مولانا الطاف حسین حالی کی حمد

0

تعارفِ نظم :
یہ شعر ہماری درسی کتاب کی نظم ”حمد“ سے لیا گیا ہے۔ اس نظم کے شاعر کا نام مولانا الطاف حسین حالی ہے۔

تعارف شاعر :
الطاف حسین ۱۸۷۳ء میں پانی پت میں پیدا ہوئے۔ آپ کا نام الطاف حسین، حالی تخلص، اور شمس العلماء خطاب تھا۔ آپ کے والد کا نام خواجہ ایزد بخش انصاری تھا۔ آپ نے پہلے قرآن پاک حفظ کیا پھر عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ آپ کی شادی سترہ برس کی عمر میں کردی گئی۔ آپ دہلی بھی گئے جہاں آپ کو مزرا غالب اور نواب مصطفی خان شیفتہ کی صحبت میسر آئی۔ اس کے بعد آپ لاہور آگئے اور پنجاب بک ڈپو میں ملازمت اختیار کرلی۔ وہاں انھوں نے کتب کے اردو تراجم پر نظر ثانی اور درستی کا کام کیا۔ اس کام سے حالی کو انگریزی زبان اور اس کے ادب سے آگاہی حاصل ہوئی۔ یہیں انھوں نے مولانا محمد حسین آزاد کے ساتھ مل کر موضوعاتی مشاعروں کی بنیاد ڈالی ، جن میں شاعر مختلف موضوعات پر نظمیں لکھر کر لایا کرتے تھے۔ انھی مشاعروں میں حالی نے ” برکھا رُت ، رحم و انصاف ، حُبِ وطن اور امید“ کے عنوان سے نظمیں پڑھیں۔ حالی نے سرسید کی مشہور تحریک پر اپنا مشہور مسدس ”مدّ و جزرِ اسلام“ بھی لکھا جو مسدسِ حالی کے نام سے مشہور ہوا۔ ”حیاتِ سعدی، مقدمہ شعر و شاعری ، یادگارِ غالب اور حیاتِ جاوید“ حالی کی اہم نثری تصانیف میں سے قابلِ ذکر ہیں۔

قبضہ ہو دلوں پر کیا اور اس سے سوا تیرا
اک بندۂ نا فرماں ہے حمد سرا تیرا

تشریح :
اس شعر میں شاعر اللہ تعالی سے کہتے ہیں کہ اے اللہ ہمارے دلوں پر آپ ہی کا قبضہ ہے ہم آپ کی ہی حمد و نثا کرتے ہیں۔ اور آپ کے سوا ہم کس کی عبادت کرسکتے ہیں بھلا۔ اور اللہ ہی کی شان ہے کی ایک گناہ گار بندہ اس کی بارگاہ میں حاضری دیتا ہے اور اس کی حمد و نثاء کرتا ہے۔
_______

گو سب سے مقدم ہے حق تیرا ادا کرنا
بندے سے مگر ہو گا حق کیونکہ ادا تیرا

تشریح :
اس شعر میں شاعر اللہ تعالی سے کہتے ہیں کہ یہ ٹھیک ہے انسان کو اللہ کا حق ادا کرنا چاہیے مگر اللہ نے ہم پر اس قدر کرم فرماۓ ہیں۔ زندگی عطا کی ، جینے کا ڈھنگ سیکھایا ، کھانے پینے کو ہر نعمت عطا کی، غرض دنیا کو انسان کے لیے پر آسائش بنا دیا اور بھلا انسان میں اتنی سکت کہاں کے وہ اللہ کی کرم نوازیوں کا حق ادا کرسکے گا۔
_______

محرم بھی ہے ایسا ہی جیسا کہ ہے نامحرم
کچھ کہہ نہ سکا جس پر یاں بھید کھلا تیرا

تشریح :
اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ یہاں پر اس دنیا میں تو اپنے محرم رشتوں کا بھی اعتبار نہیں ہے کہ کون ناجانے کب دغا دے جائے۔ شاعر کہتے ہیں کہ اگر ہم یہاں کسی کو اپنا راز بتاتے ہیں تو وہ انسان ہمارا راز کبھی بھی فاش کرسکتا ہے اور ہمیں سبکی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ بیشک ہمارے راز صرف اللہ تعالیٰ ہی سنبھال سکتا ہے۔
_______

جچتا نہیں نظروں میں یاں خلعت سلطانی
کملی میں مگن اپنی رہتا ہے گدا تیرا

تشریح :
اس شعر میں شاعر اللہ تعالی سے کہتے ہیں کہ میں اللہ کی یاد میں مگن رہنے والا مست حال بندہ ہوں۔ میں دنیا سے بخیر بس تیری بندگی میں مگن رہتا ہوں مجھے کچھ پراوہ نہیں ان لوگوں کی جن کی نظر میں میری کوئی حیثیت نہیں اور جن کے نظروں میں میرا وجود کھٹکتا رہتا ہے۔
_______

عظمت تری مانے بن کچھ بن نہیں آتی یاں
ہیں خیرہ و سرکش بھی دم بھرتے سدا تیرا

تشریح :
اس شعر میں شاعر اللہ تعالی سے کہتے ہیں کہ اے اللہ آپ کی عظمت اور برتری کو مانتا ہوں اور اس کے علاوہ ہے ہی کیا جہاں میں دنیا میں تو ہر طرف تیری قدرت نظر آتی ہے اور اللہ تیری ہی شان ہیں کے گستاخ و خود سر بھی تیرے سامنے کچھ نہیں وہ بھی تیری ہی عظمت کے ماننے والے ہیں۔
_______

تو ہی نظر آتا ہے ہر شے پر محیط ان کو
جو رنج و مصیبت میں کرتے ہیں گلا تیرا

تشریح :
اس شعر میں شاعر اللہ تعالی سے کہتے ہیں کہ اے اللہ تو ہر چیز پر قادر ہے اور یہ دنیا تیرے ہی کرم کی محتاج ہے اور جب کوئی مشکل اور مصیبت سر پر آتی ہے تو سب منہ موڑ لیتے ہیں، صرف اللہ ہی ہے جو ہر غم و مصیبت سے نجات دینے والا ہے۔ اور سب اسی سے مانگتے ہیں۔
_______

نشے میں وہ احساں کے سرشار ہیں اور بیخود
جو شکر نہیں کرتے نعمت پہ ادا تیرا

تشریح :
اس شعر میں شاعر اللہ تعالی سے کہتے ہیں کہ اللہ وہ لوگ جن کو آپ نے بھر پورر زندگی دی ہے، جن کا پور پور آپ کے احسانات میں ڈوبا ہوا ہے۔ وہ خود کو ہی سب سمجھنے لگے ہیں اور آپ کی کرم نوازیاں ان کو اپنی ہی لگتی ہیں اور وہ کسی بھی طرح آپ کی عطا کردہ نعمتوں کا شکر ہی ادا نہیں کرتے۔ ان کو زیادہ کی لالچ نے ناشکرا بنادیا ہے۔
_______

طاعت میں ادب تیرا عصیاں سے ہے گوبڑھ کر
عصیاں میں ہے طاعت سے اقرار سوا تیرا

تشریح :
اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ اے میرے رب ! اے میرے پروردگار تیری اطاعت کرنا میری اوقات سے باہر ہے۔ تو بہت بڑا ہے اور میں ہر وقت تیری عبادت کر کے بھی تیری خدائی کا حق ادا نہیں کرسکتا ہوں۔ شاعر کہتے ہیں کہ اے میرے مولیٰ میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ تو سب سے بڑا ہے اور تو ہی اس دنیا کا وارث ہے۔
_______

آفاق میں پھیلے گی کب تک نہ مہک تیری
گھر گھر لئے پھرتی ہے پیغام صبا تیرا

تشریح :
اس شعر میں شاعر اللہ تعالی سے کہتے ہیں کہ اللہ تعالی کی کرم نوازیاں آسمان سے زمین تک پھیلی ہوئی ہیں۔ ہر شے میں اللہ کی قدرت نمایاں ہوتی ہے اور بھلا کیوں نہ ہو اللہ نے اس دنیا کا ذرہ زرہ ایسا تخلیق کیا ہے کہ دیکھنے والی آنکھیں حیران رہ جاتی ہے اور انسانی عقل اس کے رازوں تک پہنچ بھی نہیں پاتی۔
_______

ہر بول ترا دل سے ٹکرا کے گزرتا ہے
کچھ رنگ بیاں حالیؔ ہے سب سے جدا تیرا

تشریح :
اس شعر میں شاعر اللہ تعالیٰ کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ اے اللہ تیرا ہر فرمان میرے دل پر نقش ہوجاتا ہے اور میں فرمانِ الہیٰ کو مکمل کرنا چاہتا ہوں۔ شاعر مزید کہتے ہیں کہ اے میرے رب اس دنیا میں تیرا رنگ سب سے مختلف اور جدا ہے کیونکہ بیشک تو ہی ہم سب کا پروردگار ہے۔


سوال نمبر ۱ : مندرجہ ذیل اشعار کی تشریح کیجیے :

محرم بھی ہے ایسا ہی جیسا کہ ہے نامحرم
کچھ کہہ نہ سکا جس پر یاں بھید کھلا تیرا

تشریح :
اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ یہاں پر اس دنیا میں تو اپنے محرم رشتوں کا بھی اعتبار نہیں ہے کہ کون ناجانے کب دغا دے جائے۔ شاعر کہتے ہیں کہ اگر ہم یہاں کسی کو اپنا راز بتاتے ہیں تو وہ انسان ہمارا راز کبھی بھی فاش کرسکتا ہے اور ہمیں سبکی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ بیشک ہمارے راز صرف اللہ تعالیٰ ہی سنبھال سکتا ہے۔
_______

تو ہی نظر آتا ہے ہر شے پر محیط ان کو
جو رنج و مصیبت میں کرتے ہیں گلا تیرا

تشریح :
اس شعر میں شاعر اللہ تعالی سے کہتے ہیں کہ اے اللہ تو ہر چیز پر قادر ہے اور یہ دنیا تیرے ہی کرم کی محتاج ہے اور جب کوئی مشکل اور مصیبت سر پر آتی ہے تو سب منہ موڑ لیتے ہیں، صرف اللہ ہی ہے جو ہر غم و مصیبت سے نجات دینے والا ہے۔ اور سب اسی سے مانگتے ہیں۔
_______

طاعت میں ادب تیرا عصیاں سے ہے گو بڑھ کر
عصیاں میں ہے طاعت سے اقرار سوا تیرا

تشریح :
اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ اے میرے رب ! اے میرے پروردگار تیری اطاعت کرنا میری اوقات سے باہر ہے۔ تو بہت بڑا ہے اور میں ہر وقت تیری عبادت کر کے بھی تیری خدائی کا حق ادا نہیں کرسکتا ہوں۔ شاعر کہتے ہیں کہ اے میرے مولیٰ میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ تو سب سے بڑا ہے اور تو ہی اس دنیا کا وارث ہے۔
_______

آفاق میں پھیلے گی کب تک نہ مہک تیری
گھر گھر لئے پھرتی ہے پیغام صبا تیرا

تشریح :
اس شعر میں شاعر اللہ تعالی سے کہتے ہیں کہ اللہ تعالی کی کرم نوازیاں آسمان سے زمین تک پھیلی ہوئی ہیں۔ ہر شے میں اللہ کی قدرت نمایاں ہوتی ہے اور بھلا کیوں نہ ہو اللہ نے اس دنیا کا ذرہ زرہ ایسا تخلیق کیا ہے کہ دیکھنے والی آنکھیں حیران رہ جاتی ہے اور انسانی عقل اس کے رازوں تک پہنچ بھی نہیں پاتی۔
_______

سوال نمبر 2 : جزو (الف) اور جزو (ب) میں سے ہم معنی الفاظ چن کر لکھیے۔

الف ب
مقدم افضل
عظمت بڑائی
گلہ شکوہ
سرشار مست
ادراک عقل
طاعت بندگی
عصیاں گناہ
آفاق دنیا

سوال نمبر 3 : حمد اور مناجات کی باہمی فرق کی وضاحت کیجیے۔


جواب : جس نظم میں اللہ کی تعریف کی جاتی ہے اس کو “حمد”کہتے ہیں۔ اور جس نظم میں اللہ سے دعا مانگی جاتی ہے اس کو “مناجات” کہتے ہیں۔

سوال نمبر 4 : مندرجہ ذیل الفاظ کی جمع بنائیے :

الفاظ جمع
فرمان فرامین
حق حقوق
سلطان سلطانوں
مصیبت مصائب
نعمت نعمتیں
احسان احسانات
حد حدود
قوم اقوام
افق آفاق

سوال نمبر 5 : تشبیہ اور ارکان تشبیہ کی تشریح کیجیے اور مثالیں بھی دیجیے۔


جواب : تشبیہ کا لفظ “شبہ” سے نکلا ہے جس کے معانی “مماثل ہونا” کے ہیں۔ علم بیان کی اصطلاح میں جب کسی ایک شے کی کسی اچھی یا بری خصوصیت کو کسی دوسری شے کی اچھی یا بری خصوصیت کے معنی قرار دیا جائے تو اسے تشبیہ کہتے ہیں۔
تشبیہ کے پانچ ارکان ہیں :
مشبّہ : جس چیز کو دوسری چیز کے مانند قرار دیا جائے وہ مشبّہ کہلاتی ہے۔
مشبہ بہ : وہ چیز جس کے ساتھ کسی دوسری چیز کو تشبیہ دی جائے یا مشبہ کو جس چیز سے تشبیہ دی جائے۔
حرفِ تشبیہ : وہ لفظ جو ایک چیز کو دوسری چیز جیسا ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے حرف تشبیہ کہلاتا ہے۔ مثلاً ہو بہو، مثل، گویا، صورت، جوں، سا، سی، سے، جیسا، جیسے، جیسی، مثال یا کہ وغیرہ۔ حرف تشبیہ کو اداتِ تشبیہ بھی کہا جاتا ہے۔
وجہِ شبہ : وجہ شبہ سے مراد وہ خوبی ہے جس کی بنا پر مشبہ کو مشبہ بہ سے تشبیہ دی جا رہی ہے۔
غرضِ تشبیہ : وہ مقصد یا غرض جس کے لیے تشبیہ دی جائے۔
مثلاً :

نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
  • مشبہ : لب
  • مشبہ بہ : گلاب
  • حروف تشبیہ : کی سی
  • وجہِ تشبہ : گلابی پن
  • غرضِ تشبیہ : لبوں کی نرمی اور خوبصورتی ظاہر کرنا۔