سورہ انفال آیت 29 تا 37 سوال جواب

0
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ تَتَّقُوۡا اللّٰهَ يَجۡعَل لَّـكُمۡ فُرۡقَانًا وَّيُكَفِّرۡ عَنۡكُمۡ سَيِّاٰتِكُمۡ وَيَغۡفِرۡ لَـكُمۡ‌ؕ وَ اللّٰهُ ذُوۡ الۡفَضۡلِ الۡعَظِيۡمِ‏ ﴿۲۹﴾

مومنو! اگر تم خدا سے ڈرو گے تو وہ تمہارے لیے امر فارق پیدا کردے گا (یعنی تم کو ممتاز کردے گا) تو وہ تمہارے گناہ مٹادے گا اور تمہیں بخش دے گا۔ اور خدا بڑا فضل والا ہے۔

وَاِذۡ يَمۡكُرُ بِكَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لِيُثۡبِتُوۡكَ اَوۡ يَقۡتُلُوۡكَ اَوۡ يُخۡرِجُوۡكَ‌ؕ وَيَمۡكُرُوۡنَ وَيَمۡكُرُ اللّٰهُ‌ؕ وَاللّٰهُ خَيۡرُ الۡمٰكِرِيۡنَ‏ ﴿۳۰﴾

اور (اے محمدﷺ اس وقت کو یاد کرو) جب کافر لوگ تمہارے بارے میں چال چل رہے تھے کہ تم کو قید کر دیں یا جان سے مار ڈالیں یا (وطن سے) نکال دیں تو (ادھر تو) وہ چال چل رہے تھے اور (اُدھر) خدا چال چل رہا تھا۔ اور خدا سب سے بہتر چال چلنے والا ہے۔

وَاِذَا تُتۡلٰى عَلَيۡهِمۡ اٰيٰتُنَا قَالُوۡا قَدۡ سَمِعۡنَا لَوۡ نَشَآءُ لَقُلۡنَا مِثۡلَ هٰذَٓا‌ۙ اِنۡ هٰذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِيۡرُ الۡاَوَّلِيۡنَ‏ ﴿۳۱﴾

اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں (یہ کلام) ہم نے سن لیا ہے اگر ہم چاہیں تو اسی طرح کا (کلام) ہم بھی کہہ دیں اور یہ ہے ہی کیا صرف اگلے لوگوں کی حکایتیں ہیں۔

وَاِذۡ قَالُوا اللّٰهُمَّ اِنۡ كَانَ هٰذَا هُوَ الۡحَـقَّ مِنۡ عِنۡدِكَ فَاَمۡطِرۡ عَلَيۡنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِ ائۡتِنَا بِعَذَابٍ اَلِيۡمٍ‏ ﴿۳۲﴾

اور جب انہوں نے کہا کہ اے خدا اگر یہ (قرآن) تیری طرف سے برحق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا کوئی اور تکلیف دینے والا عذاب بھیج۔

وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيُعَذِّبَهُمۡ وَاَنۡتَ فِيۡهِمۡ‌ؕ وَمَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمۡ وَهُمۡ يَسۡتَغۡفِرُوۡنَ‏ ﴿۳۳﴾

اور خدا ایسا نہ تھا کہ جب تک تم ان میں سے تھے انہیں عذاب دیتا۔ اور ایسا نہ تھا کہ وہ بخششیں مانگیں اور انہیں عذاب دے۔

وَمَا لَهُمۡ اَلَّا يُعَذِّبَهُمُ اللّٰهُ وَهُمۡ يَصُدُّوۡنَ عَنِ الۡمَسۡجِدِ الۡحَـرَامِ وَمَا كَانُوۡۤا اَوۡلِيَآءَهٗ‌ ؕ اِنۡ اَوۡلِيَآؤُهٗۤ اِلَّا الۡمُتَّقُوۡنَ وَلٰـكِنَّ اَكۡثَرَهُمۡ لَا يَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿۳۴﴾

اور (اب) ان کے لیے کون سی وجہ ہے کہ وہ انہیں عذاب نہ دے جب کہ وہ مسجد محترم (میں نماز پڑھنے) سے روکتے ہیں اور وہ اس مسجد کے متولی بھی نہیں۔ اس کے متولی تو صرف پرہیزگار ہیں۔ لیکن ان میں اکثر نہیں جانتے۔

وَمَا كَانَ صَلَاتُهُمۡ عِنۡدَ الۡبَيۡتِ اِلَّا مُكَآءً وَّتَصۡدِيَةً‌ ؕ فَذُوۡقُوا الۡعَذَابَ بِمَا كُنۡتُمۡ تَكۡفُرُوۡنَ‏ ﴿۳۵﴾

اور ان لوگوں کی نماز خانہٴ کعبہ کے پاس سیٹیاں اور تالیاں بجانے کے سوا کچھ نہ تھی۔ تو تم جو کفر کرتے تھے اب اس کے بدلے عذاب (کا مزہ) چکھو۔

اِنَّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا يُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَهُمۡ لِيَصُدُّوۡا عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ‌ؕ فَسَيُنۡفِقُوۡنَهَا ثُمَّ تَكُوۡنُ عَلَيۡهِمۡ حَسۡرَةً ثُمَّ يُغۡلَبُوۡنَ ؕ وَالَّذِيۡنَ كَفَرُوۡۤا اِلٰى جَهَـنَّمَ يُحۡشَرُوۡنَۙ‏ ﴿۳۶﴾

جو لوگ کافر ہیں اپنا مال خرچ کرتے ہیں کہ (لوگوں کو) خدا کے رستے سے روکیں۔ سو ابھی اور خرچ کریں گے مگر آخر وہ (خرچ کرنا) ان کے لیے (موجب) افسوس ہوگا اور وہ مغلوب ہوجائیں گے۔ اور کافر لوگ دوزخ کی طرف ہانکے جائیں گے ﴿۳۶﴾

لِيَمِيۡزَ اللّٰهُ الۡخَبِيۡثَ مِنَ الطَّيِّبِ وَ يَجۡعَلَ الۡخَبِيۡثَ بَعۡضَهٗ عَلٰى بَعۡضٍ فَيَرۡكُمَهٗ جَمِيۡعًا فَيَجۡعَلَهٗ فِىۡ جَهَـنَّمَ‌ؕ اُولٰٓٮِٕكَ هُمُ الۡخٰسِرُوۡن‏ ﴿۳۷﴾

تاکہ خدا ناپاک کو پاک سے الگ کر دے اور ناپاک کو ایک دوسرے پر رکھ کر ایک ڈھیر بنا دے۔ پھر اس کو دوزخ میں ڈال دے۔ یہی لوگ خسارہ پانے والے ہیں۔

اَلکَلِیَماتُ وَ التَّرَکِیبُ
یثۡبِتُوا وہ قید کردیں
اَسَاطِيۡرُ الۡاَوَّلِيۡنَ پہلوں کی کہانیاں
مُكَآءً سیٹیاں
تَصۡدِيَةً‌ تالیاں
فَيَرۡكُمَهٗ وہ جمع کرے اسے

سوال(۱) : ایک لائن کا جواب تحریر کریں:

سوال : اللہ تعالیٰ امر فارق کب پیدا کرے گا؟

جواب: جب مومن خداتعالیٰ سے ڈریں گے تب اللہ تعالیٰ امر فارق پیدا کرے گا

سوال : امر فارق سے کیا مراد ہے؟

جواب: امرفاروق سے مراد ممتاز کرنا ہے۔

سوال : کافر اللہ کی آیتیں سن کر کیا کہتے ہیں؟

جواب: جب کافروں کو اللہ کی آیتیں سنائی جاتی ہیں تو وہ سن کر کہتےہیں یہ کلام ہم نے سن لیا ہے اگر ہم چاہے تو اسی طرح کا کلام بھی کہہ دیں۔

سوال : کافر کس کو اگلے لوگوں کی حکایت کہتے ہیں؟

جواب: کافروں کو جب اللہ تعالیٰ کی آیات سنائی جاتی تووہ تاویل کرنے کو کہتے تھے کہ یہ اگلے لوگوں کی حکایات ہیں۔

سوال : مسجد کے متولی کون ہیں؟

جواب: مسجد کے متولیٰ صرف پرہیزگار ہیں۔

سوال : کافر کے لیے کونسا خرچ قابلِ افسوس ہے؟

جواب: کافر جو لوگوں میں اللہ تعالیٰ کے راستے سےروکنے کے لئے خرچ کرتے ہیں قابل افسوس ہے۔

سوال(۲) : پانچ سے چھ لائن پر مشتمل جوابات تحریر کریں:

سوال۱: اس سبق میں تقویٰ کے کیا انعامات بیان ہوئے ہیں؟

جواب: تقویٰ کے بنیادی مطلب اللہ تبارک تعالیٰ کی ذات سے ڈرتے رہنا اور گناہوں سے اپنے آپ کو اللہ کے عذاب کےخوف سے بچانا ہے۔سبق میں تقویٰ کے انعامات بیان ہوئے ہیں۔ پرہیزگار و متقی شخص کو اللہ تعالیٰ نعمت فرقان عنایت فرمائے گا،پرہیزگار لوگوں کو حق و باطل میں تمیز کرنے والی بصیرت بخشے گا،متقی سے اگر انجانے میں کوئی غفلت سرزد ہو گئی ہے تو اللہ تبارک تعالیٰ اپنی صفت الستار سے اس کی خطا پر اپنی رحمت کی چادر ڈال دے گا۔متقی کے لئے دنیا کے علاوہ آخرت میں بھی انعام ہےاللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف کرکے اسے جنت میں داخل فرمائے گا۔

سوال۲: واذیمکر بک الذین کفروا میں کس واقعہ کی طرف اشارہ ہے؟

جواب:جب آپؐ کی دعوت مدینہ میں پہنچی اور آپ کے چند اصحاب مدینہ ہجرت کر گئے تو وہاں کےقبائلی لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہوئے۔ یہ دیکھتے ہوئے مشرکین مکہ کو شدید خطرہ لاحق ہوا اور انھوں نے دار الندوہ میں آپؐ کے خلاف منصوبہ بندی کرنا شروع کر دی۔ کسی نے قید کرنے کا مشورہ دیا تو کسی نے ملک بدر کرنے کا۔ مگر اسلام کے بدترین دشمن ابوجہل نے آپﷺ کو شہید کرنے کا ارادہ ظاہر کیا جس پر بیشتر لوگ متفق ہوئے۔ ان حالات میں آپﷺ کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ مدینہ ہجرت کر جائیں۔آیات میں اسی وقعہ کی طرف اشارہ ہے۔

سوال۳: کفار کے مطالبے کے باوجود بھی اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب کیوں نہ کیا؟

جواب: آپﷺ کے پہلے کئی پیغمبر آئے اور ان کی قوموں پر مختلف اوقات میں عذاب و انعام بھی نازل ہوتے رہے۔ مگر چونکہ اب یہ دین کامل جس کے آخری پیغمبر نبی کریمﷺ ہیں کی موجودگی میں اب کوئی عذاب نازل نہیں ہوگا۔ مکہ میں جہاں مشرکین کی تعداد زیادہ تھی وہاں مواحد و متقی لوگ بھی کثیر تعداد میں تھے۔آپﷺ بڑی شان والے تھے آپ کی موجودگی میں کفار کی سرکشی کے باوجود عذاب نازل نہ ہوا۔

الف: وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيُعَذِّبَهُمۡ وَاَنۡتَ فِيۡهِمۡ‌ؕ وَمَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمۡ وَهُمۡ يَسۡتَغۡفِرُوۡنَ‏

اور خدا ایسا نہ تھا کہ جب تک تم ان میں سے تھے انہیں عذاب دیتا۔ اور ایسا نہ تھا کہ وہ بخششیں مانگیں اور انہیں عذاب دے۔

مفہوم:

مشکرین مکہ نے سرکشی کی ہر حد پار کر دی انھوں نے رسولﷺ سے یہ کہا کہ اگر واقعی آپﷺ اللہ کے سچے پیغمبر ہیں تو ہمارے اوپر آسمان سےپتھروں کی پارش کروا کر ہمیں تباہ کر دیں۔مگر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے نبیﷺ کےصدقے اس شہر سے آپﷺ کی نسبت کی وجہ سےعذاب نازل نہ کیا۔مشرکین مکہ میں بہت سے لوگ سچے مومن تھے جو ایک اللہ پر ایمان رکھتے تھے اور طواف کعبہ کرتے اور مغفرت کی دعا مانگتے تھے۔یہ متقی وپرہیزگار لوگ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے تھے اور حضورﷺ خود بھی اسی شہر پر موجود تھے اس وجہ سے عذاب نازل نہ ہوا۔

ب: اِنَّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا يُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَهُمۡ لِيَصُدُّوۡا عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ‌ؕ فَسَيُنۡفِقُوۡنَهَا ثُمَّ تَكُوۡنُ عَلَيۡهِمۡ حَسۡرَةً ثُمَّ يُغۡلَبُوۡن

جو لوگ کافر ہیں اپنا مال خرچ کرتے ہیں کہ (لوگوں کو) خدا کے رستے سے روکیں۔ سو ابھی اور خرچ کریں گے مگر آخر وہ (خرچ کرنا) ان کے لیے (موجب) افسوس ہوگا اور وہ مغلوب ہوجائیں گے۔ اور کافر لوگ دوزخ کی طرف ہانکے جائیں گے ﴿۳۶﴾

جواب:جب اسلام کی تبلیغ و دعوت کا کام شروع ہوا تو کفار مکہ نے ہر طرے سے مسلمانوں کو پریشان کیا۔ کبھی ان کے راستے میں رکاوٹ رکھ دیتے تو کبھی ان پر طلم و ستم کرتے۔جب انھوں نے مومنین کا تقویٰ دیکھا کہ یہ لوگ اپنے دین سےہرگز نہیں پھریں گے توانھوں نے لوگوں کو اس راستے پر چلنے سے باز رکھنے کو روپے خرچ کیے۔ان کے گمان میں تھا کہ ہم اپنی مال و دولت سے اسلام کا جلتا دیا بجھا دیں گےاور اس روشنی کو پھیلنے سے روک دیں گے مگر کافر مغلوب تھے اورمغلوب رہے مسلمان غالب ہوتے گئے۔ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت مسلمانوں کے ساتھ تھی۔ دشمنان حق ذلیل و خؤار ہوئے اور ہر بار کی طرح انھیں منہ کی کھانی پڑی وہ دنیا میں بھی ذلیل ہوئے اور آخرت میں بھی ذلت و رسوائی اور عذاب کبیر ان کا منتظر ہے۔