سورہ انفال آیت 20 تا 28 سوال جواب

0
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِيۡعُوا اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ وَلَا تَوَلَّوۡا عَنۡهُ وَاَنۡـتُمۡ تَسۡمَعُوۡنَ‌ۖ‌ۚ‏ ﴿۲۰﴾

اے ایمان والو! خدا اور اس کے رسول کے حکم پر چلو اور اس سے روگردانی نہ کرو اور تم سنتے ہو۔

وَلَا تَكُوۡنُوۡا كَالَّذِيۡنَ قَالُوۡا سَمِعۡنَا وَهُمۡ لَا يَسۡمَعُوۡنَ‌‏ ﴿۲۱﴾

اور ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو کہتے ہیں کہ ہم نے حکم (خدا) سن لیا مگر (حقیقت میں) نہیں سنتے۔

اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنۡدَ اللّٰهِ الصُّمُّ الۡبُكۡمُ الَّذِيۡنَ لَا يَعۡقِلُوۡنَ‏ ﴿۲۲﴾

کچھ شک نہیں کہ خدا کے نزدیک تمام جانداروں سے بدتر بہرے گونگے ہیں جو کچھ نہیں سمجھتے۔

وَلَوۡ عَلِمَ اللّٰهُ فِيۡهِمۡ خَيۡرًا لَّاَسۡمَعَهُمۡ‌ؕ وَلَوۡ اَسۡمَعَهُمۡ لَتَوَلَّوا وَّهُمۡ مُّعۡرِضُوۡنَ‏ ﴿۲۳﴾

اور اگر خدا ان میں نیکی (کا مادہ) دیکھتا تو ان کو سننے کی توفیق بخشتا۔ اور اگر (بغیر صلاحیت ہدایت کے) سماعت دیتا تو وہ منہ پھیر کر بھاگ جاتے۔

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا اسۡتَجِيۡبُوۡا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُوۡلِ اِذَا دَعَاكُمۡ لِمَا يُحۡيِيۡكُمۡ‌ۚ وَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰهَ يَحُوۡلُ بَيۡنَ الۡمَرۡءِ وَقَلۡبِهٖ وَاَنَّهٗۤ اِلَيۡهِ تُحۡشَرُوۡنَ‏ ﴿۲۴﴾

مومنو! خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لیے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی (جاوداں) بخشتا ہے۔ اور جان رکھو کہ خدا آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے اور یہ بھی کہ تم سب اس کے روبرو جمع کیے جاؤ گے۔

وَاتَّقُوۡا فِتۡنَةً لَّا تُصِيۡبَنَّ الَّذِيۡنَ ظَلَمُوۡا مِنۡكُمۡ خَآصَّةً‌ ۚ وَّاعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰهَ شَدِيۡدُ الۡعِقَابِ‏ ﴿۲۵﴾

اور اس فتنے سے ڈرو جو خصوصیت کے ساتھ انہیں لوگوں پر واقع نہ ہوگا جو تم میں گنہگار ہیں۔ اور جان رکھو کہ خدا سخت عذاب دینے والا ہے۔

وَاذۡكُرُوۡۤا اِذۡ اَنۡـتُمۡ قَلِيۡلٌ مُّسۡتَضۡعَفُوۡنَ فِىۡ الۡاَرۡضِ تَخَافُوۡنَ اَنۡ يَّتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ فَاَاوٰٮكُمۡ وَاَيَّدَكُمۡ بِنَصۡرِهٖ وَرَزَقَكُمۡ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ لَعَلَّكُمۡ تَشۡكُرُوۡنَ‏ ﴿۲۶﴾

اور اس وقت کو یاد کرو جب تم زمین (مکہ) میں قلیل اور ضعیف سمجھے جاتے تھے اور ڈرتے رہتے تھے کہ لوگ تمہیں اُڑا (نہ) لے جائیں (یعنی بےخان وماں نہ کردیں) تو اس نے تم کو جگہ دی اور اپنی مدد سے تم کو تقویت بخشی اور پاکیزہ چیزیں کھانے کو دیں تاکہ (اس کا) شکر کرو۔

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَخُوۡنُوۡا اللّٰهَ وَالرَّسُوۡلَ وَتَخُوۡنُوۡۤا اَمٰنٰتِكُمۡ وَاَنۡـتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿۲۷﴾

اے ایمان والو! نہ تو خدا اور رسول کی امانت میں خیانت کرو اور نہ اپنی امانتوں میں خیانت کرو اور تم (ان باتوں کو) جانتے ہو۔

وَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَاۤ اَمۡوٰلُكُمۡ وَاَوۡلٰدُكُمۡ فِتۡنَةٌ ۙ وَّاَنَّ اللّٰهَ عِنۡدَهٗۤ اَجۡرٌ عَظِيۡمٌ‏ ﴿۲۸﴾

اور جان رکھو کہ تمہارا مال اور اولاد بڑی آزمائش ہے اور یہ کہ خدا کے پاس (نیکیوں کا) بڑا ثواب ہے۔

اَلکَلِیَماتُ وَ التَّرَکِیبُ
شَرَّ الدَّوَآبِّ بدترین قسم کے جانور
اسۡتَجِيۡبُوۡا حکم مانو، پکار کا جواب دو۔
يَحُوۡلُ حائل ہوتا ہے
مُّسۡتَضۡعَفُوۡنَ مغلوب، بے زور
يَّتَخَطَّفَ وہ اچک لے، اڑالے
لَا تَخُوۡنُوۡا تم خیانت نہ کرو

سوال(۱) : ایک لائن کا جواب تحریر کریں:

سوال : خدا کے نزدیک تمام جانداروں سے بدتر کون ہیں؟

جواب: خدا کے نزدیک تمام جانداروں میں بدترین وہ ہے جو کہتے ہیں ہم نے خدا کا حکم سن لیا درحقیقت وہ نہیں سنتے۔

سوال : خدا کسے سننے کی توفیق بخشتا ہے؟

جواب: خدا تعالیٰ ان کو سننے کی توفیق بخشتا ہے جن میں نیکی کرنے کا مادہ پایاجاتا ہے۔

سوال : اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کس وقت کو یاد کرنے کا اشارہ دیا ہے؟

جواب: سورۃ الانفال میں اللہ تبارک تعالیٰ نے مسلمانوں کو مکہ کے وقت کو یاد کرنے کا اشارہ دیا ہے۔

سوال : اس سورت کے مطابق انسان کے لیے بڑی آزمائش کیا ہے؟

جواب: سورۃ الانفال میں انسان کے لئے اولاد اور اس کا مال بڑی آزمائش بتایا گیا ہے۔

سوال : ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو کس کی امانت میں خیانت کرنے سے منع فرمایا ہے؟

جواب: سورۃ الانفال میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو اللہ اور اس کےرسولؐ کی امانت میں اور عام لوگوں کی امانتوں میں خیانت سے منع فرمایا ہے۔

سوال(۲) : پانچ سے چھ لائن پر مشتمل جوابات تحریر کریں:

سوال۱: شَرَّ الدَّوَآبِّسے کیامراد ہے؟

جواب:سورۃ الانفال میں ” شَرَّ الدَّوَآبِّ“ کے معنی ہیں بدترین قسم کا جانور۔اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو حق کو قبول کرنے میں کوتاہی کرتے ہیں۔ ان کے سامنے حق کی بات کی جائے، سیدھے راستے پر چلنے کی تلقین کی جائے تو وہ بظاہر کہتے ہیں کہ ہم نے سن لیا مگر وہ سنتے نہیں نہ اس پر عمل کرتےہیں۔ بلکہ اللہ کے احکامات کو ٹھکراتے ہیں ان کی مثال ان جانوروں کی سی ہے جو سنتے دیکھتے سب ہیں مگر عمل نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے کفار مکہ اور منافقین کو بدترین جانور سے تشبیہ دی ہےجو سے روگردانی کرتے ہیں۔

سوال۲: ان آیات میں خیانت سے کیا مراد ہے؟

جواب: سووۃ الانفال میں جو خیانت کا ذکر ہے اس سے مراد ہے کہ جو لوگ اللہ کی آیات سن کر اس پر ایمان لائے اور رسولؐ کی دعوت کو قبول کرکے مسلمان ہوئے ہیں وہ لوگ اس پر قائم رہیں۔ دین پر ثابت قدم رہیں ۔ اللہ کے احکامات کو من و عن قبول کریں اور رسولؐ کی اطاعت بجالائیں اور اس سے فرار کی راہ اختیار نہ کریں۔ آپس میں لوگوں کی امانتوں کی حفاظت کریں، رازداری و فرائض کی سبک دوشی کریں تاکہ ان لوگوں کو امین قرار دے کر انعام دیا جائے۔

سوال۳: مندرجہ ذیل عبارات کا مفہوم بیان کیجئے۔

الف: وَلَا تَكُوۡنُوۡا كَالَّذِيۡنَ قَالُوۡا سَمِعۡنَا وَهُمۡ لَا يَسۡمَعُوۡنَ‌

ترجمہ:

اور ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو کہتے ہیں کہ ہم نے حکم (خدا) سن لیا مگر (حقیقت میں) نہیں سنتے۔

مفہوم:

جب ابتداء میں اسلام پھیلتا گیا تو بہت سے لوگ گروہ در گروہ اسلام میں شامل ہوئے۔ جن میں کچھ لوگ منافقین تھے جوملےجلے اعمال کرتے تھے۔دراصل انھوں نے اسلام کا لبادہ اوڑھ رکھا ہوتا ہے۔ جب ان کو احکام ربانی سنایا جاتا ہے تو وہ دل سے اس کو قبول نہیں کرتے مگر زبان سے کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے سن لیا مگر اس پر عمل نہیں کرتے۔ جب جہاد کا حکم آتاہے تو وہ پس و پیش سے کام لیتے ہیں اور فرار کی راہ اختیار کرتے ہیں وہ صدق دل سے حضورؐ کی پیروی نہیں کرتے۔ مومنین کو اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا کہ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو سنتے ہیں اور عمل نہیں کرتے وہ بدترین قسم کے جانور ہیں۔

ب: اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنۡدَ اللّٰهِ الصُّمُّ الۡبُكۡمُ الَّذِيۡنَ لَا يَعۡقِلُوۡنَ‏

ترجمہ:

کچھ شک نہیں کہ خدا کے نزدیک تمام جانداروں سے بدتر بہرے گونگے ہیں جو کچھ نہیں سمجھتے۔

مفہوم:

اللہ تبارک تعالیٰ نے انسانوں کو حواس خمسہ اور عقل و خرد عطا فرمائی ہے جسے وہ استعمال میں لا کر اپنےلئے راستے کا تعین کر سکتا ہے۔وہ اپنے دماغ کا استعمال کرکے ان نعمتوں سے اللہ تبارک تعالیٰ کی نشانیوں کو پہچاننے اور اس پر صدق دل سے ایمان لانے میں دیر نہ کرے۔خدا کی بنائی کائنات کو اپنی آنکھوں سے دیکھے، اس کے پرندوں دریاؤں کی آواز سن کر پرلطف ہو، اس کے پھلوں پھولوں سے استفادہ کر سکے، اس کی پیدا کی گئی عطر سے لطف اندوز ہو اور آخر میں ان تمام چیزوں کے پیدا کرنے والے کے بارے سوچے اور اپنا ایمان پختہ کرے۔ مگر جو شخص ان تمام نعمتوں کےمیسر ہونے پر بھی حق اور باطل میں تمیز نہ کر سکے تو وہ جانوروں کی مثل ہے جو ان نعمتوں سے محروم ہیں۔جانوروں کی طرح عقل و خرد سے خالی رازحیات نہ جان سکے ایسے شخص کے لئے دونوں جہانوں میں تباہی ہے۔

ج: وَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰهَ يَحُوۡلُ بَيۡنَ الۡمَرۡءِ وَقَلۡبِهٖ

ترجمہ:

اور جان رکھو کہ خدا آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے۔

مفہوم:

اللہ تعالیٰ انسان کی شہہ رگ سے زیادہ قریب تر ہے انسان کا کوئی عمل و تخیل اس سے چھپا ہوا نہیں۔ وہ تمام رازوں کا جاننے والا ہے اور انسان کے دل کی بات بھی اسے معلوم ہے۔ان آیات میں اللہ تبارک تعالیٰ اپنی کامل قدرت کو بیان کرتے ہیں کہ وہ انسان کے دل پر بھر پور قابو رکھتا ہے۔ انسان اپنے ارادوں سے اتنا واقف نہیں جتنا اللہ سبحان تعالیٰ ہیں۔انسان کی اتنی سی بھی وقعت نہیں اللہ تعالیٰ اس کے دل کے رازوں سے واقف ہے اور انسان کے اختیار میں تو کچھ بھی نہیں۔ وہ چاہے تو جس کو ہدایت بخشے اور جس کو چاہے ذلتوں میں گھیر دے۔ اسی لیے ہمی عبادت و دعا سے مدد لینی چاہئے۔

د: وَاتَّقُوۡا فِتۡنَةً لَّا تُصِيۡبَنَّ الَّذِيۡنَ ظَلَمُوۡا مِنۡكُمۡ خَآصَّةً‌

ترجمہ:

اور اس فتنے سے ڈرو جو خصوصیت کے ساتھ انہیں لوگوں پر واقع نہ ہوگا جو تم میں گنہگار ہیں۔

مفہوم:

اللہ تبارک تعالیٰ تمام کائنات پر بھرپور قدر رکھتاہے۔ وہ جس قوم کی سرکشی پر عذاب نازل کرتا ہے تو برے لوگوں کے ساتھ اچھےلوگ بھی اس کی زد میں آجاتے ہیں۔جن اقوام میں فسق و بے ایمانی سرعام ہو جائے اور احکام شریعت کو پست پشت ڈال دیا جائے، جہاں بااثر لوگ قانون سے فرار اختیار کر لیں اور مظلوم ظلم کی چکی میں پستہ رہے۔ ایسا زمانہ جہاں ایسے لوگ صحیح کو صحیح کرنے کی طاقت و قوت تو رکھتے ہوں مگر وہ بدی کے حامی بنے ہوں وہ معاشرہ باری تعالیٰ کے عذاب و غضب کا شکار ہوتے ہیں۔

ہ: وَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَاۤ اَمۡوٰلُكُمۡ وَاَوۡلٰدُكُمۡ فِتۡنَةٌ ۙ وَّاَنَّ اللّٰهَ عِنۡدَهٗۤ اَجۡرٌ عَظِيۡمٌ‏

ترجمہ:

اور جان رکھو کہ تمہارا مال اور اولاد بڑی آزمائش ہے اور یہ کہ خدا کے پاس (نیکیوں کا) بڑا ثواب ہے۔

مفہوم:

اس آیت میں اللہ تبارک تعالیٰ نے انسانی فطرت کی بارے میں کہا ہے کہ انسان جتنا بھی پرہیزگار و متقیٰ ہو جائے وہ دو چیزوں کی فکر سے کبھی آزاد نہیں ہو سکتا۔ یہ دو چیزیں انسان کی اولاد اور مال ہے جو اس کے لئے بہت بڑی آزمائش ہے۔ انسان اپنے مال و پاک رکھے اس پرزکوۃٰ دے اپنے مال کو حلال ذرائع سے کمائے اور اس میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرے غرباً و فقراء کو اس میں سے حصہ دے تو اللہ تعالیٰ اس مال میں برکے ڈالتا ہے۔اسی طرح دوسری آزمائش انسان کی اولاد ہےجس کی پرورش سے تعلیم تک سب اس کی ذمہ داری ہے۔ کیونکہ اولاد کی پرورش میں اچھے برے کی تمیز سکھانا اور راہ راست پر چلنے کے لئے ان پر دباؤ ڈالنا چاہئے وگرنہ کل کو اس کے اعمال کا وبال اس کے والدین پر آئے گا۔