عقیدہ رسالت اور نبوت کے بنیادی نکات، سوالات و جوابات

0
  • سبق نمبر 13:

(الف) مندرجہ ذیل سوالات کے تفصیلی جوابات تحریر کریں:

۱۔ رسالت اور نبوت کے لغوی اور اصطلاحی معنی و مفہوم تحریر کریں۔

نبوت و رسالت کے لغوی واصطلاحی معنی و مفہوم:

عقیدہ رسالت اسلام کا دوسرا اہم اور بنیادی عقیدہ ہے۔ لفظ ”نبوت“ ”نبا“ سے ماخوذ ہے، جس کے لفظی معنی خبر کے ہیں۔ اور خبر دینے والے کو نبی کہا جاتا ہے۔ اس کی جمع انبیاء ہے۔ اور رسالت لغت میں پیغام پہنچانے کو کہتے ہیں۔ اور پیغام پہنچانے والے کو رسول کہا جاتا ہے جس کی جمع رسل ہے۔
دین کی اصطلاح میں نبوت و رسالت ایک اعلیٰ روحانی منصب ہے جس پر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے خاص خاص بندوں کو منتخب کرکے فائز فرمایا ہے۔ جس کے ذریعے انسان کو معرفت الہیٰ حاصل ہوتی ہے۔

مطلب کہ نبوت و رسالت ایک ایسا منصب ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے درمیان رابط کا کام کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے اپنے احکام ہدایات اپنے بندوں تک پہنچاتا ہے۔ اور ان کے ذریعے انسانوں کی ہدایت اور اصلاح و تربیت کرتا ہے۔ جو شخصیت اس منصب رپ فائز ہوتی ہے اسے نبی یارسول کہاجاتا ہے، رسالت ملنے سے پہلے بھی رسول کی حیثیت اپنی قوم میں اعلیٰ ہوتی ہے۔ وہ معصوم، پاکباز، نرم خو، نیک طینت، سچا اور امانتدار ہوتا ہے اور الرسول سے مراد رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ سے پہلے جتنے بھی انبیاء ورسل بھیجے ہیں، سب پر ایمان لانا فرض ہے۔

اسلام کا سلسلہ عقائد میں توحید کے بعد رسالت کا درجہ ہے، قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: سب اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم اس کے پیغمبروں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے۔(البقرۃ: ۲۸۵)

۲۔عقیدہ رسالت پر تفصیلی مضمون لکھیں۔

جواب: نبوت و رسالت کے لغوی واصطلاحی معنی و مفہوم:

عقیدہ رسالت اسلام کا دوسرا اہم اور بنیادی عقیدہ ہے۔ لفظ ”نبوت“ ”نبا“ سے ماخوذ ہے، جس کے لفظی معنی خبر کے ہیں۔ اور خبر دینے والے کو نبی کہا جاتا ہے۔ اس کی جمع انبیاء ہے۔ اور رسالت لغت میں پیغام پہنچانے کو کہتے ہیں۔ اور پیغام پہنچانے والے کو رسول کہا جاتا ہے جس کی جمع رسل ہے۔
دین کی اصطلاح میں نبوت و رسالت ایک اعلیٰ روحانی منصب ہے جس پر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے خاص خاص بندوں کو منتخب کرکے فائز فرمایا ہے۔ جس کے ذریعے انسان کو معرفت الہیٰ حاصل ہوتی ہے۔ مطلب کہ نبوت و رسالت ایک ایسا منصب ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے درمیان رابط کا کام کرتا ہے۔

اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے اپنے احکام ہدایات اپنے بندوں تک پہنچاتا ہے۔ اور ان کے ذریعے انسانوں کی ہدایت اور اصلاح و تربیت کرتا ہے۔ جو شخصیت اس منصب رپ فائز ہوتی ہے اسے نبی یارسول کہاجاتا ہے، رسالت ملنے سے پہلے بھی رسول کی حیثیت اپنی قوم میں اعلیٰ ہوتی ہے۔ وہ معصوم، پاکباز، نرم خو، نیک طینت، سچا اور امانتدار ہوتا ہے اور الرسول سے مراد رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ سے پہلے جتنے بھی انبیاء ورسل بھیجے ہیں، سب پر ایمان لانا فرض ہے۔

اسلام کے سلسلہ عقائد میں توحید کے بعد ”رسالت“ کا درجہ ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: سب اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں اور اس کے پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم اس کے پیغمبروں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے۔

ضرورت رسالت ونبوت:

اسلام نے انسان کی پیدائش اور زندگی کا مقصد ”اللہ تعالیٰ کیبندگی اور اطاعت “ انبیاء و رسل کے ذریعے بتایا ہے اور یہی وہ چیز ہے جس پر انسان کی دنیا و آخرت کی فلاح و نجات کا دار و مدار ہے۔
انسان فطری طور پر چاہتا ہے کہ عملی زندگی کے لیے اس کے سامنے کوئی مثال یا نمونہ ہو، جسے دیکھ کر اس کے موافق زندگی گذار سکے اور پیغمبرؤں کی زندگی لوگوں کے لیے بہترین مثال یا نمونہ عمل ہوتی ہے۔

اللہ تعالیٰ اپنے بندؤں کی ہدایت کے لیے بنی اور رسول پر کتاب نازل فرماتا ہے۔ صاحب کتاب ا سکی تعلیمات اور احکامات اور حکمتیں سکھاتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ترجمہ: اللہ نے مومنوں پر یقیناً احسان کیا ہے کہ ان میں ان ہی میں سے پیغمبر بھیجے جو ان کو اللہ کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے اور ان کو پاک کرتے اور (اللہ کی) کتاب اور دانائی سکھاتے ہیں۔ اور پہلے یہ لوگ صریح گمراہی میں تھے۔ (آل عمران: ۱۶۴)

اب اگر لوگوں کو سرے سے کوئی رہبری فراہم نہ کی جائے تو قیامت کے دن ان سے کوئی پوچھ گچھ نہیں کی جا سکتی۔ کیوں کہ وہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں تو کوئی ہدایت ہی نہیں ملی تو ہم عمل کیسے کرتے۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کی طبعی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے بندوبست فرمایا ہے، اسی طرح روحانی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے نبوت و رسالت کا اہتمام فرمایا۔ رسولوں اور انبیاء کو دنیا میں لوگوں کو دین حق کی دعوت دینے کے لیے بھیجا گیا کہ وہ انسانوں کو ایمان کی طرف بلائیں اور اللہ تعالیٰ کی بندگی اور اطاعت کا حکم دیں، تاکہ لوگوں پر حجت پوری ہو جائے پھر کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ہمیں کچھ معلوم نہیں تھا۔

۳۔ اطاعت و اتباع رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ پر تفصیلی نوٹ لکھیں۔

اطاعت و اتباء رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ:

اطاعت کا لفظ”طوع“ سے بناہے جس کے معنی دلی آمادگی، فرمانبرداری کرنا یا حکم بجا آوری ہے۔ اطاعت میں مکمل خود سپردگی درکار ہوتی ہے یہ نہیں ہوگا کہ کچھ حکم مانیں اور کچھ نہیں مانیں گویا دلی آمادگی کے ساتھ فرمان برداری قبول کر لینے کے رویے کا نام اطاعت ہے۔

اتباع:

دل کی حقیقی محبت اور طبیعت کی پوری آمادگی اور ایک گہرت قلبی لگاؤ کے ساتھ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کی ہر قدم اور ہر ادا کی پیروی لازم کرنا ”اتباع“ کہلاتا ہے۔ یعنی جب اطاعت کلی اور محبت قلبی جمع ہوں گے تو اتباع کہلائے گا۔رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کی اطاعت یہ ہے کہ زندگی کے تمام معاملات میں آپ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے جو احکام بتائے ہیں یا ہدایات دی ہیں یا عمل فرمایا ہے اس کی اطاعت کی جائے اور ان پر عمل کیا جائے۔

مومن کہلانے کا مستحق:

رسول صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کا ارشاد ہے: تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اسے میں اپنے والدین، اپنی اولاد اور دنیا کے تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔

اطاعت رسول صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ:

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اطاعت رسول صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کا حکم دیا ہے:
ترجمہ: اللہ اور رسول کی اطاعت کرو اپنے اعمال ضائع نہ کرو۔ (سورۃ محمد، آیت:۳۳)
اور اطاعت کی یہ شرط ہمارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ ہی کے ساتھ مخصوص نہیں، قرآن حکیم کے مطابق جتنے انبیاء بھی دنیا میں بھیجے گئے ان کی بعثت کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ لوگوں سے ان کی پیروی کروائی جائے۔

سورۃ النساء آیت ۶۴ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ترجمہ: اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس واسطے کہ اس کا حکم مانے اللہ کے فرمانے سے۔
اطاعت رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ ضرورت:
سیدنا رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کی اطاعت کا حکم دینے کی اصل وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی اطاعت چاہتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا واحد ذریعہ رسول ہی ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ براہ راست اپنے بندوں سے کلام نہیں کرتا بلکہ اپنے رسول کے واسطے سے ہی کلام کرتا ہے۔ رسول ہی لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی ہدایات اور اس کے احکام سے آگاہ کرتا ہے۔ اس لیے رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کی اطاعت دراصل اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت ہے اس لیے جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنا چاہتا ہے اسے رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کی اطاعت کرنی پڑے گی۔

۴۔ عقیدہ ختم نبوت کی تشریح کریں۔

ختم نبوت:

”ختم“ کے لغوی معنی ہیں مہر لگانا کسی چیز کی انتہا اور کسی کام کو پورا کرکے فارغ ہوجانا۔ختم نبوت کا مطلب ہے کہ نبوت کا سلسلہ جو حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا اور یکے بعد دیگرے کئی انبیاء کرام علیہم السلام آئے یہ سلسلہ حضور کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ پر ختم ہو گیا۔ حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں،اب کوئی نیا نبی نہیں آئے گا۔جو حضور کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کے بعد کسی بھی طرح نبوت کا دعویٰکرے گا وہ کافر ہےاور اسلام کے دائرے سے خارج ہے۔ آنحضرت صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ پر نازل ہونے والی کتاب یعنی قرآن مجید انسانیت کے لیے اللہ تعالیٰکی آخری ابدی الہامی کتاب ہے، اس کے بعد کوئی دوسری کتاب نازل نہیں ہوگی۔ حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کی تشریف آوری سے ہدایت کا سلسلہ اپنے اختتام کو پہنچا، دین مکمل ہو گیا اب ختم نبوت ہو گئی۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: آج میں نےتمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا۔
ایک اور جگہ ہے:

ترجمہ: محمد صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ تمہارے مردوں میں سے کسی کے والد نہیں ہیں لیکن اللہ کے پیغمبروں اور نبیوں کی مہر یعنی سلسلہ نبوت کو ختم کر دینے والے ہیں۔ حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے فرمایا : میری امت میں تیس(30) ایسے جھوٹے ہوں گے جن میں سے ہر ایک اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کرے گا حالانکہ میں آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں۔

۵۔ دین اسلام میں رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کی محبت کی کیا اہمیت ہے؟ تحریر کریں۔

جواب: حب رسول صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ: اہل ایمان یعنی ایمان والے رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ سے محبت رکھتے ہیں، قرآن مجید میں سورۃ الاحزاب، آیت 6 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: پیغمبر مومنوں پر ان کی جانوں سے بھی زیادہ حق رکھتے ہیں۔

رسول صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ سے محبت کا سبب:

اللہ تعالیٰکے بعد ہماری محبت کے مستحق اس کے رسول محمد صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ ہیں کیونکہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کی ذات بابرکت ہے جن کی محنتوں کے طفیل ہمیں اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت و دولت دین میر آئی۔

رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کا ارشاد ہے کہ اللہ کی راہ میں جس قدر تکالیف مجھے دی گئیں کسی اور نبی کو نہیں دی گئیں اور وہ سب تکالیف آپ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے اس غرض سے برداشت کیں کہ امت آخرت کی تکالیف سے بچ جائے۔

قرآن کریم کی روشنی میں نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کے ساتھ ہمارے تعلق کی چار بنیادیں ہیں:
۱) ایمان، ۲) اطاعت،۳) اتباء، ۴) محبت۔
حب یا محبت ایک فطری کوشش اور فطری جذبہ کا نام ہے، اور اگر یہ محبت مذہب کے رشتےکی بنیاد پر ہو تو روحانی محبت یا ایمان کی محبت کہلاتی ہے۔ آنحضرت صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کی ذات گرامی ہماری ہر قسم کی محبت کی حقدار ہے اور ایمان کا تقاضا ہےکیونکہ وہ ہستی اللہ تعالیٰ کے محبوب اور مومنوں کے محسن و مربی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں رسول صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کے ساتھ محبت کا حکم دیتے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ ایمان یا اطاعت معتبر ہی نہیں جس کی بنیاد محبت رسول صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ پر نہ ہو۔

(ب) مندرجہ ذیل سوالات کے مختصر جوابات تحریر کریں:

۱۔ نبی یارسول کسے کہتے ہیں؟

جواب: دین کی اصطلاح میں ”نبوت ورسالت“ ایک اعلیٰ روحانی منصب ہے جس پر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے خاص بندوں کو منتخب کرکے فائز فرمایا ہے۔ جس کے ذریعے انسان کو معرفت الہیٰ حاصل ہوتی ہے۔ مطلب کہ نبوت ورسالت ایک ایسا منصب ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے درمیان رابطے کا کام کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے اپنے احکام و ہدایات اپنے بندوں تک پہنچاتا ہے اور ان کے ذریعے انسانوں کی ہدایت اور اصلاح و تربیت کرتا ہے۔ جو شخصیت اس منصب پر فائز ہوتی ہے اسے نبی یا رسول کہا جاتا ہے۔

۲۔ آخری رسالت محمد صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کی خصوسیات تحریر کریں۔

  • رسالت محمد صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کی خصوصیات :

حضرت آدم علیہ السلام سے نبوت کا جو سلسلہ شروع ہوا اور حضرت محمدرسول اللہ خاتم النبیین صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ پر آکر تکمیل کو پہنچا ۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے انبیاء کرام علہیم السلام کو جو کمالات علیحدہ علیحدہ عطا فرمائے تھے۔حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کی شریعت میں وہ تمام شامل کر دیئے گئے اور ہمارا ایمان ہے کہ آنحضرت صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کی شریعت خصوصی فضیلت کی حامل ہے ان تمام رسولوں کی شریعتوں کے جملہ فضائل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئی ہے۔ جس میں سے چند خصوصیات یہ ہیں:
عمومیت و عالمگیریت، پہلی شریعتوں کا نسخ، کاملیت، حفاظت کتاب، سنت نبوی کی حفاظت، جامعیت، ختم نبوت۔

۳۔ ختم نبوت کے متعلق قرآن و حدیث کیا رہنمائی کرتی ہے؟

انبیاء کی بعثت:

اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی ہدایت کے انبیاء بھیجے جن کا سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا لیکن رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ سے قبل انبیاء کرام علیہ السلام مختلف علاقوں، قبیلوں یا خاص قوموں کے طرف مبعوث ہوئے اور اس طرح مخلف معاشرے تشکیل پاتے رہے۔

ختم نبوت:

سورۃ الاحزاب، آیت 40 میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ترجمہ: محمد صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں، آپ تو اللہ تعالیٰ کے رسول اور انبیاء کے خاتم ہیں۔

دین کی تکمیل:

اللہ تعالیٰ نے پوری انسانیت کےلیے ایک ابدی صحیفہ قرآن مجید رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ پر نازل فرماکر دین کی تکمیل کردی۔اب نہ کسی اور ہدایت کی ضرورت باقی ہے اور نہ کسی نبی یا رسول کی۔

۴۔ ایمان کامل کی پہچان کیا ہے؟ تحریر کریں۔

جواب: رسول کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
ترجمہ: کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے ماں باپ، اولاد اور تمام لوگوں سےزیادہ محبوب (یعنی پیارا) نہ ہو جاؤں۔ (صحیح بخاری)
اس ست مراد یہ ہے کہ کسی کا ایمان کامل نہیں یہاں تک کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ اس کے نزدیک اپنی اولاد اور والدین سے زیادہ محبوب نہ ہوں تو جسے رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ والدین اور اولاد سے زیادہ محبوب نہ ہوں وہ ناقص اایمان والا ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ امتی پر نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ کا حق اولاد اور والدین اور تمام لوگوں سے زیادہ ہے، اس لیے کہ نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَعَلیٰ آلِہ وَاَصُحَابَہ وَسَلَّمَ نے ہمیں دوزخ سے بچایا اور گمراہی سے ہدایت بخشی۔