عفت و حیا کی فضیلت و اہمیت، سوالات و جوابات

0
  • سبق نمبر 26:

(الف) مندرجہ ذیل سوالات کے تفصیلی جوابات تحریر کریں:

۱۔ عفت و حیاء کے مظاہر کیا ہیں؟ مثالوں سے واضح کریں۔

عفت و حیاء کے مظاہر:

انسان کے عفت و حیاء کا تعلق نہ صرف اس کے کردار و عمل سے ہے بلکہ اس کی سوچ و فکر، گفتار وانداز میں بھی اس کی بڑی اہمیت ہے۔ چنانچہ ہر انسان اور خصوصی طور پر ایک مسلمان مردوعورت کو اپنی طرز زندگی میں عفت و حیاء کو اولیت دینی چاہئے تاکہ وہ معاشرے کے باعزت کارآمد شہری اور آخری کے لیے مستعد افراد شمار ہو، ذیل میں وہ باتیں قابل توجہ ہیں جن میں عفت و حیاء کی عکاسی ہونا لازم ہے:

گفتار:

مومن کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ گالی گلاچ، بدکلامی اور ناشائستہ انداز گفتگو اپنائے، بلکہ اس کو اچھی بات یا خاموشی اختیار کرنی چاہئے، اور نازیبا گفتگو سے بچنا چاہئے، اور فضول باتوں سے کراہت محسوس کرے یہ گفتار کی عفت و حیاء ہے۔

لباس:

اسلام نے لباس کے دو مقاصد گنوائے ہیں، ایک اس میں ستر ہو دوسرا زینت بھی ہو، چنانچہ مرد و خواتین کو اپنے حیا اور پردہ کا لحاظ رکھتے ہوئے ایسا لباس اختیار کرنا چاہئے جس میں یہ مقاصد حاصل ہوں، اس اعتبار سے وہ لباس جو حیا اور پردہ داری کے خلاف یا دوسروں سے مشابہت رکھتا ہو، وہ عفت و حیاء کے خلاف ہے۔

نشست و برخواست:

ایک سچے مومن کو اپنی روزانہ معمولات میں ہر وقت بے حیائی اور نازیبا سرگرمیوں سے اجتناب کرنا چاہئے، قرآن کریم مومن مرد و عورت کو حکم فرماتا ہے کہ وہ اپنی نظروں کو جھکا کر رکھیں اور اپنی عفت و عصمت کی حفاظت کریں اسی طرح وہ اپنی نظر اور سوچ کو بے حیائی والی بات پر مرکوزنہ کریں، کیوں کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ترجمہ: وہ آنکھوں کی خیانت کو جانتا ہے اور جو باتیں سینوں میں پوشیدہ ہیں ان کو بھی ۔ (الغافر: ۱۹)

مجلس:

انسان اپنی بعض گھڑیاں کسی مجلس، میٹنگ یا مشاورتی سرگرمی میں صرف کرتا ہے اس لیے جو بھی وقت آدمی دوسرے لوگوں کو ساتھ گزارتا ہے اس دوران بھی اس کی حرکات، سکنات، گفتگو اور انداز میں عفت و حیاء برقرار رہنا چاہئے۔

۲۔ عفت و حیاء کی فضیلت پر قرآن و حدیث کی روشنی میں نوٹ تحر یر کریں۔

جواب: عفت و حیا اسلامی اخلاق کی فہرست میں روح رواں اور جان کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو عفت وحیا کی تعلیم دی ہے اور اس خلق عظیم کو تمام اسلامی فضائل میں بڑا قرار دیا ہے۔ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کا ارشاد گرامی ہے کہ
ترجمہ: ہر دین کے کچھ اخلاق ہیں اور اسلام کو اخلاق حیاء ہے۔ (موطا امام مالک)

دوسری حدیث ہے کہ
ترجمہ: یقیناً اللہ تعالیٰ حیادار اور پردہ پوشی کرنے والا ہے اور خود حیاء اور پردہ پوشی کو پسند کرتا ہے۔ (سنن ابی داؤد)
حیاوغیرت مومن کی ایک اہم صفت ہے کیوں کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے اسے ایمان کی ایک شاخ قرار دیا ہے۔ترجمہ: اور حیاء ایمان کا ایک بڑا شعبہ ہے۔(بخاری)

حیا ایک ایسی صفت ہے جس کی وجہ سے انسان بڑے سے بڑے رذائل سے بچ جاتا ہے۔ جبکہ جس شخص سے یہ صفت مفقود ہو جاتی ہے تو وہ کسی شر اور گناہ کے ارتکاب کی کوئی پرواہ نہیں کرتا ن ہ اس کو ندامت ہوتی ہے، اس صورتحال کے پیش نظر حضور کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ: جب تم میں حیا ہی نہ رہے تو جو چاہے کرتے پھرو۔(سنن ابی داؤد)

حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: ہمارے پیارے نبی حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ سب سے بڑھ کر عفت و حیاء کے پیکر تھے، آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کسی پردہ نشین عورت سے زیادہ حیادار تھے اور کوئی ناپسند چیز دیکھتے تو ہمیں اس کا احساس آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کے چہرے مبارک سے ہو جاتا جبکہ فخش باتوں سے آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کو طبعی نفرت تھی۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:ترجمہ: رسول صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ایمان کی ستر سے زیادہ شاخیں ہیں جن میں سے حیاء بھی ایک بڑی شاخ ہے۔(بخاری)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ترجمہ: رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے فرمایا: یقیناً ایمان اور حیاء کا آپس میں گہرا تعلق ہے، جب ایک جاتا ہے تو دوسرا بھی چلا جاتا ہے۔(الادب المفردللبخاری)

جب انسان اپنی حیا کو گم کر دیتا ہے تو وہ ایک وحشی درندے کے مانند ہو جاتا ہے اپنی خواہشات کے پیچھے دوڑتا ہے، اچھے سے اچھے جذبات کو روندتا ہے۔ وہ غریبوں کا مال غصب کرتا ہے اور اپنے دل میں رحم نہیں پاتا۔ مخلوق خدا کو مصائب میں دیکھتا ہے تو اس پر اثر تک نہیں ہوتا۔ اس کی خود پرستی نے اس کو آنکھوں پر تاریک پردہ ڈال رکھا ہے۔ جو انسان اس پستی تک پہنچ جائے تو سمجھ لیں کہ وہ انسانیت کی حدود سے باہر ہوگیا ہے۔

۳۔ دین اسلام میں عفت و حیاء کی کیا اہمیت ہے؟

جواب: اللہ تعالیٰ نے انسان میں اپنے وجود کو برقرار رکھنے اور پیدائش وافزائش نسل کے لیے کچھ حیوانی اور نفسانی جذبات رکھ دیئے اور ساتھ ہی ساتھ اسے عقل اور وحی کے ذریعے جائز اور ناجائز میں تمیز بتادی ہے۔ جسم اور روح دونوں آپس میں لازم و ملزوم ہیں اور دونوں کو مناسب توجہ دے کر ان کی نشونما کا خیال رکھنا انسان کا فرض ہے۔ اسلام بھی یہ چاہتا ہے کہ انسان اپنے جسمانی تقاضوں کو عقل و دین کے ماتحت رکھ کر زندگی بسر کرے۔جب کوئی انسان نفسانی خواہشات کو عقل و دین کے ماتحت رکھ کر قابو میں رکھتا ہے اور روحانیت کو حیوانیت پر غالب رکھتا ہے تو اسے عفت والا کہا جاتا ہے۔اور جب وہ ناشائستہ کاموں سے خوف خدا کے جذبے کے تحت گزیر کرتا ہے تو اسے حیادار کہتے ہیں۔

عفت و حیا کی فضیلت و اہمیت :

عفت و حیا اسلام اخلاقی کی فہرست میں روح رواں اور جان کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو عفت و حیاء کی تعلیم دی ہے اور اس خلق کو تمام اسلامی فضائل میں بڑا قرار دیا ہے۔ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کا ارشاد گرامی ہے کہ:
ترجمہ: ہر دین کے کچھ اخلاق ہیں اور اسلام کا اخلاق حیاء ہے۔(موطا امام مالک)

دوسری حدیث میں ہے کہ
ترجمہ: یقیناً اللہ تعالیٰ حیاء اور پردہ پوشی کرنے والا ہے اور خودحیاء اور پردہ پوشی کو پسند کرتا ہے۔ (سنن ابی داؤد)
حیا ایک ایسی صفت ہے جس کی وجہ سے انسان بڑے سے بڑے رذائل سے بچ جاتا ہے جبکہ جس شخص سے یہ صفت منقود ہو جاتی ہے تو وہ کسی شر اور گناہ کا ارتکاب کی کوئی پرواہ نہیں کرتا نہ اس کو ندامت ہوتی ہے اس صورتحال کے پیش نظر حضور کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ

ترجمہ: جب تم میں حیا ہی نہ رہے تو جو چاہے کرتے پھرو۔ (سنن ابی داؤد)
حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہمارے پیارے نبی حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ سب سے بڑھ کر عفت و حیاء کے پیکر تھے، آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کسی پردہ نشین عورت سے زیادہ حیادار تھے اور کوئی نا پسند چیزدیکھتے تو ہمیں اس کا احساس آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کے چہرے مبارک سے ہو جاتا جبکہ فخش باتوں سے آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کو طبعی نفرت تھی۔

(ب) مندرجہ ذیل سوالات کے مختصر جوابات تحریر کریں:؛

۱۔ عفت و عصمت کا مفہوم کیا ہے؟

عفت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لفظی معنی ہیں پرہیزگاری اور پاکیزگی۔ اور عفت کا شرعی مفہوم ہے پاک دامن رہنا، اخلاقی پاکیزگی اور نفسانی خواہشات کو قابو میں رکھ کربے راہ روی، بدکاری، بے حیائی جیسے کاموں سے نفس کو محفوظ رکھنا۔ اس کے ساتھ دوسرا لفظ آتا ہے، عصمت، کاجس کے معنی ہے پاک دامنی، بے گناہی اور عزت، قرآن کریم میں سچے مومن کے کئی اوصاف بیان کیے گئے ہیں۔ جن میں سے ایک عفت ہے کہ
ترجمہ: اور (کامیاب مومن وہ ہے) جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔
تو ایسے انسان کو عفیف/عفت والا(پاک دامن) کہا جاتا ہے۔

۲۔ حیاء کے لغوی معنی اور مطلب تحریر کریں۔

حیا کے لفظی معنی ہیں شرم اورغیرت حیا کا مطلب ہے انسان کے اندر ایک فطری اور اخلاقی صفت ودیعت کی گئی ہے، جس کے باعث وہ انسان خوف خدا کے جذبے کے تحت بے حیائی اور بداخلاقی جیسے ناشائستہ کام سے اپنے آپ کو بچا لیتا ہے اور برائی سے دور بھاگنے کی کوشش کرتا ہے، تو ایسے انسان کو حیادار کہا جاتا ہے۔ انسان کی شرافت، عزت اور پاک دامن کی بنیاد ہی حیاء پر ہے۔ جس آدمی میں یہ صفت جتنی زیادہ ہوگی وہ برائی اور گناہ کے کاموں سے اتنی زیادہ نفرت کرے گا اور احکام خداوندی اور اخلاقی اقدار کی پابندی کرے گا۔

۳۔ حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کی صفت حیاء کو احادیث میں کس طرح بیان کیا گیا ہے؟

جواب: حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہمارے پیارے نبی حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ سب سے بڑھ کر عفت و حیاء کے پیکر تھے، آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کسی پردہ نشین عورت سے زیادہ حیادار تھے اور کوئی نا پسند چیزدیکھتے تو ہمیں اس کا احساس آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کے چہرے مبارک سے ہو جاتا جبکہ فخش باتوں سے آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کو طبعی نفرت تھی۔