حضرت فاطمہ الزہرا کی رخصتی

0
  • نظم : حضرت فاطمۃ زہراؓ کی رخصتی
  • شاعر : ابو الاثر حفیظ جالندھری

تعارفِ نظم 

یہ شعر ہماری درسی کتاب کی نظم ”حضرت فاطمۃ زہراؓ کی رخصتی“ سے لیا گیا ہے۔ اس نظم کے شاعر کا نام ابو الاثر حفیظ جالندھری ہے۔

تعارفِ شاعر

ابو الاثر کا نام محمد حفیظ ، حفیظ ہی تخلص اور ابوالاثر کنیت تھی۔ لاہور آ کر آپ نے “ہونہار بک ڈپو” قائم کیا اور علمی و ادبی کتابوں کی طباعت و اشاعت میں مصروف ہوگئے۔ آپ نے پہلے غزلیں کہیں پھر گیت لکھے۔ اس کے بعد “شاہ نامۂ اسلام” جیسی شاہ کار نظم لکھی۔ ان کی نظموں کے مجموعے”نغمہ زار، سوز و ساز، تلخابۂ شیریں” ہیں۔ ہمارا قومی ترانہ بھی آپ نے ہی لکھا۔

چلی تھی باپ کے گھر سے نبی کی لاڈلی پہنے
حیا کی چادریں، عفت کا جامہ،صبر کے گہنے

اس نظم میں شاعر کی جانب سے اپنی بیٹی کی شادی پر کیے جانے والے بےجا خرچے کی وجہ سے مسلمانوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ شاعر کہتے ہیں کہ ہمارے نبی ﷺ کی لاڈلی بیٹی کی شادی نہایت سادہ طریقہ سے ہوئی تھی۔ اور شاعر کہتے ہیں کہ جب رسولﷺ نے ان کو گھر رخصت کیا تو سوائے کردار کی پاکیزگی اور حیا کی دولت کے اور چند ضروری اشیاء کے ان کے پاس جہیز کے نام پر کچھ نہیں تھا۔ شاعر کہتے ہیں کہ بیٹیوں کی اصل دولت ان کا کردار، ان کی حیا اور پاکیزگی ہے۔ اگر یہ سب نہ ہو تو باقی سب بے کار ہے۔ اور اس لیے جب حضرت فاطمہ اپنے بابا کے گھر سے رخصت ہوئیں تو ان کے پاس بھی حیا کی چادر، پاکیزگی کا لباس اور صبر کے زیور موجود تھے۔

ردا ئے فقر بھی حاصل تھی توفیقِ سخاوت بھی
کہ ہونا تھا اس کے سر تاج خاتونِ جنت کی

اس نظم میں شاعر کی جانب سے اپنی بیٹی کی شادی پر کیے جانے والے بےجا خرچے کی وجہ سے مسلمانوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ شاعر کہتے ہیں کہ ہمارے نبی ﷺ کی لاڈلی بیٹی کی شادی نہایت سادہ طریقہ سے ہوئی تھی۔ ہمارے نبی ﷺ کی لاڈلی کو اللہ نے بےشمار صفات سے نوازا تھا۔ شاعر کہتے ہیں کہ رسول ﷺ کی لاڈلی تنگ دستی کے باوجود نہایت سخی تھیں۔ وہ خود بیشک بھوکی رہ لیتی تھیں مگر انھوں نے کبھی کسی سوالی کو خالی ہاتھ نہ لوٹایا اور اسی وجہ سے ان کو خاتون جنت کہا گیا ہے۔

اسی کی تربیت میں اُسوہ تھا یمن وسعادت کا
اسی کی گود سے دریا ابلنا تھا شہادت کا

اس شعر میں شاعر نے کربلا کے واقعے کو تلمیح کے طور پر استعمال کیا ہے۔ شاعر کہتے ہیں کہ حضرت فاطمہؓ نے امام حسنؓ اور حسینؓ کی تربیت کی، ان کے اخلاق و کردار کو سنوارا اور ماں کے یہ لال نانا کے دین کی سر بلندی کے لیے شہید ہوۓ۔ اس شعر کے ذریعے شاعر نےحضرت فاطمہؓ کی عظمت بیان کی ہے کہ وہ ایسی ماں ہیں جنہوں نے اپنے دونوں لال شہادت کے لیے تیار کیے۔

وہی غیرت جو مُہر خاتمِ حق کا نگینہ تھی
امیں کی لاڈلی ہی اس امانت کی امینہ تھی

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ آپؐ کی وہ مہر جو آپ کی نشانی تھی، اس امانت کی امینہ آپﷺ کی بیٹی حضرت فاطمہؓ تھیں۔ یعنی آپؐ کی جو عزت اور غیرت تھی اس کا خیال رکھنے والی اور اسے سنبھالنے والی کوئی اور نہیں بلکہ ہمارے نبی کی بیٹی حضرت فاطمہ تھیں۔ انھوں نے اپنے بابا کے دین کی راہ میں اپنے دونوں بچوں کو قربان کردیا اور خود بھی اپنے بابا کے دین اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہر طرح کی تکلیف کو صبر کے ساتھ برداشت کیا۔

علی المرتضیٰ نے آج تاجِ ہل اتیٰ پایا
دلھن کی شکل میں اک پیکرِ صدق و صفا پایا

اس شعر میں شاعر تاجِ ہل اتیٰ یعنی اس روشن تریب تاج کا ذکر کررہے ہیں جو قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے سب سے نیک بندوں کو عطا کیا جائے گا۔ شاعر کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ نے حضرت فاطمہؓ کی صورت میں اس چمکدار تاج کو اس دنیا میں ہی حاصل کرلیا تھا۔ حضرت علیؓ نے حضرت فاطمہؓ کی صورت میں اپنی سچی اور وفادار شریکِ سفر کو حاصل کیا تھا جو ان کے لیے اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک انعام بن کر ان کی زندگی میں آئیں تھیں۔

پدر کے گھر سے رخصت ہو کے زہرا اپنے گھر آئی
توکّل کے خزانے دولتِ مہر وفا لائی

اس نظم میں شاعر کی جانب سے اپنی بیٹی کی شادی پر کیے جانے والے بےجا خرچے کی وجہ سے مسلمانوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ شاعر کہتے ہیں کہ ہمارے نبی ﷺ کی لاڈلی بیٹی کی شادی نہایت سادہ طریقہ سے ہوئی تھی۔ شاعر کہتے ہیں کہ رسولﷺ نے اپنی لاڈلی کو جب گھر سے رخصت کیا تو ان کے پاس دنیاوی ساز و سامان کے بجائے اللہ پر مکمل بھروسے کا خزانہ موجود تھا۔ وہ جانتی تھیں کہ اللہ ہی ان کا ہر اچھے برے وقت میں مددگار ہوگا۔ شاعر کہتے ہیں کہ دنیا میں اللہ پر یقین سے بڑی دولت اور کوئی نہیں ہے۔

جہیز اِن کو ملا جو کچھ شہنشاہ وعالم سے
مِلا ہے درس ہم کو سادگی کا فخرِ آدم سے

اس نظم میں شاعر کی جانب سے اپنی بیٹی کی شادی پر کیے جانے والے بےجا خرچے کی وجہ سے مسلمانوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ شاعر کہتے ہیں کہ ہمارے نبی ﷺ کی لاڈلی بیٹی کی شادی نہایت سادہ طریقہ سے ہوئی تھی۔ شاعر کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے اپنی لاڈلی بیٹی کو سادہ جہیز دے کر لوگوں کو دین کا درس دیا، زندگی گزارنے کا سادہ انداز سیکھایا۔ شاعر کہتے ہیں کہ حضرت فاطمةؓ کی زندگی ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ کسی باپ پر اپنی بیٹی کو لاکھوں کا جہیز دینا فرض نہیں بلکہ اس کی اچھی تربیت کرنا ہر باپ پر فرض ہے اور یہی بات باعث فخر بھی ہے۔

متاعِ دنیوی جو حصۂ زہرا میں آئی تھی
کھجوری کھردرے سے بان کی اک چارپائی تھی

اس نظم میں شاعر کی جانب سے اپنی بیٹی کی شادی پر کیے جانے والے بےجا خرچے کی وجہ سے مسلمانوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ شاعر کہتے ہیں کہ ہمارے نبی ﷺ کی لاڈلی بیٹی کی شادی نہایت سادہ طریقہ سے ہوئی تھی۔ شاعر کہتے ہیں کہ حضرت فاطمۃ الزہرا کو دنیاوی ساز و سامان کے نام کھجوروں کے کھردرے سے بان کی اک چارپائی ملی تھی۔ اس شعر میں شاعر نے حضرت فاطمۃ الزہرا کی سادہ زندگی کے بہت سے پہلوؤں کو نمایاں کیا ہے جہنوں نے دو جہاں کے سردار کی بیٹی ہونے کے باوجود اتنا سادہ سا جہیز پایا تھا، جو صرف روزمرہ کی زندگی میں استعمال ہونے والی معمولی اشیاء تھیں۔

مشقت عمر بھر کرنا جو لکھا تھا مقدر میں
ملی تھیں چکّیاں دو تاکہ آٹاپیس لیں گھر میں

اس نظم میں شاعر کی جانب سے اپنی بیٹی کی شادی پر کیے جانے والے بےجا خرچے کی وجہ سے مسلمانوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ شاعر کہتے ہیں کہ ہمارے نبی ﷺ کی لاڈلی بیٹی کی شادی نہایت سادہ طریقہ سے ہوئی تھی۔ شاعر کہتے ہیں کہ پیارے حبیب ﷺ جانتے تھے کہ ان کی لاڈلی بیٹی کی زندگی محنت و مشقت کرنے میں گزرے گی اس لیے ان کو جہیز میں دو چکیاں دی تھی جن میں وہ گندم کو پیس کر آٹا بناتی تھی۔
اس شعر میں شاعر نے انسانوں کو اپنا کام خود کرنے میں کسی قسم کا عار نہ سمجھنے کی ترغیب دی ہے۔

گھڑے مٹی کے دو تھے اور اک چمڑے کا گدا تھا
نہ ایسا خوشنما تھا نہ بد زیب اور بھدا تھا

اس نظم میں شاعر کی جانب سے اپنی بیٹی کی شادی پر کیے جانے والے بےجا خرچے کی وجہ سے مسلمانوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ شاعر کہتے ہیں کہ ہمارے نبی ﷺ کی لاڈلی بیٹی کی شادی نہایت سادہ طریقہ سے ہوئی تھی۔ شاعر کہتے ہیں کہ جہیز کے سامان میں حضرت فاطمةؓ کو دو پانی کے گھڑے اور ایک چمڑے کا گدا ملا تھا۔ وہ گدا دیکھنے میں نہ بہت برا تھا نہ ایسا خوبصورت کے آنکھیں چندھیا جائیں۔ اس شعر میں بھی شاعر نے لوگوں کے آج کل کیے جانے والے دکھاوے پر تنقید کی ہے۔

بھرے تھے اس میں روئی کی جگہ پتے کھجوروں کے
یہ وہ ساماں تھا جس پر جان ودل قربان حوروں کے

اس نظم میں شاعر کی جانب سے اپنی بیٹی کی شادی پر کیے جانے والے بےجا خرچے کی وجہ سے مسلمانوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ شاعر کہتے ہیں کہ ہمارے نبی ﷺ کی لاڈلی بیٹی کی شادی نہایت سادہ طریقہ سے ہوئی تھی۔ شاعر کہتے ہیں کہ پیارے حبیب ﷺ نے اپنی لاڈلی کو جو گدا دیا تھا وہ نرم روئی کی جگہ کجھوروں کے پتوں سے بنا ہوا تھا۔ اتنا سادہ بستر ہونے کے باوجود حوریں بھی اس بستر پر رشک کرتی ہیں کیونکہ وہ نبی کی پیاری بیٹی کا بچھونا تھا۔ اس شعر میں بھی شاعر نے حضرت فاطمہ کی زندگی کی سختیوں کا ذکر کیا ہے۔

وہ زہرا جن کے گھر تسنیم وکوثر کی تھی ارزانی
ملی تھی مَشک ان کو تا کہ خود لایا کریں پانی

اس نظم میں شاعر کی جانب سے اپنی بیٹی کی شادی پر کیے جانے والے بےجا خرچے کی وجہ سے مسلمانوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ شاعر کہتے ہیں کہ ہمارے نبی ﷺ کی لاڈلی بیٹی کی شادی نہایت سادہ طریقہ سے ہوئی تھی۔ شاعر کہتے ہیں کہ حضرت فاطمہ کو جہیز کا سامان کم ملا تھا مگر پیارے حبیب نے انہیں ایک مشکیزہ دیا تھا، جس سے وہ کنوئیں سے پانی بھر کرلاتی تھیں۔ اس شعر سے ہمیں اپنے کام کو محنت مشقت کرنے کی اور اپنا کام خود اپنے ہاتھ سے کرنے کی ترغیب بھی ملتی ہے۔

ملا تھا فقر وفاقہ ہی مگر اصلی جہیز اُن کو
کہ بخشی تھی خدا نے اک جبینِ سجدہ ریز ان کو

اس نظم میں شاعر کی جانب سے اپنی بیٹی کی شادی پر کیے جانے والے بےجا خرچے کی وجہ سے مسلمانوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ شاعر کہتے ہیں کہ ہمارے نبی ﷺ کی لاڈلی بیٹی کی شادی نہایت سادہ طریقہ سے ہوئی تھی۔ اور شاعر کہتے ہیں کہ بے شک حضرت فاطمہ کو کم جہیز یا کم سازو سامان کی وجہ سے پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا، انھیں بے انتہا مشکلات جھیلنی پڑی۔ مگر ان کی ہمت کم نہ ہوئی، نہ ان کا حوصلہ ٹوٹا، کیونکہ ان کے پاس صبر وشکر کی دولت تھی۔ وہ ہر حال میں اپنے رب کا شکر ادا کرتی تھیں۔

سوال نمبر ۱ : ذیل کے اشعار کی تشریح کیجیے۔

اسی کی تربیت میں اُسوہ تھا یمن وسعادت کا
اسی کی گود سے دریا ابلنا تھا شہادت کا

اس شعر میں شاعر نے کربلا کے واقعے کو تلمیح کے طور پر استعمال کیا ہے۔ شاعر کہتے ہیں کہ حضرت فاطمہؓ نے امام حسنؓ اور حسینؓ کی تربیت کی، ان کے اخلاق و کردار کو سنوارا اور ماں کے یہ لال نانا کے دین کی سر بلندی کے لیے شہید ہوۓ۔ اس شعر کے ذریعے شاعر نےحضرت فاطمہؓ کی عظمت بیان کی ہے کہ وہ ایسی ماں ہیں جنہوں نے اپنے دونوں لال شہادت کے لیے تیار کیے۔

وہی غیرت جو مُہر خاتمِ حق کا نگینہ تھی
امیں کی لاڈلی ہی اس امانت کی امینہ تھی

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ آپؐ کی وہ مہر جو آپ کی نشانی تھی، اس امانت کی امینہ آپﷺ کی بیٹی حضرت فاطمہؓ تھیں۔ یعنی آپؐ کی جو عزت اور غیرت تھی اس کا خیال رکھنے والی اور اسے سنبھالنے والی کوئی اور نہیں بلکہ ہمارے نبی کی بیٹی حضرت فاطمہ تھیں۔ انھوں نے اپنے بابا کے دین کی راہ میں اپنے دونوں بچوں کو قربان کردیا اور خود بھی اپنے بابا کے دین اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہر طرح کی تکلیف کو صبر کے ساتھ برداشت کیا۔

علی المرتضیٰ نے آج تاجِ ہل اتیٰ پایا
دلھن کی شکل میں اک پیکرِ صدق و صفا پایا

اس شعر میں شاعر تاجِ ہل اتیٰ یعنی اس روشن تریب تاج کا ذکر کررہے ہیں جو قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے سب سے نیک بندوں کو عطا کیا جائے گا۔ شاعر کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ نے حضرت فاطمہؓ کی صورت میں اس چمکدار تاج کو اس دنیا میں ہی حاصل کرلیا تھا۔ حضرت علیؓ نے حضرت فاطمہؓ کی صورت میں اپنی سچی اور وفادار شریکِ سفر کو حاصل کیا تھا جو ان کے لیے اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک انعام بن کر ان کی زندگی میں آئیں تھیں۔

سوال نمبر ۲ : حضرت فاطمۃ الزہراؓ کو دنیاوی ساز و سامان میں سے کیا کیا چیزیں جہیز میں ملی تھیں؟

جواب : حضرت فاطمۃ الزہراؓ کو دنیاوی ساز و سامان میں سے کھجوری کھردرے سے بان کی اک چارپائء ، دو مٹی کے گھڑے ، گندم پیسنے کی دو چکیاں اور پانی بھرنے کے لیے مشکیزہ جہیز میں ملا تھا۔

سوال نمبر ۳ : رسول اللہﷺ کی لاڈلی بیٹی میں کیا کیا صفات تھیں؟

رسول اللہﷺ کی لاڈلی بیٹی میں بے شمار صفات موجود تھیں۔ حضرت فاطمة زہراؓ سرتاجِ خاتون، پاکباز ، حیادار ، نہایت صبر والی اور سخی تھیں۔

سوال ۴ : حضرت فاطمة کی زندگی سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے؟

جواب : حضرت فاطمة ؓ کی زندگی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں اپنی زندگی نہایت سادگی، سلیقہ شعاری اور اللہ کے بتائے گئے راستے پر چل کر گزارنی چاہیے۔ اور اللہ کے دن کی سر بلندی کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ اور ان کی شادی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ بیٹوں کو جہیز میں دنیاوی ساز سامان دینے کے بجائے انھیں تربیت اور اخلاقی قدریں دینی چاہیے۔

سوال نمبر ۵ : اس نظم کا خلاصہ اپنے الفاظ میں لکھیے۔

یہ نظم حفیظ جالندھری نے لکھی ہے۔ اس نظم میں شاعر کی جانب سے اپنی بیٹی کی شادی پر کیے جانے والے بےجا خرچے کی وجہ سے مسلمانوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ شاعر کہتے ہیں کہ ہمارے نبی ﷺ کی لاڈلی بیٹی کی شادی نہایت سادہ طریقہ سے ہوئی تھی۔ جب نبی کریم ﷺ نے انہیں اپنے پیارے صحابی حضرت علی ؓ کے ساتھ رخصت کیا تو ان کو جہیز میں لاکھوں کا سامان نہیں بلکہ ان کے ساتھ ان کی تربیت کو روانہ کیا۔ نبی ﷺ دو جہاںوں کے سردار تھے، چاہتے تو جہاں بھر کی دولت سے اہنی بیٹی کو نوازتے، مگر دولت سے کہیں زیادہ اہم تربیت کا غنی ہونا ہے۔ شاعر کہتے ہیں کہ جب خاتونِ جنت اپنے باپ کے گھر سے رخصت ہوئیں تو دنیاوی ساز و سامان میں سے انھیں کھجوری کھردرے کے بان کی اک چارپائی ، دو مٹی کے گھڑے ، گندم پیسنے کے لیے چکی اور پانی بھرنے کے لیے مشکیزہ جہیز میں ملا تھا۔ اس کے علاوہ وہ کردار کی مظبوطی، اخلاق کا اجلا پن اور حیا جہیز میں لے کر گئیں۔ اس نظم کے ذریعے شاعر مسلمانوں کو شادیوں پر بے جا رسم و رواج کو کرنے سے منع کرنا چاہتے ہیں اور وہ چاہتےہیں کہ ہر بیٹی کی شادی خاتونِ جنت کی شادی جیسی ہو۔