عقیدہ توحید کی وضاحت، سوالات و جوابات

0
  • سبق نمبر 12:

(الف) مندرجہ ذیل سوالات کے تفصیلی جوابات تحریر کریں:

۱۔ عقیدہ توحید کی وضاحت کریں۔

جواب:عقیدہ توحید (ایمان اللہ) اسلام کے بنیادی عقائد میں سب سے پہلا عقیدہ ہے۔ عقیدہ کا لفظ عقد سے ماخوذ ہے، جس کے لفظی معنی ہے مضبوط گرہ لگانا۔ عقیدہ سے مراد وہ خیال و افکار ہیں جن پر انسان پختہ یقین رکھتا ہو، جو انسان کے کردار اور رویوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ توحید کے لغوی معنی ہیں ایک جاننا اور ایک ماننا ہے۔ دین کی اصطلاح میں عقیدۂ توحید کا مطلب ہے کہ اس کائنات کا خالق و مالک و مختار کل صرف اللہ تعالیٰ ہے جو ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا۔ جس کی نہ ابتدا ہے اور نہ انتہا اور نہ کبھی اس پر فنائیت آئے گی۔ معبود حقیقی اللہ تعالیٰ ہے، اس کائنات کی ہر چیز کو پورے تناسب اور اس کے نظام کو پورے نظم و ضبط کے ساتھ بنایا ہے۔ جس کا علم پوری کائنات کے ذرے ذرے پر محیط ہے، جو پوری کائنات کو دیکھتا ہے اور سب کو سنتا ہے اور سب کو رزق پہنچاتا ہے اور انہیں ہدایات دیتا ہے۔

توحید کی اہمیت:

قرآن مجید میں جابجا توحید کی تعلیم دی گئی ہے خصوصاً سورۃ الاخلاص میں ”توحید مطلق“ کو نہایت ہی جامع انداز میں پر اس طرح بیان کیا گیا ہے: قل ھو اللہ احد، اللہ الصمد، لم یلد ولم یولد، ولم یکن لہ کفو ا احد۔ (سورۃ الاخلاص: ۱۔۴)
ترجمہ: کہو کہ وہ معبود برحق ہے۔ وہ ایک ہے۔ اللہ بے نیاز ہے۔ وہ نہ کسی کا باپ ہے اور نہ کسی کا بیٹا۔ اور کوئی اس کا ہمسر نہیں۔
توحید کو اللہ تعالیٰ نے دین کی بنیاد اور اس کا پہلا رکن قرار دیا ہے۔ حضور کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہلا الہ الا اللہ کہ دو۔ کامیاب ہو جاؤگے۔ یہ ہی تمام عبادات کا نچوڑ ہے۔ جس کے بغیر نیکی قبول ہی نہیں کی جاتی۔ نیک اعمال چاہے پہاڑوں کے برابر ہوں عقیدہ توحید کے بغیر بالکل غارت ہو جائیں گے۔

۲۔ توحید کے تقاضے پر تفصیلی نوٹ تحریر کریں۔

توحید کے تقاضے:

توحید صرف آخرت کی کامیابیوں اور کامرانیوں کی ضمانت نہیں بلکہ دنیا کی فلاح و سعادت کا باعث بھی ہے۔ قرآن مجید اور رسول صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کے ارشادات بتاتے ہیں کہ عقیدۂ توحید کے کچھ اہم اور بنیادی تقاضے ہیں جن پر یقین رکھنا اور ان پر عمل کرنا ضروری ہے، ان میں سے کچھ اہم یہ ہیں:

اللہ تعالیٰ کی ذات بے مثل ہے۔ کائنات کی کوئی بھی چیز اللہ تعالیٰ جیسی نہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے”اس جیسی کوئی چیز نہیں“ (سورۃ شوریٰ، آیت:۱۱) اس لیے اللہ تعالیٰ کو بے مثال ذات ماننا چاہئے۔
صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے جس کی رضا جوئی کی انسنا کو فکر کرنی چاہئے۔

تمام اعمال و حرکات جو عبادت کے زمرے میں آتے ہوں، ان کو اللہ ہی کے لیے مخصوص کرنا چاہئے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ترجمہ: اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ سجدہ اسی کو کیا جائے گا نذریں اور منتیں اسی کے لیے مانی جائیں گی، دعائیں و مناجات اسی سے کی جائیں گی، پناہ اسی سے مانگی جائے گی، غیبی امداد کے لیے صرف اسی کو پکارا جائے گا۔

تمام جذبات و احساسات بھی اللہ ہی کے لیے مخصوص کیے جائیں جن میں عبادت کی روح پائی جاتی ہو؛ جیسے حمد و شکر، امید، توکل، خوف و تقویٰ اور حقیقی محبت و عقیدت و خشیت، خشوع و خضوع وغیرہ۔

اس پوری کائنات کا حقیقی مقتدرِ اعلیٰ صرف اللہ کو ماننا چاہئے۔ حکم دینے اور منع کرنے کا حق صرف اسی کو ہے۔ حقیقی شارع اور قانون ساز بھی صرف وہی ہے۔ مخلوق کی زندگی کا قانون متعین کرنے، اسے معاف کرنے یا سزادینے کا حق صرف اسی کو ہے۔

اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی ہدایت اور امرونواہی کے مطابق اس دنیا کی زندگی بسر کی جائے۔
اللہ تعالیٰ پر اس کی ساری صفات کے ساتھ ایمان لانا۔

توحید کے یہ بنیادی تقاضے اتنی اہمیت رکھتے ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کا بھی انکار اللہ پر ایمان رکھنے کے دعوے کو بے معنی کرد یتاہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ ساری باتیں عقیدہ توحید کے اصل مفہوم میں شامل ہیں، اور کوئی شخص اس وقت تک صحیح معنوں میں مسلمان ہو ہی نہیں سکتا، جب تک کہ وہ اس عقیدہ پر پورے مفہوم کے ساتھ ایمان نہ لائے۔

(ب) مندرجہ ذیل سوالات کے مختصر جوابات تحریر کریں:

۱۔ ایمان کا مفہوم کیا ہے؟

جواب: ایمان عربی زبان کا لفظ ہے، اس کا مادہ ”ا۔م،ن“ (امن) سے مشتق ہے۔ لغت کی رو سے کسی خوف سے محفوظ ہو جانے، دل کے مطمئن ہو جانے اور انسان کے خیر و عافیت سے ہمکنار ہونے کو امن کہتے ہیں۔ کسی پر ایمان لانے سے مراد اس کی تصدیق کرنا اور اس پر یقین رکھنا ہے، گویا لفظ ایمان اپنے اصل معنی اور مفہوم کے اعتبار سے امن، امانت اور بھروسے پر دلالت کرتا ہے۔ ایمان شریعت اسلامی کی ایک اہم اصطلاح ہے۔ اس کے لغوی معنی تصدیق کرنا (سچا ماننا) کو کہتے ہیں۔ اصطلاح شرح میں ایمان سے مراد سچے دل سے ان سب باتوں کی تصدیق کرنے کا نام ہے جو ضروریات دین سے ہیں۔

۲۔ عبادت کسے کہتے ہیں؟

جواب: عبادت عربی زبان کے لفظ ”عبد“ سے مشتق ہے اور اس کا معنی آخری درجے کا عاجزی و انکسار ہے۔عبادت صرف ایسے فعل کا نام ہے جو کسی کی نسبت معبود ہونے کا اعتقاد رکھتے ہوئے اس کے لیے تعظیم، عاجزی اور فروتنی کے اظہار کی خاطر صادر ہو۔ عبادت عاجزی و تعظیم کی آخری حد کا نام ہے آکری حد کی تعظیم کا اظہار صرف اسی ہستی کے لیے رواہے جو معبود برحق ہے۔ عبادت کے معنی بندگی اور اطاعت کے ہیں، عبادت صرف کلمہ، نماز، روزہ، حج ،زکوۃ کا نام نہیں بلکہ ہر وہ کارخیر اور مباح عمل بھی عبادت میں داخل ہے جو خالص اللہ کے لیے کیا جائے اور شریعت کے مطابق کیا جائے، پس سنت پر عمل کرنا بھی عبادت ہے۔

۳۔ عقیدہ توحید کے اثرات پر نوٹ تحریر کریں۔

جواب: جب عقیدۂ توحید دل و دماغ میں راسخ ہو جاتا ہے تو اس کی شخصیت میں کچھ اثرات/ ثمرات نمایاں ہوتے ہیں۔ اسلامی عقائد کا اثر انسان کی عملی زندگی پر بھی پڑتا ہے، انسانی سیرت و کردار اور اعمال و اخلاق کو سنوارتے ہیں۔ عقیدۂ توحید کا نمایاں اثرات جو انسانی زندگی پر پڑتے ہیں وہ یہ ہیں:
انسان کو حریت و آزادی کا بلند ترین مقام عطا کرتا ہے۔
انسان میں عجزو انکساری پیداکرتا ہے۔
انسان میں بنی نوع انسان کی وحدت و مساوات کا تصور پیدا کرتا ہے۔
انسان کے اندر پرہیزگاری، خودداری و عزت نفس کے اوصاف پیدا کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی رحمت پر پورا یقین ہونے کی وجہ سے کبھی بھی مایوس اور ناامید نہیں ہوتا۔

۴۔ اللہ تعالیٰ کی ذات ازلی و ابدی ہے۔وضاحت کریں۔

جواب:اللہ تعالیٰ ازلی اور ابدی ہے۔ وہی اول ہے اور وہی آخر ہے۔ (سورۃ الحدید آیت:۳) اس کا مطلب ہے کہ پہلے کچھ نہیں تھا اور وہ موجود تھا اور کچھ آخر میں نہیں ہوگا مگر وہ موجود ہوگا وہ ہمیشہ سے ہے اور تاابدرہے گا، کسی نے اسے پیدا نہیں کیا ہے۔

۵۔ توحید کا کیا مطلب ہے؟

جواب:عقیدہ توحید (ایمان اللہ) اسلام کے بنیادی عقائد میں سب سے پہلا عقیدہ ہے۔ عقیدہ کا لفظ عقد سے ماخوذ ہے، جس کے لفظی معنی ہے مضبوط گرہ لگانا۔ عقیدہ سے مراد وہ خیال و افکار ہیں جن پر انسان پختہ یقین رکھتا ہو، جو انسان کے کردار اور رویوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ توحید کے لغوی معنی ہیں ایک جاننا اور ایک ماننا ہے۔ دین کی اصطلاح میں عقیدۂ توحید کا مطلب ہے کہ اس کائنات کا خالق و مالک و مختار کل صرف اللہ تعالیٰ ہے جو ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا۔ جس کی نہ ابتدا ہے اور نہ انتہا اور نہ کبھی اس پر فنائیت آئے گی۔ معبود حقیقی اللہ تعالیٰ ہے، اس کائنات کی ہر چیز کو پورے تناسب اور اس کے نظام کو پورے نظم و ضبط کے ساتھ بنایا ہے۔ جس کا علم پوری کائنات کے ذرے ذرے پر محیط ہے، جو پوری کائنات کو دیکھتا ہے اور سب کو سنتا ہے اور سب کو رزق پہنچاتا ہے اور انہیں ہدایات دیتا ہے۔