حضرت محمد راشد روضہ دھنی رحمۃ اللہ علیہ کی علمی وروحانی خدمات

0
  • سبق نمبر 30:

(الف) مندرجہ ذیل سوالات کے تفصیلی جوابات لکھیں:

۱۔ حضرت محمد راشد روضہ دھنی رحمۃ اللہ علیہ کی علمی وروحانی خدمات تحریر کریں۔

جواب:حضرت محمد راشد رحمہ اللہ علیہ نہ صرف علوم روحانی میں کامل تھے بلکہ ظاہری علوم خاص طور پر تفسیر، حدیث، فقہ، تصوف، تاریخ ، لغت اور دیگر علوم و فنون میں بھی کامل دسترس رکھتے تھے۔آپ کو فارسی اور عربی زبانوں کے ساتھ غیر معمولی لگاؤ تھا، آپ کی وسعت مطالعہ اور کتب بینی کا یہ عالم تھا کہ ہر وقت کوئی نہ کوئی کتاب ہاتھ میں رہتی۔ آپ کے پاس ایک بڑا کتب خانہ بھی تھا۔ لوگوں کو کتابوں کا شوق دلاے کے لیے آپ فرماتے”جو کوئی مہنگی کتابیں خریدے گا،اس کی اولاد سے کبھی علم ختم نہ ہوگا۔“ حضرت محمد راشد عوام کو رشد و ہدایت اور دین کی دعوت کی طرف بلاتے رہتے اور جو وقت بچتا توتصنیف و تالیف میں مصروف رہتے۔چنانچہ ”جمع الجوامع“ فارسی لغت چار ضخیم جلدوں میں، آداب المریدین، مکتوبات، شرح اسماء اللہ الحسنیٰ اور جامع سندھی کلام آپ کی مشہور تصانیف ہیں۔ جبکہ آپ کو مواعظ اقوال و احوال کا مجموعہ ”ملفوظات شریف پیر محمد راشد روضہ دھنی کے نام سے مشہور ہے جو آپ کے خلفاء نے مرتب کیے۔

حضرت محمد راشد روضہ دھنی کے علمی فیض کے ساتھ آپ کا روحانی فیض کئی ہزار لوگوں کے قلوب کے لیے اکسیر ثابت ہوا۔اپنے والد گرامی سے سلوک میں خلافت حاصل کرنے کے بعد آپ سندھ کے علاوہ پنجاب، کچھ، بھوج، راجھستان گجرات، کاٹھیاواڑ اور بلوچستان تک سفر کرکے لوگوں کو علمی و روحانی فیض دیتے رہے۔ اس کے علاوہ سماج کے اندر غلط رسوم و بدعات کو ختم کرنے میں بھی آپ نے مجاہدانہ کردار ادا فرمایا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ ہندوستان کے اندر جس طرح شرک و بدعات کے خلاف حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے ہاد کرکے سنت رسول ﷺ کو جلاء بخشی اور لوگوں کے دلوں میں نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی محبت اور عقیدت کو راسخ کیا، اسی طرح حضرت محمد راشد روضہ دھنی نے سندھ کے اندر یہ کارنامہ سرانجام دیا۔آپ کے سلسلہ روحانی اور تعلیمات کو پھیلانے میں آپ کی اولاد (پیران پگاڑہ اور پیران جھنڈو) اور خلفاء نے اہم کردار ادا کیا جس کے اثرات آج بھی موجود ہیں۔

۲۔ حضرت محمد راشد روضہ دھنی رحمۃ اللہ علیہ کو روضہ دھنی کا لقب کیوں دیا گیا؟

جواب: حضرت پیر محمد راشد رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت رمضان المبارک ۱۱۷۱ھ میں خیر پور میرس کے قریب ایک گاؤن رحیم ڈنوکلھوڑو میں ہوئی۔کہا جاتا ہے کہ رمضان المبارک میں دودھ پیتے اس بچہ کی یہ عادت ہوگئی کہ سحری کے وقت اپنی والدہ کا دودھ پی کر سارا دن روزہ داروں کی طرح گزارتے اور مغرب کی اذان کے وقت پھر دودھ کے لیے اپنی والدہ سے چمٹ جاتے چنانچہ اس روش کے سبب آپ کو روزہ دھنی(روزہ والا) کہا جانے لگا، بعد میں آپ کے روضہ (مزار) کی طرف منسوب کرکے آپ کو روضہ دھنی(روضہ والا بزرگ) کہا گیا۔

(ب) مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات لکھیں:

۱۔ حضرت محمد راشد روضہ دھنی رحمۃ اللہ علیہ کا خاندانی نسب بیان کریں۔

جواب: آپ کا پورا نام سید محمد راشد بن محمد بقا بن محمد امام شاہ ہے جبکہ آپ کا لقب روضہ دھنی (روضہ والا) اور کنیت ابویاسین ہے۔ حضرت محمد راشد رحمۃ اللہ علیہ سندھ کے مشہور سادات قبیلہ”راشدی خاندان“ کے جدامجد ہیں۔آپ کا سلسلۂ نسب چھتیس پشتوں کے بعد حضرت امام حسین بن امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ملتا ہے۔

حضرت محمد راشد کے خاندان کے جد امجد حضرت سید علی مکی رحمۃ اللہ علیہ ہیں جنہوں نے دین اسلام کی اشاعت کی خاطر اپنا وطن چھوڑ اور کوسوں دور آکر سندھ کے قدیم شہر سیوستان(سہون) کے قریب لکی آری میں سکونت اختیار کی۔ اس وجہ سے آپ کا خاندان لکیاری مشہور ہوا۔

۲۔ حضرت محمد راشد روضہ دھنی رحمۃ اللہ علیہ نے ابتدائی تعلیم کہاں سے حاصل کی؟

جواب: حضرت سید محمد بقا رحمہ اللہ علیہ نے اپنی اولاد کی تعلیم کے لیے خصوصی طور پر وقت مقرر کر رکھا تھا، اور آپ نے سید محمد راشد رحمہ اللہ علیہ کے ساتھ ان کے دوسرے بھائی بہنوں کو گھر پر ہی اپنے پاس ابتدائی تعلیم دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ ابتدا سے ہی وہ اپنی اولاد کی ذہن سازی کے لیے ان سے فرماتے:

بیٹا! ہم جو آپ کو ہی ظاہری علوم کی تعلیم دینے کے لیے کوشاں ہیں اس کا مقصد یہ نہیں کہ آپ محض دنیاوی اغراض میں قاضی و عالم کہلاتے ہیں بلکہ شریعت مطہرہ کی واقفیت اور سنت کا اتباع ہے جس میں دونوں جہانوں کی کامیابی ہے۔

حضرت محمد راشد اپنے والد گرامی کے علاوہ حافظ زین الدین مہیسر رحمہ اللہ علیہ اور میاں محمد اکرم گھمر ورحمۃ اللہ علیہ سے بھی ابتدائی تعلیم حاصل کرتے رہے ۔ مزید تعلیم کے لیے آپ کو شکار پور کے مشہور بزرگ شاہ فقیر اللہ علوی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتب میں بٹھایا گیا۔ یہ بزرگ مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی رحمۃ اللہ علیہ کے خاص شاگرد تھے۔ ایک مرتبہ جب آپ کے والد سید محمد بقا شاہ رحمۃ اللہ علیہ مدرسہ میں آئے تو آپ کو معلوم ہوا کہ مدرسہ کے عام طلباء کے کھانے کی بجائے ان کی اولاد کو عمدہ اور الگ کھانا دیا جاتا ہے توآپ نے فرمایا: جہاں روٹی کے ساتھ سالن ملتا ہو وہاں علم نہیں حاصل ہو سکتا۔

چنانچہ پھر آپ کو اپنے بھائی سید علی مرتضی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ موجودہ ضلع نوشہروفیروز کے شہر کوٹری محمد کبیر کے مشہور عالم مخدوم یارمحمد صدیقی رحمۃ اللہ علیہ کے مدرسہ میں داخل کیا گیا۔ جہاں سے حصول تعلیم کے بعد آپ کو لاڑکانہ کے قریب آریجہ گاؤں، کے استاذ الکل حضرت مولانا محمد آریجوی رحمہ اللہ علیہ کے پاس بھیجا گیا اور وہاں سے تمام علوم میں سند فراغت حاصل کی۔