار ہی نظر آرہے تھے۔ شاعر کہتے ہیں کہ اس شادی میں دولہا دلہن اور باقی گھر والے تیار نہیں ہوئے تھے بلکہ پرانے کپڑوں میں ہی شادی میں شریک ہورہے تھے۔ شاعر نے اس شادی کی الم ناک منظر کشی کی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ دلہن کے والد اپنی بیٹی کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ اب تم اپنے گھر جارہی ہو تو مجھے امید ہے کہ تم اب ہر بات کا خیال رکھو گی۔ اور اپنی اور اپنے ماں باپ کی عزت کا بھرم رکھو گی۔ اور ہمیشہ وہاں صبر و شکر سے زندگی گزارو گی۔

اے جانِ پدر دیکھ وفادار ہی رہنا
آئے جو قیامت بھی تو ہنس کھیل کے سہنا

اس نظم میں شاعر ایک غریب خاندان میں ہونے والی شادی کا حال بیان کررہے ہیں۔ شاعر بیان کرتے ہیں کہ چونکہ شادی ایک غریب خاندان میں ہورہی تھی تو اس خوشی کے موقع پر بھی وہاں غم کے آثار ہی نظر آرہے تھے۔ شاعر کہتے ہیں کہ اس شادی میں دولہا دلہن اور باقی گھر والے تیار نہیں ہوئے تھے بلکہ پرانے کپڑوں میں ہی شادی میں شریک ہورہے تھے۔ شاعر نے اس شادی کی الم ناک منظر کشی کی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ دلہن کے والد اپنی بیٹی کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ اے میری جان تم ہمیشہ اپنے شوہر سے وفا کرنا اور اس کی وفادار رہنا۔ اگر تم پر کبھی کوئی مصیبت آئے تو تم اس مصیبت کو سمجھ داری سے حل کرنا اور ہر مشکل کو مسکرا کر جھیل لینا

دل توڑ نہ دینا کہ خدا ساتھ ہے بیٹی
لاج اس مری داڑھی کی ترے ہاتھ ہے بیٹی

اس نظم میں شاعر ایک غریب خاندان میں ہونے والی شادی کا حال بیان کررہے ہیں۔ شاعر بیان کرتے ہیں کہ چونکہ شادی ایک غریب خاندان میں ہورہی تھی تو اس خوشی کے موقع پر بھی وہاں غم کے آثار ہی نظر آرہے تھے۔ شاعر کہتے ہیں کہ اس شادی میں دولہا دلہن اور باقی گھر والے تیار نہیں ہوئے تھے بلکہ پرانے کپڑوں میں ہی شادی میں شریک ہورہے تھے۔ شاعر نے اس شادی کی الم ناک منظر کشی کی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ دلہن کے والد اپنی بیٹی کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ اب تمھارے ساتھ تمھارا رب ہے۔ تم کبھی اپنا دل چھوٹا مت کرنا اور ہمیشہ صبر کرنا۔ دلہن کے والد اپنی بیٹی کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ اے میری بیٹی اب میری اس داڑھی کی لاج تمھارے ہاتھ میں ہے ، یعنی اب تم ہی میری عزت کا بھرم اپنے سسرال میں قائم رکھ سکتی ہو اور مجھے امید ہے کہ تم ایسا ہی کروگی۔

سوال ۱ : مندرجہ ذیل اشعار کی تشریح کیجیے :

عالم میں مچلنے ہی کو تھے رات کے گیسو
انوار کے شانوں پہ تھے ظلمات کے گیسو

اس نظم میں شاعر ایک غریب خاندان میں ہونے والی شادی کا حال بیان کررہے ہیں۔ شاعر بیان کرتے ہیں کہ چونکہ شادی ایک غریب خاندان میں ہورہی تھی تو اس خوشی کے موقع پر بھی وہاں غم کے آثار ہی نظر آرہے تھے۔ شاعر کہتے ہیں کہ اس شادی میں دولہا دلہن اور باقی گھر والے تیار نہیں ہوئے تھے بلکہ پرانے کپڑوں میں ہی شادی میں شریک ہورہے تھے۔ شاعر نے اس شادی کی الم ناک منظر کشی کی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ دن ڈھلنے کے قریب تھا اور رات اپنے عروج پر آنے کو بےتاب تھی۔ دن میں موجود نور کے کندھوں تک اب رات کے اندھیرا پہنچ چکا تھا اور وہ نور اب اندھیرے کے پیچھے چھپ چکا تھا۔

ہم راہ نفیری تھی نہ باجا تھا نہ تاشا
آنکھوں میں تھا بے مہریِ عالم کا تماشا

اس نظم میں شاعر ایک غریب خاندان میں ہونے والی شادی کا حال بیان کررہے ہیں۔ شاعر بیان کرتے ہیں کہ چونکہ شادی ایک غریب خاندان میں ہورہی تھی تو اس خوشی کے موقع پر بھی وہاں غم کے آثار ہی نظر آرہے تھے۔ شاعر کہتے ہیں کہ اس شادی میں دولہا دلہن اور باقی گھر والے تیار نہیں ہوئے تھے بلکہ پرانے کپڑوں میں ہی شادی میں شریک ہورہے تھے۔ شاعر نے اس شادی کی الم ناک منظر کشی کی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ اس بارات کے سنگ نہ بہت زیادہ لوگ تھے اور نہ ہی باجا بجانے والے تھے۔ شاعر کہتے ہیں کہ دولہے کی آنکھوں میں اس کی بے مہری کا تماشہ نظر آرہا تھا اور اس کی آنکھیں اس کی پریشانی کو صاف ظاہر کررہی تھیں۔

اس سانولے چہرے میں تقدس کی ضیا ہے
یہ پیکرِ عفت ہے یہ فانوسِ حیا ہے

اس نظم میں شاعر ایک غریب خاندان میں ہونے والی شادی کا حال بیان کررہے ہیں۔ شاعر بیان کرتے ہیں کہ چونکہ شادی ایک غریب خاندان میں ہورہی تھی تو اس خوشی کے موقع پر بھی وہاں غم کے آثار ہی نظر آرہے تھے۔ شاعر کہتے ہیں کہ اس شادی میں دولہا دلہن اور باقی گھر والے تیار نہیں ہوئے تھے بلکہ پرانے کپڑوں میں ہی شادی میں شریک ہورہے تھے۔ شاعر نے اس شادی کی الم ناک منظر کشی کی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ دلہن کے والد نے اپنے داماد کو مخاطب کر کے کہا کہ میری بیٹی کے اس سانولے سے چہرے پر عزت کی روشنی ہے، جو اس کے چہرے کو روشن بناتی ہے۔ اور مزید یہ کہا کہ میری بیٹی سر سے پاؤں تک حیا والی ہے اور اس میں حیا و شرم موجود ہے۔

شکوہ اسے تقدیر کا کرنا نہیں آتا
ادراک کی سرحد سے گزرنا نہیں آتا

اس نظم میں شاعر ایک غریب خاندان میں ہونے والی شادی کا حال بیان کررہے ہیں۔ شاعر بیان کرتے ہیں کہ چونکہ شادی ایک غریب خاندان میں ہورہی تھی تو اس خوشی کے موقع پر بھی وہاں غم کے آثار ہی نظر آرہے تھے۔ شاعر کہتے ہیں کہ اس شادی میں دولہا دلہن اور باقی گھر والے تیار نہیں ہوئے تھے بلکہ پرانے کپڑوں میں ہی شادی میں شریک ہورہے تھے۔ شاعر نے اس شادی کی الم ناک منظر کشی کی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ دلہن کے والد اپنے داماد کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ میری بیٹی کبھی بھی اپنی قسمت سے شکوہ نہیں کرتی ہے اور ہمیشہ صبر و شکر کے ساتھ زندگی گزارتی ہے۔ میری بیٹی کبھی بھی صبر کی سرحد کو پار نہیں کرتی ہے۔

سوال۲ : اس نظم میں شادی کے گھر کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے وہ اپنے الفاظ میں بیان کیجیے۔

جواب : اس نظم میں شاعر ایک غریب خاندان میں ہونے والی شادی کا حال بیان کررہے ہیں۔ شاعر بیان کرتے ہیں کہ چونکہ شادی ایک غریب خاندان میں ہورہی تھی تو اس خوشی کے موقع پر بھی وہاں غم کے آثار ہی نظر آرہے تھے۔ شاعر کہتے ہیں کہ اس شادی میں دولہا دلہن اور باقی گھر والے تیار نہیں ہوئے تھے بلکہ پرانے کپڑوں میں ہی شادی میں شریک ہورہے تھے۔ شاعر نے اس شادی کی الم ناک منظر کشی کی ہے۔ شادی والے گھر کا نقشہ بیان کرتے ہوئے شاعر کہتے ہیں کہ اس گھر کے در و دیوار سے غم ٹپک رہا تھا۔ وہاں کسی قسم کی خوشی کی رمق نظر نہ آتی تھی بلکہ ہر جانب افسردگی کا عالم تھا۔

سوال ۳ : اس نظم کا خلاصہ اپنے الفاظ میں لکھیے۔

جواب : اس نظم میں شاعر ایک غریب خاندان میں ہونے والی شادی کا حال بیان کررہے ہیں۔ شاعر بیان کرتے ہیں کہ چونکہ شادی ایک غریب خاندان میں ہورہی تھی تو اس خوشی کے موقع پر بھی وہاں غم کے آثار ہی نظر آرہے تھے۔ شاعر کہتے ہیں کہ اس شادی میں دولہا دلہن اور باقی گھر والے تیار نہیں ہوئے تھے بلکہ پرانے کپڑوں میں ہی شادی میں شریک ہورہے تھے۔ شاعر نے اس شادی کی الم ناک منظر کشی کی ہے۔ اس نظم میں شاعر کہتے ہیں کہ دولہا اپنی جوانی میں بھی قسمت کی ستم ظریفی کا شکار ہے۔ اور دلہن کے پاس بھی زیور کے نام پر کوئی شے موجود نہیں ہے۔ دلہن کے ماں باپ کا غم سے برا حال ہے اور دلہن کے والد اپنے داماد کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ میری عمر بھر کی کمائی میں تمھیں دے رہا ہوں، مجھے امید ہے تم اس کا خیال رکھو گے۔ اور پھر وہ اہنی بیٹی کو مخاطب کر کے اسے صبر و قناعت سے زندگی گزارنے کی نصیحت کرتے ہیں۔

سوال ۴ : احسان دانش کو ”شاعرِ مزدور“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ آپ اس نظم کو پڑھ کر بتائیے کہ یہ بات کہاں تک درست ہے۔

جواب : احسان دانش کو ”شاعرِ مزدور“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس نظم کو پڑھ کر اس بات پر یقین ہوجاتا ہے کہ احسان دانش شاعرِ مزدور ہیں کیونکہ وہ اپنی شاعری کے ذریعے مزدوروں اور غریب طبقے کے لوگوں کے جذبات کی عکاسی کرتے ہیں۔

سوال ۵ : آپ اس نظم میں تین شعر ایسے منتخب کیجیے جو آپ کو پسند ہوں اور اپنی پسندیدگی کی وجہ بھی لکھیے۔

عالم میں مچلنے ہی کو تھے رات کے گیسو
انوار کے شانوں پہ تھے ظلمات کے گیسو
ہم راہ نفیری تھی نہ باجا تھا نہ تاشا
آنکھوں میں تھا بے مہریِ عالم کا تماشا
شکوہ اسے تقدیر کا کرنا نہیں آتا
ادراک کی سرحد سے گزرنا نہیں آتا

مجھے یہ تین شعر پسند ہیں، کیونکہ ان اشعار میں شاعر نے نہایت عمدگی سے منظر کو پیش کیا ہے۔
اور غریبوں کے دکھ کی عکاسی کی ہے۔

سوال ٦ : جہیز کی رسم اور فضول خرچی کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں کیا مسائل پیدا ہوئے ہیں؟

جواب : جہیز کی رسم اور فضول خرچی کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں یہ مسائل پیدا ہوتے ہیں کہ بہت ساری لڑکیوں کی شادی اس وجہ سے نہیں ہو پاتی کہ ان کے گھر والے ان کے لیے بھاری جہیز جمع نہیں کر پاتے ہیں۔

سوال ۷ : شاعر نے غریب بچوں کی خوشی کو بے چارگی کیوں کہا ہے؟

جواب : شاعر نے غریب بچوں کی خوشی کو بے چارگی اس لیے کہا ہے کیونکہ وہ اپنی خوشی کو اچھے طریقے سے نہیں محسوس کرپاتے اور ان کی خوشی میں بھی غم کی رمق ہوتی ہے کیونکہ ان کے پاس اپنی خوشی منانے کے لیے وسائل موجود نہیں ہوتے ہیں۔