بدلہ (ترجمہ)

0
  • سبق : بدلہ
  • مصنف : غلام ربانی آگرو
  • ماخوذ از : ترقی پسند ادب

تعارفِ سبق : سبق ” بدلہ “ کے مصنف کا نام ”غلام ربانی آگرو “ ہے۔ یہ سبق کے آپ کی کتاب ”ترقی پسند ادب“ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔ اس افسانے کو سندھی ادب سے اردو ادب میں ڈاکٹر حسرت کاس گنجوی نے ترجمہ کیا ہے۔

خلاصہ

گلاب خان ایک غریب انسان تھا جو رئیس بخش کا تانگا چلا کر ہنسی خوشی اپنا گزر بستر کرتا تھا۔شہر کے سب کوچوان گلاب کے گھوڑے “پکھی” کی بہت تعریف کرتے تھے۔ گلاب کی پکھی دیکھنے میں سفید رنگت اور صحت مند گھوڑا تھا۔ پکھی ہوا کی دوش پر بھاگتا تھا۔ اس کا ہم رفتار پورے شہر میں کوئی گھوڑا نہیں تھا۔ پکھی کی گلاب سے اتنی انسیت ہو چکی تھی کہ جب گلاب تیز بھاگنے کو ایک اشارہ کرتا تو وہ سمجھ جاتا اور جب آہستہ کرنے کا حکم دیتا وہ اس کی زبان سمجھتا تھا۔ لوگ گلاب کے گھوڑے کو رشک کی نظر سے دیکھتے تھے مگر خیرو حسد میں مبتلا ہو گیا تھا۔ دونوں میں بحث بھی ہوئی مگر رئیس بخش نے معاملہ سنبھال لیا۔

گلاب کی بیٹی زلیخا بھی پکھی سے بہت انسیت رکھتی تھی۔ اس کا خیال رکھتی چارہ کھلاتی۔ مگر اچانک گلاب بخار میں مبتلا ہو گیا اور مہینہ بھر پکھی کھڑا رہا۔ خیرو نے رئیس خان سے کہا کہ اتنا سرپٹ تیز چلتا گھوڑا کھڑے کھڑے خراب وہ جائے گا۔ ایسی چکنی چپڑی باتیں کرکے رئیس بخش سے خیرو گھوڑا لے گیا۔ خیرو حسد کی آگ میں جل رہا تھا اس نے پکھی کو مارا پیٹا اور کھانے پینےسے بھی محروم کر دیا۔ زلیخا نے جب پکھی کا حال دیکھا تو خیرو کو خوف خدا یاد دلایا۔ جس کا خیرو پر غیر معمولی اثر ہوا۔ جس سے خیرو نے اپنے ظلمانہ کردار سے توبہ کر لی اور ندامت سے سرنگوں ہو گیا۔

سوال ۱ : گلاب تانگے والا کس کا تانگا کرائے پر چلاتا تھا؟

جواب : گلاب کرائے پر رئیس بخش کا تانگا چلا کر ہنسی خوشی اپنی زندگی بسر کرتا تھا۔

سوال۲ : گلاب تانگے والے کے گھوڑے میں کیا خوبیاں تھیں؟

جواب : پکھی اشاروں پر دُلکی اور سرپٹ دوڑتا تھا۔ پکھی کسی دوسرے گھوڑے کو اپنے سے آگے نہیں نکلنے دیتا تھا ، اس لیے لوگ پکھی کو آتا دیکھ کر اپنے گھوڑے روک لیا کرتے تھے۔ وہ سفید رنگ کا طاقتور اور خوبصورت گھوڑا تھا۔

سوال ۳ : گلاب نے اپنے گھوڑے کا کیا نام رکھا تھا؟

جواب : گلاب کو اپنے گھوڑے پر بڑا ناز تھا اسی لیے اس نے اپنے گھوڑے کا نام پکھی رکھا تھا۔

سوال۴ : “پکھی”میں کیا کیا عادتیں تھیں؟

جواب : پکھی بڑا سمجھ دار گھوڑا تھا۔ وہ کبھی ایک چابک برداشت نہ کرتا تھا۔ گلاب کے اشاروں کو خوب سمجھتا تھا، تیز ہونے کے وقت سب کو پیچھے چھوڑ دیتا اور آہستہ ہونے یا رکنے کے وقت فرمانبرداری سے احکام مانتا۔ وہ خوددار گھوڑا تھا جو اپنے سے آگے کسی گھوڑے کو بڑھنے نہیں دیتا تھا۔

سوال ۵ : خیرو کی کون کون سی بری عادتوں کی وجہ سے رئیس نے خیرو کی بجائے گلاب کو اپنا تانگا دیا؟

جواب : خیرو ایک بدکماش اور مختلف نشہ نوشی میں مبتلا آوارہ شخص تھا۔ وہ جوا کھیلتا تھا اور حسد ایسی بیماریاں اس کی عادات میں شامل تھیں۔

سوال ٦ : رئیس نے دوبارہ خیرو کو اپنا تانگا کیوں دے دیا؟

جواب : گلاب کو بخار نے گھیرے میں لے لیا اور اس دوران پکھی بےسود کھڑا تھا، جس کا فائدہ خیرو نے اٹھایا اور رئیس خان کو اپنی چکنی چپڑی باتوں میں لگا کر گھوڑا لے لیا۔

سوال ۷ : خیرو نے “پکھی” کے ساتھ کیا سلوک کیا؟

جواب : خیرو نے پکھی کو صحت مند چلتے پھرتا دیکھا تھا جس سے گلاب خوش ہوتا تھا۔ خیرو نے پکھی پر ظلم ڈھائے اور اسے چلنے کے قابل نہ چھوڑا، اس کی ران میں کیل چھوادی جس سے پکھی لنگڑا ہو گیا۔ وہ پکھی کو کھانے کو نہ دیتا اور اسے پیاسا رکھتا جس سے پکھی کمزور اور لاغر ہو گیا۔

سوال ۸ : گلاب نے دوبارہ “پکھی” کو دیکھا تو کیا کہا؟

جواب : گلاب نے جب اپنی پکھی کی حالت زار دیکھی تو رہ نہ سکا اور بھرائی ہوئی آواز میں اپنی اولاد ایسے گھوڑے سے مخاطب ہوا : “پکھی مرے بیٹے یہ کیا حال ہو گیا۔ یہ سب کچھ کیسے ہوگیا۔”

سوال ۹ : خیرو کو کمزور گھوڑے پر ظلم کرتے دیکھ کر زلیخا نے کیا کہا؟

جواب : خیرو ایک سفاک انسان تھا اس نے گھوڑے پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیئے۔ زلیخا نے جب اسے گھوڑے کو پیٹتے دیکھا تو رہ نہ سکی اور کہا : “خیرو تانگے والے خبردار جو تو نے گھوڑے کو مارا، بےزبانو کو مارنا بڑا گناہ ہے۔ تم نے ہمارے پکھی کو بے گناہ مارا تھا۔ اس کا گناہ تم پر ضرور پڑے گا۔ خدا تم کو کبھی معاف نہیں کرے گا۔”

سوال ۱۰ : زلیخا کی باتیں سن کر خیرو کی کیا حالت ہوگئی؟

جواب : زلیخا کی باتوں کا خیرو پر بڑا غیر معمولی اثر ہوا۔ اس کا چہرہ یرقان زدہ ہو گیا اور اس کا سر شرم سے سرنگوں ہو گیا مزید اس پر کہ ندامت اور لرزش سے وہ کانپنے لگا۔

سوال ۱۱ : اس افسانے سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے ؟

جواب : اس افسانے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں کسی بھی بے زبان معصوم جانور پر ظلم نہیں کرنا چاہیے۔ اور ہمیں دوسروں کی کامیابی میں خوش ہونا چاہیے۔ ہمیں کسی کو کامیاب ہوتا دیکھ حسد نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم سب کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آئیں اور ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں۔

سوال ۱۲ : اب آپ پانچ ایسے فعل متعدی والے جملے لکھیے جن میں فعل اپنے مضعول سے مطابقت رکھتا ہو۔

۱) بچے نے کھانا کھایا۔
۲) میں نے اسکول کا کام کیا۔
۳) ہم سب نے گھومنے کا پروگرام بنایا۔
۴) استاد نے بچوں کو سبق پڑھایا۔
۵) ہم نے کیلے کھائے۔