محسن الملک

0

تعارفِ سبق

سبق ”محسن الملک“ کے مصنف کا نام ”مولوی عبد الحق“ ہے۔ یہ سبق کتاب ” چند ہم عصر“ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

تعارفِ مصنف

مولوعی عبدالحق ۱۸۷۰ء میں ضلع میرٹھ کے قصبے ہاپڑ میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم پہلے فیروز پور پھر علی گڑھ سے حاصل کی۔ آپ نے علی گڑھ سے بی – اے کیا اور آپ کو علمی اعزازی ڈگریاں ملیں۔ آپ کچھ عرصہ حیدرآباد دکن میں بھی رہے اور تعلیم کے ساتھ ساتھ اردو ادب کے لیے مختلف خدمات انجام دیں۔ آپ انجمن ترقی اردو کے سیکریٹری مقرر ہوئے۔ پھر دہلی میں ابھی اسی عہدے پر فائز رہ کر کام کیا۔ تقسیمِ ہند کے بعد آپ کراچی منتقل ہوگئے۔ یہاں آکر آپ نے انجمن ترقی اردو کی بنیاد رکھی۔ پہلے آپ اس کے سیکریڑی پھر صدر بھی بنے۔ آپ کی آخری آرام گاہ اردو کالج کراچی میں ہے۔ مولوی صاحب کی اردو ادب کے لیے خدمات کے صلے میں قوم نے آپ کو ” بابائے اردو “ کا لقب دیا۔ لغت، قواعد، تدوین، تحقیق اور تبصرے کے حوالے سے آپ کی متعدد کتابیں چھپ چکی ہیں۔ شخصیت نگاری پر ”چند ہم عصر“ ان کی مشہور تصنیفات ہیں۔

خلاصہ

اس سب میں مصنف میر مہدی کی شخصیت کو بیان کررہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ قدرت نے نواب محسن الملک کو ذہانت، وجاہت ، خوش بیانی اور فیاضی جیسی خوبیوں سے نوازا تھا اور ان کی یہ خوبیاں بہت جلد دوسروں پر آشکار ہوجاتی تھیں۔

ریاستوں میں ملامت روی سے کام کرنا اس دشوار ہوتا ہے کیونکہ وہاں پر شازشوں اور پیچیدگیوں کے ایسے جال بھنے ہوئے ہوتے ہیں کے انسان نہ چاہتے ہوئے بھی ان میں پھنس جاتا ہے۔ وہاں کے حالات ایسے ہوتے ہیں کے انسان نا چاہے تب بھی اس کو ان معاملات میں پھسنا پڑتا ہے۔

لیکن اس سب کے باوجود ایک منتظم اعلیٰ کی حیثیت سے محسن المک میں بہت سی خوبیاں موجود تھی۔ ان کا مزاج سلجھا ہوا تھا۔ اور اوسان ایسے حاضر اور اتنا بجا کام کرتے تھے کہ پیچیدہ سے پیچیدہ معاملات کو بھی بہت آرام سے سلجھا لیتے۔ ان میں ایسا کمال موجود تھا کے معاملہ کوئی بھی ہوتا طرفین کو کوئی عذر نہ پہنچتا۔ وہ دوسروں سے کام لینے کا گر بخوبی جانتے تھے۔ لوگوں کی اس طرح سے حوصلہ افزائی کرتے کے وہ خود ان کا کام کرنے کے لیے تیار ہوجاتے۔ ان کا سلوک اپنے ماتحتوں کے ساتھ بہت اچھا ہوتا تھا اس لیے وہ ان کے ذاتی کام کے لیے بھی جان لڑا دیتے تھے۔

نواب صاحب اپنے اخلاق و عادات کی وجہ سے ہر ایک دلعزیز ہوگئے تھے، اس لیے حیدر آباد سے ان کی رخصت کے وقت اسٹیشن پر لوگوں کی بھیڑ تھی جو دکھی دل سے ان کو الوداع کرنے آئے تھے۔ ان لوگوں میں بڑے بوڑھے ، بیوہ عورتیں، یتیم بچے، امیر اور غریب غرض ہر طبقے کے لوگ شامل تھے۔ سب ہی ان کے لیے روزو قطار رو رہے تھے۔

سوال ۱ : قدرت نے نواب محسن الملک کو کن خوبیوں سے نوازا تھا؟

جواب : قدرت نے نواب محسن الملک کو ذہانت، وجاہت ، خوش بیانی اور فیاضی جیسی خوبیوں سے نوازا تھا اور ان کی یہ خوبیاں بہت جلد دوسروں پر آشکار ہوجاتی تھیں۔

سوال ۲ : ریاستوں میں ملامت روی سے کام کرنا کیوں دشوار ہوتا ہے؟

جواب : ریاستوں میں ملامت روی سے کام کرنا اس دشوار ہوتا ہے کیونکہ وہاں پر شازشوں اور پیچیدگیوں کے ایسے جال بھنے ہوئے ہوتے ہیں کے انسان نہ چاہتے ہوئے بھی ان میں پھنس جاتا ہے۔ وہاں کے حالات ایسے ہوتے ہیں کے انسان نا چاہے تب بھی اس کو ان معاملات میں پھسنا پڑتا ہے۔

سوال ۳ : ایک منتظم اعلیٰ کی حیثیت سے محسن المک میں کیا صفات تھیں؟

جواب : ایک منتظم اعلیٰ کی حیثیت سے محسن المک میں بہت سی خوبیاں موجود تھی۔ ان کا مزاج سلجھا ہوا تھا۔ اور اوسان ایسے حاضر اور اتنا بجا کام کرتے تھے کہ پیچیدہ سے پیچیدہ معاملات کو بھی بہت آرام سے سلجھا لیتے۔ ان میں ایسا کمال موجود تھا کے معاملہ کوئی بھی ہوتا طرفین کو کوئی عذر نہ پہنچتا۔

سوال ۴ : وہ دوسروں سے کام لینے کا کیا گر جانتے تھے؟

جواب : وہ دوسروں سے کام لینے کا گر بخوبی جانتے تھے۔ لوگوں کی اس طرح سے حوصلہ افزائی کرتے کے وہ خود ان کا کام کرنے کے لیے تیار ہوجاتے۔ ان کا سلوک اپنے ماتحتوں کے ساتھ بہت اچھا ہوتا تھا اس لیے وہ ان کے ذاتی کام کے لیے بھی جان لڑا دیتے تھے۔

سوال ۵ : حیدر آباد سے ان کی رخصت کے وقت کیا منظر تھا اور اس سے کیا اندازہ ہوتا ہے؟

جواب : نواب صاحب اپنے اخلاق و عادات کی وجہ سے ہر ایک دلعزیز ہوگئے تھے، اس لیے حیدر آباد سے ان کی رخصت کے وقت اسٹیشن پر لوگوں کی بھیڑ تھی جو دکھی دل سے ان کو الوداع کرنے آئے تھے۔ ان لوگوں میں بڑے بوڑھے ، بیوہ عورتیں، یتیم بچے، امیر اور غریب غرض ہر طبقے کے لوگ شامل تھے۔ سب ہی ان کے لیے روزو قطار رو رہے تھے۔

سوال ٦ : ذیل کے الفاظ اور محاورات کو اپنے جملوں میں استعمال کیجیے :

ٰزیر بار منت ہونا مشکل میں خدا کے سوا کسی کے زیر بار منت ہونا نہ ہونا۔
دل شکنی ہمیں کسی کی دل شکنی نہیں کرنی چاہیے۔
جال بچھنا جو دوسروں کے راستے میں جال بچھاتا ہے وہ خود اس میں پھنس جاتا ہے۔
پیچ پہ پیچ پڑنا بیوہ عورت کے بیٹے کا انتقال ہوا تو اس کے پیچ پہ پیچ پڑ گئے۔
ششدر رہ جانا ریل کا حادثہ ہوتا دیکھ کر ہم ششدر رہ گئے۔

سوال ۷ : وضاحت کیجیے۔

“ان میں پارس پتھر کی خاصیت تھی۔ کوئی ہو،کہیں کو ہو،ان سے چھوا نہیں اور کندن کا ہوا نہیں۔”

وضاحت : نواب محسن الملک میں پارس کی خصوصیت تھی۔ وہ جس کو چھو لیتے تھے، وہ چاہے جو بھی ہوتا کندن بن جاتا تھا۔

سوال ۸ : “میری پسندیدہ شخصیت” کے عنوان سے ایک مضمون لکھیے۔

میری پسندیدہ شخصیت ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ ہیں۔ آپ ﷺ عرب کے شہر مکہ کے ایک معزز گھرانے قریش میں 571ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا انتقال آپ کی پیدائش سے چند ماہ قبل ہوگیا تھا۔ جس وقت آپ ﷺ کی ولادت ہوئی اس وقت مکہ میں لوگ بتوں کو پوجتے تھے۔ یہاں تک کے انہوں نے کعبہ میں بھی بت رکھے ہوئے تھے۔ لوگ اس قدر ظالم اور جاہل تھے کہ اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیا کرتے تھے۔

اس تاریخی اور جہالت کا خاتمہ ہمارے نبی ﷺ نے کیا۔ نبی کریمﷺ کو اللہ تعالی نے رحمت بنا کر بھیجا۔ آپ ﷺ کی زندگی تمام مسلمانوں کے لیے نصب العین ہے۔ آپ ﷺ ایک رحم دل نبی تھے۔ آپ ﷺ نا صرف انسانوں بلکہ جانوروں پرندوں غرض ہر مخلوق کا خیال رکھتے تھے۔ آپﷺ نے کبھی کسی کی دل آزاری نہیں کی وہ ہمیشہ سب سے مسکرا کر خوش آخلاقی سے ملتے تھے۔ آپ ﷺ نے اپنی زبان مبارک کو صرف اچھی باتوں ، دین کی باتوان اور لوگوں کی اصلاح کے لیے استعمال کیا۔ فضول گوئی سے پرہیز کرتے۔ آپ ﷺ کے در پر آنے والا کوئی سوالی خالی ہاتھ نہ جاتا۔

آپ ﷺ کی زبان اتنی شیریں تھی کے ان سے ملنے والا ہر شخص متاثر ہوئے بغیر نہ رہ پاتا۔ یہاں تک کے دشمن بھی آپ کے سامنے پگھل جاتے ۔آپ ﷺ نے معاشرے میں موجود ظلم کو ختم کیا اور عورتوں کو ان کے حقوق دلواۓ۔

آپ ﷺ نے کبھی کسی پر زور زبردست نہیں کی بلکہ ہمیشہ پیار اور نرمی سے پیش آتے دین کی تبلیغ میں بھی کبھی جبر سے کام نہیں لیا۔ اور اسلام کو ایک پر امن مذہب کے طور پر پیش کیا۔ آپﷺ نے کبھی کسی سے بدلہ نہیں لیا بلکہ ہمیشہ عفودرگزر سے کام لیتے۔ سامنے والا چاہیے آپ کا کتنا بھی دل دکھا لیتا آپ اس کو معاف فرمادیتے۔ آپﷺ نے کبھی کسی پر غصہ نہیں کیا۔ آپ ﷺ کی بے شمار صفات ہیں۔ ان کی زندگی حرف با حرف قرآن کی تفسیر ہے۔

میں اپنے پیارے نبی ﷺ کی شان میں نعتیں پڑھتا رہتا ہوں جس سے مجھے دلی سکون ملتا ہے اور ان کو دورد و سلام کے تحفے بھی بھیجتا رہتا ہوں۔ مصطفی جان رحمت پہ لاکھوں سلام۔

سوال ۹ : آپ پانچ ایسے جملے لکھیے جن میں فاعل کے ساتھ کوئی حرف استعمال کیا گیا ہو۔

  • ۱) دری بچھائی گئی۔
  • ۲) دریاں بچھائی گئیں۔
  • ۳) پتنگ لڑائی گئی۔
  • ۴) پتنگیں لڑائی گئیں۔
  • ۵) دستر خوان بچھایا گیا۔

سوال ۱۰ : آپ اس فرق کو ذہن میں رکھتے ہوئے دو دو مثالیں لکھیے۔

  • 1) علی نے صحیح کام کیا کہ غلط۔
  • 2) نہیں ملتا اچھا کاموں کا صلہ صرف دنیا میں، کہ آخرت میں بھی کچھ اس کا اجر ہوتا ہے۔