اکبر اور مغربی تعلیم

0

تعارفِ نظم 

یہ بند ہماری درسی کتاب کی نظم ”اکبر اور مغربی تعلیم“ سے لیا گیا ہے۔ اس نظم کے شاعر کا نام اکبر آلہ ابادی ہے۔

تعارفِ شاعر 

اکبر آلہ ابادی ہندوستانی زبان اور ہندوستانی تہذیب کے بڑے مظبوط اور دلیر شاعر تھے۔ ان کے کلام میں شمالی ہندوسان میں رہنے بسنے والوں کی تمام ذہنی و اخلاقی قدروں ، تہذیبی کارناموں ، سیاسی تحریکوں ،اور حکومتی کار روائیوں کے بھر پور سراغ ملتے ہیں۔ اکبر کی شاعری زمانہ اور زندگی کا آئینہ ہے۔ خواص اور عوام دونوں ان کو اپنا شاعر سمجھتے تھے۔ ان کی شاعری دونوں کے ذوق کو سیراب کرتی ہے۔ ان کا کلام مکمل اردو کا کلام ہے۔

چاہا جو میں نے ان سے طریقِ عمل پہ وعظ
بولے کہ نظم ذیل کو ارقام کیجئے

اکبر الہ آبادی نے ہمیشہ مغربی تہذیب کو مشرقی تہذیب و تمدن کی موت قرار دے کر مضحکہ اڑایا ہے۔ ان کی شاعری انگریزی تہذیب کے اثرات کے خلاف ایک رد عمل ہے۔ اکبر الہ آبادی ایک خالص مشرقی مسلمان تھے اور انہیں اپنی مشرقی تہذیب اور روایتیں کچھ زیادہ ہی پسند تھیں چنانچہ اس نظم میں بھی اکبر الہ آبادی نے ان مسلم زعما کا مضحکہ اڑایا ہے جو اپنے مفاد کے خاطر معصوم اور سیدھے مسلمانوں کو فریب و دھوکہ دیا کرتے ہیں۔ مندرجہ بالا شعر میں شاعر کا کہنا ہے کہ انہوں نے جب اپنے مشرقی، مغرب زدہ دوست کے اطوار کو مد نظر رکھتے ہوئے کچھ نصیحت کا ارادہ کیا تو دوست نے بھانپ لیا اور انہیں مغربی خیالات کو نظم کرنے کو کہا۔ یہ نظم مغربی تعلیم اور اسکے اثرات پر گہرا طنز ہے۔

بے انتہا مفید ہیں یہ مغربی علوم
تحصیل ان کی بھی سحر و شام کیجئے

اکبر الہ آبادی نے ہمیشہ مغربی تہذیب کو مشرقی تہذیب و تمدن کی موت قرار دے کر مضحکہ اڑایا ہے۔ ان کی شاعری انگریزی تہذیب کے اثرات کے خلاف ایک رد عمل ہے۔ اکبر الہ آبادی ایک خالص مشرقی مسلمان تھے اور انہیں اپنی مشرقی تہذیب اور روایتیں کچھ زیادہ ہی پسند تھیں چنانچہ اس نظم میں بھی اکبر الہ آبادی نے ان مسلم زعما کا مضحکہ اڑایا ہے جو اپنے مفاد کے خاطر معصوم اور سیدھے مسلمانوں کو فریب و دھوکہ دیا کرتے ہیں۔ مندرجہ بالا شعر میں شاعر مغربی تعلیم پر پہلا طنز کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مغربی تعلیم کے بے شمار فوائد ہیں اس لئے اس کی تحصیل کو وظیفہ حیات بنا لینا چاہیے۔

یورپ میں پھریے پیرس و لندن کو دیکھیے
تحقیق ملک کا شغر و شام کیجیے

اکبر الہ آبادی نے ہمیشہ مغربی تہذیب کو مشرقی تہذیب و تمدن کی موت قرار دے کر مضحکہ اڑایا ہے۔ ان کی شاعری انگریزی تہذیب کے اثرات کے خلاف ایک رد عمل ہے۔ اکبر الہ آبادی ایک خالص مشرقی مسلمان تھے اور انہیں اپنی مشرقی تہذیب اور روایتیں کچھ زیادہ ہی پسند تھیں چنانچہ اس نظم میں بھی اکبر الہ آبادی نے ان مسلم زعما کا مضحکہ اڑایا ہے جو اپنے مفاد کے خاطر معصوم اور سیدھے مسلمانوں کو فریب و دھوکہ دیا کرتے ہیں۔ شاعر فرماتے ہیں کہ ملک ملک گھوم کر پیرس اور لندن کی چمکتی دمکتی روشنیاں دیکھ کر اسی تحقیق پر اپنی زندگی گزار دیں۔

ہو جائیے طریقہ مغرب پہ مطمئن
خاطر سے محو خطرہ انجام کیجئے

اکبر الہ آبادی نے ہمیشہ مغربی تہذیب کو مشرقی تہذیب و تمدن کی موت قرار دے کر مضحکہ اڑایا ہے۔ ان کی شاعری انگریزی تہذیب کے اثرات کے خلاف ایک رد عمل ہے۔ اکبر الہ آبادی ایک خالص مشرقی مسلمان تھے اور انہیں اپنی مشرقی تہذیب اور روایتیں کچھ زیادہ ہی پسند تھیں چنانچہ اس نظم میں بھی اکبر الہ آبادی نے ان مسلم زعما کا مضحکہ اڑایا ہے جو اپنے مفاد کے خاطر معصوم اور سیدھے مسلمانوں کو فریب و دھوکہ دیا کرتے ہیں۔ مندرجہ بالا شعر میں شاعر طنز کا تیر چلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ مغرب کے طرز اور روایت پر ہر طرح سے مطمئن ہو جائیں اور اپنی روایتوں سے دستبردار ہو جائیں۔

پیران بے فروغ کا گل ہو چکا چراغ
ناحق نہ دل کو تابع اوہام کیجیے

اکبر الہ آبادی نے ہمیشہ مغربی تہذیب کو مشرقی تہذیب و تمدن کی موت قرار دے کر مضحکہ اڑایا ہے۔ ان کی شاعری انگریزی تہذیب کے اثرات کے خلاف ایک رد عمل ہے۔ اکبر الہ آبادی ایک خالص مشرقی مسلمان تھے اور انہیں اپنی مشرقی تہذیب اور روایتیں کچھ زیادہ ہی پسند تھیں چنانچہ اس نظم میں بھی اکبر الہ آبادی نے ان مسلم زعما کا مضحکہ اڑایا ہے جو اپنے مفاد کے خاطر معصوم اور سیدھے مسلمانوں کو فریب و دھوکہ دیا کرتے ہیں۔ اکبر الہ آبادی کہتے ہیں کہ مغربی ترقی کا راز اس میں پوشیدہ ہے کہ انہوں نے اپنے ابا و اجداد سے منہ موڑ لیا اور انکے طریقوں پر چلنا چھوڑ دیا اب انکا مغرب زدہ دوست بھی انہی روایتوں کا حامل ہے اور چاہتا ہے کہ ہندوستان کے مسلمان بھی اسلاف پرستی کو ترک کر دیں۔

الفاظ کفرو فق کو بس بھول جائیے
ہر ملت و طریق کا اکرام کیجیے

اکبر الہ آبادی نے ہمیشہ مغربی تہذیب کو مشرقی تہذیب و تمدن کی موت قرار دے کر مضحکہ اڑایا ہے۔ ان کی شاعری انگریزی تہذیب کے اثرات کے خلاف ایک رد عمل ہے۔ اکبر الہ آبادی ایک خالص مشرقی مسلمان تھے اور انہیں اپنی مشرقی تہذیب اور روایتیں کچھ زیادہ ہی پسند تھیں چنانچہ اس نظم میں بھی اکبر الہ آبادی نے ان مسلم زعما کا مضحکہ اڑایا ہے جو اپنے مفاد کے خاطر معصوم اور سیدھے مسلمانوں کو فریب و دھوکہ دیا کرتے ہیں۔ مندرجہ بالا شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ مغرب کی تعلیم پر چلتے ہوئے کفر و شرک جیسے الفاظوں پر آنکھیں بند کر لیں اور بس مغرب کی روایتوں پر عمل کرتے رہیں۔

رکھیے نمود و شہرت و اعزاز پر نظر
دولت کو صرف کیجیے اور نام کیجیے

اکبر الہ آبادی نے ہمیشہ مغربی تہذیب کو مشرقی تہذیب و تمدن کی موت قرار دے کر مضحکہ اڑایا ہے۔ ان کی شاعری انگریزی تہذیب کے اثرات کے خلاف ایک رد عمل ہے۔ اکبر الہ آبادی ایک خالص مشرقی مسلمان تھے اور انہیں اپنی مشرقی تہذیب اور روایتیں کچھ زیادہ ہی پسند تھیں چنانچہ اس نظم میں بھی اکبر الہ آبادی نے ان مسلم زعما کا مضحکہ اڑایا ہے جو اپنے مفاد کے خاطر معصوم اور سیدھے مسلمانوں کو فریب و دھوکہ دیا کرتے ہیں۔ مندرجہ بالا شعر میں شاعر طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مغرب کی روایت کو پوری طرح اپنائیں اور دولت کمانے کو ہی اپنی زندگی کا مقصد سمجھ لیں اور دولت سے دنیا میں اپنا نام بنا لیں۔

سامان جمع کیجیے کوٹھی بنائیے
باصد خلوص وعوت حکام کیجیے

اکبر الہ آبادی نے ہمیشہ مغربی تہذیب کو مشرقی تہذیب و تمدن کی موت قرار دے کر مضحکہ اڑایا ہے۔ ان کی شاعری انگریزی تہذیب کے اثرات کے خلاف ایک رد عمل ہے۔ اکبر الہ آبادی ایک خالص مشرقی مسلمان تھے اور انہیں اپنی مشرقی تہذیب اور روایتیں کچھ زیادہ ہی پسند تھیں چنانچہ اس نظم میں بھی اکبر الہ آبادی نے ان مسلم زعما کا مضحکہ اڑایا ہے جو اپنے مفاد کے خاطر معصوم اور سیدھے مسلمانوں کو فریب و دھوکہ دیا کرتے ہیں۔شاعر مغرب زدہ دوست پر طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پیسوں کے انبار لگاتے جائیں اور کوٹھی پر کوٹھی مکان پر مکان بناتے جائیں اور خلوص نیت کو خیر آباد کہہ دیں۔

آرائشوں سے گھر کو مہذب بنائیے
تزائین طاق و مقف دروبام کیجیے

اکبر الہ آبادی نے ہمیشہ مغربی تہذیب کو مشرقی تہذیب و تمدن کی موت قرار دے کر مضحکہ اڑایا ہے۔ ان کی شاعری انگریزی تہذیب کے اثرات کے خلاف ایک رد عمل ہے۔ اکبر الہ آبادی ایک خالص مشرقی مسلمان تھے اور انہیں اپنی مشرقی تہذیب اور روایتیں کچھ زیادہ ہی پسند تھیں چنانچہ اس نظم میں بھی اکبر الہ آبادی نے ان مسلم زعما کا مضحکہ اڑایا ہے جو اپنے مفاد کے خاطر معصوم اور سیدھے مسلمانوں کو فریب و دھوکہ دیا کرتے ہیں۔ مندرجہ بالا شعر میں شاعر طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اپنی ساری اخلاقیات اور روایت بھول کر بس اپنے گھر مکانوں کو سجانے کی ترغیبیں کرتے رہیں۔

نظارہ جہاں سے تر و تازہ رکھیے آنکھ
تفریح پارک میں سحر و شام کیجیے

اکبر الہ آبادی نے ہمیشہ مغربی تہذیب کو مشرقی تہذیب و تمدن کی موت قرار دے کر مضحکہ اڑایا ہے۔ان کی شاعری انگریزی تہذیب کے اثرات کے خلاف ایک رد عمل ہے۔ اکبر الہ آبادی ایک خالص مشرقی مسلمان تھے اور انہیں اپنی مشرقی تہذیب اور روایتیں کچھ زیادہ ہی پسند تھیں چنانچہ اس نظم میں بھی اکبر الہ آبادی نے ان مسلم زعما کا مضحکہ اڑایا ہے جو اپنے مفاد کے خاطر معصوم اور سیدھے مسلمانوں کو فریب و دھوکہ دیا کرتے ہیں۔ اکبر الہ آبادی مزید طنز کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک پہنچانے کی خاطر پارک کا رخ کریں اور تفریح حاصل کرتے رہیں۔

مذہب کا نام لیجیے عامل نہ ہو جیے
جو متفق نہ ہو اسے بدنام کیجیے

اکبر الہ آبادی نے ہمیشہ مغربی تہذیب کو مشرقی تہذیب و تمدن کی موت قرار دے کر مضحکہ اڑایا ہے۔ ان کی شاعری انگریزی تہذیب کے اثرات کے خلاف ایک رد عمل ہے۔ اکبر الہ آبادی ایک خالص مشرقی مسلمان تھے اور انہیں اپنی مشرقی تہذیب اور روایتیں کچھ زیادہ ہی پسند تھیں چنانچہ اس نظم میں بھی اکبر الہ آبادی نے ان مسلم زعما کا مضحکہ اڑایا ہے جو اپنے مفاد کے خاطر معصوم اور سیدھے مسلمانوں کو فریب و دھوکہ دیا کرتے ہیں۔ اکبر الہ آبادی معاشرے پر گہرا طنز کرتے ہوئے فرماتے ہیں مغربی تعلیمات پر چلتے ہوئے آپ بس نام کے مسلمان ہو جائیں اور عمل کو بھلے ہی اپنی زندگی کا خاکہ نہ بنائیں اور جو آپکے اس طریقے پر خلاف راۓ دے اسے خوب بدنام کرتے جائیں۔

طرز قدیم پر جو نظر آئیں مولوی
پبلک میں ان کو مورد الزام کیجیے

اکبر الہ آبادی نے ہمیشہ مغربی تہذیب کو مشرقی تہذیب و تمدن کی موت قرار دے کر مضحکہ اڑایا ہے۔ ان کی شاعری انگریزی تہذیب کے اثرات کے خلاف ایک رد عمل ہے۔ اکبر الہ آبادی ایک خالص مشرقی مسلمان تھے اور انہیں اپنی مشرقی تہذیب اور روایتیں کچھ زیادہ ہی پسند تھیں چنانچہ اس نظم میں بھی اکبر الہ آبادی نے ان مسلم زعما کا مضحکہ اڑایا ہے جو اپنے مفاد کے خاطر معصوم اور سیدھے مسلمانوں کو فریب و دھوکہ دیا کرتے ہیں۔ اکبر الہ آبادی اپنے مغرب زدہ دوست پر گہرا طنز کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جو مسلمان پرانی روایت پر چلتا ہوا نظر آئے تو اسے دقیانوس کہہ کر ہر جگہ بدنام کریں۔

قومی ترقیوں کے مشاغل بھی ضرور
اس مد میں بھی ضرور کوئی کام کیجیے

اکبر الہ آبادی نے ہمیشہ مغربی تہذیب کو مشرقی تہذیب و تمدن کی موت قرار دے کر مضحکہ اڑایا ہے۔ ان کی شاعری انگریزی تہذیب کے اثرات کے خلاف ایک رد عمل ہے۔ اکبر الہ آبادی ایک خالص مشرقی مسلمان تھے اور انہیں اپنی مشرقی تہذیب اور روایتیں کچھ زیادہ ہی پسند تھیں چنانچہ اس نظم میں بھی اکبر الہ آبادی نے ان مسلم زعما کا مضحکہ اڑایا ہے جو اپنے مفاد کے خاطر معصوم اور سیدھے مسلمانوں کو فریب و دھوکہ دیا کرتے ہیں۔ شاعر کا کہنا ہے کہ اگر آپ مغربی روایت پر چل ہی رہے ہیں تو ترقی کے کاموں میں بھی اپنا حصّہ ڈالتے رہیں اور اس میں بھی اپنا نام کماتے جائیں۔

بے رونق سے کاٹیے کیوں اپنی عمر کو
کیوں انتظار گردش ایام کیجیے

اکبر الہ آبادی نے ہمیشہ مغربی تہذیب کو مشرقی تہذیب و تمدن کی موت قرار دے کر مضحکہ اڑایا ہے۔ ان کی شاعری انگریزی تہذیب کے اثرات کے خلاف ایک رد عمل ہے۔ اکبر الہ آبادی ایک خالص مشرقی مسلمان تھے اور انہیں اپنی مشرقی تہذیب اور روایتیں کچھ زیادہ ہی پسند تھیں چنانچہ اس نظم میں بھی اکبر الہ آبادی نے ان مسلم زعما کا مضحکہ اڑایا ہے جو اپنے مفاد کے خاطر معصوم اور سیدھے مسلمانوں کو فریب و دھوکہ دیا کرتے ہیں۔ اس شعر میں شاعر مسلمانوں پر طنز کررہے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ کیوں اپنی عمر کو بےرونقی میں گزار رہے ہیں، آپ جاہیے اور جو کرنا چاہتے ہیں کریں آپ کو کیا فرق پڑتا ہے کہ ایک دن آپ کو اس سب کا حساب بھی دینا پڑے گا۔

جو چاہیے وہ کیجیے بس یہ ضرور ہے
ہر انجمن میں دعوئے اسلام کیجیے

اکبر الہ آبادی نے ہمیشہ مغربی تہذیب کو مشرقی تہذیب و تمدن کی موت قرار دے کر مضحکہ اڑایا ہے۔ ان کی شاعری انگریزی تہذیب کے اثرات کے خلاف ایک رد عمل ہے۔ اکبر الہ آبادی ایک خالص مشرقی مسلمان تھے اور انہیں اپنی مشرقی تہذیب اور روایتیں کچھ زیادہ ہی پسند تھیں چنانچہ اس نظم میں بھی اکبر الہ آبادی نے ان مسلم زعما کا مضحکہ اڑایا ہے جو اپنے مفاد کے خاطر معصوم اور سیدھے مسلمانوں کو فریب و دھوکہ دیا کرتے ہیں۔ اس شعر میں شاعر مسلمانوں کو طنزیہ مشورہ دے رہے ہیں کہ آپ کو جو دل کرے آپ وہ کام کریں لیکن اپنی واہ واہ کے لیے ہر محفل میں اسلام کا ذکر ضرور کریں تاکہ سب کویہی لگے کہ آپ اپنے مذہب سے بہت قریب ہیں۔

لیکن نہ بن پڑیں جو یہ باتیں حضور سے
مردوں کے ساتھ قبر میں آرام کیجیے۔

اکبر الہ آبادی نے ہمیشہ مغربی تہذیب کو مشرقی تہذیب و تمدن کی موت قرار دے کر مضحکہ اڑایا ہے۔ ان کی شاعری انگریزی تہذیب کے اثرات کے خلاف ایک رد عمل ہے۔ اکبر الہ آبادی ایک خالص مشرقی مسلمان تھے اور انہیں اپنی مشرقی تہذیب اور روایتیں کچھ زیادہ ہی پسند تھیں چنانچہ اس نظم میں بھی اکبر الہ آبادی نے ان مسلم زعما کا مضحکہ اڑایا ہے جو اپنے مفاد کے خاطر معصوم اور سیدھے مسلمانوں کو فریب و دھوکہ دیا کرتے ہیں۔ اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ جو لوگ یہ منافقت بھری زندگی نہیں گزارتے لوگ انھیں زندہ ہی نہیں گردانتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو مردوں کے ساتھ آرام کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔

سوال نمبر ۱ : ذیل اشعار کی تشریح کیجیے۔

یورپ میں پھریے پیرس و لندن کو دیکھیے
تحقیق ملک کا شغر و شام کیجیے

اکبر الہ آبادی نے ہمیشہ مغربی تہذیب کو مشرقی تہذیب و تمدن کی موت قرار دے کر مضحکہ اڑایا ہے۔ ان کی شاعری انگریزی تہذیب کے اثرات کے خلاف ایک رد عمل ہے۔ اکبر الہ آبادی ایک خالص مشرقی مسلمان تھے اور انہیں اپنی مشرقی تہذیب اور روایتیں کچھ زیادہ ہی پسند تھیں چنانچہ اس نظم میں بھی اکبر الہ آبادی نے ان مسلم زعما کا مضحکہ اڑایا ہے جو اپنے مفاد کے خاطر معصوم اور سیدھے مسلمانوں کو فریب و دھوکہ دیا کرتے ہیں۔ شاعر فرماتے ہیں کہ ملک ملک گھوم کر پیرس اور لندن کی چمکتی دمکتی روشنیاں دیکھ کر اسی تحقیق پر اپنی زندگی گزار دیں۔

پیران بے فروغ کا گل ہو چکا چراغ
ناحق نہ دل کو تابع اوہام کیجیے

اکبر الہ آبادی نے ہمیشہ مغربی تہذیب کو مشرقی تہذیب و تمدن کی موت قرار دے کر مضحکہ اڑایا ہے۔ ان کی شاعری انگریزی تہذیب کے اثرات کے خلاف ایک رد عمل ہے۔ اکبر الہ آبادی ایک خالص مشرقی مسلمان تھے اور انہیں اپنی مشرقی تہذیب اور روایتیں کچھ زیادہ ہی پسند تھیں چنانچہ اس نظم میں بھی اکبر الہ آبادی نے ان مسلم زعما کا مضحکہ اڑایا ہے جو اپنے مفاد کے خاطر معصوم اور سیدھے مسلمانوں کو فریب و دھوکہ دیا کرتے ہیں۔ اکبر الہ آبادی کہتے ہیں کہ مغربی ترقی کا راز اس میں پوشیدہ ہے کہ انہوں نے اپنے ابا و اجداد سے منہ موڑ لیا اور انکے طریقوں پر چلنا چھوڑ دیا اب انکا مغرب زدہ دوست بھی انہی روایتوں کا حامل ہے اور چاہتا ہے کہ ہندوستان کے مسلمان بھی اسلاف پرستی کو ترک کر دیں۔

الفاظ کفرو فق کو بس بھول جائیے
ہر ملت و طریق کا اکرام کیجیے

اکبر الہ آبادی نے ہمیشہ مغربی تہذیب کو مشرقی تہذیب و تمدن کی موت قرار دے کر مضحکہ اڑایا ہے۔ ان کی شاعری انگریزی تہذیب کے اثرات کے خلاف ایک رد عمل ہے۔ اکبر الہ آبادی ایک خالص مشرقی مسلمان تھے اور انہیں اپنی مشرقی تہذیب اور روایتیں کچھ زیادہ ہی پسند تھیں چنانچہ اس نظم میں بھی اکبر الہ آبادی نے ان مسلم زعما کا مضحکہ اڑایا ہے جو اپنے مفاد کے خاطر معصوم اور سیدھے مسلمانوں کو فریب و دھوکہ دیا کرتے ہیں۔ مندرجہ بالا شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ مغرب کی تعلیم پر چلتے ہوئے کفر و شرک جیسے الفاظوں پر آنکھیں بند کر لیں اور بس مغرب کی روایتوں پر عمل کرتے رہیں۔

بے رونق سے کاٹیے کیوں اپنی عمر کو
کیوں انتظار گردش ایام کیجیے

اکبر الہ آبادی نے ہمیشہ مغربی تہذیب کو مشرقی تہذیب و تمدن کی موت قرار دے کر مضحکہ اڑایا ہے۔ ان کی شاعری انگریزی تہذیب کے اثرات کے خلاف ایک رد عمل ہے۔ اکبر الہ آبادی ایک خالص مشرقی مسلمان تھے اور انہیں اپنی مشرقی تہذیب اور روایتیں کچھ زیادہ ہی پسند تھیں چنانچہ اس نظم میں بھی اکبر الہ آبادی نے ان مسلم زعما کا مضحکہ اڑایا ہے جو اپنے مفاد کے خاطر معصوم اور سیدھے مسلمانوں کو فریب و دھوکہ دیا کرتے ہیں۔ اس شعر میں شاعر مسلمانوں پر طنز کررہے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ کیوں اپنی عمر کو بےرونقی میں گزار رہے ہیں، آپ جاہیے اور جو کرنا چاہتے ہیں کریں آپ کو کیا فرق پڑتا ہے کہ ایک دن آپ کو اس سب کا حساب بھی دینا پڑے گا۔

سوال نمبر ۲ : اس نظم میں اکبر الہ آبادی نے مغربی تعلیم کے زیر اثر پیدا ہونے والی کن اخلاقی اور سماجی برائیوں پر طنز کیا ہے۔

جواب : اس نظم میں اکبر الہ آبادی نے مغربی تعلیم کے زیر اثر پیدا ہونے والی ان اخلاقی اور سماجی برائیوں پر طنز کیا ہے کہ وہاں تعلیم حاصل کرنے کے بعد انسان اپنے مذہب سے دور ہوجاتا ہے۔ پھر انسان انھیں کی طرز پر زندگی گزارنے لگتا ہے اور کہتا ہے کہ چلو ہر مذہب کا احترام کر کے اس مذہب پر عمل کرلو اور انسان پھر منافق ہوجاتا ہے۔

سوال نمبر ۳ : ذیل کے الفاظ کی جمع یا واحد لکھیے۔

واحد جمع
وہم اوہام
مشغلہ مشاغل
مذہب مذاہب
فکر افکار
درس ادراس
ممنوع ممنوعات
طرز اطراز
قبر قبور
طریق طریقے
تفریح تفریحات
وظیفہ وظائف


سوال نمبر ۴ : اس نظم میں سے دو ایسے شعر منتخب کیجیے جو آپ کو پسند ہوں اور اپنی پسندیدگی کی وجہ بھی بیان کیجیے۔

اس نظم کے مندرجہ ذیل دو اشعار مجھے پسند ہیں :

یورپ میں پھریے پیرس و لندن کو دیکھیے
تحقیق ملک کا شغر و شام کیجیے
پیران بے فروغ کا گل ہو چکا چراغ
ناحق نہ دل کو تابع اوہام کیجیے

ان اشعار کو پسند کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ان اشعار میں اکبر الہ آبادی نے غربی تہذیب کو مشرقی تہذیب و تمدن کی موت قرار دے کر مضحکہ اڑایا ہے۔ ان کی شاعری انگریزی تہذیب کے اثرات کے خلاف ایک رد عمل ہے۔ اکبر الہ آبادی ایک خالص مشرقی مسلمان تھے اور انہیں اپنی مشرقی تہذیب اور روایتیں کچھ زیادہ ہی پسند تھیں چنانچہ اس نظم میں بھی اکبر الہ آبادی نے ان مسلم زعما کا مضحکہ اڑایا ہے جو اپنے مفاد کے خاطر معصوم اور سیدھے مسلمانوں کو فریب و دھوکہ دیا کرتے ہیں۔ شاعر فرماتے ہیں کہ ملک ملک گھوم کر پیرس اور لندن کی چمکتی دمکتی روشنیاں دیکھ کر اسی تحقیق پر اپنی زندگی گزار دیں۔ اکبر الہ آبادی کہتے ہیں کہ مغربی ترقی کا راز اس میں پوشیدہ ہے کہ انہوں نے اپنے ابا و اجداد سے منہ موڑ لیا اور انکے طریقوں پر چلنا چھوڑ دیا اب انکا مغرب زدہ دوست بھی انہی روایتوں کا حامل ہے اور چاہتا ہے کہ ہندوستان کے مسلمان بھی اسلاف پرستی کو ترک کر دیں۔