ہمسفر

0

سبق : ہمسفر
مصنف : انتظار حسین
ماخوذ : جنم کہانیاں

تعارفِ سبق : سبق ” ہمسفر “ کے مصنف کا نام ”انتظار حسین “ ہے۔ یہ سبق کے آپ کی کتاب ”جنم کہانیاں“ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

تعارفِ مصنف

انتظار حسین اردو افسانے کا ایک معتبر نام ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اسلوب اور بدلتے لہجوں کے باعث وقت کے افسانہ نگاروں کے لیے بڑا چیلنج تھے۔ ان کی اہمیت یوں بھی ہے کہ انہوں نے داستانوی فضا، اس کی کردار نگاری اور اسلوب کا اپنے عصری تقاضوں کے تحت برتاؤ کرنا چاہا۔ ان کی تحریروں کو پڑھ کر حیرت کا ایک ریلا سا آتا ہے جس کی بنا پر ان کے سنجیدہ قارئین کے پاؤں اکھڑ جاتے ہیں۔ عموماً ان کی خود ساختہ صورت حال حقیقت سے بہت دور ہوتی ہے۔

خلاصہ

اسے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ غلط نمبر کی بس میں سوار ہے۔ عجلت و اندھیرے کی وجہ سے وہ بس کا نمبر نہ دیکھ پایا تھا۔ مگر جیسے اس کے علم میں آیا کہ وہ غلط بس میں سوار ہے اس نے فوراً اترنے کا سوچا۔ مگر جب تک اس نے سوچا بس چل پڑی۔ بس کی رفتار اب تیز معلوم ہونے لگی تھی۔ نوجوان کو اپنے دوست یاد آنے لگے کہ جو روزگار کے سلسلے میں ملک سے باہر جا چکے تھے۔ وہ ہر اسٹاپ پر دیکھتا، مگر اسے اترنے کا موقع نہ ملتا۔ وہ لوگوں سے دریافت کرتا موڈل ٹاؤن کا مگر لوگ نفی میں سر ہلا دیتے۔ بس کی دھکم پیل دیکھ کر وہ سوچنے لگا کہ اچھا ہوا اس کے دوست اس ملک کو چھوڑ گئے۔ بس کے سفر سے اسے ہجرت کے وقت ٹرین کا سفر یاد آنے لگا۔ پھر اسے یہ خیال آیا اس نے ابھی تک ٹکٹ نہیں خریدا۔ اب کنڈیکٹر اس کے قریب آیا، نوجوان نے اس سے ماڈل ٹاؤن کا ٹکٹ مانگا۔ کنڈیکٹر نے پیسے لیے اور بقیہ ٹکٹ کے ساتھ واپس کر دیئے۔ پھر اس کے من نے چاہا وہ سب کو کہے کہ سب غلط بس میں سوار ہو گئے ہیں، مگر خودی اپنے اس گمان کی نفی میں اس نے اعتراف کیا کہ صرف وہی غلط بس میں سوار ہے۔

اس بس کے سفر کو دیکھ کر اس کے دل میں خیال آیا کہ کیسے ایک ہی بس بیک وقت درست اور غلط سمت میں جا رہی ہے۔ اپنے اس خیال کے رد میں اس نے سوچا کہ بسیں غلط نہیں ہوتیں، اس میں سوار لوگ درست یا غلط ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ بیٹھے لڑکے نے اس کے کاندھے پر سر رکھ لیا اور سو گیا۔ اسے پہلے یوں لگا کہ اس کا ہمسفر آرام کر رہا ہے، پھر اس نے جان لیا کہ پوری بس میں اس کا ہمسفر تو کوئی ہے ہی نہیں۔ وہ کھڑکی سے باہر جھانکنے لگا، وہ دیکھتا ہے کہ بہت سے لوگ بس سے اتر گئے اور پھر وہ سوچنے لگا اگلے اسٹاپ پر بھی بہت سے لوگ اتر جائیں گے، کہیں یہ نہ ہو وہ بس میں اکیلا رہ جائے۔پھر وہ سوچنے لگا کہ بس ماڈل ٹاؤن آنے ہی والا ہوگا اور اس کے ساتھ اسے ماڈل ٹاؤن کے اپنے دوست خالد کی یاد بھی ستانے لگی۔

بس میں کچھ نمایاں لوگ تھے، لمبی لڑکی، چکلا آدمی، لمبی داڑھی والا صاحب، لیکن اب یہ بس بھی بس سے اتر چکے تھے، ماسوائے اس آدمی کے جس نے اس کے کاندھے پر سر رکھا تھا۔ اسے دیکھ کر نوجوان نے سوچا کہیں یہ بھی غلط بس میں سوار تو نہیں، مگر اس نے خیال کیا کہ یہ آدمی میرے سفر کا حصہ ہے۔ مجھے اس کے آرام کا خیال رکھنا چاہیے۔ اس کت منتشر افکار کے اس سفر کے ساتھ ساتھ بس کا سفر بھی جاری رہتا ہے، یہاں تک کہ تمام مسافر ایک ایک کرکے اتر جاتے ہیں۔ بس میں صرف وہ یا پھر اس کا مدہوش ہمسفر باقی رہ جاتا ہے، جو اس کے دکھتے کاندھے پر سر رکھے سورہا ہے۔

سوال ۱ : اکثر و بیشتر صاحبِ افسانہ کیوں بس اسٹاپ پر انتظار کرتا ہے؟

جواب : افسانہ نگار سے عموماً بس چھوٹ جاتی تھی۔ کبھی وہ بس اسٹاپ سے دور ہوتا تو بس آکر رکتی اور اس کے پہنچنے سے پہلے وہاں سے چلی بھی جاتی۔ وہ گھر سے شہر جانے لگتا تو بس آنکھ میں سرمہ ڈالنے برابر نظر نہ آتی، مگر مختلف سمت جاتی بسیں ہر لمحے بعد سامنے سے گزرتیں۔ اسی لیے وہ بس اسٹاپ پر انتظار ہی کرتا رہ جاتا۔

سوال ۲ : آج افسانہ نگار کہاں جانے کے لیے بس کا انتظار کررہا تھا؟

جواب : آج افسانہ نگار اپنے گھر جانے والی بس کا منتظر تھا۔ مگر عجلت و اندھیرے میں وہ بس کا نمبر دیکھنے سے قاصر رہا اور غلط بس میں سوار ہو گیا۔

سوال ۳ : غلط بس میں بیٹھنے کے بعد صاحبِ افسانہ کے ذہن میں کیا کیا خیالات آرہے تھے؟

جواب : غلط بس میں بیٹھتے ہی اس نے سوچا کہ اب وہ اگلے اسٹاپ پر اتر کر اپنی مطلوبہ بس میں سوار ہو جائے گا۔ مگر بس اسٹاپ پر بس کے انتظار کا سوچ کر اسے کوفت ہونے لگی۔

سوال ۴ : بس کی کیا کیفیت تھی بیان کیجیے۔

جواب : بس میں مسافر کھچا کھچ بھرے ہوئے تھے۔ لوگ ذرا ذرا سی جگہ پر دھکم پیل کر رہے تھے۔ تمام لوگ پسینے میں شرابور، کچھ اس قسم کے سفر سے لاعلم تھے۔ اتنے شور وغل میں کوئی سو رہا تھا۔ اس ہنگامی صورت حال میں سبھی اپنی اپنی دھن میں لگے تھے۔

سوال ۵ : ٹکٹ خریدنے کے بارے میں افسانہ نگار کے دل میں کیا کیا خیالات آرہے تھے اپنے الفاظ میں لکھیے۔

جواب : وہ بس میں بیٹھا تھا اور اس نے ابھی تک ٹکٹ نہ خریدا تھا، وہ سوچ رہا تھا آج 7 آنے بچا لونگا مگر ٹکٹ کلیکٹر آیا اور اس نے اس سے پیسے وصول کر لیے۔

سوال ٦ : کھڑکی سے باہر والی بس کی کیا کیفیت بیان کی گئی ہے؟

جواب : کھڑکی سے باہر نظر آنے والی بس آگے سے پچکی ہوئی تھی، وہ بس آدھی کچے میں اور آدھی سڑک پر تھی۔

سوال ۷ : اس شریف اور ثقہ شخص کی نفساتی کیفیت اپنے الفاظ میں بیان کیجیے؟

جواب : شریف و ثقہ شخص کی نفسیاتی کیفیت کچھ یوں تھی کہ وہ خود سر سا مسافر تھا۔ وہ تمام بس کی سواریوں سے خود کو افضل و برتر سمجھتا تھا ۔

سوال ۸ : بس کے سفر سے انسانی معاشرے کی کون سی حالت پر روشنی ڈالی جا سکتی ہے؟

جواب : بس کے سفر سے انسانی معاشرے پر یوں روشنی ڈالی جاسکتی ہے کہ جیسے بس میں تمام مسافر ایک دوسرے کے ہمسفر تھے لیکن ایک دوسرے سے انجان تھے پھر بھی ساتھ سفر کررہے تھے ویسے ہی ہم اس معاشرے میں انجان لوگوں کے ساتھ سفر کرتے ہیں اور جیسے وہ لوگ اپنا اسٹاپ آنے پر بس سے اتر رہے تھے ویسے ہی انسان بھی کسی ایک موڑ پر آکر الگ الگ راستوں پر مڑ جاتے ہیں۔

سوال ۹ : آپ اپنی طرف سے فعلِ معروف والے پانچ جملے لکھیے جن میں فعل بہ اعتبار جنس و عدد اپنے فاعل سے مطابقت رکھتا ہو۔

۱) لڑکیاں نماز پڑھیں گی۔
۲) لڑکے جارہے ہیں۔
۳) عورتیں زیور خریدیں گی۔
۴) بچے قرآن پڑھیں گے۔
۵) مرد سامان خریدیں گے۔