سورۃ الانفال آیت نمبر 59 تا 64 سوالات و جوابات

0
وَلَا يَحۡسَبَنَّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا سَبَقُوۡا‌ؕ اِنَّهُمۡ لَا يُعۡجِزُوۡنَ‏ ﴿۵۹﴾

اور کافر یہ نہ خیال کریں کہ وہ بھاگ نکلے ہیں۔ وہ (اپنی چالوں سے ہم کو) ہرگز عاجز نہیں کرسکتے۔

وَ اَعِدُّوۡا لَهُمۡ مَّا اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ قُوَّةٍ وَّمِنۡ رِّبَاطِ الۡخَـيۡلِ تُرۡهِبُوۡنَ بِهٖ عَدُوَّ اللّٰهِ وَعَدُوَّكُمۡ وَاٰخَرِيۡنَ مِنۡ دُوۡنِهِمۡ‌ۚ لَا تَعۡلَمُوۡنَهُمُ‌ۚ اللّٰهُ يَعۡلَمُهُمۡ‌ؕ وَمَا تُـنۡفِقُوۡا مِنۡ شَىۡءٍ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ يُوَفَّ اِلَيۡكُمۡ وَاَنۡـتُمۡ لَا تُظۡلَمُوۡنَ‏ ﴿۶۰﴾

اور جہاں تک ہوسکے (فوج کی جمعیت کے) زور سے اور گھوڑوں کے تیار رکھنے سے ان کے (مقابلے کے) لیے مستعد رہو کہ اس سے خدا کے دشمنوں اور تمہارے دشمنوں اور ان کے سوا اور لوگوں پر جن کو تم نہیں جانتے اور خدا جانتا ہے ہیبت بیٹھی رہے گی۔ اور تم جو کچھ راہ خدا میں خرچ کرو گے اس کا ثواب تم کو پورا پورا دیا جائے گا اور تمہارا ذرا نقصان نہیں کیا جائے گا۔

وَاِنۡ جَنَحُوۡا لِلسَّلۡمِ فَاجۡنَحۡ لَهَا وَتَوَكَّلۡ عَلَى اللّٰهِ‌ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيۡعُ الۡعَلِيۡمُ‏ ﴿۶۱﴾

اور اگر یہ لوگ صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کی طرف مائل ہو جاؤ اور خدا پر بھروسہ رکھو۔ کچھ شک نہیں کہ وہ سب کچھ سنتا (اور) جانتا ہے۔

وَاِنۡ يُّرِيۡدُوۡۤا اَنۡ يَّخۡدَعُوۡكَ فَاِنَّ حَسۡبَكَ اللّٰهُ‌ؕ هُوَ الَّذِىۡۤ اَيَّدَكَ بِنَصۡرِهٖ وَبِالۡمُؤۡمِنِيۡنَۙ‏ ﴿۶۲﴾

اور اگر یہ چاہیں کہ تم کو فریب دیں تو خدا تمہیں کفایت کرے گا۔ وہی تو ہے جس نے تم کو اپنی مدد سے اور مسلمانوں (کی جمعیت) سے تقویت بخشی۔

وَاَلَّفَ بَيۡنَ قُلُوۡبِهِمۡ‌ؕ لَوۡ اَنۡفَقۡتَ مَا فِىۡ الۡاَرۡضِ جَمِيۡعًا مَّاۤ اَلَّفۡتَ بَيۡنَ قُلُوۡبِهِمۡ وَلٰـكِنَّ اللّٰهَ اَلَّفَ بَيۡنَهُمۡ‌ؕ اِنَّهٗ عَزِيۡزٌ حَكِيۡمٌ‏ ﴿۶۳﴾

اور ان کے دلوں میں الفت پیدا کردی۔ اور اگر تم دنیا بھر کی دولت خرچ کرتے تب بھی ان کے دلوں میں الفت نہ پیدا کرسکتے۔ مگر خدا ہی نے ان میں الفت ڈال دی۔ بےشک وہ زبردست (اور) حکمت والا ہے۔

يٰۤاَيُّهَا النَّبِىُّ حَسۡبُكَ اللّٰهُ وَ مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ‏ ﴿۶۴﴾

اے نبی! خدا تم کو اور مومنوں کو جو تمہارے پیرو ہیں کافی ہے۔

اَلکَلِیَماتُ وَ التَّرَکِیبُ
اَعِدُّوۡا تیار کرو
لَا يُعۡجِزُوۡنَ وہ تھکا نہیں سکتے۔ ہرا نہیں سکتے۔ وہ عاجز نہیں کر سکتے
يُوَفَّ پورا کیا جائے گا
جَنَحُوۡا وہ مائل ہو جائے
لِلسَّلۡمِ صلح کےلیے
اَيَّدَ اس نے تائید کی
حَسۡبُكَ اللّٰهُ تجھ کو کافی ہےاللہ

سوال(۱) : ایک لائن کا جواب تحریر کریں:

سوال : اللہ نے کافروں کے خلاف جنگ کی تیاری کرتے ہوئے کن چیزوں کے حوالے سے حکم دیا ہے؟

جواب:اللہ نے کافروں کے خلاف جنگ کی تیاری کرتے ہوئے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ کافر یہ خیال نہ کریں کہ وہ بھاگ نکلے ہیں اور اپنی چالوں سے ہمیں عاجز کر لیں گے۔

سوال : ان آیات کے مطابق مسلمانوں کی ہیبت کس کس کے دلوں میں بیٹھی رہے گی؟

جواب:اللہ کے دشمنوں ، مسلمانوں کے دشمنوں اور وہ دشمن جن کو مسلمان جانتے بھی نہیں کے دلوں میں مسلمانوں کی ہیبت بیٹھی ہے۔

سوال : مسلمانوں کو صلح کی طرف کب مائل ہونا چاہیے؟

جواب: جب کفار صلح کی طرف مائل ہوں تو تب تم بھی صلح کی طرف جاؤ اور خدا پر بھروسہ رکھو وہ سب کچھ جانتا ہے۔

سوال : اگر کافر مسلمانوں کو فریب دینا چاہیں تو کیا ہوگا؟

جواب:اگر کافر مسلمانوں کو فریب دینا چاہیں تو گھبرانا نہیں اللہ تبارک تعالیٰ ہی مسلمانوں کے لیے کافی ہے اور وہی مسلمانوں کی جمعیت کو تقویت بخشے گا۔

سوال(۲) : پانچ سے چھ لائن پر مشتمل جوابات تحریر کریں:

سوال۱: ان آیات میں جہاد کی تیاری کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے کیا حکم دیا؟

جواب: جہاد کی تیاری کے موقع پر اللہ تبارک تعالیٰ نے مسلمانوں کو احکامات صادر فرمائے :
مسلمان اپنے آپ کو ہر وقت جہاد کے لیے تیار رکھیں۔ اپنی تلواروں کو ہمہ وقت تیار رکھیں اور کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھیں۔ میدان جنگ میں کسی بھی سپاہی کے لیے اس کا گھوڑا ضروری ہتھیار ہے جو صحت منداور تیز رفتار ہوگا تو میدان جنگ میں زیادہ دیر میسر رہےگا۔مسلمانوں کو اپنی جمعیت میں اتحاد و اتفاق رکھنے کی بے حد ضروری ہے تاکہ آپسی اختلاف سے باز رہ کر وہ پوری توجہ بیرونی حملہ پر رکھیں اور ہر وقت جنگ کے لیے تیار رہیں تاکہ کفار پر اس کا رعب رہے۔

سوال۲: مندرجہ ذیل عبارات کا مفہوم بیان کیجئے:

الف: وَ اَعِدُّوۡا لَهُمۡ مَّا اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ قُوَّةٍ وَّمِنۡ رِّبَاطِ الۡخَـيۡلِ تُرۡهِبُوۡنَ بِهٖ عَدُوَّ اللّٰهِ وَعَدُوَّكُمۡ وَاٰخَرِيۡنَ مِنۡ دُوۡنِهِمۡ‌ۚ لَا تَعۡلَمُوۡنَهُمُ‌ۚ اللّٰهُ يَعۡلَمُهُمۡ

ترجمہ:

اور جہاں تک ہوسکے (فوج کی جمعیت کے) زور سے اور گھوڑوں کے تیار رکھنے سے ان کے (مقابلے کے) لیے مستعد رہو کہ اس سے خدا کے دشمنوں اور تمہارے دشمنوں اور ان کے سوا اور لوگوں پر جن کو تم نہیں جانتے اور خدا جانتا ہے ہیبت بیٹھی رہے گی۔

مفہوم:

جب جنگ کی ندا ہوئی تو مسلمانوں نے جنگی تیاریاں شروع کر دیں۔ مسلمان تعداد و وسائل میں بہت قلیل سی جماعت تھی۔اس دوران منافقین جو مدینہ میں رہ رہے تھے مسلمانوں کا مذاق بھی اڑاتے تھے مگر اللہ تبارک تعالیٰ نے مسلمانوں کی ڈھارس بندھائی اور حکم دیا کہ اپنی تیاری جاری رکھو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو تاکہ کسی بھی قسم کے مشکل حالات سے نمٹنے کےلیے ہمہ وقت تیار رہیں۔ اپنی طاقت کو بڑھاؤ اپنے صحت مند گھوڑوں کی بھی دیکھ بھال کرو اچھی نسل کے گھوڑے پالو جو تمہیں میدان جنگ میں دشمن پر غالب آنے میں مدد کریں۔ مسلمانوں کو ہر دور میں اپنے ہتھیاروں کو جدید ترین رکھنا ضروری ہے تاکہ کوئی بھی کافر اللہ اور اس کے رسول کا دشمن مسلمانوں کو میلی آنکھ سے نہ دیکھ سکے اور ان کے دل میں رعب قائم رہے۔

ب: هُوَ الَّذِىۡۤ اَيَّدَكَ بِنَصۡرِهٖ وَبِالۡمُؤۡمِنِيۡنَۙ‏٭ وَاَلَّفَ بَيۡنَ قُلُوۡبِهِمۡ‌ؕ لَوۡ اَنۡفَقۡتَ مَا فِىۡ الۡاَرۡضِ جَمِيۡعًا مَّاۤ اَلَّفۡتَ بَيۡنَ قُلُوۡبِهِمۡ وَلٰـكِنَّ اللّٰهَ اَلَّفَ بَيۡنَهُمۡ‌ؕ

ترجمہ:

وہی تو ہے جس نے تم کو اپنی مدد سے اور مسلمانوں (کی جمعیت) سے تقویت بخشی۔اور ان کے دلوں میں الفت پیدا کردی۔ اور اگر تم دنیا بھر کی دولت خرچ کرتے تب بھی ان کے دلوں میں الفت نہ پیدا کرسکتے۔ مگر خدا ہی نے ان میں الفت ڈال دی۔

مفہوم:

اللہ تبارک تعالیٰ قادر مطلق ہے وہ ہمارے دلوں کو دوسرے کے لیے نرم کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہی مسلمانوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے بھائیوں والی محنت اجاگر کر دی۔ جس سے مسلمانوں آپس میں مضبوط قوت بن گئے اور ان کا آپسی اتفاق کفار پر کاری ضرب کی مثل گرتا ہے۔ مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں جو اپنے لیے پسند کرتے ہیں وہی اپنے بھائی کے لیے بھی پسند فرماتے ہیں یہ ایثار کا جذبہ مسلمانوں کی بہت بڑی طاقت ہے۔ مسلمانوں کے دو قبیلے اوس و خراج جو آپس میں سخت بیر رکھتے تھے۔ مگر اللہ تبارک تعالیٰ نے ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے محبت بھر دی اور اسلام کو تقویت ہوئی جس سے دشمن کی صفوں میں مایوسی پھیل گئی۔

ج: يٰۤاَيُّهَا النَّبِىُّ حَسۡبُكَ اللّٰهُ وَ مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ‏ ﴿۶۴﴾

ترجمہ:

اے نبی! خدا تم کو اور مومنوں کو جو تمہارے پیرو ہیں کافی ہے۔

مفہوم:

اللہ تبارک تعالیٰ ہر مشکل میں مسلمانوں کے ساتھ ہے وہ اپنے حبیب ﷺ سے فرماتاہے کہ فکر نہ کرو میرے حبیبﷺ میں آپ کو رسوا نہیں کروں گا۔ مشکل کے دور میں آپ نے ثابت قدم رہنا ہے میں آپﷺ اور آپ ﷺ کے ساتھیوں کا مددگار ہوں۔ابتداء میں اسلام لانے والے چند لوگ تھے مگر پھر اللہ تعالیٰ نے عمرؓوحمزہؓ جیسے نڈر و بہادر کمانڈروں کا دل میں اسلام سے محبت ڈال دی اور مسلمانوں کی اس قلیل سی جماعت کا لوہا منہ چڑھ کر بولنے لگا۔ اسلام لانے سے پہلے کئی ایک قبائل کی آپس میں رنجشیں بڑھ چکی تھیں مگر اللہ تبارک تعالیٰ نے ان کے مابین محبت و بھائی چارے کا رشتہ قائم کیا اور اسلام کاپرچم بلند ہوا۔مسلمانوں کی طاقت ایمانی سے اللہ تعالیٰ نے ان کی میدان جنگ میں بھی مدد فرمائی اور مسلمان کفار پر غالب رہے۔ ہر حال میں مسلمانوں کی مدد کے لیے اللہ تعالیٰ نے مدد فرمائی اور مومنین کے لیے اللہ ہی کافی ہے۔