میر تقی میر کی غزلیں

0

شاعر : میر تقی میر۔

تعارفِ غزل :
یہ شعر ہماری درسی کتاب کی غزل سے لیا گیا ہے۔ اس غزل کے شاعر کا نام میر تقی میر ہے۔

تعارفِ شاعر :
میر تقی میر آگرے میں پیدا ہوئے۔ آپ کو خدائے سخن کہا جاتا ہے۔ آپ کی غزلوں میں انسانی جذبات ، درد و غم ، خود داری ، توکل ، قناعت پایا جاتا ہے۔ آپ کے علمی سرمائے میں چھ دیوان ، اردو شعرا کا ایک تذکرہ ، متعدد مثنویاں ، مرثیے ، ایک سوانح حیات اور ایک فارسی دیوان شامل ہے۔ میر تقی میر کا سارا کلام کلیاتِ میر کی شکل میں موجود ہے۔

(غزل نمبر ۱)

میرؔ دریا ہے سنے شعر زبانی اس کی
اللہ اللہ رے طبیعت کی روانی اس کی

تشریح :
مندرجہ بالا شعر میں میر فرماتے ہیں کہ لوگوں کا کہنا ہے کہ میر دریائے سخن ہے ان کے پاس خیالات ، الفاظ کا ذخیرہ ہے اور ان کے کلام میں اس قدر روانی ہے کہ محسوس ہوتا ہے کہ کوئی دریا بہتا آرہا ہو اور میر کے الفاظوں میں انتہا کی دلکشی ہوتی ہے جیسے کوئی دریا اپنے سر بکھیر رہا ہو۔

مینہ تو بوچھار کا دیکھا ہے برستے تم نے
اسی انداز سے تھی اشک فشانی اس کی

تشریح :
مندرجہ بالا شعر میں میر نے اپنے آنسوؤں کی کثرت کو بارش سے تشبیہ دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ میر وہ انسان ہے جس کی ساری زندگی محرومی میں گزری ہے اور انہی محرومیوں نے ان کی طبیعت اتنی اداس کر دی ہے کہ جس طرح موسلا دھار بارش ہوتی ہے اسی طرح ہر وقت ان کی آنکھوں سے آنسو بہتے ہیں۔

بات کی طرز کو دیکھو تو کوئی جادو تھا
پر ملی خاک میں کیا سحر بیانی اس کی

تشریح :
مندرجہ بالا شعر میں میر اپنے انداز بیان کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میرے کلام، بیان میں وہ جادو، سحر ہے جو لوگوں کے دلوں کو منجمد کر دے۔ اور سننے والوں پر گہرا اثر چھوڑ دے۔ لیکن اسکے باوجود بھی یہ انداز بیان انکے کچھ کام نہ آ سکا۔ انکی ساری زندگی ناکامی و محرومی میں گزر گئی۔ یہ انداز بیان ، کلام انہیں دنیا میں کوئی قدر و منزلت نہ دلوا سکا۔

سرگزشت اپنی کس اندوہ سے شب کہتا تھا
سو گئے تم نہ سنی آہ کہانی اس کی

تشریح :
مندرجہ بالا شعر میں میر اپنی غم کی شدت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میری شاعری، میری محرومی میں گزری ہوئی زندگی کی عکاسی ہے۔میر کی شاعری میں جابجا احساس ناقدر زمانہ پایا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود میر کو کوئی ہمدرد میسر نہیں ہے، جیسے سب غفلت کی نیند سو چکے ہیں۔

مرثیے دل کے کئی کہہ کے دیئے لوگوں کو
شہر دلی میں ہے سب پاس نشانی اس کی

تشریح :
مندرجہ بالا شعر میں میر کا کہنا ہے کہ انکے الفاظ انکے ٹوٹے دل کا آئینہ ہے۔ انکی شاعری، انکا ہر شعر انکے دکھی دل کا مرثیہ ہے۔ اور انہوں نے اپنے آہ اور مرثیوں کو غزل کی شکل میں ڈال کر شہر دلی والوں کو تحفہ دیا ہے۔ انکی غزلیں، انکے اشعار شہر دلی والوں کے پاس ان کے ٹوٹے دل کی نشانياں ہیں۔

اب گئے اس کے جز افسوس نہیں کچھ حاصل
حیف صد حیف کہ کچھ قدر نہ جانی اس کی

تشریح :
مندرجہ بالا شعر میں میر افسوس کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ انکی زندگی میں کسی نے انکی قدر نہیں کی وہ در در بھٹکے۔ بہت سی مشکلوں کا سامنا کیا لیکن انہیں وہ قدر و منزلت نہ مل سکی جس کے وہ حقدار تھے۔ اب انکے چلے جانے کے بعد انکی یاد میں کتنی ہی محفلیں کیوں نہ سجا لی جائیں پر وہ سب انہیں خوشی نہ دے سکیں گی۔

(غزل نمبر ۲)

جس سر کو غرور آج ہے یاں تاجوری کا
کل اس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا

تشریح :
یہ شعر غزل کا مطلع شعر ہے۔ اس شعر میں شاعر کہتا ہے دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کو اپنے آپ پر، اپنے اونچے عہدے پر، اونچے حسب نصب پر غرور ہوتا ہے۔ مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ یہ سب کسی کام کا نہیں، یہ دولت عیش و عشرت سب پانی کا بلبلہ ہے آپ یہ ہے کل نہیں ہوگی۔ آج تمہارے پاس ہے تو تم حاکم بنتے ہو کل یہ کسی اور کے پاس ہوگی تو کیا کرو گے جس اونچائی پر تم مان کرتے ہو وہاں کل صرف خساروں کا ماتم ہوگا۔

آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت
اسباب لٹا راہ میں یاں ہر سفری کا

تشریح :
اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ زمین پر رہنے والے آۓ زندگی جی اور واپس چل دیے کوئی ایسا نہیں جو جیسا آیا ویسے حال میں واپس گیا ہو۔ زندگی کی راہ میں کہیں لڑا ہوگا تو کہیں جیت کی سرشاری سے دوچار ہوا ہوگا کچھ پایا ہوگا کچھ پاکر کھویا ہوگیا۔ غرض جو بھی اس سفر پر نکلا ہے انہیں منزلوں سے گزرا ہے۔ جو ساتھ لایا تھا وہ لٹا کر گیا ہے۔

زنداں میں بھی شورش نہ گئی اپنے جنوں کی
اب سنگ مداوا ہے اس آشفتہ سری کا

تشریح :
اس شعر میں شاعر اپنے جیل کے احوال لکھتا ہے شاعر کہتا ہے کہ مجھے جیل میں ڈالا دیا گیا پھر بھی میں دل میں جو جنوں ہے وہ کم نہ ہوا، نہ کبھی کم ہوگا۔ اب تو بس ایک ہی علاج ہے میرے اس پاگل پن کا کہ مجھے سنگ سار کردیا جائے۔ اس کے سوا کوئی چیز مجھ پر بند نہیں باندھ سکتی نہ مجھے روک سکتی ہے۔

ہر زخم جگر داور محشر سے ہمارا
انصاف طلب ہے تری بیداد گری کا

تشریح :
اس شعر میں شاعر نے شکوہ کناں انداز میں لکھا ہے کہ ہماری زندگی تکلیفوں اور مشکلوں سے جو زخم ہمارے دل پر لگے ہیں ان کا حساب آپ کو قیامت کے روز دینا ہوگا۔ اب تو میں بے بس ہوں کچھ کر نہیں سکتا مگر اس دن جس کا کے وعدہ ہے۔ انصاف مانگوں گا اور آپ کو میرے ساتھ کیے ہر ظلم کا حساب دینا ہوگا۔

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا


تشریح :
اس شعر میں کارگہ دنیا کو شیشہ گری( شیشہ بنانے کا کارخانہ)سے تشبیہ دی ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ دنیا شیشہ بنانے والے کارخانے جیسی ہے جیسے اس میں کام دھیان سے کرنا پڑتا ہے کہ زرا سی بے دھیانی سے نقش ہی نہ بگڑ جائے گا شیشے کا ویسے ہی دنیا میں بھی اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ کہیں ہماری زرا سی کوتاہی یا گناہ سے ہماری زندگی کا نقش ہی نہ بگڑ جائے۔

ٹک میرؔ جگر سوختہ کی جلد خبر لے
کیا یار بھروسا ہے چراغ سحری کا

تشریح :
یہ غزل کا مقطع شعر ہے۔ اس شعر میں شاعر خود کلامی کرتے ہوۓ کہتا ہے کہ اے میر اب زرا اپنے دل کے رستے زخموں کی خبر لے جنہوں نے ساری زندگی اس کو چین سے جینے نہ دیا۔ شاعر کہتا ہے کہ موت کا اب کوئی بھروسہ نہیں، کبھی بھی آسکتی ہے اور زندگی کا چراغ گل ہونے میں چند پل لگیں گے۔