لا يُؤمنُ أحدُكُم حتى يكونَ هَوَاهُ تبعًا لما جِئتُ بِهِ تشریح

0
(۵) لا يُؤمنُ أحدُكُم حتى يكونَ هَوَاهُ تبعًا لما جِئتُ بِهِ(كتاب السنة لا بن عاصم )

ترجمہ:

تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا ہے جب تک اس کی خواہش اس (تعلیم) کے مطابق نہ ہو جائےجو میں لایا ہوں۔

تشریح:

انسان کی فطرت میں نیکی یا بدی، دونوں کا شعور رکھا گیا ہے۔ اس لیے اسے چاہیے کہ وہ ارداے و اختیار کے باوجود برائی یا گناہ کے کاموں سے اجتناب کرے۔ دوسرا یہ کہ اپنے جذبات، احساسات اور خیالات کو اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مرضی کے مطابق ڈھالے۔ حدیث میں آیا ہے کہ اگر کوئی شخص ایسا نہیں کرتا تو گویا وہ ایمان کی لذت سے نا واقف ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس حدیث مبارکہ میں اطاعت رسول ﷺ کا پیغام ہے۔
اللہ تعالی نے بھی فرمایا ہے:” جس نے میرے نبی ﷺ کی اطاعت کی اس نے گویا میری اطاعت کی۔“

(۶) لَيْسَ مِنَّا مَن لَّمْ يَرْحَمُ صَغِيرَنَا وَلَمْ يُوقِرُ كَبِيرَنَا (سنن ترمذی حدیث نمبر: ۱۹۱۹)

ترجمہ:

وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کا احترام نہ کرے۔

تشریح:

انسان کو اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر ہونا چاہیے۔ اس بنا پر انسان سے یہ توقع کی گئی ہے کہ وہ اپنے اندر اپنے خالق کی صفات پیدا کرے اور اپنے قول وفعل سے ان کا اظہار بھی کرے مثلاً اللہ تعالیٰ کی صفت عدل ہے اس لیے انسان عدل کرے، اللہ تعالی درگزر کرتا ہے انسان کو بھی چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کی خطاؤں اور غلطیوں سے درگزر کرے۔

رحم کرنا اللہ تعالیٰ کی سب سے غالب صفت ہے۔ نبی کریم ﷺ کی اس حدیث میں خاص طور پر اس صفت و رحمت پر زور دیا گیا ہے۔ رحم کے زیادہ حق دار ہمیشہ چھوٹے ہوا کرتے ہیں اور بالعموم بڑے عزت و تکریم کے حق دار ہوتے ہیں۔ اس لیے نبی کریم ﷺ نے تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا کہ جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور بڑوں کی عزت نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں یعنی وہ میرے سایۂ شفقت سے محروم رہے گابچوں کو مناسب تعلیم و تربیت سے محروم رکھنا انھیں شفقت سے محروم رکھنا ہے ۔ نیز جن بچوں پر رحم نہیں کیا جاتا ، انھیں چھوٹی سی عمر میں جسمانی مشقت کے کاموں میں لگا دیا جاتا ہے۔ اس لیے ہم اگر حضور اکرم ﷺکی وعید سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم بچوں کی مناسب تعلیم اور ضروری تربیت کا فرض پورا کریں۔