سورۃ الانفال آیت نمبر 65 تا 69 سوالات و جوابات

0
يٰۤاَيُّهَا النَّبِىُّ حَرِّضِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ عَلَى الۡقِتَالِ‌ؕ اِنۡ يَّكُنۡ مِّنۡكُمۡ عِشۡرُوۡنَ صَابِرُوۡنَ يَغۡلِبُوۡا مِائَتَيۡنِ‌ۚ وَاِنۡ يَّكُنۡ مِّنۡكُمۡ مِّائَةٌ يَّغۡلِبُوۡۤا اَلۡفًا مِّنَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا بِاَنَّهُمۡ قَوۡمٌ لَّا يَفۡقَهُوۡنَ‏ ﴿۶۵﴾

اے نبی! مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دو۔ اور اگر تم بیس آدمی ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو دو سو کافروں پر غالب رہیں گے۔ اور اگر سو (ایسے) ہوں گے تو ہزار پر غالب رہیں گے۔ اس لیے کہ کافر ایسے لوگ ہیں کہ کچھ بھی سمجھ نہیں رکھتے۔

اَلۡـٰٔـنَ خَفَّفَ اللّٰهُ عَنۡكُمۡ وَعَلِمَ اَنَّ فِيۡكُمۡ ضَعۡفًا‌ؕ فَاِنۡ يَّكُنۡ مِّنۡكُمۡ مِّائَةٌ صَابِرَةٌ يَّغۡلِبُوۡا مِائَتَيۡنِ‌ۚ وَاِنۡ يَّكُنۡ مِّنۡكُمۡ اَلۡفٌ يَّغۡلِبُوۡۤا اَلۡفَيۡنِ بِاِذۡنِ اللّٰهِؕ وَ اللّٰهُ مَعَ الصّٰبِرِيۡنَ‏ ﴿۶۶﴾

اب خدا نے تم پر سے بوجھ ہلکا کر دیا اور معلوم کرلیا کہ (ابھی) تم میں کسی قدر کمزوری ہے۔ پس اگر تم میں ایک سو ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو دو سو پر غالب رہیں گے۔ اور اگر ایک ہزار ہوں گے تو خدا کے حکم سے دو ہزار پر غالب رہیں گے۔ اور خدا ثابت قدم رہنے والوں کا مدد گار ہے۔

مَا كَانَ لِنَبِىٍّ اَنۡ يَّكُوۡنَ لَهٗۤ اَسۡرٰى حَتّٰى يُثۡخِنَ فِى الۡاَرۡضِ‌ؕ تُرِيۡدُوۡنَ عَرَضَ الدُّنۡيَا ‌ ۖوَاللّٰهُ يُرِيۡدُ الۡاٰخِرَةَ‌ ؕ وَاللّٰهُ عَزِيۡزٌ حَكِيۡمٌ‏ ﴿۶۷﴾

پیغمبر کو شایان نہیں کہ اس کے قبضے میں قیدی رہیں جب تک (کافروں کو قتل کر کے) زمین میں کثرت سے خون (نہ) بہا دے۔ تم لوگ دنیا کے مال کے طالب ہو۔ اور خدا آخرت (کی بھلائی) چاہتا ہے۔ اور خدا غالب حکمت والا ہے۔

لَوۡلَا كِتٰبٌ مِّنَ اللّٰهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمۡ فِيۡمَاۤ اَخَذۡتُمۡ عَذَابٌ عَظِيۡمٌ‏ ﴿۶۸﴾

اگر خدا کا حکم پہلے نہ ہوچکا ہوتا تو جو (فدیہ) تم نے لیا ہے اس کے بدلے تم پر بڑا عذاب نازل ہوتا۔

فَكُلُوۡا مِمَّا غَنِمۡتُمۡ حَلٰلاً طَيِّبًا‌‌ ‌ۖوَاتَّقُوا اللّٰهَ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ‏ ﴿۶۹﴾

تو جو مالِ غنیمت تمہیں ملا ہے اسے کھاؤ (کہ وہ تمہارے لیے) حلال طیب رہے اور خدا سے ڈرتے رہو۔ بےشک خدا بخشنے والا مہربان ہے۔

اَلکَلِیَماتُ وَ التَّرَکِیبُ
حَرِّضِ شوق دلاؤ، ابھارو
اَسۡرٰى قیدی
يُثۡخِنَ وہ خونریزی کرے، کچل ڈالے
عَرَضَ الدُّنۡيَا دنیا کے فائدے

سوال(۱) : ایک لائن کا جواب تحریر کریں:

سوال : اگر مسلمانوں کے بیس آدمی ہوں گے تو وہ کتنوں کے برابر ہوں گے؟

جواب: اگر مسلمانوں کے بیس آدمی ثابت قدمی سے مقابلہ کریں تو وہ سو کافروں پر غالب رہیں گے۔

سوال : اگر مسلمانوں کے ایک ہزار آدمی ہوں گے تو وہ کتنوں کے برابر ہوں گے؟

جواب: اگر مسلمانوں کے ایک ہزار آدمی ثابت قدمی سے کافروں کے مقابلے میں کھڑے ہوں اور وہ ذکر الہیٰ کو کثرت سے کریں تو وہ دس ہزار کافروں پر غالب ہونگے۔

سوال : ان آیات کے مطابق خدا مسلمانوں کی کب کی بھلائی چاہتا ہے؟

جواب: اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی آخرت کی بھلائی چاہتا ہے۔

سوال : ان آیات میں فدیہ کے متعلق کیا کہا گیا ہے؟

جواب: اگر خدا کا حکم پہلے نہ ہو چکا ہوتا تو جو فدیہ تم نے لیا ہے اس کے بدلے تم پر بڑا عذاب نازل ہوتا۔

سوال : ان آیات کے مطابق مسلمانوں کے لیے کیا حلال ہے؟

جواب: مال غنیمت کو مسلمانوں کے لیے حلال طیب کر دیا گیا ہے۔

سوال(۲) : پانچ سے چھ لائن پر مشتمل جوابات تحریر کریں:

سوال۱: اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جہاد پر ابھارنے کے لیے کیا ترغیب دی؟

جواب: اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جہاد پر ابھارنے کے درج ذیل ترغیبات دیں:
مسلمانوں کی قوت کو اجاگر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر مسلمان ثابت قدمی سے میدان جنگ میں ڈٹ کے کفار کا مقابلہ کریں تو 20 مسلمان بھی 200 کافروں پر بھاری ہوں گے۔ اللہ تبارک تعالیٰ کے ہاں سب سے افضل شے شہید کا لہو ہے۔اللہ کی راہ میں خرچ ہونے والا مال افضل مال ہے اور اس کا کچھ اجر دنیا اور باقی اجر آخرت میں بڑھ چڑھ کر موصول ہوگا۔ شہید بے حساب و کتاب جنت میں داخل ہوگا۔ اللہ تبارک تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد کے لیے فرشتے بھی نازل فرمائے جنھوں مسلمانوں کے ساتھ مل کر کفار کو پسپا کر دیا۔

سوال۲: مندرجہ ذیل آیت کا مفہوم بیان کیجئے:

مَا كَانَ لِنَبِىٍّ اَنۡ يَّكُوۡنَ لَهٗۤ اَسۡرٰى حَتّٰى يُثۡخِنَ فِى الۡاَرۡضِ‌ؕ تُرِيۡدُوۡنَ عَرَضَ الدُّنۡيَا ‌ ۖوَاللّٰهُ يُرِيۡدُ الۡاٰخِرَةَ‌ ؕ

جواب: ترجمہ: پیغمبر کو شایان نہیں کہ اس کے قبضے میں قیدی رہیں جب تک (کافروں کو قتل کر کے) زمین میں کثرت سے خون (نہ) بہا دے۔ تم لوگ دنیا کے مال کے طالب ہو۔ اور خدا آخرت (کی بھلائی) چاہتا ہے۔

مفہوم:

جنگ بدر کے لیے کفارکا عالی شان لشکر جس تکبر و غرور سے آیا تھا تو اللہ نے ان کے غرور کو خاک میں ملا دیا۔ بدر میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی اور کفار کو تاریخی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ کفار جب پسپا ہوئے تو اپنا سارا ساز و سامان چھوڑ کر پاؤں سر پر رکھ کر بھاگے۔ کفار کو بھاگتا دیکھ کر مسلمان مال غنیمت جمع کرنے میں مشغول ہو گئے تھے۔ مسلمانوں نے کفار کا تعاقب کرنے کے بجائے لوگوں کو قیدی بنانا شروع کر دیا جس سے کفار کے لشکر میں بہت بااثر لوگ بھی فرار ہو گئے جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کے بہت بڑے دشمن تھے۔ پھر جنگی قیدیوں کو فدیہ کے عوض چھوڑنا بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے سخت ناپسند فرمایا۔ اللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ ان لوگوں کو پکڑنے کےبجائے کفار کو میدان جنگ میں ہی ختم کرنا چاہئے تھا۔تاکہ مسلمانوں پر وہ آئندہ کبھی حملہ کرنے کی طاقت و جرأت نہ رکھتے۔