سورۃ الانفال، آیات 1 تا 10 سوال جواب

0

سبق ۱: سورۃ الانفال، آیات (۱تا۱۰)

بِسۡمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحۡمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ

يَسۡـَٔلُونَكَ عَنِ ٱلۡأَنفَالِۖ قُلِ ٱلۡأَنفَالُ لِلَّهِ وَٱلرَّسُولِۖ فَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ وَأَصۡلِحُواْ ذَاتَ بَيۡنِكُمۡۖ وَأَطِيعُواْ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥٓ إِن كُنتُم مُّؤۡمِنِينَ* إِنَّمَا ٱلۡمُؤۡمِنُونَ ٱلَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ ٱللَّهُ وَجِلَتۡ قُلُوبُهُمۡ وَإِذَا تُلِيَتۡ عَلَيۡهِمۡ ءَايَٰتُهُۥ زَادَتۡهُمۡ إِيمَٰنٗا وَعَلَىٰ رَبِّهِمۡ يَتَوَكَّلُونَ* ٱلَّذِينَ يُقِيمُونَ ٱلصَّلَوٰةَ وَمِمَّا رَزَقۡنَٰهُمۡ يُنفِقُونَ* أُوْلَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلۡمُؤۡمِنُونَ حَقّٗاۚ لَّهُمۡ دَرَجَٰتٌ عِندَ رَبِّهِمۡ وَمَغۡفِرَةٞ وَرِزۡقٞ كَرِيمٞ* كَمَآ أَخۡرَجَكَ رَبُّكَ مِنۢ بَيۡتِكَ بِٱلۡحَقِّ وَإِنَّ فَرِيقٗا مِّنَ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ لَكَٰرِهُونَ*يُجَٰدِلُونَكَ فِي ٱلۡحَقِّ بَعۡدَمَا تَبَيَّنَ كَأَنَّمَا يُسَاقُونَ إِلَى ٱلۡمَوۡتِ وَهُمۡ يَنظُرُونَ* وَإِذۡ يَعِدُكُمُ ٱللَّهُ إِحۡدَى ٱلطَّآئِفَتَيۡنِ أَنَّهَا لَكُمۡ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيۡرَ ذَاتِ ٱلشَّوۡكَةِ تَكُونُ لَكُمۡ وَيُرِيدُ ٱللَّهُ أَن يُحِقَّ ٱلۡحَقَّ بِكَلِمَٰتِهِۦ وَيَقۡطَعَ دَابِرَ ٱلۡكَٰفِرِينَ* لِيُحِقَّ ٱلۡحَقَّ وَيُبۡطِلَ ٱلۡبَٰطِلَ وَلَوۡ كَرِهَ ٱلۡمُجۡرِمُونَ*إِذۡ تَسۡتَغِيثُونَ رَبَّكُمۡ فَٱسۡتَجَابَ لَكُمۡ أَنِّي مُمِدُّكُم بِأَلۡفٖ مِّنَ ٱلۡمَلَـٰٓئِكَةِ مُرۡدِفِينَ* وَمَا جَعَلَهُ ٱللَّهُ إِلَّا بُشۡرَىٰ وَلِتَطۡمَئِنَّ بِهِۦ قُلُوبُكُمۡۚ وَمَا ٱلنَّصۡرُ إِلَّا مِنۡ عِندِ ٱللَّهِۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ*

مشکل الفاظ کے معانی:

اَلکَلِیَماتُ وَ التَّرَکِیبُ

الۡاَنۡفَالِ‌ؕ مال غنیمت
وَاَصۡلِحُوۡا ذَاتَ بَيۡنِكُمۡ‌ اپنے آپس کے تعلقات درست رکھو
وَجِلَتۡ ڈرجاتےہیں، ڈرتے ہیں
لَـكٰرِهُوۡنَۙ ناگواری محسوس کرنے والے
يُسَاقُوۡنَ وہ ہانکے جاتے ہیں
اِحۡدَى ایک(مونث)
دَابِرَ جڑ
تَسۡتَغِيۡثُوۡنَ تم فریاد کرتے ہو
مُرۡدِفِيۡن لگاتار آنے والے
غَيۡرَ ذَاتِ الشَّوۡكَةِ بغیر کیل کانٹے کے/بغیر اسلحے اور قوت کے

سوال(۱) : ایک لائن کا جواب تحریر کریں:

سوال : سورۃ الانفال میں مالِ غنیمت کے بارے میں کیا حکم دیا گیا ہے؟

جواب: سورۃ الانفال میں مالِ غنیمت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ غنیمت کا مال فقط اللہ اور اس کے رسول کا ہے۔

سوال : جب خدا کا ذکر کیا جاتا ہے تو مومنوں کا کیا حال ہوتا ہے؟

جواب : جب خدا کا ذکر کیا جاتا ہے تو مومنوں کے دل ڈر جاتے ہیں۔

سوال : مومنوں کا ایمان کب بڑھتا ہے؟

جواب: مومنوں کا ایمان اللہ کی آیتیں سن کر بڑھ جاتا ہے۔

سوال : مومن کے لیے اللہ کے ہاں کیا انعام ہے؟

جواب: مومنوں کے لیے اللہ کے ہاں بڑے درجے ، بخشش اور عزت کی روزی ہے۔

سوال : مومن کو اپنے گھر سے کس طرح نکلنا چاہیے؟

جواب : مومن کو اپنے گھر سے اسی طرح تدبیر کے ساتھ نکلنا چاہیے جس طرح اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبیﷺ کو ان کے گھر سے تدبیر کے ساتھ نکالا تھا۔

سوال(۲) : پانچ سے چھ لائن پر مشتمل جوابات تحریر کریں:

سوال۱: اس سبق میں مومنوں کی کیا صفات بیان کی گئی ہیں؟

جواب: اس سبق میں مومنوں کی چند صفات بیان ہیں۔ مومن وہ ہے جب اللہ کا ذکر ہو تو ان کے دل ڈر جائیں، جب انھیں اس کی آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو ان کا ایمان اور بڑھ جاتا ہے وہ ہر برائی کے کام سے رک جاتے ہیں اور وہ اپنے پروردگار پر کامل بھروسہ رکھتے ہیں ، مومن نماز بھی پڑھتے ہیں اور اللہ کے دیئے مال میں سے نیک کاموں میں خرچ بھی کرتے ہیں، وہ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور صدقات دیتے ہیں، مومن اللہ کی راہ میں اپنی جان کی قربانی دینے سے ہر گز دریغ نہیں کرتے۔

سوال۲: دو گروہوں سے کیا مراد ہے؟

جواب: دو گروہوں سے مراد مشرکین کے دو گروہ ہیں۔ ایک گروہ وہ تجارتی قافلہ جو ملک شام سے مکہ ابو سفیان کی سرپرستی میں تجارت کرکےمدینہ سے ہوتا ہوا واپس مکہ جارہا تھا اور دوسراگروہ کفار کا لشکر تھا جو ابوجہل کی سرپرستی میں مکہ سے مدینہ ہتھیاروسے لیس تجارتی کاروان کی حفاظت اور مسلمانوں سے جنگ کرنے مدینہ جا رہا تھا۔

سوال۳: مندرجہ ذیل عبارت کا مفہوم بیان کیجئے:

الف: فَاتَّقُوۡا اللّٰهَ وَاَصۡلِحُوۡا ذَاتَ بَيۡنِكُمۡ‌

ترجمہ:

پس ڈرتے رہو اللہ عزوجل سے اور آپس میں صلح رکھو۔

مفہوم:

مسلمانوں کی پہلی جنگ بدر کے مقام پر ہوئی۔ اس جنگ میں مسلمانوں کی تعداد کفار کی تعداد سے بہت کم تھی۔ جب مسلمانوں نے پلٹ پلٹ کر وار کئے تو کفار کے پاؤں اکھڑ گئے جس سے کفار مکہ میدان جنگ سے بھاگنے پر مجبور ہوئے۔ میدان جنگ سے فرار کے وقت وہ اپنا سارا مال و اسباب وہیں پر چھوڑ کر بھاگے۔ بازن الہیٰ مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی اور بہت کثیر تعداد میں مال غنیمت قبضہ میں آیا۔ چونکہ یہ پہلی جنگ کا موقع تھا مسلمان ہر گر تقسیم کا طور نہیں جانتے تھے جس وجہ سے مسلمانوں میں اختلاف پیدا ہو گیا۔ پھر وحی الہیٰ نازل ہوئی اور سارا مال حضور ﷺ کے خدمت میں پیش کیا گیا۔ آپﷺ نے عدل و انصاف سے غنیمت کے مال کو مسلمانوں میں تقسیم کر دیا ۔اسی پر ارشاد ربانی ہے باری تعالیٰ سے ڈرو حضورﷺ کی اطاعت کرو اور آپس میں اختلاف نہ پیدا کرو۔

ب: وَاَطِيۡعُوا اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗۤ اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ

ترجمہ:

اگر ایمان رکھتے ہو توخدا اور اس کے رسول کے حکم پر چلو۔

مفہوم:

جنگ کے بعد کفار کا بچا ہوا مال مسلمان کے قبضہ میں آیا۔ مسلمانوں نے اپنی مرضی سے جو پایا اسے اپنی ملکیت سمجھ بیٹھے۔ اس سے مسلمانوں کے مابین اختلاف جنم لینے لگا۔ جس پر حکم ربی نازل ہوا کہ سارا مال آپﷺ کی خدمت میں پیش کرو۔مسلمانوں نے ایسا ہی کیا۔ پھر آپﷺ نے اس مال کا پانچواں حصہ نکال کر باقی مجاہدین و شہداء میں برابر تقسیم کر دیا۔اسی تناظر میں باری تعالیٰ عزوجل نے حکم دیا اللہ سے ڈرتے رہو اس کے نبیﷺ کی اطاعت کو لازم سمجھو اور آپس میں اختلاف بڑھانے کے بجائے صلح سے کام لو۔

ج: وَاِذَا تُلِيَتۡ عَلَيۡهِمۡ اٰيٰتُهٗ زَادَتۡهُمۡ اِيۡمَانًا

ترجمہ:

جب انھیں اس کی آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو ان کا ایمان اور بڑھ جاتا ہے۔

مفہوم:

آیت کے اس حصہ میں باری تعالیٰ عزوجل نے مومنین کی صفت کو بیان کیا ہے۔ اللہ سبحان تعالیٰ ارشاد کرتے ہیں کہ مومن وہ ہے جس کے سامنے قرآن مجید فرقان حمید کی آیات پڑھی جائیں یا انھیں خدا تعالیٰ کا ذکر سنایا جائے تو ان کے دل لرز اٹھیں۔ ان کے دل خوف سے بھر جائیں۔ ان کا ایمان پختہ ہو اور وہ ہر قسم کی برائی سے منع ہو جائیں۔ اس کے دل دنیا کے مال و متاع سے اٹھ جائے اور وہ ایک خدا کی توحید کا ماننے والا ہو جائے۔ وہ رسولﷺ کے ہر حکم کی اطاعت کرے اور کفار کے مقابلے میں جاں بر ہو کر لڑے۔