سورۃ الانفال، آیات 11 تا 19 سوال جواب

0

سبق۲: سورۃ الانفال(۱۱تا۱۹):

إِذۡ يُغَشِّيكُمُ ٱلنُّعَاسَ أَمَنَةٗ مِّنۡهُ وَيُنَزِّلُ عَلَيۡكُم مِّنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءٗ لِّيُطَهِّرَكُم بِهِۦ وَيُذۡهِبَ عَنكُمۡ رِجۡزَ ٱلشَّيۡطَٰنِ وَلِيَرۡبِطَ عَلَىٰ قُلُوبِكُمۡ وَيُثَبِّتَ بِهِ ٱلۡأَقۡدَامَ*
إِذۡ يُوحِي رَبُّكَ إِلَى ٱلۡمَلَـٰٓئِكَةِ أَنِّي مَعَكُمۡ فَثَبِّتُواْ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْۚ سَأُلۡقِي فِي قُلُوبِ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ ٱلرُّعۡبَ فَٱضۡرِبُواْ فَوۡقَ ٱلۡأَعۡنَاقِ وَٱضۡرِبُواْ مِنۡهُمۡ كُلَّ بَنَانٖ
*ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمۡ شَآقُّواْ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥۚ وَمَن يُشَاقِقِ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ فَإِنَّ ٱللَّهَ شَدِيدُ ٱلۡعِقَابِ* ذَٰلِكُمۡ فَذُوقُوهُ وَأَنَّ لِلۡكَٰفِرِينَ عَذَابَ ٱلنَّارِ* يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ إِذَا لَقِيتُمُ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ زَحۡفٗا فَلَا تُوَلُّوهُمُ ٱلۡأَدۡبَارَ* وَمَن يُوَلِّهِمۡ يَوۡمَئِذٖ دُبُرَهُۥٓ إِلَّا مُتَحَرِّفٗا لِّقِتَالٍ أَوۡ مُتَحَيِّزًا إِلَىٰ فِئَةٖ فَقَدۡ بَآءَ بِغَضَبٖ مِّنَ ٱللَّهِ وَمَأۡوَىٰهُ جَهَنَّمُۖ وَبِئۡسَ ٱلۡمَصِيرُ* فَلَمۡ تَقۡتُلُوهُمۡ وَلَٰكِنَّ ٱللَّهَ قَتَلَهُمۡۚ وَمَا رَمَيۡتَ إِذۡ رَمَيۡتَ وَلَٰكِنَّ ٱللَّهَ رَمَىٰ وَلِيُبۡلِيَ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ مِنۡهُ بَلَآءً حَسَنًاۚ إِنَّ ٱللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٞ* ذَٰلِكُمۡ وَأَنَّ ٱللَّهَ مُوهِنُ كَيۡدِ ٱلۡكَٰفِرِينَ* إِن تَسۡتَفۡتِحُواْ فَقَدۡ جَآءَكُمُ ٱلۡفَتۡحُۖ وَإِن تَنتَهُواْ فَهُوَ خَيۡرٞ لَّكُمۡۖ وَإِن تَعُودُواْ نَعُدۡ وَلَن تُغۡنِيَ عَنكُمۡ فِئَتُكُمۡ شَيۡـٔٗا وَلَوۡ كَثُرَتۡ وَأَنَّ ٱللَّهَ مَعَ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ*

اَلکَلِیَماتُ وَ التَّرَکِیبُ

يُغَشِّيۡ وہ ڈھانپ دیتا ہے/طاری کر دیتا ہے
النُّعَاسَ اونگھ، غنودگی
رِجۡزَ الشَّيۡطٰنِ شیطان کی نجاست
الۡاَعۡنَاقِ گردنیں
بَنَان پور پور۔ جوڑجوڑ
زَحۡفًا لشکر کشی کی صورت میں
مُتَحَرِّفًا جنگی چال کے طور پر
مُتَحَيِّزًا اِلٰى فِئَةٍ فَقَدۡ کسی فوج سے جا ملنے کے لیے
رَمَيۡتَ تونے پھینکا
وَلِيُبۡلِىَ تاکہ وہ آزمائے
مُوۡهِنُ کمزور کرنے والا

سوال(۱) : ایک لائن کا جواب تحریر کریں:

سوال : اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر نیند کا غلبہ کیوں کیا تھا؟

جواب : اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر نیند کو غالب مسلمانوں کی تسکین کے لیے کیا تھا۔

سوال : اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے دل کو مضبوط کرنے کے لیے کیا کیا تھا؟

جواب: اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے دل مضبوط کرنے کے لئے رات کو بارش برسا دی جس سے مسلمان پاک ہو جائیں اور ان سے شیطانی نجاست دور ہو جائے۔

سوال : کافروں کو سزا کیوں دی گئی تھی؟

جواب: اللہ تعالیٰ نے کافروں کو سزا اس لیے دی کیونکہ انھوں نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی اور مخالفت کی۔

سوال : اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں کافروں کے لیے کتنی سزاؤں کا ذکر کیا ہے؟

جواب : اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں کافروں کے لیے دو سزاؤں کا ذکر کیا ہے۔

سوال : اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں کافروں کے لیے کون کون سی دو سزاؤں کا ذکر کیا ہے؟

جواب: اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں کافروں کے سر مار اڑانے اور ان کے پور پور مار کر توڑ دینے کی سزاؤں کا ذکر کیا ہے۔

سوال : میدانِ جنگ میں مسلمانوں کو پیٹھ پھیرنے کی اجازت کب دی گئی ہے؟

جواب: میدان جنگ میں مسلمانوں کو پیٹھ پھیرنے کی اجازت اس صورت میں ہے کہ وہ تدبیر سے کام لیں اور اپنی حکمت عملی کو از سر نو ترتیب دے کر حملہ کریں۔

سوال : اگر مسلمان جنگ کا میدان چھوڑ کر چلے جائیں تو ان کے لیے کیا سزا ہے؟

جواب: اگر مسلمان میدان جنگ میں پیٹھ دکھا کر فرار ہوگا تو وہ اللہ کے غضب کا شکار ہوگا اور اس کا ٹھکانہ جہنم جیسی بری جگہ ہوگی۔

سوال(۲) : پانچ سے چھ لائن پر مشتمل جوابات تحریر کریں:

سوال۱: اس سبق میں غزوہ بدر کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے کن انعامات کا ذکر کیا ہے؟

جواب: ان آیات میں غزوہ بدر کے موقع پر جو انعامات مومنین کو اللہ سبحان اللہ کی طرف سے دیے گئے ان میں جنگ سے ایک روز قبل اللہ تعالیٰ نے خوب بارش برسائی جس سے مسلمانوں کی پانی کی قلت دور ہو گئی اور انھوں نے ضرورت کے مطابق جمع بھی کر لیا۔دوسرا انعام یہ تھا کہ مسلمان چونکہ ریتیلی زمین پر تھے تو بارش کی وجہ سے ریت سخت ہو گئی اور مسلمانوں کو چلنے پھرنے کے لئے ایک مضبوط زمین فراہم ہو گئی۔ تیسرا انعام یہ ہے کہ کفار نے اپنے لئے وادی کا ذریں حصہ پسند کیا تھا وہ سارا بارش کے پانی سے بھر گیا اور کیچڑ سے زمین پھسلن زدہ ہو گئی جس پر توازن کے ساتھ چلنا پھرنا مشکل ہو گیا تھا۔جنگ سے پچھلی رات کو مسلمانوں پر نیند طاری کر دی گئی جس کی وجہ سے مسلمان صبح تر و تازہ ہو کر بیدار ہوئے جبکہ کفار بے چینی کے عالم میں ساری رات سو نہ سکے اور وہ سست و تھکن زدہ ہوچکے تھے۔اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کوغالب کرنے کے لئے فرشتوں کا نازل فرمایا جس سے کفار کا لشکر بھاگنے پر مجبور ہوا۔

سوال۲: کفار کے ساتھ مقابلے کی صورت میں سورۃ الانفال کی ان آیات میں کیا ہدایات دی گئی ہیں؟

جواب: کفار کے ساتھ اس مقابلے میں اللہ تعالیٰ سورۃ الانفال کی ان آیات میں مسلمانوں کو ہدایت فرماتا ہے کہ میدان جنگ میں خوب ڈٹ کر مقابلہ کرو اور کفار کی پسپائی تک اپنی جگہ کو ہرگز مت چھوڑو۔تدبیر اختیار کرنے اور پلٹ کر وار کرنے کے لئے کفار کے پسپائی کا احساس دلانے کو واپس پلٹ سکتے ہو۔میدان جنگ سے یا غازی یا شہید ہو کر ہی واپسی ممکن ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو یہ ڈر بھی سناتا ہے کہ اگر میدان جنگ سے کفار کو پیٹھ دیکھا کر بھاگنے والا میرے غضب کا شکار ہوگا اور اس کے لئے دنیا و آخرت کی رسوائی ہوگی۔اللہ تعالیٰ نے جنگ کی تیاری پر بھرپور زور دیا ہے اور ایک رسولﷺ کے حکم کی تعمیل کرنے کا حکم دیا ہے۔

سوال۳: کفار کو خطاب کرتے ہوئے ان آیات کریمہ میں کیا تنبیہ کی گئی ہے؟

جواب: کفار کو خطاب کرتے ہوئے ان آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے تنبیہ کی ہے کہ کفر کی راہ کو چھوڑ کر توحید کے پرستار ہو جاؤ آپس میں لڑنے سے، ظلم و جبر سے رک جاؤ مگر کفار نے ان باتوں کو پس پشت ڈال دیا تاہم اللہ تعالیٰ نے ان پر جنگ بدر مسلط کر دی اور انھیں شکست سے دوچار کیا۔مشرکین مکہ نے خود کو حق پر سمجھتے ہوئے دعا مانگی کہ جو بھی گروہ دین برحق ہے اسے فتحیابی نصیب ہو، اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو قبول فرما کر مسلمانوں کو فتح نصیب کی اور اسلام کی حقانیت پر مہر ثبت کر دی۔اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ کے کثیر تعداد اور ساز و سامان پر تکر کو بھی مٹی میں ملا دیا۔ ایک چھوٹی سی جماعت جو دین حق پر ہے اس نے ایک کثیر جماعت کو شکست دے کر غفلت میں ڈوبے کفار کا غرور بھی خاک میں ملا دیا۔

سوال۴: مندرجہ ذیل عبارات کا مفہوم بیان کریں۔

الف: يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا لَقِيۡتُمُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا زَحۡفًا فَلَا تُوَلُّوۡهُمُ الۡاَدۡبَارَ‌ۚ‏

ترجمہ:

اے اہل ایمان! جب میدان جنگ میں کفار سے تمہارا مقابلہ ہو تو ان سے پیٹھ نہ پھرنا۔

مفہوم:

آیت کے اس حصہ میں اللہ تبارک تعالیٰ نے مسلمانوں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ جب تم میدان جنگ میں ہو تو اپنے دل سے خوف کے جذبے کو نکال دو اور شہادت کا حوصلہ لیے کفار سے لڑ پڑو۔ تمہاری استقامت و ہمت تمہارا بلند حوصلہ ہی تمہاری فتح کی علامت ہوگا۔ تم صدق دل سے اللہ کو اپنا مدد گار مانو گے تو اللہ تمہیں نصرت بخشے گا۔ اگر تم میدان جنگ میں پوری قوت سے کفار پر ٹوٹ پڑو اور انھیں پسپا کر دو تو تمہارے لئے اللہ کےہاں بہت سارے انعام ہیں اور بلفرض اگر کفار تم پر غالب آجائیں تو ہر گر پسپائی نہ اختیا رکرنا بجائے اس کے کہ تم واپس حملہ کرنے کے لئے قوت اکٹھی کرو یا کسی تدبیر کے تحت ان کو کسی چال میں پھنساؤ گے وگرنہ تم پر خدا تعالیٰ کا غضب نازل ہوگا۔ میدان جنگ سے دوصورتوں سے واپسی ہے یا تو کفار پر غالب آجاؤ اور غازی بن جاؤ یا پھر شہادت کا جام نوش کرکے اللہ کی جنتوں میں چلے جاؤ۔

ب: وَمَا رَمَيۡتَ اِذۡ رَمَيۡتَ وَ لٰـكِنَّ اللّٰهَ

ترجمہ:

اے محمدؐ جس وقت تم نے کنکریاں پھینکی تھیں تو وہ تم نے نہیں پھینکی تھی بلکہ اللہ نے پے پھینکی تھی۔

مفہوم:

جنگ بدر کے موقع پر ایک مقام ایسا آیا کہ مسلمان پسپائی کا شکار ہونے لگے تب حضورﷺ نے زمین سے چند کنکریاں اٹھائی اور کفار کی جانب بھیجیں۔ وہ مٹھی بھر کنکریاں مشرکین مکہ کی آنکھوں میں جا لگیں اور وہ چند ساعت کے لئے اندھے ہو گئے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلمانوں نے ان پر بھر پور حملہ کیا وہ سنبھل نہ سکے اور پسپا ہر کر میدان جنگ سے بھاگ نکلے۔ اس پر ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نبیؐ یہ جو آپ نے کنکریاں بھیجی تھیں یہ اس میں آپ کا کوئی کمال نہیں اس میں تائید باری تعالیٰ تھی یہ کنکریاں تو اللہ نے بھیجی تھیں۔یہ اللہ تعالیٰ کا کرم تھا جس سے کفار مکہ کی صفیں اکھڑ گئیں اور مسلمانوں کو فتح مبین حاصل ہوئی۔

ج: وَلَنۡ تُغۡنِىَ عَنۡكُمۡ فِئَتُكُمۡ شَيۡـًٔـا وَّلَوۡ كَثُرَتۡ

ترجمہ:

تو ہم بھی پھر تمہیں عذاب کریں گے اور تمہاری جماعت خواہ کتنی کثیر ہو۔

مفہوم:

جنگ بدر میں کفار جو بلا کے سرکش تھے انھوں نے باری تعالیٰ کی حقانیت کو جھٹلایا اور اس کے مقابلے میں اپنے مال و اسباب اپنی تعداد اور ہتھیاروں پر ناز کرتے تھے۔انھوں نے اللہ کی جماعت کے سامنے اپنے آپ کو مضبوط طاقت ور اور غالب پایا وہ اپنی طاقت کےنشے میں بدمست گھوڑے کی طرح ہو چکے تھے۔ انھوں نے اپنی تعداد 1000 کے سامنے 313 کو بہت کم سمجھا ۔ اللہ تعالیٰ نے ایک مختصر سی جماعت سے کو شکست دے کر ان کے غرور کو مٹی میں ملادیا۔اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں فرمایا ہے کہ اصل طاقت تو رب کی تائید و نصرت سے ہے یہ مال و متاع اور تعداد میں کثیر ہونا ہر گز نفع نہ دے پائے گا۔ اپنی پوری طاقت سے اللہ کی جماعت سے ٹکراؤ گے تو شکست تمہاری ہی ہوگی اور پھر یوں ہی ہوا ایک بڑی جماعت نے ایک چھوٹی سی جماعت جو بغیر اسلحہ کے تھی سے بدترین شکست کھائی۔