اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت و اطاعت

0

سوال۱: اللہ تعالیٰ کی محبت سے کیا مراد ہے؟

اللہ تعالی کے ساتھ محبت:

سوچ کا یہ درست زاویہ محبت الہی کی دعوت دیتا ہے کہ کسی کا ایک معمولی حسن سلوک ساری عمر کی احسان مندی کا باعث بنتا ہے۔ تو جو زندگی بخشتا ہے اس کے لیے ساری عمر محبت کے جذبے پروان کیوں نہ چڑھیں۔ اسی لیے فرمایا گیا کہ:

ترجمہ: جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ اللہ سے بہت زیادہ محبت کرنے والے ہیں۔(البقرہ: ۱۶۵)
ایمان کی تکمیل محبت کے بغیر ممکن نہیں کیونکہ جس عمل میں محبت کی کارفرمائی نہ ہو وہ کھوکھلا اوربے توفیق ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ محبت کرنے والا جس سے محبت کرتا ہے، اُس کا فرمانبردار ہوتا ہے۔ ایمان کا تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے محبت کی جائے۔ اللہ تعالیٰ سے محبت کا تقاضا ہے کہ اس کے احکام کو دل و جان سے تسلیم کیا جائے اور پوری دل جمعی سے ان پر عمل کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ اس نے ہر دور میں انسان کی رہنمائی کے لیے انبیاء کرام علیھم السلام مبعوث فرمائے اور ان پاک لوگوں کو اپنے احکام کتابوں یا صحیفوں کی شکل میں عطا فرمائے۔ ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سلسلہ، ہدایت کے آخری پیغامبر ہیں اور قرآن جو آپ ملنے پر نازل کیا گیا ، دائی ہدایت کی کتاب ہے اور انسان کی فلاح کے لیے آخری پیغام عمل ہے جس پر عمل پیرا ہو کر دنیا میں کامیابی اور آخرت میں نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔

سوال۲: رسول اللہﷺ کی اطاعت کیوں ضروری ہے؟

اطاعت:

اللہ تعالیٰ سے محبت کا دعویٰ تو کیا جا سکتا ہے مگر اس کا ثبوت کیسے دیا جائے؟ یہ سوال ہر انسان کے ذہن میں پیدا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ اس نے خود اس کا راستہ بتا دیا۔
ارشادِ باری تعالی ہے:

ترجمہ: (اے پیغمبر!) کہہ دیجیے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمھارے گناہ بخش دے گا ۔ اللہ تعالیٰ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔ (سورۃ آل عمران: ۳۱)
محبت الہی، اُسوہ رسول ﷺ کی پیروی کا نام ہے۔ اطاعت میں مکمل خود سپردگی درکار ہوتی ہے۔ ظاہری عمل کے پیچھے دلی چاہت اور قلبی میلان ضرور ہوتا ہے۔ وگرنہ یہ عمل منافقت بن جاتا ہے۔
اس لیے اس پر متنبہ فرماتے ہوئے ارشاد ہوا:

ترجمہ: تمھارے رب کی قسم ! یہ لوگ اس وقت تک ایمان والے نہیں ہو سکتے جب تک اپنے تنازعات میں آپؐ کا حکم نہ مانیں اور پھر جو فیصلہ آپؐ کریں اس پر تنگ دل نہ ہوں بلکہ پورے طور پر اسے تسلیم کریں۔
اطاعت ، اتباع کی عملی مشکل سے ایمان کے عملی تقاضے پورے ہوتے ہیں اور تسلیم و رضا کی برکات حاصل ہوتی ہیں۔

سوال۳: قرآن کریم کی کسی ایک آیت کے حوالے سے ختم نبوت کا مفہوم واضح کریں۔

جواب: حضور اکرمﷺ پوری انسانیت کے لیے ہدایت کا ابدی صحیفہ لے کر تشریف لائے۔ آپﷺ کی تشریف آوری سے ہدایت کا سلسلہ اپنے کمال کو بھی پہنچا اوراختتام کو بھی۔ جیسا کہ ارشاد ہوا۔

ترجمہ: آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کردی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کرلیا۔(المائدہ:۲)
دین مکمل، نعمت مکمل اور اسلام پر رضائے الہیٰ کا واضح اظہار حضرت محمدﷺ کے آخری نبی اور رسول ہونے کا اعلان ہے کہ اب کسی اور نبی کی ضرورت نہیں رہی اس لیے کہ احکام الہیٰ مکمل ہو گئے۔
ارشاد ربانی ہے:

ترجمہ: محمدﷺ تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں مگر اللہ کے رسول ہیں اور تمام نبیوں میں سے آخری نبی ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ ہر چیز واقف ہے۔
اب انسان کو ہدایت ایک ہی در سے ملے گی۔اب پریشان نظری ختم ہوئی اور تلاش کا مرحلہ تمام ہوا سب کو اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا ہے، اس ایمان کو محبت کا جوہر عطا کرنا ہے اور رسول اکرمﷺ کی محبت و اطاعت اور اتباع سے احکام الہیٰ کا پابند بننا ہے۔ اسی میں دنیا کی بھلائی ہے اور اسی میں آخرت کی نجات ہے۔ چنانچہ ختم نبوت کی برکت سے ہمارا دین کامل اور آخری دین ہے۔ ہم آخری امت اور ہمارے پیغمبر حضرت محمدﷺ آخری پیغمبر ہیں۔ آپﷺ کے بعد کسی کو منصب نبوت سے سرفراز نہیں کیا جائیگا۔ ختم نبوت کے عقیدہ کو قرآن کریم کی تقریباً ۱۰۰آیات مبارکہ اور آپﷺ کی تقریباً ۱۲۱۰ احادیث مبارکہ میں واضح طور پر بیان کردیا گیا ہے۔

مختصر سوالات کے جوابات : (نوٹ) : پانچ سے چھ لائن پر مشتمل جواب لکھیں۔

سوال : قرآن پاک کی سورۃ البقرۃ آیت نمبر ۲۱ میں کس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے؟

جواب: قرآن پاک کے سورۃ البقرۃ آیت نمبر۲۱ میں ارشاد ربانی ہے کہ:

ترجمہ: اے لوگو! اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تم کو پیدا کیا۔
اب عبادت اور بندگی کا تقاضا ہے کہ پیدا اس نے کیا تو حکم بھی اسی کا مانو۔ آنکھ اس نے دی تو اس کی رضا کے مطابق دیکھو، کان اس نے عطا کے تو اس کے فرمان کے مطابق سننے کی عادت ڈالو۔ سوچنے کی قوت اس پروردگار ہی کی عطا ہے تو ہر لمحہ اس کی ذات،قدرت اور اس کے احکام پر غور کرو۔

سوال : قرآن کی روشنی میں رسول اللہ ﷺ سے محبت کو بیان کیجیے۔

جواب: رسول اللہﷺ سے محبت ایمان کا عین تقاضا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: نبی کریمﷺ مومنوں کے لیے ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ (الاحزاب: ۶)
ہمارے ایمان کے کامل ہونے کے لیے لازم ہے کہ ہم آپﷺ سے اپنی جانوں سے بڑھ کر محبت کریں اور ان کی اطاعت کو اپنے اوپر لازم کریں۔ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:
ترجمہ: تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل ایمان والا نہیں ہو سکتا جب تک میں اسے اپنے ماں، باپ، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ بن جاؤں۔

سوال : ختمِ نبوت کے بعد نبی ہونے کا دعوی کرنے والے کون کون لوگ تھے اور ان کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا؟

جواب: ختم نبوت کے بعد نبی ہونے کا دعویٰدار اسود عنسی کو قتل کرنے کے لیے نبی کریمﷺ نے حضرت فیرو زدیلمیؓ نامی صحابی کو بھیجا۔ اسی طرح حضرت ابوبکرصدیقؓ کے دور خلافت میں مسیلمہ کذاب نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا سیدنا ابوبکرؓ نے اس کی سرکوبی کے لیے لشکر روانہ کیا اور مسیلمہ کو شکست ہوئی۔ عبدالملک بن مروان کے دور حکومت میں دمشقی کذاب دعویدار بن کر سامنے آیا اسے سزائے موت ہوئی۔ حاکم عراق محمد خالد بن عبداللہ نے نبوت کے جھوٹے دعویدار مغیرہ بن سعید اور بیان بن سمعان کو سزائے موت دی۔ہر دور میں نبوت کے جھوٹے دعویداروں کے خلاف امت مسلمہ نے پوری وحدت کے ساتھ اسلام اور مسلمانوں کادفاع کیا۔ اسی طرح پچھلی صدی میں قادیان سے غلام احمد نامی کذاب نے بھی دعویٰ نبوت کیا مگر وہ بھی اپنے انجام کو پہنچا۔

(نوٹ) : ایک سے دو لائن پر مشتمل جواب لکھیں۔

سوال : انسان جب کائنات کے مناظر پر غور کرتا ہے تو وہ کیا دریافت کرتا ہے؟

جواب: انسان جب کائنات کے مناظر پرغور کرتا ہے تو اسے یہ دریافت کرنے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہوتی کہ کوئی قدرت رکھنے والی، پرورش کرنے والی اور حکمت و دانائی والی ذات ضرور موجود ہے جو ان تمام پر حکمران ہے، انھیں قوت عطا کر رہی ہے اور بڑھنے کی صلاحیت بخش رہی ہے۔

سوال : انسان کی عظمت کس میں ہے؟

جواب: انسان کی عظمت اسی میں ہے کہ وہ اپنے خالق کو تسلیم کرے۔

سوال : عبادت اور بندگی کا کیا تقاضا ہے؟

جواب:عبادت اور بندگی کا یہ تقاضا ہے کہ پیدا اس نے کیا تو حکم بھی اسی کا مانو۔

سوال : کس سوچ کا زاویہ محبتِ الہی کا پیغام دیتا ہے؟

جواب:سوچ کا یہ زاویہ محبت الہیٰ کی دعوت دیتا ہے کہ کسی کا ایک معمولی حسن سلوک سارعی عمر کی احسان مندی کا باعث بنتا ہے تو جو زندگی بخشتا ہے اس کے لیے ساری عمر محبت کےجذبے پروان کیوں نہ چڑھیں۔

سوال : ایمان کا تقاضا کیا ہے؟

جواب : محبتِ الہی اور رسول اللہ ﷺ سے محبت ایمان کا بنیادی تقاضا ہے۔

سوال : انسانیت کے لیے شرف کیا ہے؟

جواب : انسانیت کے لیے شرف یہ ہے کہ اسے دائمی ہدایت کا اہل گردانا گیا اور ایک مرکز سے آشنا کردیا گیا۔

سوال : ختمِ نبوت کے عقیدے کو قرآن و حدیث میں کتنی مرتبہ واضح بیان کیا گیا ہے؟

جواب:ختم نبوت کے عقیدہ کو قرآن کریم کی تقریباً ۱۰۰ آیات مبارکہ اور آپﷺ کی تقریباً ۱۲۱۰ احادیث مبارکہ میں واضح طور پر بیان کر دیا ہے۔