سورۃ الانفال آیت نمبر 45 تا 48 سوالات و جوابات

0
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا لَقِيۡتُمۡ فِئَةً فَاثۡبُتُوۡا وَاذۡكُرُوۡا اللّٰهَ كَثِيۡرًا لَّعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ‌ۚ‏ ﴿۴۵﴾

مومنو! جب (کفار کی) کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور خدا کو بہت یاد کرو تاکہ مراد حاصل کرو۔

وَاَطِيۡعُوا اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ وَلَا تَنَازَعُوۡا فَتَفۡشَلُوۡا وَتَذۡهَبَ رِيۡحُكُمۡ‌ وَاصۡبِرُوۡا‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِيۡنَ‌ۚ‏ ﴿۴۶﴾

اور خدا اور اس کے رسول کے حکم پر چلو اور آپس میں جھگڑا نہ کرنا کہ (ایسا کرو گے تو) تم بزدل ہو جاؤ گے اور تمہارا اقبال جاتا رہے گا اور صبر سے کام لو۔ کہ خدا صبر کرنے والوں کا مددگار ہے۔

وَلَا تَكُوۡنُوۡا كَالَّذِيۡنَ خَرَجُوۡا مِنۡ دِيَارِهِمۡ بَطَرًا وَّرِئَآءَ النَّاسِ وَ يَصُدُّوۡنَ عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ‌ؕ وَاللّٰهُ بِمَا يَعۡمَلُوۡنَ مُحِيۡطٌ‏ ﴿۴۷﴾

اور ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو اِتراتے ہوئے (یعنی حق کا مقابلہ کرنے کے لیے) اور لوگوں کو دکھانے کے لیے گھروں سے نکل آئے اور لوگوں کو خدا کی راہ سے روکتے ہیں۔ اور جو اعمال یہ کرتے ہیں خدا ان پر احاطہ کئے ہوئے ہے۔

وَاِذۡ زَيَّنَ لَهُمُ الشَّيۡطٰنُ اَعۡمَالَهُمۡ وَقَالَ لَا غَالِبَ لَـكُمُ الۡيَوۡمَ مِنَ النَّاسِ وَاِنِّىۡ جَارٌ لَّـكُمۡ‌ۚ فَلَمَّا تَرَآءَتِ الۡفِئَتٰنِ نَكَصَ عَلٰى عَقِبَيۡهِ وَقَالَ اِنِّىۡ بَرِىۡٓءٌ مِّنۡكُمۡ اِنِّىۡۤ اَرٰى مَا لَا تَرَوۡنَ اِنِّىۡۤ اَخَافُ اللّٰهَ‌ؕ وَاللّٰهُ شَدِيۡدُ الۡعِقَابِ‏ ﴿۴۸﴾

اور جب شیطانوں نے ان کے اعمال ان کو آراستہ کر کے دکھائے اور کہا کہ آج کے دن لوگوں میں کوئی تم پر غالب نہ ہوگا اور میں تمہارا رفیق ہوں (لیکن) جب دونوں فوجیں ایک دوسرے کے مقابل صف آراء ہوئیں تو پسپا ہو کر چل دیا اور کہنے لگا کہ مجھے تم سے کوئی واسطہ نہیں۔ میں تو ایسی چیزیں دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھ سکتے۔ مجھے تو خدا سے ڈر لگتا ہے۔ اور خدا سخت عذاب کرنے والا ہے ۔

اَلکَلِیَماتُ وَ التَّرَکِیبُ
فَاثۡبُتُوۡا ثابت قدم رہو
فَتَفۡشَلُوۡا پس تم ہمت ہار جاؤ گے
بَطَرًا اتراتے ہوئے
جَارٌ معاون وحمایتی
تَرَآءَتِ آمنے سامنے ہوئے
نَكَصَ عَلٰى عَقِبَيۡهِ وہ الٹے پاؤں پھر گیا

سوال(۱) : ایک لائن کا جواب تحریر کریں:

سوال : اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو مراد حاصل کرنے کے لیے کس بات کا حکم دیا ہے؟

جواب: اللہ تبارک تعالیٰ نے مسلمانوں کو مراد حاصل کرنے کے لیے کثرت سے اللہ کو یاد کرنے کا حکم دیا ہے۔

سوال : ان آیات کے مطابق کس فعل کی وجہ سے مسلمان بزدل ہوجائیں گے؟

جواب: اللہ تعالیٰ نے خدا اور اس کے رسولﷺ کی پیروی کرنے کا حکم دیا اور ارشاد فرمایا کہ آپس میں نہ جھگڑنا وگرنہ تم بزدل ہو جاؤ گے۔

سوال : ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کن جیسا نہ ہونے کی تاکید کی ہے؟

جواب: ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان لوگوں کی مشابہت سے منع کیا ہے جو زمین پر اترا کر چلتے ہیں۔

سوال : شیطان نے میدانِ جنگ سے جاتے ہوئے کیا کہا؟

جواب: شیطان نے میدان جنگ سے جاتے ہوئے کفار مکہ سے کہا میں ایسی چیزیں دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھ سکتے۔

سوال(۲) : پانچ سے چھ لائن پر مشتمل جوابات تحریر کریں:

سوال۱: کفار کے ساتھ مقابلے کی صورت میں مسلمانوں کوکون سے کام کرنے اور کن باتوں سے بچنے کا حکم دیا گیا؟

  • جواب: میدان جنگ میں جن کاموں کا اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا:
  • ۱: میدان جنگ میں جب مومنین کفار سے برسرپیکار ہونگے تو ان کی زبانوں پر اللہ تعالیٰ کا ذکر لازم ہونا چاہئے، وہ اپنی فتح یابی کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ سے مدد طلب کریں۔
  • ۲: مسلمان میدان جنگ سے پسپائی یا پیٹھ دکھا کر بھاگنے سے ہرگز گریز کریں اور ثابت قدمی سے محاذ پر ڈٹے رہیں۔
  • ۳: مسلمان میدان جنگ میں امرالہیٰ کو ہی فوقیت دیں اور رسولﷺ کے حکم کی بھرپور تعمیل کریں اورہرگز اسلامی تعلیمات کے منافی کوئی عمل نہ کریں۔

جن کاموں سے اللہ تعالیٰ نے منف فرمایا:

  • ۱: آپس میں شیر و شکر رہیں اور اتحاد قائم رکھیں۔
  • ۲: میدان جنگ کو پشت دکھا کر فرار کی راہ اختیار نہ کرنا۔
  • ۳: غرور و تکبر سے کوسوں رود رہیں اور اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کریں۔

سوال۲: غزوہ بدر میں مسلمانوں کی نصرت کےلیے نازل ہونے والے فرشتوں کو دیکھ کر شیطان کا ردعمل کیا تھا؟

جواب:جب غزوہ بدر کے موقع پر شیطان کفار مکہ کی مدد کو پہنچا تو وہ انھیں طرح طرح کی شہ دے رہا تھا۔ ان کی گمراہی شیطان مردود نے کلیدی کردار ادا کیا۔ مگر جب مسلمانوں نے اپنی قوت ایمانی سے کفار کا ڈٹ کرمقابلہ کیا تو باری تعالیٰ نے اپنی رحمانی فوج کی مدد کے لیے گروہ در گروہ فرشتوں کے لشکر بھی رونہ کیے تاکہ مسلمانوں کو فتح مبین نصیب ہو۔جب شیطان نے فرشتوں کے لشکروں کو دیکھا تو وہ بھاگ گھڑا ہوا اور ساتھ کفار مکہ کو کہنے لگا کہ جو میں دیکھ رہا ہوں وہ تم نہیں دیکھ سکتے کیونکہ خدا تعالیٰ کی نوری مخلوق انسانوں کی آنکھوں سے اوجھل ہیں۔

سوال۳:مندرجہ ذیل آیات کا مفہوم بیان کیجئے۔

الف: يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا لَقِيۡتُمۡ فِئَةً فَاثۡبُتُوۡا وَاذۡكُرُوۡا اللّٰهَ كَثِيۡرًا لَّعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ‌

ترجمہ:

مومنو! جب (کفار کی) کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور خدا کو بہت یاد کرو تاکہ مراد حاصل کرو۔

مفہوم:

اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں سے فرمایا ہے کہ مومنوں میدان جنگ میں صبر و شکر کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دینا۔ تمہارا حوصلہ اور ہمت تمہیں فتح مبین سے ہم کنار کرے گی۔ پس فتح نصیب ہونے تک اپنی جگہ نہیں چھوڑنی نہ ہی میدان جنگ میں کمزور و بذدلی سے کام لینا ہے۔ اپنے حوصلہ و طاقت کے لیے اللہ تعالیٰ کا ذکر بلند کرو۔ جب تم کفار کے نصف سے بھی کم ہو اور تمہارا مدد گار بس ایک اللہ ہے تو پھر تمہیں فتح نصیب ہوگی پس تم صبر کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دینا۔ آپس میں کسی وجہ سے مت الجھنا اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کے حکم کی تعمیل کرنا۔ جب تم میدان جنگ میں بہادی کا مظاہرہ کرو گے تمہارا مدد گار اللہ ہوگا توتمہیں کامیابی عنایت ہوگی۔

ب: وَاَطِيۡعُوا اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ وَلَا تَنَازَعُوۡا فَتَفۡشَلُوۡا وَتَذۡهَبَ رِيۡحُكُمۡ‌ وَاصۡبِرُوۡا‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِيۡنَ‌ۚ‏

ترجمہ:

اور خدا اور اس کے رسول کے حکم پر چلو اور آپس میں جھگڑا نہ کرنا کہ (ایسا کرو گے تو) تم بزدل ہو جاؤ گے اور تمہارا اقبال جاتا رہے گا اور صبر سے کام لو۔ کہ خدا صبر کرنے والوں کا مددگار ہے ۔
مفہوم:اللہ تبارک تعالیٰ نے مسلمانوں کو چند باتوں کی تاکید کی ہے جس سے مسلمانوں کی جمیعت میں کوئی خلا نہیں ہوگا اور وہ آپس میں مضبوط رہیں گے اور کفر کے سامنے سیسہ پلائی دیوار ثابت ہونگے۔ اللہ تبارک تعالیٰ نے مسلمانوں کو اللہ اور اس کے آخری پیغمبرﷺ کی اطاعت کو ہر حالت میں لازم قرار کیا ہے۔آپﷺ نے جس کام سے منع کیا تو پس اس سے منع ہو جانا ہی مومن کے لیے بہتر ہے۔رسولﷺ کو اللہ تبارک تعالیٰ کی تائید حاصل ہے اس لیے مکمل طور پر ان تعلیمات پر عمل کرنا جو آپﷺنے حکم فرمائی ہیں۔آپس میں کسی وجہ سے مت الجھنا اور اپنی جمعیت میں ہرگز پھوٹ نہ ڈالنا اس میں کفار کی ہی منفعت ہے۔میدان جنگ میں کسی قسم کی کوتاہی پوری مسلم جماعت کے لیے مصیبت ثابت ہو سکتی ہے ا س لیے اپنے اتحاد کو مضبوط رکھو تاکہ تمہیں فتح نصیب ہو۔

ج: وَلَا تَكُوۡنُوۡا كَالَّذِيۡنَ خَرَجُوۡا مِنۡ دِيَارِهِمۡ بَطَرًا وَّرِئَآءَ النَّاسِ وَ يَصُدُّوۡنَ عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ‌ؕ وَاللّٰهُ بِمَا يَعۡمَلُوۡنَ مُحِيۡطٌ‏

ترجمہ:

اور ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو اِتراتے ہوئے (یعنی حق کا مقابلہ کرنے کے لیے) اور لوگوں کو دکھانے کے لیے گھروں سے نکل آئے اور لوگوں کو خدا کی راہ سے روکتے ہیں۔ اور جو اعمال یہ کرتے ہیں خدا ان پر احاطہ کئے ہوئے ہے۔

مفہوم:

کفار مکہ اپنی کثیر تعداد پر اتراتے تھے۔ وہ مکہ سے ساز و سامان کے ساتھ میدان جنگ کی جانب چلےتھے۔ کفار مکہ طاقت کے نشے میں مست تھے انھوں نے ساتھ شراب اور موسیقی کی محفلیں بھی بھرپا کر رکھیں اور یہ گمان کیا کہ مٹھی بھر مسلمانوں پر ہم غالب آجائیں گے۔ کفارکا یہی طاقت کا نشہ تھا جس نے انھیں مسلمانوں کے سامنے رسوا کر دیا۔ اللہ تعالیٰ شرک کو پسند نہیں فرماتا ۔ اسی لیے اللہ تبارک تعالیٰ نے مسلمانوں کو بھی یہی حکم فرمایا ہے کہ میدان جنگ کی جانب جاتے ہوئے اپنے آپ پر مان نہ کرنا نہ کوئی جملہ ایسا کہنا جو تمہارے تکبر کی عکاسی کرتا ہو اور اپنے آپ کو کفار سے بالکل مختلف رکھنا وگرنہ تمہارا حشر بھی ان جیسا ہی ہو جائےگا۔