آرام و سکون

0

تعارفِ سبق

سبق ” آرام و سکون “ کے مصنف کا نام ”امتیاز علی تاج “ ہے۔

تعارفِ مصنف

امتیاز علی تاج کا جنم ۱۳ اکتوبر ۱۹۰۰ کو لاہور پنجاب میں ہوا۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے آنرز کیا اور پھر ایم اے انگریزی میں داخلہ لیا مگر امتحان نہ دے سکے۔ تاج کالج کے ذہین ترین طالب علم تھے۔ اپنے کالج کی ثقافتی و ادبی سرگرمیوں میں متحرک اور فعال رہتے تھے۔ ڈرامہ اور مشاعرہ سے انہیں خاص دل چسپی تھی۔ شاعری کا شوق بچپن سے تھا۔ غزلیں اور نظمیں کہتے تھے۔ تاج ایک اچھے افسانہ نگار بھی تھے۔ انہوں نے 17 سال کی عمر میں ’شمع اور پروانہ‘ کے عنوان سے پہلا افسانہ لکھا۔ تاج ایک عمدہ ترجمہ نگار بھی تھے۔ انہوں نے آسکر وائلڈ، گولڈ اسمتھ، ڈیم تر یوس، مدرس تیول، کرسٹین گیلرڈ وغیرہ کی کہانیوں کے ترجمے کیے ہیں۔ امتیاز علی تاج نے ۱۹ اپریل ۱۹۷۰کو دنیا فانی سے کوچ کیا۔ آپ کو لاہور میں مدفن کیا گیا۔

خلاصہ

صاحب خانہ ایک سرکاری ملازم تھے جو تواتر سے کام کرنے کی وجہ سے بیمار پڑ گئے اور ڈاکٹر صاحب نے انھیں دوا تجویز کرنے کے بجائے آرام کرنے کی ہدایت دی۔ صاحب خانہ ایک دن دفتر سے چھٹی لے کر گھر آرام و سکون کے لیے آگئے۔ ڈاکٹر کے جاتے ہی بیوی نے ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق سب کو تلقین کی کہ کوئی شور نہ کرے مگر وہ خود پر یہ اصول لاگو کرنا بھول گئی۔ ڈاکٹر کے بیگ کو باہر لے جانے کے لیے نوکر للو کو چلا چلا کر بلانےلگی۔ ڈاکٹر نے اس پر بیوی کو میاں کے آرام و سکون کا خیال رکھنے کی دوبارہ تاکید کی۔ بیوی نے اپنی جانب سے مکمل طور پر تسلی دی مگر ڈاکٹر کے جاتے ہی سب باتیں ہوا کر دیں اور اپنی فضول گوئی سے میاں کا سکون برباد کیا۔

پانی والے کی آوازیں آنے لگی تو بیوی اس پر چلائی۔ للو آیا تو بیوی اس پر برس پڑی۔ بچے پر چلائی کہ باپ بیمار ہے تم رونا بند کرو۔ اس کے فوراً بعد کمرے میں جھاڑو کی آواز بلند ہونے لگی، تو میاں نے بیزاری سے اسے منع کیا۔ پھر ٹیلیفون بار بار بجنے لگا۔ ٹیلیفون بند ہوا تو پڑوسی کے لڑکا نے ہارمونیم بجانا شروع کر دیا۔ وہ روز ریاضت کیا کرتا تھا۔ اس کے بعد بچہ گر پڑا اور رونے لگا، اس کے خون نکل آیا۔ بچہ ابھی چپ نہ ہوا تھا کہ فقیر صدا دینے لگا۔ للو نے ریٹھے کو کوٹنا شروع کر دیا تھا۔ میاں نے تمام شور کے ماحول سے اٹھ کر بیوی سے کہا میری ٹوپی اور شیروانی دے دو۔ بیوی گویا ہوئی کیوں؟ میاں نے کہا دفتر جا رہا ہوں۔ وجہ دریافت کرنے پر کہنے لگے آرام و سکون حاصل کرنے کے لیے۔

سوال ۱ : میاں کو آرام کی ضرورت کیوں تھی؟

جواب : میاں کو آرام کا مشورہ ڈاکٹر صاحب نے اس لیے دیا تھا کہ میاں جی دفتری کام کاج میں اتنے مصروف تھے کہ انھوں نے اپنے آرام کو پس پشت ڈال دیا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ بیمار پڑگئے، ڈاکٹر نے ہدایات دیں کہ وہ دوا سے بھلا ایک آدھ دن دفتر سے ناغہ کرکے آرام کریں۔

سوال ۲ : بیوی نے میاں کے آرام کے لیے کیا کیا جتن کیے؟

جواب : بیوی ایک سادہ لوح بھلی مانس تھی۔ وہ سب کو ہدایت کرتی کہ شور و غل نہ کریں مگر اسے اپنی اونچی آواز کا رتی برابر اندازہ نہ تھا۔بیوی نے میاں کے لیے غذا کا بھی خیال رکھنے کی کوشش کی مگر اس سب میں سب سے زیادہ شور وہ خود ہی کررہی تھی اور اپنے میاں کا سکون برباد کر رہی تھی۔

سوال ۳ : میاں کو گھر میں آرام کیوں نہ مل سکا؟

جواب : میاں دفتر سے چھٹی لے کر گھر آرام کی نیت سے رکا تھا مگر اس کی بیوقوف بیوی کبھی نوکر کو ڈانٹتی، تو کبھی بچے کو کوستی۔ جس سے گھر میں خومشی کا ایک پل میسر نہ تھا۔پڑوسی کا بچہ گانے کی مشق کررہا تھا، فون کی گھنٹی اور فقیر کی صدائیں سب مل کر بہت زیادہ شور ہورہا تھا جسے سن کر میاں نے سوچا مجھے گھر کے بجائے دفتر مین زیادہ سکون میسر ہوتا ہے۔ لہذا وہ ٹوپی اور شیروانی اٹھاکر دفتر چل دیا۔

سوال ۴ : اس ڈرامے میں سرکاری دفتروں کی حالت پر کیا لطیف طنز کیا گیا ہے؟

جواب : اس ڈرامے میں بتایا گیا کہ سرکاری دفتر میں لوگ اس قدر مصروف ہوتے ہیں کہ ملازمین بیمار پڑجاتے ہیں۔ مگر جب ان کو ڈاکٹر آرام کی ہدایت کرتے ہیں تو گھر میں بیوی دفتر سے زیادہ شور وغل برپا کرتی ہے۔ دفتر کے مصروف ماحول کے عادی بیوی کے شور پر دفتر کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔

سوال ۵ : اس ڈرامے میں کون سا کردار آپ کو پسند آیا اور کیوں؟

جواب : اس ڈرامے کا مرکزی کردار بیوی کا ہے جو مجھے بہت پسند آیا۔ اس کی حرکات پُرلطف ہیں اور اس کی بیوقوفیاں اور نادانستہ طور پر میاں کا سکون برباد کرنے والی حرکت بہت سی ان پڑھ عورتوں کی عکاسی کرتی ہیں۔ یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ ہم تربیت یافتہ نہیں، ہمیں اخلاقیات سیکھنے چاہیے۔

سوال ٦ : ذیل عبارت کا مفہوم اپنےالفاظ میں بیان کیجیے :

“بیسیوں مرتبہ کہہ چکی ہوں۔ اتنا کام نہ کیا کرو،نہ کیا کرو۔ نصیب دشمناں صحت سے ہاتھ دھو بیٹھو گے۔ مگر خاک اثر نہیں ہوتا۔ ہمیشہ یہی کہہ دیتے ہیں، کیا کیا جائے۔ ان دنوں کام بے طرح زور پر ہے۔”

حوالہ سبق : یہ اقتباس ہماری بارہویں جماعت کی کتاب کے سبق ” آرام و سکون“ سے لیا گیا ہے۔ اس سبق کے مصنف کا نام ”امتیاز علی تاج“ ہے۔

تشریح

اس اقتباس میں دراصل مصنف اس جانب اشارہ کررہے ہیں کہ جب سرکاری ملازم بیمار ہوئے اور ڈاکٹر صاحب نے آرام کی ہدایت دی تو ان کی بیگم کہنے لگی کہ یہ ہر وقت کام کرتے رہتے ہیں۔ میں نے کہتی بھی ہوں کہ کبھی کبھی آرام بھی کر لیا کریں لیکن یہ ہر وقت یہی کہتے ہیں کہ اس وقت کام بہت زیادہ ہے آرام بعد میں کروں گا۔ اور میری کوئی بات نہیں سنتے اور اب یہ بیمار ہو بیٹھے ہیں۔ میں نے کہا بھی تھا کہ اگر آپ اس قدر مصروف رہیں گے تو بیمار ہو جائیں گے اور اپنی صحت سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔

سوال ۷ : مندرجہ ذیل محاورات کی وضاحت کیجیے :

پر نہ مارنا : نہ آ سکنا۔
بدن ٹوٹنا : بہت زیادہ تکلیف ہونا۔
کان پر جوں نہ رینگنا : نظر انداز کرنا۔
قیامت آنا : شور برپا ہو جانا۔
دفتر لکھنا : دفتر جانا۔
طرح دینا : دہائی دینا۔
دل ہونے میں نہ آنا : دل قابو میں نہ ہونا۔

سوال ۸ : آپ اسی انداز پر “یا” کو حروف تردید کے طور پر استعمال کیجیے۔

اسے کھانا دیا ہے + یا وہ کھاتا ہے یا نہیں کھاتا۔