سمندر کا دل

0
  • سبق : سمندر کا دل
  • مصنف : میرزا ادیب
  • ماخوذ از : لہو اور قالین

تعارفِ سبق

سبق ” سمندر کا دل “ کے مصنف کا نام ”میرزا ادیب “ ہے۔ یہ سبق انکی کتاب ”لہو اور قالین“ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

تعارفِ مصنف

میرزا ادیب ۴ اپریل ۱۹۱۴ کو لاہور میں پیدا ہوئے۔میرزا ادیب آپ کا قلمی نام تھا۔ آپ کا اصل نام دلاور حسین علی ہے۔ میرزا ادیبنے اسلامیہ کالج لاہور سے بے اے کیا۔ ابتدا میں شاعری کو ذریعہ اظہار بنایا مگر پھر نثر کو اپنی شناخت بنا لیا۔انھوں نے افسانہ نگاری اور ڈراما نویسی میں بہت نام کمایا۔ مرزا ادیب ریڈیو پاکستان سے بھی وابستہ رہے۔ مرزا ادیب ۳۱ جولائی ۱۹۹۹ کو ۸۵ برس کی عمر میں در فانی سے کوچ کر گئے۔

خلاصہ

میرزا ادیب کا ڈراما سمندر کا دل میں ۵ کردار ہیں۔ حسناں مرکزی کردار ہے۔ عباس اس کا شوہر ہے اور رکھی حسناں کی پڑوسن ہے جبکہ شبیر پڑوسن کا بیٹا ہے اور صغری دس سالہ بچی ہے۔ ڈرامے کے آغاز میں کمرے کی سجاوٹ ہو رہی ہے۔ جس میں فیڈر، جھولا، گرائے واٹر اور دیوار پر معصوم بچے کی تصویر لگی ہے۔ حسناں اپنے پوتے کا کمرہ سجا رہی ہے۔ حسناں جوان بیٹے کی موت کے بعد بہو اور پوتے کے آنے کی خبر سن کر خوش ہے۔ حسناں سب تیاریاں کر رہی ہے اور اس کی پڑوسن رکھی اس کا ہاتھ بٹا رہی ہے۔ حسناں بہت حساس طبع ہے جو فیڈر کو گرم پانی سے نہ دھونے پر پریشان ہو گئی اور اسے دھو کر لائی۔

اس دوران اس کے دماغ میں محلے کی عورت کے بچے کے انتقال کی بات بھی گھوم رہی تھی۔ رکھی اور حسناں آپس میں بچوں پر باتیں کرتے ہیں اور مہمانوں کے لیے منگوائی گئی میٹھائی پر باتیں کرنے لگتیں ہیں۔ اتنے میں کمرے میں صغری دس سالہ لڑکی آتی ہے اور آپا کہتی ہے جس کا تخاطب حسناں کی بہو ہے۔ وہ خوشی میں ڈول بجانے کی اجازت مانگتی ہے جو کہ حسناں دے دیتی ہے۔ شبیر آکر گاڑی کے حادثے کی اطلاع دیتا ہے ،جس سے حسناں کا دل تڑپ جاتا ہے۔ مگر جلدی ہی عباس آکر اطلاع کرتا ہے کہ سعیدہ یعنی حسناں کی بہو اس گاڑی سے نہیں آئی۔ سب شکر کے کلمات ادا کرتے ہیں مگر اتنے میں صغریٰ ایک تار لیے اندر داخل ہوتی ہے جس سے معلوم پڑتا ہے کہ بچے کا انتقال ہو گیا ہے۔ حسناں کا دل بیٹھ جاتا ہے۔ اس کا دل سمندر کے ایسا ہے جس میں چپ چاپ کتنے ہی دکھ چھپے ہیں۔

سوال ۱ : حسناں نے اپنی بہو اور پوتے کے آنے کی خبر سن کر گھر میں کیا کیا انتظامات کر رکھے تھے؟

جواب : حسناں نے جب اپنے بہو اور پوتے کے آنے کی خبر سنی وہ فورا گھر کی سجاوٹ و آرائش میں مگن ہو گئی۔ پوتے کے لیے فیڈر، دودھ اور جھولے کا بندوبست کروایا۔ مہمانوں کے استقبال کے لیے مٹھائی منگوائی اور جتن میں لگ گئی۔

سوال ۲ : حسناں کے کن الفاظ سے یہ پتا چلتا ہے کہ قدرت اسے ایک اور دکھ سے دو چار کرنے والی تھی؟

جواب : حسناں نےگھر کی صفائی کروائی جب اسے اطلاع موصول ہوئی کہ اس کی بہو اور پوتا جس گاڑی سے آنے والے تھے اس کی ٹکر ہو گئی ہے تو وہ ملول ہو گئی۔ رکھی اسے تسلیاں دیتی مگر حسناں کا خود پر اختیار نہ رہا اور نادانستگی میں رکھی کو رد کر بیٹھی۔ اس کے اپنے ہی منہ سے ادا ہونے والے الفاظ سے علم ہوتا ہے کہ قدرت اسے ایک اور دکھ سے دوچار کرنے والی ہے۔

سوال ۳ : اس ڈرامے میں حسناں جس طرح پے در پے امید اور ناامیدی کی کیفیت سے گزرتی ہے اس کا نقشہ اپنے الفاظ میں کھینچیے۔

جواب : حسناں جب اس خبر کو سنتے ہی رنج و ملول میں مبتلا ہو جاتی ہے کہ جس ٹرین سے اس کی بہو اور پوتا آنے والے تھے اس کی ٹکر لگ گئی ہے، تو وہ سخت ناامیدی کے گھیرے میں آجاتی ہے۔مگر جب اس خبر کی تردید ہوتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس ٹرین میں سوار ہی نہیں ہوئے تو وہ نا امیدی سے امید کی کیفیت کا سفر کرتی ہے۔

سوال ۴ : اس ڈرامے کا عنوان “سمندر کا دل” کیوں رکھا گیا ہے؟

جواب : اس ڈرامے کا نام سمندر کا دل ایک تمثیل ہے۔ اس عنوان میں دل کو سمندر کے ساتھ مشابہت دی گئی ہے۔ جیسے سمندر کی وسعت لامکاں ہے جس میں پہاڑ برف کے تودے اور پانی کی وافر مقدار ہوتی ہے، جس میں بہت سی اشیاء مبہم ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح ایک دل میں بہت سے دکھ درد سمو جاتے ہیں۔ اسی طرح ایک ماں کا دل سمندر کے ایسے ہوتا ہے جس میں دنیا جہاں کے لاکھوں دکھ پناہ لیے ہوتے ہیں۔

سوال ۵ : اس ڈرامے کا جو کردار آپ کو سب سے زیادہ پسند ہو اس کی خصوصیات بیان کیجیے۔

جواب : مجھے اس ڈرامے میں سب سے زیادہ حسناں کا کردار پسند آیا، کیونکہ اس کردار کے ذریعے ہمارے معاشرے کی عام عورتوں کی عکاسی کی گئی ہے۔ جو ایک دکھ کے بعد دوسرے ہی لمحے کسی اور خوشی کو یاد کر کے اپنے دل کو بہلا لیتی ہیں اور ہر دکھ پر صبر کرتی ہیں اور اپنے آس پاس کے لوگوں کے لئے ہمیشہ مطمئن اور خوش نظر آتی ہیں اور ہر دکھ کو اپنے دل کے اندر سمو لیتی ہیں۔

سوال ٦ : ذیل کی عبارت کا مطلب اپنے الفاظ میں بیان کیجیے :

”ماں کا دل تو ایک سمندر ہوتا ہے، ایک اتھاہ سمندر جس میں دکھوں غموں کے ہزاروں پہاڑ چپ چاپ سما جاتے ہیں۔ دیکھنے والوں کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ اس سمندر کی تہ میں کیا کچھ ڈوب چکا ہے۔ ماں تو دکھ سہنے اور صبر کرنے کے لیے پیدا ہوئی ہے۔“

حوالہ سبق : یہ اقتباس ہماری بارہویں جماعت کی کتاب کے سبق ” سمندر کا دل“ سے لیا گیا ہے۔ اس سبق کے مصنف کا نام ” میرزا ادیب“ ہے۔

تشریح

اس اقتباس میں دراصل حسناں رکھی کو جواب دے رہی ہے اور کہتی ہے کہ ماؤں کا دل تو سمندر جیسا ہوتا ہے۔ جس میں بہت سارے دکھ پنہاں ہوتے ہیں اور ماؤں کو اپنی اولاد اور ان کی اولاد کے لیے صبر کرنا ہی پڑتا ہے۔ حسناں کہتی ہے کہ چپ چاپ غموں کے پہاڑ کو اپنے اندر اتار لینا اور صبر کرنا یہ ایک ماں کی خاصیت ہے اور اگر ماں ایسا نہیں کرے گی تو اپنی اولاد کی پرورش نہیں کرسکے گی۔

سوال ۷ : ایسے پانچ فعل متعدی والے جملے لکھیے جن میں فاعل کے ساتھ ساتھ حرف فاعل ہو اور دو مفعول ہوں جن میں سے ایک کے ساتھ حرف استعمال کیا گیا ہو لیکن دوسرے کے ساتھ حرف نہ ہو۔

(1) فرید نے علی کو بلا دیا۔
(2) عدیل نے معین کو پیسے دیئے۔
(3) شاہدہ نے حبیبہ کا ناخن تراش دیا۔
(4) شعیب نے عامر کی طرف گیند اچھالا۔
(5) آفریدی نے اکمل کو سائیکل دی۔

سوال ۸ : آپ اس طرح کے تین جملے بنائیے یا کوئی شعر یاد ہو تو لکھیے۔

بخت دشمن بلند تھے ورنہ
کوہکن نے بھی سر کو پھوڑا تھا
میر تقی میر
دیکھیے تو ہے کارواں ورنہ
ہر مسافر سفر میں تنہا ہے
جمیل نظر
جان لیوا تھیں خواہشیں ورنہ
وصل سے انتظار اچھا تھا
جون ایلیا