سبق نمبر 2: سوالات و جوابات

0
  • سبق نمبر 2

الف) مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات تحریر کریں:

ا۔ مندرجہ ذیل آیات کا ترجمہ تحریر کریں:

وَءَاتُواْ ٱلْيَتَٰمَىٰٓ أَمْوَٰلَهُمْ ۖ وَلَا تَتَبَدَّلُواْ ٱلْخَبِيثَ بِٱلطَّيِّبِ ۖ وَلَا تَأْكُلُوٓاْ أَمْوَٰلَهُمْ إِلَىٰٓ أَمْوَٰلِكُمْ ۚ إِنَّهُۥ كَانَ حُوبًا كَبِيرًا

ترجمہ:

اور یتیموں کا مال جو تمہاری تحویل میں ہو ان کے حوالے کر دو اور ان کے پاکیزہ اور عمدہ مال کو اپنے ناقص اور برے مال سے نہ بدلو اور نہ ان کا مال اپنے مال میں ملا کر کھاؤ۔ یہ بڑا سخت گناہ ہے۔

تشریح:

اس آیت میں یتیموں کے سر پرستوں سے خطاب ہے جس میں یتیموں کے حقوق اور ان کے مال کی حفاظت کے متعلق حکم بیان کیا گیا ہے۔ قرآن و حدیث میں (۱) یتیم بچوں کی دیکھ بھال کرنے، (۲) ان کے ساتھ اچھے سلوک کرنے اور (۳) ان کے مال و ملکیت کی حفاظت کے بارے میں بڑی تفصیل کے ساتھ ہدایات دی گئی ہیں۔ یہاں ان لوگوں کو حکم ہے جو یتیم بچوں کے سرپرست و نگران ہیں، کہ ورثہ کے طور پر یتیم بچوں کو جو مال ملا ہے وہ ان کے جوان ہوتے ہی ان کے حوالے کر دیں۔ کیونکہ ان کی ملکیت تمہارے پاس امانت ہے اس لیے نہ ان کی کوئی بھی چیز اٹھا کر اپنی ردی مال سے بدل دیں اور نہ ہی کھانے پینے اور استعمال کرنے کے دوران بے جا اورفضول خرچی کرکے ان کا مال ہڑپ کرلیں۔ کسی کی بھی حق تلفی سے پرہیز کریں کیوں کہ اس طرح کرنا اللہ تعالیٰ کی نظر میں بہت بڑا گناہ اور ناانصافی کی بات ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم روز مرہ کی زندگی میں حق داروں کا پورا حق ادا کریں اور یتامیٰ کے مال کی حفاظت کریں اور ان کے عاقل و بالغ ہونے کے بعد ان کو ورثہ میں ملا ہوا مال ان کے حوالہ کریں۔

وَاتُواْ ٱلنِّسَآءَ صَدُقَٰتِهِنَّ نِحْلَةً ۚ فَإِن طِبْنَ لَكُمْ عَن شَىْءٍۢ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيٓـًٔا مَّرِيٓـًٔا

ترجمہ:

اور عورتوں کو ان کے مہرخوشی سے دے دیا کرو۔ ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے اس میں سے کچھ تم کو چھوڑ دیں تو اسے مزے سے کھا لو۔
مہر وہ مال ہےجو عقد نکاح کے سبب بیوی کا حق بنتا ہے جو شوہر کے ذمہ ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ بیوی کو ادا کرے۔

تشریح:

اس آیت میں عورتوں کے ایک خاص حق یعنی مہر کی ادائیگی کی تاکید بیان کی گئی ہے۔ حق مہر کبھی بھی معاف نہیں ہوتا۔ بہتر یہ ہے کہ مہر فوری ادا کیا جائے۔ یہ شوہر کی طرف سے ایک تحفہ احترام ہے۔ جو پیسوں کی صورت میں یا کسی بھی ایسی چیز کی شکل میں ہو جو قیمت رکھتی ہو، اسلام نے مہر کو عورت کی ملکیت قرار دیا ہے۔ جس کی اپنی مرضی کے مطابق استعمال کر سکتی ہے۔ شوہر کو اس سے باز پرس کا کوئی حق نہیں ہے۔

مہر گار وقت پر ادا کیا جائے تو ”معجل“ اور تاخیر سے دیا جائے تو ”موجل“ کہلاتا ہے۔ مہر مقرر نہ کرنے کی صورت میں ”مہر مثل“ لازم ہوتا ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہئے کہ خواتین کے حقوق ادا کریں بالخصوص ”مہر“ کو تو ہر حال میں ادا کرنا چاہئے۔

۲۔ آیت لیس البر کی روشنی میں۔ البر کے نکات تحریر کریں۔

جواب: ترجمہ: نیکی یہی نہیں کہ تم مشرق و مغرب کو قبلہ سمجھ کر ان کی طرف منہ کرلو بلکہ نیکی یہ ہے کہ لوگ اللہ پر اور روز آخر پر اور فرشتوں پر اور اللہ کی کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائیں۔ اور مال باوجود عزیز رکھنے کے رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں اور مانگنے والوں کو دیں اور گرد نوں کے چھڑانے میں خرچ کریں اور نماز پڑھیں اور زکوۃ دیں اور جب عہد کرلیں تو اس کو پورا کریں اور سختی اور تکلیف میں اور جنگ کے وقت ثابت قدم رہیں۔ یہی لوگ ہیں جو ایمان میں سچے ہیں اور یہی ہیں جو اللہ سے ڈرنے والے ہیں۔

البرکےاہم نکات:

قرآن کریم کی یہ ایک اہم اور جامع آیت ہے، جس میں ایمانیات، معاملات، جانی و مالی عبادات اور نیک اعمال کی تعلیم و ترغیب دی گئی ہے، جس کا مقصد ہے کہ نیکی محض طاہری اعمال کرنے اور رسومات کے بجالانے کا نام نہیں ہے۔ بلکہ نیکی کا اصل کام تو یہ ہیں: دین کے بنیادی عقائد پر ایمان لانا، معاشرے میں ضرور تمندوں کے کام آنا، اللہ تعالیٰ کے فرائض سرانجام دینا، معاملہ داری میں سیدھا ہونا اور دین پر ثابت قدم رہنا وغیرہ نیکی کے کام ہیں۔

(ج) مندرجہ ذیل سوالات کے مختصر جوابات تحریر کریں:

ا۔ آیت لیس البر میں صبر کے مواقع بیان کریں۔

جواب: ”الباساء“ جس سے مراد فقر ، بھوک، تنگ دستی یعنی مالی تکلیف۔
”والضراء“ سے مراد تکلیف، خصوصاً بیماری یعنی جسمانی تکلیف۔
اور ”الباس“ سے مراد جنگ اور جہاد ہے۔
ان تینوں حالتوں میں صبر نہایت مشکل ہوتا ہے، اس لیے ان کا خاص طور پر ذکر فرمایا گیا ہے۔

۲۔ صلہ رحمی کا مطلب کیا ہے ؟ تحریر کریں۔

جواب: الارحام: ارحام ، رحم کی جمع ہے جس کے معنی ہیں نسبی، قریب کے رشتے، ان کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنا صلہ رحمی کہلاتا ہے۔ والارحام: سے رشتہ کی قرابت داری مراد ہے۔ چنانچہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا: صلہ رحمی یہ نہیں کہ جب دوسرا جوڑے تو آپ اس سے جوڑیں بلکہ صلی رحمی یہ ہے کہ جب دوسرا توڑے تو آپ اس کے ساتھ قرابت داری جوڑے رکھیں۔ (صحیح البخاری،حدیث:۵۹۹۱)

۳۔یتامٰی کے اموال کے متعلق سر پر ستوں کو کیا ہدایات دی گئی ہیں؟

جواب:اگر یتیم بچے جوان ہو چکے ہیں مگر مال کی حفاظت کا طریقہ نہیں جانتے ہوں اور واستعمال کی صلاحیت نہیں رکھتے ہوں تو، اپنی سادگی یا کم عقلی کی وجہ سے مال کو نقصان کردیں گے، تو ان کو یہ مال ملکیت حوالہ نہ کرو جو تم سب کے گذر بسر اور قیام و بقا کا ذریعہ ہے۔کیوں کہ مال انسان کا ذریعہ معاش ہے، تھوڑی سی غفلت بھی مال اور صاحب مال کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔

یہ ملکیت ان کے حوالہ کرنے کے بجائے ان کی ضروریات زندگی کا انتظام کرتے رہو،کھانے پینے، پہننے اوڑھنے، تعلیم و تربیت پر ان کا مال خرچ کرکے ان کو فائدہ دو کیوں کہ وہ بھی معاشرہ کا حصہ ہیں۔
اگر وہ اپنی ملکیت کا مطالبہ کریں تو ان سے اچھی بات کہو کہ یہ ملکیت تمہاری ہی تو ہے، ہم تو بس نگران و سرپرست ہیں۔ آپ جب اس کے سنبھالنے کے قابل ہو جاؤ تو تمہارا مال تمہیں سونپ دیا جائے گا۔