طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيْضَةُ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ تشریح

0
(1) طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيْضَةُ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ (سنن ابنِ ماجہ: حدیث نمبر ۲۲۴)

ترجمہ:

علم کی طلب ہر مسلمان ( مرد و عورت) پر فرض ہے۔

تشریح:

یہ انسانی فطرت کا بنیادی تقاضا ہے کہ اسے اپنی ذات اور کائنات کے بارے میں ہر اچھی اور بری بات کا علم ہو، اس کے بغیر نہ تو انسان دنیا میں ترقی کر سکتا ہے اور نہ اپنے خالق و مالک کا قرب حاصل کر سکتا ہے۔ انسان کی اسی بنیادی ضرورت کے پیش نظر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر لازمی قرار دیا ہے۔

ہمارے ملک میں لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی تعلیم کا تناسب نصف ہے۔ لڑکیوں کے مدارس کی تعداد بھی آدھی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد گرامی پر عمل کے لیے ضروری ہے کہ ہم لڑکیوں کی تعلیم و تربیت پر بھی پوری توجہ دیں تا کہ کوئی بچی ان پڑھ اور جاہل نہ رہے۔
انسان اس وقت تک اپنے مقام اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ فرائض کو جان نہیں سکتا جب تک وہ علم کی جستجو کی راہ پر گامزن نہ ہو۔ دوسری بات یہ ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی عدالت میں اپنے فرائض وذمہ داریوں کے متعلق جواب دہی کرنی ہے اس لیے ہر نیکی اور گناہ کا اور اچھائی اور برائی کا علم حاصل کرنا بھی ضروری ہے تب ہم دنیا میں کامیاب ہو سکتے ہیں اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کی عدالت میں بھی سرخرو ہو سکتے ہیں۔

(2) اَفضَلُ الاَعمَالِ لاَ اِلٰهَ اِلَّا الله وَا َفضَلُ الدُّعَاءِ الْاِسْتِغْفَارُ (اخرجہ الطبرانی)

ترجمہ:

سب سے زیادہ فضیلت والا عمل لا الہ الا اللہ اور بہترین دعا استغفار ہے۔

تشریح:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث مبارکہ کے دو حصے ہیں۔ پہلے حصے میں اللہ تعالیٰ کی توحید کے اقرار کو سب سے زیادہ فضیلت والا عمل قرار دیا گیا ہے جبکہ دوسرے حصے میں استغفار یعنی اللہ تعالی کے حضور اپنی غلطیوں اور گناہوں کی معافی طلب کرنے کو سب سے زیادہ فضیلت والی دعا قرار دیا گیا ہے۔

حدیث کے پہلے حصے میں ارشاد ہے: ” اَفضَلُ الاَعمَالِ لاَ اِلٰهَ اِلَّا الله “ یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کو اِلٰهَ نہ ماننے کا اقرار اور اپنے عمل سے اس عقیدے کا اظہار سب سے فضیلت اور عظمت والا عمل ہے۔ ” لاَ اِلٰهَ اِلَّا الله “ میں اِلٰهَ سے مراد ایسی ذات ہے جس کی عبادت کی جائے ، جس سے بے پناہ محبت اور عقیدت ہو ۔ وہ اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے جس نے ہمیں پیدا کیا، ہمیں عقل اور بصیرت عطا کی ہمیں نہ صرف زندگی دی بلکہ زندگی کی تمام نعمتیں عطا کیں۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے قول و فعل سے اسی ذات کو اِلٰهَ مانیں ، اُسی کی عبادت کریں اور اسی سے سب زیادہ محبت کریں۔

حدیث کے دوسرے حصے میں ارشاد ہے : ”فضَلُ الدُّعَاءِ الْاِسْتِغْفَارُ“ یعنی بہترین دعا اللہ تعالیٰ سے اپنے گنا ہوں اور نافرمانیوں کی معافی مانگنا ہے۔ انسان بعض اوقات دنیا کی ظاہری رنگینیوں میں کھو کر اپنے خالق ومالک کی رضا کے خلاف کسی غلطی یا گناہ کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے۔ لہذا اللہ تعالیٰ کو الہ ماننے کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنی غلطی یا گناہ پر نادم اور شرمندہ ہوکر اللہ تعالی سے معافی مانگ لے کیونکہ اُخروی نجات اُس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک اللہ تعالی ہماری غلطیوں اور گناہوں کو معاف نہ کر دے۔ اب اگر کوئی اللہ تعالی کی نگاہ میں پسندیدہ اور محبوب بننا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ چلتے پھرتے ، اٹھتے بیٹھتے دل و جان سے لاَ اِلٰهَ اِلَّا الله اور اسْتَغْفِرُ اللہ کا اظہار کرتا رہے۔