ایک ریل کے سفر کی تصویر کھینچتا ہوں

0
  • نظم : ایک ریل کے سفر کی تصویر کھینچتا ہوں
  • شاعر : سید ضمیر جعفری

تعارفِ نظم 

یہ شعر ہماری درسی کتاب کی نظم ”ایک ریل کے سفر کی تصویر کھینچتا ہوں“ سے لیا گیا ہے۔ اس نظم کے شاعر کا نام سید ضمیر جعفری ہے۔

تعارفِ شاعر

ضمیر حسین شاہ نام اور ضمیر تخلص تھا۔ یکم جنوری۱۹۱۴ء کو پیدا ہوئے۔ آبائی وطن چک عبدالخالق ، ضلع جہلم تھا۔ اسلامیہ کالج، لاہور سے بی اے کا امتحان پاس کیا۔ فوج میں ملازم رہے اور میجر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ راول پنڈی سے ایک اخبار’’بادشمال‘‘ کے نام سے نکالا۔ کچھ عرصہ اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے سے منسلک رہے۔ پاکستان نیشنل سنٹر سے بھی وابستہ رہے۔ ضمیر جعفری دراصل طنز و مزاح کے شاعر تھے۔کبھی کبھی منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے سنجیدہ اشعار بھی کہہ لیتے تھے۔ یہ نظم و نثر کی متعدد کتابوں کے مصنف تھے۔ ۱۲؍ مئی۱۹۹۹ء کو نیویارک میں انتقال کرگئے۔ تدفین ان کے آبائی گاؤں چک عبدالخالق میں ہوئی۔ ان کی مطبوعہ تصانیف کے نام یہ ہیں : ’’کارزار‘‘، ’’لہو ترنگ‘‘، ’’جزیروں کے گیت‘‘، ’’من کے تار‘‘ ’’مافی الضمیر‘‘، ’’ولایتی زعفران‘‘، ’’قریۂ جاں‘‘، ’’آگ‘‘، ’’اکتارہ‘‘، ’’ضمیر یات‘‘۔

اسی میں ملت بیضا سما جا کود جا بھر جا
تری قسمت میں لکھا جا چکا ہے تیسرا درجہ

اس نظم میں شاعر ریل کے سفر کے دوران پیش آنے والے مناظر کی منظر کشی کررہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ہمارے یہاں جب کوئی ریل کا سفر کرتا ہے تو اسے کن حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ریل کے ہر ڈبے میں لوگوں کی اس قدر بھیڑ ہوتی ہے کہ آرام سے بیٹھنا محال ہوجاتا ہے، اور پھر ہر جگہ سے بچوں کے رونے کی آواز ، ریل گاڑی کی آواز اور مزید شور بھی بلند ہوتے ہیں جو اس سفر کو مزید مشکل بنادیتے ہیں۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ اے مسافر اس ریل گاڑی کے ڈبے میں گھس جا، اور اس کا حصہ بن جا کیونکہ تجھے اسی ڈبے میں سفر کرنا ہے۔ شاعر مسافر سے کہتے ہیں کہ اے مسافر تیری قسمت میں یہ لکھا جاچکا ہے کہ تو ریل گاڑی کے تیسرے درجے کے ڈبے میں سفر کر، کیونکہ پہلے ڈبے کا درجہ تو خاص قسم کے لوگوں کے لیے مختص ہوتا ہے۔

نہ گنجائش کو دیکھ اس میں نہ تو مردم شماری کر
لنگوٹی کس خدا کا نام لے گھس جا سواری کر

اس نظم میں شاعر ریل کے سفر کے دوران پیش آنے والے مناظر کی منظر کشی کررہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ہمارے یہاں جب کوئی ریل کا سفر کرتا ہے تو اسے کن حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ریل کے ہر ڈبے میں لوگوں کی اس قدر بھیڑ ہوتی ہے کہ آرام سے بیٹھنا محال ہوجاتا ہے، اور پھر ہر جگہ سے بچوں کے رونے کی آواز ، ریل گاڑی کی آواز اور مزید شور بھی بلند ہوتے ہیں جو اس سفر کو مزید مشکل بنادیتے ہیں۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ اے مسافر تو یہ نہ دیکھ کہ ریل گاڑی کے اس ڈبے میں کتنے لوگ موجود ہیں یا یہاں تیرے لیے جگہ ہے یا نہیں۔ بلکہ تو اپنی لنگوٹی کو کَس کر باندھ اور اللہ کا نام لے کر اسی ڈبے میں گھس جا کیونکہ تجھے اسی ڈبے کے ذریعے سفر کر کے اپنی منزل تک پہنچنا ہے۔

عبث گننے کی یہ کوشش کہ ہیں کتنے نفوس اس میں
کہ نکلے گا بہر عنوان تیرا بھی جلوس اس میں

اس نظم میں شاعر ریل کے سفر کے دوران پیش آنے والے مناظر کی منظر کشی کررہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ہمارے یہاں جب کوئی ریل کا سفر کرتا ہے تو اسے کن حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ریل کے ہر ڈبے میں لوگوں کی اس قدر بھیڑ ہوتی ہے کہ آرام سے بیٹھنا محال ہوجاتا ہے، اور پھر ہر جگہ سے بچوں کے رونے کی آواز ، ریل گاڑی کی آواز اور مزید شور بھی بلند ہوتے ہیں جو اس سفر کو مزید مشکل بنادیتے ہیں۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ اگر تو یہ گننے کی کوشش کررہا ہے کہ ریل گاڑی کے اس ڈبے میں کتنے لوگ موجود ہیں تو یہ کوشش کرنا بیکار ہے کیونکہ جلد ہی تو بھی اس ہجوم کا حصہ بننے والا ہے۔ اور جلد ہی تیرا بھی اس ہجوم میں جلوس نکلنے والا ہے۔

وہ کھڑکی سے کسی نے مورچہ بندوں کو للکارا
پھر اپنے سر کا گٹھرا دوسروں کے سر پہ دے مارا

اس نظم میں شاعر ریل کے سفر کے دوران پیش آنے والے مناظر کی منظر کشی کررہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ہمارے یہاں جب کوئی ریل کا سفر کرتا ہے تو اسے کن حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ریل کے ہر ڈبے میں لوگوں کی اس قدر بھیڑ ہوتی ہے کہ آرام سے بیٹھنا محال ہوجاتا ہے، اور پھر ہر جگہ سے بچوں کے رونے کی آواز ، ریل گاڑی کی آواز اور مزید شور بھی بلند ہوتے ہیں جو اس سفر کو مزید مشکل بنادیتے ہیں۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ جیسے ہی اسٹیشن پر ریل گاڑی رکتی ہے تو لوگ ریل گاڑی کی کھڑکی سے سر نکال نکال کر مورچہ بندوں کو آواز دے کر اپنے پاس بلاتے ہیں اور اپنا سامان ان کے سروں پر لاد دیتے ہیں تاکہ وہ ان کا سامان اسٹیشن کے باہر پہنچا دیں۔ اور پھر وہ مورچہ بند نہ ادھر دیکھتے ہیں نہ ادھر اور دوسروں کے سروں پر وہ سامان مارتے ہوئے اپنی منزل کی جانب چلتے جاتے ہیں۔

کسی نے دوسری کھڑکی سے جب دیکھا یہ نظارا
زمیں پر آ رہا دھم سے کوئی تاج سر دارا

اس نظم میں شاعر ریل کے سفر کے دوران پیش آنے والے مناظر کی منظر کشی کررہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ہمارے یہاں جب کوئی ریل کا سفر کرتا ہے تو اسے کن حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ریل کے ہر ڈبے میں لوگوں کی اس قدر بھیڑ ہوتی ہے کہ آرام سے بیٹھنا محال ہوجاتا ہے، اور پھر ہر جگہ سے بچوں کے رونے کی آواز ، ریل گاڑی کی آواز اور مزید شور بھی بلند ہوتے ہیں جو اس سفر کو مزید مشکل بنادیتے ہیں۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ جب ریل گاڑی کی کھڑکی سے کوئی یہ منظر دیکھتا ہے کہ باقی لوگ اپنا سامان مورچہ بندوں کو دے رہے ہیں تو اسے یہ فکر لاحق ہوجاتی ہے کہ کہیں میری باری آتے آتے تمام مورچہ بند یہاں سے چلے نہ جائیں۔ اس لیے وہ اپنا سامان دروازے سے نیچے لانے کے بجائے کھڑکی سے ہی نیچے پھینک دیتا ہے تاکہ مورچہ بند اس کا سامان بھی اسٹیشن کے باہر پہنچا دیں۔

یہ سارے کھیت کے گنے کٹا لایا ہے ڈبے میں
وہ گھر کی چارپائی تک اٹھا لایا ہے ڈبے میں

اس نظم میں شاعر ریل کے سفر کے دوران پیش آنے والے مناظر کی منظر کشی کررہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ہمارے یہاں جب کوئی ریل کا سفر کرتا ہے تو اسے کن حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ریل کے ہر ڈبے میں لوگوں کی اس قدر بھیڑ ہوتی ہے کہ آرام سے بیٹھنا محال ہوجاتا ہے، اور پھر ہر جگہ سے بچوں کے رونے کی آواز ، ریل گاڑی کی آواز اور مزید شور بھی بلند ہوتے ہیں جو اس سفر کو مزید مشکل بنادیتے ہیں۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ ریل گاڑی میں سفر کرتے مسافر ناجانے کیا کیا سامان اپنے ساتھ اٹھا کر لے آتے ہیں۔ وہ اس بات کی مثال یوں دیتے ہیں کہ ریل گاڑی میں موجود ایک مسافر گاؤں سے گنے کی فصل کٹوا کر سارے گنے اپنے ساتھ ڈبے میں بھر کر لے آیا ہے۔ اور ایک دوسرا مسافر اپنی چارپائی تک ریل گاڑی میں لے آیا ہے تاکہ وہ اسے اپنے ساتھ کے جاسکے۔ غرض کے لوگ دنیا جہاں کا سامان اپنے ساتھ ریل گاڑی میں لے آتے ہیں۔

کسی پیچاک میں صیقل کلہاڑا جگمگاتا ہے
کسی روزن سے اک کالا سیلپر منہ کو آتا ہے

اس نظم میں شاعر ریل کے سفر کے دوران پیش آنے والے مناظر کی منظر کشی کررہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ہمارے یہاں جب کوئی ریل کا سفر کرتا ہے تو اسے کن حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ریل کے ہر ڈبے میں لوگوں کی اس قدر بھیڑ ہوتی ہے کہ آرام سے بیٹھنا محال ہوجاتا ہے، اور پھر ہر جگہ سے بچوں کے رونے کی آواز ، ریل گاڑی کی آواز اور مزید شور بھی بلند ہوتے ہیں جو اس سفر کو مزید مشکل بنادیتے ہیں۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ ریل گاڑی میں سفر کرتے مسافر ناجانے کیا کیا سامان اپنے ساتھ اٹھا کر لے آتے ہیں۔ وہ اس بات کی مثال یوں دیتے ہیں کہ ریل گاڑی میں موجود ایک مسافر اپنے ساتھ کلہاڑی لے کر آیا ہے۔ اور کسی روزن کے سامان سے ایک کالے رنگ کا سلیپر بھی شاعر کو منہ چڑھا رہا ہے۔ غرض کے لوگ دنیا جہاں کا سامان اپنے ساتھ ریل گاڑی میں لے آتے ہیں۔

کھڑے حقے بمعہ مینار آتش دان تو دیکھو
یہ قوم بے سر و سامان کا سامان تو دیکھو

اس نظم میں شاعر ریل کے سفر کے دوران پیش آنے والے مناظر کی منظر کشی کررہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ہمارے یہاں جب کوئی ریل کا سفر کرتا ہے تو اسے کن حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ریل کے ہر ڈبے میں لوگوں کی اس قدر بھیڑ ہوتی ہے کہ آرام سے بیٹھنا محال ہوجاتا ہے، اور پھر ہر جگہ سے بچوں کے رونے کی آواز ، ریل گاڑی کی آواز اور مزید شور بھی بلند ہوتے ہیں جو اس سفر کو مزید مشکل بنادیتے ہیں۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ لوگ اپنے ساتھ حقے اور آتش دان تک ریل گاڑی میں لے کر آئے ہیں۔ سید ضمیر طنز و مزاح قسم کی شاعری لکھتے ہیں اور وہ یہاں طنزیہ انداز اپناتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ قوم جو خود و بےسرو سامان کہتی ہے ان کا سامان دیکھو، کہ یہ ریل گاڑی میں کیا کیا اپنے ساتھ لئیے پھرتے ہیں۔

وہ اک رسی میں پورا لاؤ لشکر باندھ لائے ہیں
یہ بستر میں ہزاروں تیر نشتر باندھ لائے ہیں

اس نظم میں شاعر ریل کے سفر کے دوران پیش آنے والے مناظر کی منظر کشی کررہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ہمارے یہاں جب کوئی ریل کا سفر کرتا ہے تو اسے کن حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ریل کے ہر ڈبے میں لوگوں کی اس قدر بھیڑ ہوتی ہے کہ آرام سے بیٹھنا محال ہوجاتا ہے، اور پھر ہر جگہ سے بچوں کے رونے کی آواز ، ریل گاڑی کی آواز اور مزید شور بھی بلند ہوتے ہیں جو اس سفر کو مزید مشکل بنادیتے ہیں۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ لوگ ریل گاڑی میں اپنے سامان کو ایک ہی رسی سے باندھ کر لے آتے ہیں۔ کبھی کبھی تو مسافر ایک بڑے سے بستر کے اندر بہت ساری چیزیں جمع کر کے باندھ کر اپنے ساتھ لے آتے ہیں۔

صراحی سے گھڑا روٹی سے دسترخوان لڑتا ہے
مسافر خود نہیں لڑتا مگر سامان لڑتا ہے

اس نظم میں شاعر ریل کے سفر کے دوران پیش آنے والے مناظر کی منظر کشی کررہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ہمارے یہاں جب کوئی ریل کا سفر کرتا ہے تو اسے کن حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ریل کے ہر ڈبے میں لوگوں کی اس قدر بھیڑ ہوتی ہے کہ آرام سے بیٹھنا محال ہوجاتا ہے، اور پھر ہر جگہ سے بچوں کے رونے کی آواز ، ریل گاڑی کی آواز اور مزید شور بھی بلند ہوتے ہیں جو اس سفر کو مزید مشکل بنادیتے ہیں۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ لوگ اپنے ساتھ ریل گاڑی میں بہت سارا سامان بھر کر لاتے ہیں۔ اور وہ چاہے آپس میں لڑیں یا نہ لڑیں لیکن ان کا سامان جیسے کہ صراحی، گھڑا ، روٹی اور دستر خواں آپس میں لڑتے رہتے ہیں۔

سوال نمبر ۱ : ذیل کے اشعار کی تشریح کیجیے :

اسی میں ملت بیضا سما جا کود جا بھر جا
تری قسمت میں لکھا جا چکا ہے تیسرا درجہ

اس نظم میں شاعر ریل کے سفر کے دوران پیش آنے والے مناظر کی منظر کشی کررہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ہمارے یہاں جب کوئی ریل کا سفر کرتا ہے تو اسے کن حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ریل کے ہر ڈبے میں لوگوں کی اس قدر بھیڑ ہوتی ہے کہ آرام سے بیٹھنا محال ہوجاتا ہے، اور پھر ہر جگہ سے بچوں کے رونے کی آواز ، ریل گاڑی کی آواز اور مزید شور بھی بلند ہوتے ہیں جو اس سفر کو مزید مشکل بنادیتے ہیں۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ اے مسافر اس ریل گاڑی کے ڈبے میں گھس جا، اور اس کا حصہ بن جا کیونکہ تجھے اسی ڈبے میں سفر کرنا ہے۔ شاعر مسافر سے کہتے ہیں کہ اے مسافر تیری قسمت میں یہ لکھا جاچکا ہے کہ تو ریل گاڑی کے تیسرے درجے کے ڈبے میں سفر کر، کیونکہ پہلے ڈبے کا درجہ تو خاص قسم کے لوگوں کے لیے مختص ہوتا ہے۔

عبث گننے کی یہ کوشش کہ ہیں کتنے نفوس اس میں
کہ نکلے گا بہر عنوان تیرا بھی جلوس اس میں

اس نظم میں شاعر ریل کے سفر کے دوران پیش آنے والے مناظر کی منظر کشی کررہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ہمارے یہاں جب کوئی ریل کا سفر کرتا ہے تو اسے کن حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ریل کے ہر ڈبے میں لوگوں کی اس قدر بھیڑ ہوتی ہے کہ آرام سے بیٹھنا محال ہوجاتا ہے، اور پھر ہر جگہ سے بچوں کے رونے کی آواز ، ریل گاڑی کی آواز اور مزید شور بھی بلند ہوتے ہیں جو اس سفر کو مزید مشکل بنادیتے ہیں۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ اگر تو یہ گننے کی کوشش کررہا ہے کہ ریل گاڑی کے اس ڈبے میں کتنے لوگ موجود ہیں تو یہ کوشش کرنا بیکار ہے کیونکہ جلد ہی تو بھی اس ہجوم کا حصہ بننے والا ہے۔ اور جلد ہی تیرا بھی اس ہجوم میں جلوس نکلنے والا ہے۔

وہ اک رسی میں پورا لاؤ لشکر باندھ لائے ہیں
یہ بستر میں ہزاروں تیر نشتر باندھ لائے ہیں

اس نظم میں شاعر ریل کے سفر کے دوران پیش آنے والے مناظر کی منظر کشی کررہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ہمارے یہاں جب کوئی ریل کا سفر کرتا ہے تو اسے کن حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ریل کے ہر ڈبے میں لوگوں کی اس قدر بھیڑ ہوتی ہے کہ آرام سے بیٹھنا محال ہوجاتا ہے، اور پھر ہر جگہ سے بچوں کے رونے کی آواز ، ریل گاڑی کی آواز اور مزید شور بھی بلند ہوتے ہیں جو اس سفر کو مزید مشکل بنادیتے ہیں۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ لوگ ریل گاڑی میں اپنے سامان کو ایک ہی رسی سے باندھ کر لے آتے ہیں۔ کبھی کبھی تو مسافر ایک بڑے سے بستر کے اندر بہت ساری چیزیں جمع کر کے باندھ کر اپنے ساتھ لے آتے ہیں۔

سوال نمبر ۲ : اس نظم میں ریل کے تیسرے درجے کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے وہ اپنے الفاظ میں بیان کیجیے۔

جواب : اس نظم میں شاعر ریل کے سفر کے دوران پیش آنے والے مناظر کی منظر کشی کررہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ہمارے یہاں جب کوئی ریل کا سفر کرتا ہے تو اسے کن حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ریل کے ہر ڈبے میں لوگوں کی اس قدر بھیڑ ہوتی ہے کہ آرام سے بیٹھنا محال ہوجاتا ہے، اور پھر ہر جگہ سے بچوں کے رونے کی آواز ، ریل گاڑی کی آواز اور مزید شور بھی بلند ہوتے ہیں جو اس سفر کو مزید مشکل بنادیتے ہیں۔ اس نظم میں شاعر نے ریل کے تیسرے ڈبے کا ایسا نقشہ کھینچا کہ وہ مسافر سے کہتے ہیں کہ مسافر اس ریل گاڑی کے ڈبے میں گھس جا، اور اس کا حصہ بن جا کیونکہ تجھے اسی ڈبے میں سفر کرنا ہے۔ شاعر مسافر سے کہتے ہیں کہ اے مسافر تیری قسمت میں یہ لکھا جاچکا ہے کہ تو ریل گاڑی کے تیسرے درجے کے ڈبے میں سفر کر، کیونکہ پہلے ڈبے کا درجہ تو خاص قسم کے لوگوں کے لیے مختص ہوتا ہے۔

سوال نمبر ۳ : مزاح کے حوالے سے اس نظم کی خوبیاں بیان کیجیے۔

جواب : مزاح کے حوالے سے اس نظم میں یہ خوبیاں موجود ہیں کہ شاعر نے ریل گاڑی کے سفر کو پُر مزاح انداز میں بیان کیا ہے اور وہاں ہیش آنے والی صورتحال کو اس انداز میں لکھا ہے کہ قاری کے چہرے پر اس نظم کو پڑھتے ہوئے ہمہ وقت مسکان رہتی ہے اور کبھی کبھی بےساختہ ایک قہقہہ بھی لگ جاتا ہے۔

سوال نمبر ۴ : اس نظم میں جو اسمائے تانیث استعمال ہوئے ہیں ان کی فہرست بنائیے۔

گٹھڑی
لنگوٹی
رسی
کلہاڑی
سواری

سوال نمبر ۵ : ذیل کے الفاظ کے واحد یا جمع لکھیے :

واحد جمع
محسوس محسوسات
دوا ادویات
خزانہ خزائن
شاہد شدائد
حکیم حکیموں
عنوان عنوانات