اردو ذریعہ تعلیم

0
  • سبق : اردو ذریعہ تعلیم
  • مصنف : ڈاکٹر سید عبداللہ

تعارفِ سبق : سبق ” اردو ذریعہ تعلیم“ کے مصنف کا نام ”ڈاکٹر سید عبداللہ“ ہے۔

خلاصہ

قومی زبان کے نفاذ کے لیے بہت سی مشکلات درپیش ہیں۔ قومی زبان کو اپنا حق منوانے کے لیے اپنی ہی قوم سے لڑنا پڑ رہا ہے۔ قومی زبان ہونے کے باوجود اس کو اسکولوں، کالجوں اور دفتروں میں استعمال کی اجازت نہیں۔ اور قومی زبان پر انگریزی زبان کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ قومی زبان کے سلسلے میں اصل کام یہ ہے کہ اس کو تعلیمی اداروں ، سرکاری اور غیری سرکاری دفاتر میں رائج کیا جائے۔ قومی زبان رابطے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

ذریعہ تعلیم اردو ہونے سے یہ فائدہ ہوگا ہے ہمیں ہماری قومی شنا خت ملے گی اور تعلیمی عمل میں آسانی ہوجائےگی، جو بھی چیز سمجھی جائے گی اس کو باآسانی لکھا جاسکے گا۔ جس سے کامیابی کی راہیں ہموار ہوتی جائیں گی۔

قائد اعظم نے مارچ 1948 میں ڈھاکا میں اردو کے بارے میں اعلان کیا تھا کہ صرف اردو ہی ملک کی سرکاری زبان ہو گی البتہ صوبائی دائرے میں بنگلہ کے حق میں فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ملک کی قومی زبان اردو صرف اردو ہوگی۔

شریف کمیشن نے اردو کے بارے میں سفارش پیش کی تھی کہ پہلی جماعت سے پانچویں جماعت تک (ماسوائے سرحد و سندھ)ذریعہ تعلیم اردو ہوگا۔ نور خان کمیشن میں اردو کے بارے میں سفارش پیش کی گئی تھی کہ پاکستانی قومیت کی رقح کے عین مطابق اس میں اردو زبان کا پلڑا انگریزی زبان سے بھاری ہوگا۔ اور دفتروں میں بھی مکمل اردوں زبان نافذ ہونی چاہیے۔

مقتدرہ قومی ، اردو سائنس بورڈ اور اردو لغت بورڈ نے اردو کی ترقی کے لیے چند کمیٹیاں ذریعہ تعلیم زبان ودفتری وغیرہ قائم کی۔ سائنس آرٹس ،کامرس ،بی اے، بی ایڈ اور ایل ایل بی اردو کو بطور ذریعہ تعلیم کیا۔

مصنف نے مختصر طریقہ سے ذریعہ تعلیم کے متعلق اپنے موقف کے بعض اجزاء کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اردو کو ہی ذریعہ تعلیم بنانا چاہیے کیونکہ ترقی کا دارومدار سائنس پر ہے انگریزی پر نہیں ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ہم انگریزی کے خلاف نہیں ہیں لیکن اردو کے خلاف ہونا بھی ہمیں منظور نہیں ہے۔

سوال ۱ : قومی زبان کے نفاذ کے لیے کیا مشکلات درپیش ہیں؟

جواب : قومی زبان کے نفاذ کے لیے بہت سی مشکلات درپیش ہیں۔ قومی زبان کو اپنا حق منوانے کے لیے اپنی ہی قوم سے لڑنا پڑ رہا ہے۔ قومی زبان ہونے کے باوجود اس کو اسکولوں، کالجوں اور دفتروں میں استعمال کی اجازت نہیں۔ اور قومی زبان پر انگریزی زبان کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔

سوال۲ : قومی زبان کے سلسلے میں اصل کام کیا باقی ہے؟

جواب : قومی زبان کے سلسلے میں اصل کام یہ ہے کہ اس کو تعلیمی اداروں ، سرکاری اور غیری سرکاری دفاتر میں رائج کیا جائے۔ قومی زبان رابطے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

سوال۳ : ذدیعہ تعلیم اردو ہونے سے کیا فائدہ ہوگا؟

جواب : ذریعہ تعلیم اردو ہونے سے یہ فائدہ ہوگا ہے ہمیں ہماری قومی شنا خت ملے گی اور تعلیمی عمل میں آسانی ہوجائےگی، جو بھی چیز سمجھی جائے گی اس کو باآسانی لکھا جاسکے گا۔ جس سے کامیابی کی راہیں ہموار ہوتی جائیں گی۔

سوال۴ : قائد اعظم نے مارچ 1948 میں ڈھاکا میں اردو کے بارے میں کیا اعلان کیا تھا؟

جواب : قائد اعظم نے مارچ 1948 میں ڈھاکا میں اردو کے بارے میں اعلان کیا تھا کہ صرف اردو ہی ملک کی سرکاری زبان ہو گی البتہ صوبائی دائرے میں بنگلہ کے حق میں فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ملک کی قومی زبان اردو صرف اردو ہوگی۔

سوال ۵ : شریف کمیشن نے اردو کے بارے میں کیا سفارش پیش کی تھی؟

جواب : شریف کمیشن نے اردو کے بارے میں سفارش پیش کی تھی کہ پہلی جماعت سے پانچویں جماعت تک (ماسوائے سرحد و سندھ)ذریعہ تعلیم اردو ہوگا۔

سوال ٦ : نور خان کمیشن میں اردو کے بارے میں کیا سفارش پیش کی گئی تھی؟

جواب : نور خان کمیشن میں اردو کے بارے میں سفارش پیش کی گئی تھی کہ پاکستانی قومیت کی رقح کے عین مطابق اس میں اردو زبان کا پلڑا انگریزی زبان سے بھاری ہوگا۔ اور دفتروں میں بھی مکمل اردوں زبان نافذ ہونی چاہیے۔

سوال ۷ : مقتدرہ قومی ، اردو سائنس بورڈ اور اردو لغت بورڈ نے اردو کی ترقی میں کیا کارنامے سرانجام دیئے ہیں؟

جواب : مقتدرہ قومی ، اردو سائنس بورڈ اور اردو لغت بورڈ نے اردو کی ترقی کے لیے چند کمیٹیاں ذریعہ تعلیم زبان ودفتری وغیرہ قائم کی۔ سائنس آرٹس ،کامرس ،بی اے، بی ایڈ اور ایل ایل بی اردو کو بطور ذریعہ تعلیم کیا۔

سوال ۹ : مصنف نے مختصر طریقہ سے ذریعہ تعلیم کے متعلق اپنے موقف کے بعض اجزاء کی طرف کیا اشارے کیے ہیں؟

جواب : مصنف نے مختصر طریقہ سے ذریعہ تعلیم کے متعلق اپنے موقف کے بعض اجزاء کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اردو کو ہی ذریعہ تعلیم بنانا چاہیے کیونکہ ترقی کا دارومدار سائنس پر ہے انگریزی پر نہیں ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ہم انگریزی کے خلاف نہیں ہیں لیکن اردو کے خلاف ہونا بھی ہمیں منظور نہیں ہے۔

سوال۱۰ : آپ چند ایسے جملے لکھیے جن میں رابطے کا استعمال کیا گیا ہو۔


حضرت علی کا قول ہے :
”یہ انسان تعجب کے قابل ہے کہ وہ چربی سے دیکھتا ہے اور گوشت کے لوتھڑے سے بولتا ہے اور ہڈی سے سنتا ہے اور ایک سوراخ سے سانس لیتا ہے۔“

غالب اپنے شعر میں کیا خوب کہا ہے :
”ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے“

ایک مشہور کہاوت ہے :
”گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے۔“