مجسمہ

0

سبق : مجسمہ
مصنف : غلام عباس
ماخوذ : اردو افسانہ اور افسانہ نگار

سوال ۶ : اس افسانے کا خلاصہ اپنے الفاظ میں تحریر کیجیے۔

تعارفِ سبق : سبق ” مجسمہ “ کے مصنف کا نام ”غلام عباس “ ہے۔ یہ سبق آپ کی کتاب ”اردو افسانہ اور افسانہ نگار“ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔ غلام عباس کو اردو کے مشہور افسانہ نگاروں میں شامل کیا جاتا ہے۔

تعارفِ مصنف

غلام عباس 17 نومبر 1909 کو امرتسر میں پیدا ہوئے۔ ان کی ادبی زندگی کا آغاز 1925 سے ہوا۔ انھوں نے ابتدا میں بچوں کے لیے نظمیں اور کہانیاں لکھیں اور غیر ملکی افسانوں کے تراجمے لکھے۔ قیام پاکستان کے بعد غلام عباس ریڈیو پاکستان سے منسلک ہو گئے۔ آپ نے ریڈیو پاکستان کے آہنگ کی بھی ادارت کی۔ آپ کے افسانوی مجموعے “آنندی، کن رس، اجاڑ شام کی چاندنی” شائع ہوئے۔ آپ کا انتقال یکم۔نومبر 1984 میں ہوا۔

خلاصہ

اس افسانے کا مرکزی کردار ملکہ ہے۔ بادشاہ اپنی بیوی سے دل کی دنیا میں پنپتے جذبات کی تسکین چاہتا تھا۔ وہ اپنے گھر میں بے ساختگی چاہتا تھا۔ لیکن ملکہ یہ سب جاننے کے باوجود بھی اطاعت و فرمانبرداری کا پیکر بن کر رہتی۔ ملکہ کا مصنوعی رویہ بادشاہ کو تکلیف دیتا تھا۔ اس پر ستم یہ کہ ان کی کوئی اولاد بھی نہیں تھی۔ جس کے چہرے کو دیکھ کر بادشاہ خوش ہوتا۔ ایک دن ملکہ نے بادشاہ کو دوسری شادی کرنے کا مشورہ بھی دے ڈالا۔ بادشاہ بہت پریشان تھا۔ اس کے درباری اس کی پریشانی بانٹنے کے لیے طرح طرح کی مخفلیں سجاتے، مقابلے کرواتے لیکن بادشاہ کو صرف سنگ تراشی اور مصوری ہی میں سکون ملتا تھا۔

ایک دن ایک بوڑھا شخص ایک خوبصورت لیکن چھوٹا مجسمہ لیے دربار میں حاضر ہوا۔ بادشاہ نے اسے خوب انعام سے نوازا۔ اب وہ مجسمہ بادشاہ کی خواب گاہ میں رہتا اور بادشاہ اسے گھنٹوں تکتا اور مسکراتا رہتا۔ اب ملکہ کے دل میں رقابت کا احساس جنم لینے لگا۔ ملکہ اب طرح طرح سے بادشاہ کی توجہ اپنی جانب مبذول کروانے کی کوشش کرتی رہتی۔ یہاں تک کہ اس نے مجسمے پر داغ لگا دیا۔ ملکہ اس کے اعضاء توڑنے لگی اور ایک دن اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور خود اپنے تمام تر احساسات کے ساتھ بادشاہ کے پیروں میں گر گئی، مجسمہ ٹوٹنے کے ساتھ ہی بادشاہ کی جیت ہو گئی اور ملکہ کی انا کا بت بھی پاش پاش ہو گیا۔

سوال ۱ : ملکہ بے حد حسین بھی تھی اور فرمانبردار بھی اور بادشاہ اسے دل و جان سے چاہتا بھی تھا تو پھر وہ افسردہ کیوں رہتا تھا؟

جواب : بادشاہ ملکہ سے بہت الفت رکھتا تھا۔ ملکہ نہایت فرمانبردار اور حسین تھی۔ مگر ان کے یہاں اولاد نہ تھی۔ ملکہ کی سردمہری بادشاہ کی اداسی کی وجہ تھی اور اس پر ملکہ نے بادشاہ کو دوسری شادی کرنے کا مشورہ بھی دیا۔ جس سے بادشاہ دن بہ دن افسردہ و ملول رہنے لگا۔

سوال ۲ : ملکہ نے بادشاہ سے کیا کہا اور یہ بات بادشاہ کو کیوں ناگوار گزری؟

جواب : ملکہ نے بادشاہ کو مشورہ دیا کہ وہ دوسری شادی کر لیں۔ اس پر بادشاہ کو سخت ناگواری اور رنج و ملول کا سامنا کرنا پڑا۔ کیونکہ بادشاہ ملکہ سے بہت محنت کرتا تھا اور ملکہ اس کی رفیق بننے کے بجائے اس سے دور دور رہتی تھی۔

سوال ۳ : پتھر کے مجسمے کی کس چیز نے بادشاہ کو اپنا گرویدہ بنا لیا؟

جواب : بوڑھے سنگ تراش نے اپنا شاہکار مرمریں مجسمہ بادشاہ کے حضور پیش کیا۔ یہ حسین و جمیل عورت کی شبیہ تھی۔ مجسمہ انتہائی خوبصورت تھا یوں معلوم ہوتا تھا کسی فن پارے نے پتھر کے ٹکڑے کو تراش کر اس میں عشق کی گرم سانس پھونک کر اسے حیاتی بخش دی ہو۔ یہ تخیل کا شاہ کار تھا۔ یہ مجسمہ کسی جنتی حور کی مانند دل موہ لینے والا تھا جس سے بادشاہ غیر معمولی طور پر متاثر ہوا۔

سوال ۴ : ملکہ نے اس مجسمے کو پہلے داغدار اور پھر پارہ پارہ کیوں کر دیا؟

جواب : مجسمے پر بادشاہ غیر معمولی توجہ دینے لگا اور گھنٹوں اسے دیکھتا اور پرمسرت سا مسکراتا رہتا۔ ملکہ کو یہ سب دیکھ کر مجسمے سے رقابت کی سی جلن محسوس ہوئی۔ پہلے تو اس نے مجسمے کو داغ دار کر دیا مگر اس سے بھی بادشاہ کی توجہ ہرگز اس مجسمہ سے نہ ہٹی تو اس نے مجسمہ کو پارہ پارہ کر دیا۔

سوال ۵ : وہ کون سا خاص نکتہ ہے جو افسانہ نگار نے اس افسانے میں پیش کیا ہے؟

جواب : اس افسانے میں افسانہ نگار نے اس نکتے پر توجہ دلائی ہے کہ انسان چاہے کتنا بھی اعلیٰ درجے کا ہو ، اسے اپنے شریکِ حیات سے بےساختگی اور برابری کی محبت چاہیے ہوتی ہے۔ اور افسانہ نگار نے اس نکتے پر بھی توجہ دلائی ہے کہ محبت کے رشتے میں انا کو بیچ میں نہیں لانا چاہیے ورنہ دو فریقین کے درمیان تیسرا فریق باآسانی آجاتا ہے۔

سوال ۷ : ذیل کے الفاظ کے واحد یا جمع بنائیے :

واحد جمع
جسم اجسام
قدر اقدار
خیال تخیل
جز اجزا
معمول معمولات
طبیعت طبائع
وسیلہ وسیلے
خزانہ خزائن
عجب عجائب
عالم علماء

سوال ۸ : ذیل کے الفاظ و محاورات کو اپنے جملوں میں استعمال کیجیے:

دقیقہ اٹھا نہ رکھنا : اس نے اپنے والدین کی خدمت میں کوئی دقیقہ نہ اٹھا رکھا تھا۔
خشمگیں : استاد نے طلبہ کے شور کرنے پر انھیں خشمگیں نظروں سے گھورا۔
التفات شاہانہ : بادشاہ نے ملکہ کو التفاتِ شاہانہ کا مالکن بنا کر رکھا تھا۔
سود و زیاں : ہمیں رشتوں میں سود و زیاں کی بات نہیں کرنی چاہیے۔
نہال کرنا : بلال نے اعلیٰ نتائج لا کر اپنے والدین کو نہال کردیا۔
غیور : پاکستان کی غیور افواج نے بھارت کو 1965 کی جنگ میں شکست دی تھی۔
خودسر : خود سری کا بت کتنا بھی مضبوط ہو ایک نہ ایک دن ٹوٹ جاتا ہے۔
منافی : قرآن و حدیث ظلم و ستم کے منافی تعلیم دیتے ہیں۔
جذبہ خودداری : انسان کا جذبہ خودداری اسے محنت سے کمانے کی جانب راغب کرتا ہے۔
رفیق و دمساز : ہر شخص کو ایک رفیق و دمساز کی ضرورت ہوتی ہے۔
برعکس : ظہیر کے برعکس کاشف کی تقریر پُرلطف تھی۔
سبک رو : قحط و خشک سالی سے چولستان کے سبک رو لوگ سراپا احتجاج ہیں۔

اوال نمبر ۹ : مندرجہ ذیل جملوں کی وضاحت کیجیے :

  • ۱) وہ تسلیم و اطاعت کا ایک زندہ پیکر بن جاتی تھی۔

حوالہ سبق : یہ جملہ ہماری بارہویں جماعت کی کتاب کے سبق ” مجسمہ“ سے لیا گیا ہے۔ اس سبق کے مصنف کا نام ”غلام عباس“ ہے۔ یہ سبق غلام عباس کی کتاب ” اردو افسانہ اور افسانہ نگار “ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔ غلام عباس کا شمار اردو ادب کے اولین افسانہ نگاروں میں کیا جاتا ہے۔

تشریح

اس جملے میں مصنف ملکہ کا ذکر کررہے ہیں کہ وہ بادشاہ سے محبت کرتی تھی اور بادشاہ کے دل میں موجود اپنی محبت سے بھی واقف تھی، لیکن وہ بادشاہ سے دل لگی کی باتیں کرنے کے بجائے اس کے سامنے آتے ہی اطاعت کا پیکر بن جاتی تھی۔ وہ اس کا ہر فرمان پر سر جھکانا چاہتی تھی اور اس کی عزت کرتی تھی، لیکن اس سے محبت بھری باتیں نہیں کرتی تھی۔ جس سے بادشاہ ہمیشہ اداس رہتا تھا۔

  • ۲) ایسی الفت جیسی صرف شاعروں کا تخیل ہی تخلیق کرسکتا ہے۔

حوالہ سبق : یہ جملہ ہماری گیارہویں جماعت کی کتاب کے سبق ” مجسمہ“ سے لیا گیا ہے۔ اس سبق کے مصنف کا نام ”غلام عباس“ ہے۔ یہ سبق غلام عباس کی کتاب ” اردو افسانہ اور افسانہ نگار “ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔ غلام عباس کا شمار اردو ادب کے اولین افسانہ نگاروں میں کیا جاتا ہے۔

تشریح

اس جملے میں مصنف بادشاہ کی ملکہ کے لیے الفت کی شدت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں بادشاہ کو ملکہ سے ایسی الفت تھی جیسی صرف شاعروں کا تخیل ہی تخلیق کرسکتا ہے۔ یعنی ایسی الفت آج تک کسی کو کسی سے نہ ہوئی ہوگی، لیکن ملکہ تھی کہ اپنی انا کے ہاتھوں مجبور وہ بادشاہ کے ساتھ پیار و محبت کا رویہ رکھنے سے قاصر تھی۔

  • ۳) معلوم ہوتا تھا کسی وارفتہ ساحر نے پتھر کے ایک بےجان مجسمے میں عشق کا گرم سانس پھونک کر اسے حیات دوام بخش دی ہے۔

حوالہ سبق : یہ جملہ ہماری گیارہویں جماعت کی کتاب کے سبق ” مجسمہ“ سے لیا گیا ہے۔ اس سبق کے مصنف کا نام ”غلام عباس“ ہے۔ یہ سبق غلام عباس کی کتاب ” اردو افسانہ اور افسانہ نگار “ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔ غلام عباس کا شمار اردو ادب کے اولین افسانہ نگاروں میں کیا جاتا ہے۔

تشریح

اس جملے میں مصنف دراصل سنگ تراش کے بنائے گئے چھوٹے سے لیکن حسین مجسمے کا ذکر کررہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس مجسمے کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے اس کی سنگ تراشی کے بعد اس میں عشق کی سانسیں پھونک کر اس میں جان ڈال دی گئی ہو۔ وہ حسن کا پیکر تھی، اور اسے دیکھ کر اس پر سے نظر پھیر لینا بادشاہ کے بس کی بات بھی نہ تھی اور وہ گھنٹوں اس مجسمے کو تکتے رہتا تھا۔