مرزا اسد اللہ خان غالب کی غزلیں (تشریح)

0

شاعر : مرزا غالب

تعارفِ غزل :

یہ شعر ہماری درسی کتاب کی غزل سے لیا گیا ہے۔ اس غزل کے شاعر کا نام مرزا غالب ہے۔

تعارفِ شاعر :

مرزا غالب کا پورا نام مرزا اسد اللہ بیگ خان تھا۔ غالب تخلص اور مرزا نوشہ عرفیت تھی۔ ندرتِ بیان ، تنوع اور رفعتِ خیال آپ کی شاعری کا خاصہ تھی۔ آپ کی دیگر کتابوں کے علاوہ دیوانِ غالب اور کلیاتِ غالب (فارسی) بہت مشہور ہیں۔ بہادر شاہ ظفر نے آپ کو اپنا استاد مقرر کیا اور دبیر الملک ، نظام جنگ اور نجم الدولہ کے خطابات سے نوازا۔

(غزل نمبر ۱)

ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا
آپ آتے تھے مگر کوئی عناں گیر بھی تھا

تشریح :

اس شعر میں شاعر محبوب سے شکوہ کناں ہیں۔ شاعر کہتا ہے کہ ہم آپ کے انتظار میں ہی رہ گئے اور آپ آئے ہی نہیں، ہماری آنکھیں ملاقات کو ترستی رہی۔ اور شاعر کہتا ہے کہ شاید آپ مجھ سے ملنے آجاتے مگر آپ کو آنے سے روکنے والا بھی کوئی موجود ہے، شاعر کا یہ خیال کہ اس کے محبوب کو ملاقات سے روکنے والا کوئی اور ہے ورنہ وہ ملاقات کے لیے آہی جاتا۔

تم سے بے جا ہے مجھے اپنی تباہی کا گلہ
اس میں کچھ شائبہ خوبی تقدیر بھی تھا

تشریح :

اس شعر میں شاعر محبوب کو بری و ذمہ کرتے ہوۓ کہتے ہیں کہ مجھے تم سے کوئی گلا شکوہ نہیں ہے میری زندگی میں جو دکھ درد تکلیف اور پریشانیاں آئی ہیں ان کا ذمہ دار میں تمہیں نہیں سمجھتا۔ یہ سب کو میری قسمت میں ایسے ہی لکھا ہوا تھا اور اس کو یوں ہی ہونا تھا ہماری قسمت میں ہی وصل کی گھڑیاں لکھ دی گئی تھی تو بھلا کیونکر ہمارا ملن ہوپاتا۔ یہ قسمت کا ہی کھیل ہےکے ہمیں تم سے ٹھوکر ملی۔

یوسف اس کو کہوں اور کچھ نہ کہے خیر ہوئی
گر بگڑ بیٹھے تو میں لائق تعزیر بھی تھا

تشریح :

اس شعر میں شاعر نے ظرافت کا عنصر نمایاں کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اس نے اپنے محبوب کو مثل یوسف کہہ دیا ہے (ہر محبوب کی طرح شاعر کو بھی اپنا محبوب حسن میں کمال سمجھتا ہے )، اچھا ہو کہ وہ اس پر دھیان نہ دے، کیونکہ وہ اپنے آپ کو حسن میں لاثانی سمجھتا ہے اور اگر وہ مجھ سے ناراض ہوگیا تو میرا معاملہ بگڑ جاتا۔

پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر نا حق
آدمی کوئی ہمارا دم تحریر بھی تھا

تشریح :

اس شعر میں شاعر مزاحیہ انداز میں اللہ سے شکوہ کناں ہے کہ اللہ ہمارے مرنے کے بعد ہمارے اعمال کا حساب کتاب ان فرشتوں کے لکھے نامہ اعمال سے طہ کیا جائے گا۔ جبکہ ان اعمال کا کوئی انسان گواہ ہونا بھی ضروری ہے جو ہمارے اعمال کی گواہی دے سکے اور اس سے ہماری سزا و جزا کا تعین ہو اس شعر میں شاعر کا مقصد صرف شعر کو مزاح کا رنگ دینا ہے ورنہ انسان کے اعمال کا گواہ خود اللہ ہے جو ہر جگہ ہر پل موجود رہتا ہے۔

ریختے کے تمہیں استاد نہیں ہو غالبؔ
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا

تشریح :

اس شعر میں شاعر نے خود کلامی کا انداز اپنایا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ اردو ادب کا ماہر اور استاد صرف میں ہی نہیں ہوں بلکہ لوگ کہتے ہیں اگلے زمانے میں ایک ایسا شاعر بھی گزرا ہے جس کی شاعری کا متعرف ایک عالم تھا۔ اس شعر میں شاعر نے پہلی سطر میں عاجزی کا اظہار کیا جبکہ دوسری لائن میں انہوں نے لوگوں کے میر تقی میر کے کلام سے متاثر ہونے کا تذکرہ کیا ہے۔

(غزل نمبر ۲)

کوئی دن گر زندگانی اور ہے
اپنے جی میں ہم نے ٹھانی اور ہے

تشریح :

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ زندگی تکلیفوں اور کٹھنائیوں میں گزر گئی۔ ہماری غموں کے بوجھ نے اک پل چین نہ لینے دیا ہمیں اب اگر اس زندگی کے کچھ لمحے اور نصیب ہیں تو ہم بھی یہ ارادہ کرچکے ہیں کے ہار نہیں مانیں گے اور جتنی بھی مشکلیں اور مصیبتیں آئیں گی ان کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ گزشتہ زندگی کی طرح ان کا حال اب نہیں ہونے دیں گے۔

آتش دوزخ میں یہ گرمی کہاں
سوز غم ہائے نہانی اور ہے

تشریح :

اس شعر میں شاعر نے مبالغہ آرائی سے کام لیا ہے۔ شاعر کہتا ہے میں نے کتابوں میں سنا ہے کے جہنم کی آگ بہت سخت گرم ہے۔ جس کا برداشت کرنا نامکمن ہے مگر میرا خیال ہے کہ دنیا میں اس کہیں زیادہ گرمی ان دل کے جذبات کی ہے، جو انسان دل کے تہہ خانوں میں چھپا کررکھتا ہے اور وہ اس کو جلا کر بھسم کرنے کی طاقت رکھتے ہیں اور اس گرمی کے سامنے مجھے دوزخ کی گرمی کم ہی لگتی ہے۔

بارہا دیکھی ہیں ان کی رنجشیں
پر کچھ اب کے سرگرانی اور ہے

تشریح :

اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اکثر میرا محبوب مجھ روٹھ جاتا ہے اور اس کی رنجشیں بڑھنے سے پہلے ہی میں اس کو منع لیتا ہوں۔ مجھے اس کا روٹھ جانا منظور ہی نہیں ہے مگر اس بار وہ ایسا روٹھا ہے کہ ہر کوشش کرکے دیکھ لی مگر وہ ماننے کو تیار ہی نہیں ہے، لگتا ہے کسی نے اس کے دل میں میرے لیے بدگمانی ڈال دی ہے۔ ورنہ وہ ایسا تو نہیں ہے۔

دے کے خط منہ دیکھتا ہے نامہ بر
کچھ تو پیغام زبانی اور ہے

تشریح :

اس شعر میں شاعر نے اس قاصد کے جذبات کا احوال بیاں کیا ہے جو ان کے محبوب کا خط لایا تھا شاعر کہتا ہے کہ میرے محبوب کا قاصد جب میرے پاس خط لایا تو اور خط میرے حوالے کرنے کے بعد وہ میرا چہرا بغور دیکھنے لگا شاید میرے محبوب نے کوئی زبانی پیغام بھیجا تھا اس کو کہنے کی کوشش اس نے بہت کی مگر شاید وہ جھجھک رہا تھا وہ بات کہنے سے۔

ہو چکیں غالبؔ بلائیں سب تمام
ایک مرگ ناگہانی اور ہے

تشریح :

اس شعر میں شاعر نے خود کلامی میں اپنی زندگی کا احوال کہہ سنایا ہے شاعر کہتا ہے کہ زندگی کی تمام ہوگئی ہے تکلیفوں اور مصیبتوں کے ساتھ اب تو اس قدر ان کی عادت چکی ہے کہ کوئی تکلیف اب اثر ہی نہیں کرتی زندگی کی کتاب کے پنے میرے دکھوں کی داستان سے بھر چکے ہیں بس اب ان پر میری موت کا اختتام باقی ہے اور جب موت واقعہ ہوجائے گی تو اس باب کے ساتھ یہ داستان بھی مکمل ہوجائے گی۔