سورۃ الانفال آیت نمبر 49 تا 57 سوالات و جوابات

0
اِذۡ يَقُوۡلُ الۡمُنٰفِقُوۡنَ وَالَّذِيۡنَ فِىۡ قُلُوۡبِهِمۡ مَّرَضٌ غَرَّ هٰٓؤُلَۤاءِ دِيۡنُهُمۡؕ وَمَنۡ يَّتَوَكَّلۡ عَلَى اللّٰهِ فَاِنَّ اللّٰهَ عَزِيۡزٌ حَكِيۡمٌ‏ ﴿۴۹﴾

اس وقت منافق اور (کافر) جن کے دلوں میں مرض تھا کہتے تھے کہ ان لوگوں کو ان کے دین نے مغرور کر رکھا ہے اور جو شخص خدا پر بھروسہ رکھتا ہے تو خدا غالب حکمت والا ہے۔

وَ لَوۡ تَرٰٓى اِذۡ يَتَوَفَّى الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا‌ۙ الۡمَلٰٓٮِٕكَةُ يَضۡرِبُوۡنَ وُجُوۡهَهُمۡ وَاَدۡبَارَهُمۡۚ وَذُوۡقُوۡا عَذَابَ الۡحَرِيۡقِ‏ ﴿۵۰﴾

اور کاش تم اس وقت (کی کیفیت) دیکھو۔ جب فرشتے کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ان کے مونہوں اور پیٹھوں پر (کوڑے اور ہتھوڑے وغیرہ) مارتے (ہیں اور کہتے ہیں) کہ (اب) عذاب آتش (کا مزہ) چکھو۔

ذٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتۡ اَيۡدِيۡكُمۡ وَاَنَّ اللّٰهَ لَـيۡسَ بِظَلَّامٍ لِّـلۡعَبِيۡدِۙ‏ ﴿۵۱﴾

یہ ان (اعمال) کی سزا ہے جو تمہارے ہاتھوں نے آگے بھیجے ہیں۔ اور یہ (جان رکھو) کہ خدا بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔

كَدَاۡبِ اٰلِ فِرۡعَوۡنَ‌ۙ وَالَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡ‌ؕ كَفَرُوۡا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ فَاَخَذَهُمُ اللّٰهُ بِذُنُوۡبِهِمۡ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ قَوِىٌّ شَدِيۡدُ الۡعِقَابِ‏ ﴿۵۲﴾

جیسا حال فرعوینوں اور ان سے پہلے لوگوں کا (ہوا تھا ویسا ہی ان کا ہوا کہ) انہوں نے خدا کی آیتوں سے کفر کیا تو خدا نےان کے گناہوں کی سزا میں ان کو پکڑ لیا۔ بےشک خدا زبردست اور سخت عذاب دینے والا ہے۔

ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ لَمۡ يَكُ مُغَيِّرًا نِّـعۡمَةً اَنۡعَمَهَا عَلٰى قَوۡمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوۡا مَا بِاَنۡفُسِهِمۡ‌ۙ وَاَنَّ اللّٰهَ سَمِيۡعٌ عَلِيۡمٌۙ‏ ﴿۵۳﴾

یہ اس لیے کہ جو نعمت خدا کسی قوم کو دیا کرتا ہے جب تک وہ خود اپنے دلوں کی حالت نہ بدل ڈالیں خدا اسے نہیں بدلا کرتا۔ اور اس لیے کہ خدا سنتا جانتا ہے۔

كَدَاۡبِ اٰلِ فِرۡعَوۡنَ‌ۙ وَالَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡ‌ؕ كَذَّبُوۡا بِاٰيٰتِ رَبِّهِمۡ فَاَهۡلَكۡنٰهُمۡ بِذُنُوۡبِهِمۡ وَاَغۡرَقۡنَاۤ اٰلَ فِرۡعَوۡنَ‌ۚ وَكُلٌّ كَانُوۡا ظٰلِمِيۡنَ‏ ﴿۵۴﴾

جیسا حال فرعونیوں اور ان سے پہلے لوگوں کا (ہوا تھا ویسا ہی ان کا ہوا) انہوں نے اپنے پروردگار کی آیتوں کو جھٹلایا تو ہم نے ان کو ان کے گناہوں کے سبب ہلاک کر ڈالا اور فرعونیوں کو ڈبو دیا۔ اور وہ سب ظالم تھے۔

اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنۡدَ اللّٰهِ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا فَهُمۡ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ‌ۖ‌ۚ‏ ﴿۵۵﴾

جانداروں میں سب سے بدتر خدا کے نزدیک وہ لوگ ہیں جو کافر ہیں سو وہ ایمان نہیں لاتے۔

الَّذِيۡنَ عَاهَدتَّ مِنۡهُمۡ ثُمَّ يَنۡقُضُوۡنَ عَهۡدَهُمۡ فِىۡ كُلِّ مَرَّةٍ وَّهُمۡ لَا يَتَّقُوۡنَ‏ ﴿۵۶﴾

جن لوگوں سے تم نے (صلح کا) عہد کیا ہے پھر وہ ہر بار اپنے عہد کو توڑ ڈالتے ہیں اور (خدا سے) نہیں ڈرتے۔

فَاِمَّا تَثۡقَفَنَّهُمۡ فِىۡ الۡحَـرۡبِ فَشَرِّدۡ بِهِمۡ مَّنۡ خَلۡفَهُمۡ لَعَلَّهُمۡ يَذَّكَّرُوۡنَ‏ ﴿۵۷﴾

اگر تم ان کو لڑائی میں پاؤ تو انہیں ایسی سزا دو کہ جو لوگ ان کے پس پشت ہیں وہ ان کو دیکھ کر بھاگ جائیں عجب نہیں کہ ان کو (اس سے) عبرت ہو۔

وَاِمَّا تَخَافَنَّ مِنۡ قَوۡمٍ خِيَانَةً فَانۢبِذۡ اِلَيۡهِمۡ عَلٰى سَوَآءٍ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الۡخَآٮِٕنِيۡنَ‏ ﴿۵۸﴾

اور اگر تم کو کسی قوم سے دغا بازی کا خوف ہو تو (ان کا عہد) انہیں کی طرف پھینک دو (اور) برابر (کا جواب دو) کچھ شک نہیں کہ خدا دغابازوں کو دوست نہیں رکھتا۔

اَلکَلِیَماتُ وَ التَّرَکِیبُ
غَرّ خبط میں ڈالا۔ مغرور کیا
عَذَابَ الۡحَرِيۡقِ‏ جلنے کا عذاب
لَمۡ يَكُ مُغَيِّرًا وہ بدلنے والا نہیں
كَدَاۡبِ جیسے، عادت، طریقہ
تَثۡقَفَنَّ تم پاؤ
شَرِّدۡ بھگادو، بکھیردو
فَانۢبِذۡ پس پھینک دو

سوال(۱) : ایک لائن کا جواب تحریر کریں:

سوال : کافروں کے مطابق مسلمانوں کو کس نے مغرور کررکھا تھا؟

جواب: کافروں اور منافقوں کے دلوں کو یہ مرض لاحق تھا کہ مسلمانوں کو ان کے دین نے مغرور کر رکھا ہے۔

سوال : فرشتے کافروں کی جان کیسے نکالتے ہیں؟

جواب: جب فرشتے کافروں کی جان نکالتے ہیں تو فرشتے کافروں کے مونہوں اور پیٹھوں پر کوڑے اور ہتھوڑے مارتے ہیں۔

سوال : خدا کس کے دل کی حالت نہیں بدلتا ہے؟

جواب: خدا ان لوگوں کے دل کی حالت نہیں بدلتا جو لوگ خود اپنی حالت بدلنے کی کوشش نہ کریں۔

سوال : اللہ نے کافروں کو کیوں ہلاک کردیا؟

جواب: اللہ نے کافروں کو اس لیے ہلاک کیا کیونکہ وہ ظالم تھے اور گناہ کرتے تھے۔

سوال : کسی قوم کا عہد کس صورت میں ان کی طرف پھینکنے کی اجازت ہے؟

جواب:کسی بھی قوم سے دغابازی کا خوف ہو تو ان کا عہد ان کی طرف پھینک دینے کی اجازت ہے۔

سوال(۲) : پانچ سے چھ لائن پر مشتمل جوابات تحریر کریں:

سوال۱: سورہ الانفال کی ان آیات میں مسلمانوں کی جہاد کے لیے تیاریاں دیکھ کر منافقین نے کیا تبصرہ کیا؟

جواب: جنگ بدر کے لیے جب مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے حکم ہوا کہ تیاری شروع کر دو۔ تو اس وقت مدینہ میں موجود منافقین جو مسلمانوں اور کفار کے لشکروں کا موازنہ کررہے تھے۔جب انھوں نے کفار کی تعداد و وسائل کو دوگنا پایا تو انھوں نے مسلمانوں پر تمسخر کیا اور کہا مسلمان تو کم عقل ہیں۔ مسلمانوں کی آنکھوں پر پٹی پڑ چکی ہے جو وہ موت کی طرف جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔مسلمانوں کے دماغ الٹ گئے ہیں جس وجہ سے وہ اپنا سود و ضیائع نہیں دیکھ پا رہے۔

سوال۲: کفار کی جانب سے عہد شکنی کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کیا ہدایت دیں؟

جواب: مسلمان مکہ سے مدینہ ہجرت کرکے گئے تو وہاں آس پاس کے قبائل سے یہ معاہدہ طے پایا کہ ہر کوئی دوسرے کے مذہبی آزادی کا خیال رکھے گا۔ جس میں مسلمانوں اور یہودیوں کے مابین معاہدہ طے ہوا۔ مزید حضورﷺ نے یہ بھی معاہدہ کیا کہ جب مدینہ پر کوئی چڑھائی کرے گا تو سب مل کر اس کا مقابلہ کریں گے۔ مگر جب جنگ بدر کا معاکہ پیش آیا تو یہودیوں نے معاہدی کی پاسداری سے فرار اختیار کرلی نیز انھوں نے کفار مکہ کی معاونت کی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس عہد شکنی پر حکم دیا کہ ان عہد شکنوں کا عبرتناک انجام کیا جائے تاکہ آئندہ کوئی قبیلہ عہد شکنی کی جرأت نہ کر سکے۔

سوال۳: اس سبق میں فرعون اور آل فرعون کی ہلاکت اور بربادی کے کیا اسباب بیان کیے گئے ہیں؟

جواب: اس سبق میں فرعون اور آل فرعون کی ہلاکے کے اسباب بیان کیے گئے ہیں مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ فرعون اور آل فرعون نے سرکشی کی ہر حد پار کرتے ہوئے باری تعالیٰ کی آیات سے کھلا انکار کیا بلکہ انھوں نے تہمت لگائی کہ موسیٰ نے جو کہا اس نے خود سے بیان کیا اس میں کوئی صداقت نہیں۔
۲۔ فرعون نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے معجزات کا تقاضا کیا۔ موسیٰؑ نے اپنے عصا کو زمین پر پھینکا تو وہ ایک زندہ ا‎ژدھا بن گیا اس کو دیکھ کر اس نے جادوگر ہونے کی تہمت لگائی اور مقابلہ کے لیے شہر بھر کے مشہور جادوگروں کو جمع کیا۔ مگر جب جادوگروں نے بھی موسیٰؑ کے معجزے کو دیکھا تو انھوں نے اس کی تصدیق کر دی کہ موسیٰؑ سچے نبی ہیں۔ مگر فرعون اس سے بھی مکر گیا اور اللہ کا عذاب اس پر نازل ہوا۔

سوال۴: مندرجہ ذیل آیات کا مفہوم بیان کیجئے۔

وَ لَوۡ تَرٰٓى اِذۡ يَتَوَفَّى الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا‌ۙ الۡمَلٰٓٮِٕكَةُ يَضۡرِبُوۡنَ وُجُوۡهَهُمۡ وَاَدۡبَارَهُمۡۚ وَذُوۡقُوۡا عَذَابَ الۡحَرِيۡقِ‏ ﴿۵۰﴾ ذٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتۡ اَيۡدِيۡكُمۡ وَاَنَّ اللّٰهَ لَـيۡسَ بِظَلَّامٍ لِّـلۡعَبِيۡدِۙ‏ ﴿۵۱﴾

ترجمہ:

اور کاش تم اس وقت (کی کیفیت) دیکھو۔ جب فرشتے کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ان کے مونہوں اور پیٹھوں پر (کوڑے اور ہتھوڑے وغیرہ) مارتے (ہیں اور کہتے ہیں) کہ (اب) عذاب آتش (کا مزہ) چکھو ۔یہ ان (اعمال) کی سزا ہے جو تمہارے ہاتھوں نے آگے بھیجے ہیں۔ اور یہ (جان رکھو) کہ خدا بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔

مفہوم:

اس آیت میں غزوہ بدر کا احوال بیان ہے۔ جب مسلمانوں کی تعداد بظاہر کفار کے آدھے سے بھی کم تھی تب اللہ تبارک تعالیٰ نے غیب سے مسلمانوں کی فتح یابی کےلیے نصرت فرمائی۔ مسلمانوں کی مدد کے لیے اللہ تعالیٰ نے قطار در قطار فرشتے نازل کیے۔ جو پے در پے کفار پر حملہ آور ہوئے۔ جنھوں نے کفار سمیت شیطان مردود کو بھی بھاگنے پر مجبور کیا۔کفار اپنی اس شکست کو کافی نہ جانیں ابھی یہ دنیا کی رسوائی ہے ابھی بڑے دن کا عذاب ان کا منتظر ہے کہ ان کی نافرمانی اور سرکشی کے نتیجے میں جب ان کو جہنم میں ڈالا جائے گا۔مسلمانوں نے توانھیں اب بھی راہ راست کی دعوت دی اور حق قبول کرنے کی دعوت دی اللہ تعالیٰ بھی نہیں چاہتا کہ ان کو اپنے عذاب میں مبتلا کرے مگر جن کے دلوں پر مہر لگ چکی ہو وہ اپنی کفر کی راہ کو ہرگز نہیں چھوڑیں گے اور جو سزا ان کے نصیب میں ہے وہ اسے مل کر رہے گی۔