الرَّاشِی وَالْمُرْتَشِی كِلاَهُمَا فِي النَّارِ تشریح

0
(۷)الرَّاشِی وَالْمُرْتَشِی كِلاَهُمَا فِي النَّارِ

ترجمہ:

رشوت دینے والا اور رشوت لینے والا دونوں آگ میں ہیں۔

تشریح:

رشوت کا چلن کسی قوم میں اس وقت عام ہوتا ہے جب عدل و انصاف ختم ہو جائے اور لوگوں کو ان کے حقوق جائز طریقے سے نہ مل سکیں۔ کسی قوم کی یہ حالت اس کے معاشرتی بگاڑ اور ظلم کی ایک نہایت خراب صورتِ حال ہے۔ جس معاشرے میں انسانوں کے جائز حقوق کی راہ میں ظالم اہل کاروں کے ناجائز مطالبے حائل ہو جائیں، وہاں امن و سکون بھلا کیسے قائم رہ سکتا ہے؟ اس لیے رشوت لینے والے اور دینے والے دونوں ہی کے متعلق رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ وہ جہنم کی آگ کا ایندھن ہیں۔ یہاں پر توجہ طلب بات یہ ہے کہ رشوت دینے والے کا ذکر پہلے ہوا ہے جس سے واضح ہوا کہ رشوت دینے والا بھی اس گناہ کی سزا سے بچ نہیں سکتا۔

(۸)اِنَّ اَكْمَلَ الْمُؤْمِنِينَ اِیْمَاناً اَحْسَنُهُم خُلُقًا (مسند احمد حدیث:۲۴۶۷۷)

ترجمہ:

یقینا مومنوں میں سے کامل ترین ایمان والا وہ ہے جو ان میں اخلاق کے لحاظ سے سب سے اچھا ہے۔

تشریح:

انسانی شخصیت کی اصل تصویر ایک آئینہ بھی اتنی صاف پیش نہیں کرتا جتنا اس کا اخلاق۔ جب ایک انسان دوسروں سے معاملات میں حسن خلق سے پیش آتا ہے تو اس کی شخصیت کا ظاہر اور باطن مکمل طور پر واضح ہو جاتا ہے۔

حسن خلق ہی ایک ایسا عمل ہے جس سے آپس کی نفرتوں کو نہ صرف محبتوں میں بدلا جا سکتا ہے بلکہ دشمنوں کے دلوں میں بھی گھر کیا جاسکتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعوت حق کے دوران عام طور پر تمام عمر اور مکی زندگی میں خاص طور پر صرف حسن خلق ہی کے ہتھیار سے اپنے بڑے سے بڑے دشمن کو زیر کیا۔ اچھے اخلاق اپنا نا کسی بھی انسان کے لیے ضروری ہے۔ مسلمانوں کے لیے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے ایمان کی تکمیل کا پیمانہ قرار دیا ہے۔ حسن اخلاق در اصل روز مرہ زندگی میں اللہ، اس کے رسول ﷺ ، اپنے نفس اور مخلوق خدا کے ساتھ ایک مسلمان کے طرز عمل اور رویے کا نام ہے اگر یہ طرز عمل اور رویہ اچھا ہے اور شریعت کے اصولوں کے مطابق ہے تو اُسے حسن اخلاق کہا جائے گا اور اگر یہ طرز عمل اور رویہ اچھا نہیں تو اسے بُرا اخلاق کہا جائے گا۔