ڈپٹی نذیر احمد کی کہانی

0
  • سبق : ڈپٹی نذیر احمد کی کہانی
  • مصنف : مرزا فرحت اللہ بیگ
  • ماخوذ : ڈپٹی نذیر احمد کی کہانی کچھ ان کی کچھ اپنی زبانی

تعارفِ سبق

سبق ” ڈپٹی نذیر احمد کی کہانی“ کے مصنف کا نام ”مرزا فرحت اللہ بیگ“ ہے۔ یہ سبق کتاب ”ڈپٹی نذیر احمد کی کہانی کچھ ان کی کچھ اپنی زبانی“ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

تعارفِ مصنف

مرزا فرحت اللہ بیگ دلی ہندوستان میں ۱۸۸۴ء میں پیدا ہوئے۔ اسکول اور کالج کی تعلیم وہیں حاصل کی۔ تعلیم سے فارغ ہوکر حیدرآباد دکن چلے گئے۔ وہاں پہلے محکمہ تعلیم میں ملازم رہے۔ پھر محکمہ انتظامیہ میں ملازمت اختیار کر لی اور ترقی کرتے کرتے اسسٹنٹ سیکریٹری کے عہدے تک پہنچے۔ ان کے مضامین میں ”ڈپٹی نذیر احمد کی کہانی کچھ ان کی کچھ اپنی زبانی اور دہلی کا ایک یادگار مشاعرہ“ بہت مشہور ہیں۔ دہلی کی با محاورہ زبان، سنجیدہ ظرافت کے علاوہ واقعہ نگاری کے لحاظ سے بھی ان کے مضامین کو اردو نثر کے شہ پاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ مرزا فرحت اللہ بیگ کے مضامین کے مجموعے ”مضامین فرحت“ کے نام سے شائع ہو چکے ہیں۔ آپ کا انتقال ۱۹۴۷ء میں ہوا۔

خلاصہ

مصنف لکھتے ہیں کہ مولوی صاحب کا رنگ سانولا اور قد خاصہ اونچا تھا۔ بھاری بدن کی وجہ سے چونکہ قد چھوٹا معلوم ہوتا تھا اس لیے آپ اونچی ترکی ٹوپی پہنا کرتے تھے۔ آپ کی آنکھیں چھوٹی چھوٹی تھی اور بھنویں گھنی تھی۔ ناک چھوٹی تھی۔ آپ کی داڑھی بہت چھدری تھی۔

ڈپٹی نذیر صبح سویرے اٹھنے کے عادی تھے۔ آپ فجر اور عصر کی نماز باقاعدگی سے ادا کرتے تھے۔ صبح تلاوت کرتے پھر مولویوں کی جماعت کو پڑھاتے۔ اس جماعت سے فارغ ہو کر مولوی رحیم بخش صاحب کے ساتھ بیٹھ جاتے۔ پھر تصنیف و تالیف کا سلسلہ شروع ہوجاتا۔ پھر دوپہر کا کھانا کھاتے اور پھر مصنف اور ان کے ساتھی سے ملاقات کرتے۔ پھر آپ نہا دھو کر باہر کا چکر لگاتے اور ٹاؤن ہال کی لائبریری جاتے۔ وہاں سے عبد الرحمن کو پڑھانے جاتے اور پھر دس بجے سوجاتے۔ سردیوں میں ان کے معمولات میں کچھ تغیرات ہوتے البتہ وہ تمام کام ہی پورے کرتے تھے۔

مصنف بتاتے ہیں کہ ڈپٹی نذیر احمد نے ورزش کرنا چھوڑ دی تھی اور اس وجہ سے ان کا جسم کچھ اس طرح ہوگیا تھا کہ دیکھنے میں مرمروں کا تھیلا لگتا تھا۔ مصنف ڈپٹی نذیر احمد کی کاہلی کا حال بتاتے ہیں کہ اگر انہیں کبھی اپنی جگہ سے اٹھنا پڑتا تو وہ پہلے قطب بن کر بیٹھے رہتے اور یہ سوچتے کہ اٹھنا ضروری ہے یا اس اٹھنے کو ملتوی کیا جا سکتا ہے۔

مصنف ڈپٹی نذیر کے سر کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ڈپٹی نذیر گنجے تھے اور ان کا سر بہت بڑا تھا۔ مصنف بتاتے ہیں کہ ڈپٹی نذیر صاحب کے سر کے چاروں طرف بالوں کی جھالر تھی اور جو ترک ٹوپی وہ پہنا کرتے تھے اسے پہننے کے بعد یوں لگتا تھا جیسے یہ بال اس ٹوپی کی جھالر ہو۔ مصنف کہتے ہیں کہ ڈپٹی نذیر احمد سنجیدہ طبیعت کے مالک نہیں تھے لیکن ان کے وزن نے ان کی چال میں متانت پیدا کر دی تھی اور جب وہ چلتے تھے تو ان کو دور سے دیکھ کر معلوم ہوتا تھا کہ سنجیدہ قسم کا آدمی چلتا ہوا آ رہا ہے۔

ہم ان کی شخصیت سے یہ سیکھ سکتے ہیں کہ انسان کام کرنے کے ساتھ ساتھ ظرافت کا اعلیٰ نمونہ بھی ہوسکتا ہے اور اگر انسان اپنی روٹین پر عمل کرے تو اس کے بہت سے کام ہوجاتے ہیں۔

سوال ۱ : مرزا فرحت بیگ نے ڈپٹی نذیر احمد کا جو سراپا بیان کیا ہے اسے اپنے الفاظ میں لکھیے۔

جواب : مصنف لکھتے ہیں کہ مولوی صاحب کا رنگ سانولا اور قد خاصہ اونچا تھا۔ بھاری بدن کی وجہ سے چونکہ قد چھوٹا معلوم ہوتا تھا اس لیے آپ اونچی ترکی ٹوپی پہنا کرتے تھے۔ آپ کی آنکھیں چھوٹی چھوٹی تھی اور بھنویں گھنی تھی۔ ناک چھوٹی تھی۔ آپ کی داڑھی بہت چھدری تھی۔

سوال ۲ : ڈپٹی نذیر احمد کے روزانہ کےمعمولات لکھیے۔

جواب : ڈپٹی نذیر صبح سویرے اٹھنے کے عادی تھے۔ آپ فجر اور عصر کی نماز باقاعدگی سے ادا کرتے تھے۔ صبح تلاوت کرتے پھر مولویوں کی جماعت کو پڑھاتے۔ اس جماعت سے فارغ ہو کر مولوی رحیم بخش صاحب کے ساتھ بیٹھ جاتے۔ پھر تصنیف و تالیف کا سلسلہ شروع ہوجاتا۔ پھر دوپہر کا کھانا کھاتے اور پھر مصنف اور ان کے ساتھی سے ملاقات کرتے۔ پھر آپ نہا دھو کر باہر کا چکر لگاتے اور ٹاؤن ہال کی لائبریری جاتے۔ وہاں سے عبد الرحمن کو پڑھانے جاتے اور پھر دس بجے سوجاتے۔ سردیوں میں ان کے معمولات میں کچھ تغیرات ہوتے البتہ وہ تمام کام ہی پورے کرتے تھے۔

سوال ۳ : ڈپٹی نذیر احمد کی شخصیت سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟

جواب : ہم ان کی شخصیت سے یہ سیکھ سکتے ہیں کہ انسان کام کرنے کے ساتھ ساتھ ظرافت کا اعلیٰ نمونہ بھی ہوسکتا ہے اور اگر انسان اپنی روٹین پر عمل کرے تو اس کے بہت سے کام ہوجاتے ہیں۔

سوال۴ : ذیل فقروں کی وضاحت کیجیے :

(1) “ورزش چھوڑنے سے بدن جس طرح مرمروں کا تھیلا ہو جاتا ہے۔ بس یہی کیفیت تھی”

وضاحت : اس جملے میں دراصل مصنف یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ڈپٹی نذیر احمد نے ورزش کرنا چھوڑ دی تھی اور اس وجہ سے ان کا جسم کچھ اس طرح ہوگیا تھا کہ دیکھنے میں مرمروں کا تھیلا لگتا تھا۔

(2) اول تو قطب بنے بیٹھے رہے تھے۔

وضاحت : اس جملے میں مصنف ڈپٹی نذیر احمد کی کاہلی کا حال بتا رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر انہیں کبھی اپنی جگہ سے اٹھنا پڑتا تو وہ پہلے قطب بن کر بیٹھے رہتے اور یہ سوچتے کہ اٹھنا ضروری ہے یا اس اٹھنے کو ملتوی کیا جا سکتا ہے۔

(3) سر بہت بڑا تھا مگر بڑی حد تک اس کی صفائی کا انتظام قدرت نے اپنے اختیار میں رکھا تھا۔

وضاحت : اس جملے میں مصنف ڈپٹی نذیر کے سر کا ذکر کر رہے ہیں اور ان کے جملے سے مراد یہ ہے کہ ڈپٹی نذیر گنجے تھے اور ان کا سر بہت بڑا تھا۔

(4) بالوں کی یہ کگر سفید مقیش کی صورت میں ٹوپی کے کناروں پر جھالر کا نمونہ ہو جاتی تھی۔

وضاحت : اس جملے میں مصنف بتاتے ہیں کہ ڈپٹی نذیر صاحب کے سر کے چاروں طرف بالوں کی جھالر تھی اور جو ترک ٹوپی وہ پہنا کرتے تھے اسے پہننے کے بعد یوں لگتا تھا جیسے یہ بال اس ٹوپی کی جھالر ہو۔

(5) جسم کے بوجھ نے رفتار میں خودبخود متانت پیدا کردی تھی۔

وضاحت : اس جملے میں مصنف کہتے ہیں کہ ڈپٹی نذیر احمد سنجیدہ طبیعت کے مالک نہیں تھے لیکن ان کے وزن نے ان کی چال میں متانت پیدا کر دی تھی اور جب وہ چلتے تھے تو ان کو دور سے دیکھ کر معلوم ہوتا تھا کہ سنجیدہ قسم کا آدمی چلتا ہوا آ رہا ہے۔

سوال ۵ : اپنے دوست کو خط لکھیے جس میں اپنے کسی سفر کا روداد بیان کیجیے۔

پیارے دوست،
خوش رہو!
تم کیسے ہو اور باقی سب گھر والے کیسے ہیں؟ کافی دنوں سے تمھارا کوئی خط نہیں ملا تو سوچا آج تمھیں میں ہی خط لکھ دوں۔ جیسا کہ تم جانتے ہو کہ ہمارے امتحان ہونے والے ہیں تو میں نے اپنی تمام تر توجہ فلحال پڑھائی پر مرکوز کر رکھی ہے۔ اتنی سخت پڑھائی کے دور ایک دن ہمارے اساتذہ نے پکنک منانے کا فیصلہ کیا تاکہ تمام طلبہ کے دماغ تھوڑے فریش ہوسکیں۔ ہم کچھ روز قبل ہی سی سائڈ گئے اور مجھے وہاں بہت مزہ آیا۔

ہم سب نے یہ طے کیا تھا کہ ہم گھر سے تھوڑا تھوڑا کھانا بنا کر لائیں گے تاکہ کسی پر بھی کوئی بوجھ نہ پڑے۔ میں اپنے گھر سے کٹھے آلو بنوا کر لے گیا تھا۔ ہم سب لوگ صبح صبح اسکول پہنچے پھر اساتذہ کی رہنمائی میں بس میں سوار ہو کر کچھ دیر میں سی سائڈ پہنچ گئے۔ وہاں پر ہم سب پانی میں گئے اور خوب مزہ کیا۔ دس بجے کے بعد خوب مزے کر کے ہم سب پانی سے باہر آئے اور پھر ہم نے کرکٹ اور فٹبال کھیلا۔ کچھ اور تفریح کرنے کے بعد ہم نے کھانا کھایا۔ کھانا کھا کر ہم نے گھوڑے اور اونٹوں کی سواری کی پھر سپورٹ کار میں بھی بیٹھے۔ اس کے بعد ہم سب بس میں سوار ہوئے اور اسکول کی طرف روانہ ہوگئے۔ ہمیں بس میں بھی بہت مزہ آیا۔ اسکول پہنچتے پہنچتے ہمیں تین بج گئے تھے۔ اسکول آکر ہم سب نے اپنا اپنا سامان لیا اور ایک بھرپور دن گزار کر اپنے اپنے گھر کی جانب روانہ ہوگئے۔ اب ہم سب دوست خوب دل لگا کر دوبارہ پڑھائی کی جانب متوجہ ہوگئے ہیں۔ امید ہے تم بھی پڑھائی کررہے ہوگے لیکن پڑھائی کے ساتھ ساتھ تفریح بھی ضروری ہے تاکہ دماغ فریش ہوسکے۔ اس خط کا جواب ضرور لکھنا، تمھارے خط کا مجھے انتظار رہے گا۔
فقط تمھارا دوست
ا – ب – ج

سوال ۷ : پانچ ایسے مجہول جملے لکھیے جن میں فاعل کے ساتھ حرف فاعلی “کو “استعمال کیا گیا ہو۔

  • ۱) اس کو کھانا دیا گیا۔
  • ۲) علی کو قتل کردیا گیا۔
  • ۳) جنید کو سزا سنا دی گئی۔
  • ۴) دکان دار کو نقصان اٹھانا پڑا۔
  • ۵) ابو کو فائدہ ہوا۔

سوال ۸ : آپ ان حروف پر مبنی تین تین جملے بنائیے۔

  • ۱) تم خواہ پڑھائی کرو خواہ نہ کرو۔
  • ۲) خواہ تم کھانا کھاؤ خواہ نہ کھاؤ۔
  • ۳) خواہ تم باتیں کرو خواہ نہ کرو۔
  • ۱) چاہے تم پریشان ہو چاہے نہ ہو۔
  • ۲) چاہے تم مدد کرو چاہے نہ کرو۔
  • ۳) چاہے تم بات سنو چاہے نہ سنو۔