سبق نمبر 3: سوالات و جوابات

0
  • سبق نمبر 3

(الف) مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات تحریر کریں:

۱۔مندرجہ ذیل آیات کا ترجمہ تحریر کریں:

وَلۡيَخۡشَ الَّذِيۡنَ لَوۡ تَرَكُوۡا مِنۡ خَلۡفِهِمۡ ذُرِّيَّةً ضِعٰفًا خَافُوۡا عَلَيۡهِمۡ ۖفَلۡيَتَّقُوا اللّٰهَ وَلۡيَقُوۡلُوا قَوۡلًا سَدِيۡدًا‏

ترجمہ:

اور ایسے لوگوں کو ڈرنا چاہیے جو ایسی حالت میں ہوں کہ اپنے بعد ننھے ننھے بچے چھوڑ جائیں اور ان کو ان کی نسبت خوف ہو کہ ہمارے مرنے کے بعد ان بیچاروں کا کیا ہوگا پس چاہیے کہ یہ لوگ اللہ سے ڈریں اور درست بات کہیں۔

تشریح:

اس آیت میں سرپرست کو یتیموں (جو وارث نہ ہونے کی وجہ سے حصہ نہ پاسکے) سے حسن سلوک اور ان کے حقوق کی طرف متوجہ کیا گیا ہے، کہ ذرا سوچو کہ اگر تم اپنے چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑ کر دینا سے رخصت ہونے لگتے تو تمہیں ان کی کتنی فکر ہوتی؟ پس ہر یتیم کے بارے میں تمہیں ایسا ہی سوچنا اور معاملہ کرنا چاہیے، تاکہ تمہارے دلوں میں ان کے لیے جذبہ رحمت ومحبت پیدا ہو۔ یتیموں سے سیدھی، نرم اور اچھی بات کہنی چاہیے، کوئی سخت بات نہیں کرنی چاہیے جس سے اس کا دل ٹوٹے اور ان کا نقصان ہو بلکہ ان کی اصلاح ہو۔ حضور اکرمﷺ نے یتیموں کی کفالت اور حقوق کی ادائیگی کی بہت تاکید کی ہے۔ (صحیح بخاری، کتاب الوصایا، حدیث: ۲۷۶۷)

اِنَّ الَّذِيۡنَ يَاۡكُلُوۡنَ اَمۡوَالَ الۡيَتٰمٰى ظُلۡمًا اِنَّمَا يَاۡكُلُوۡنَ فِىۡ بُطُوۡنِهِمۡ نَارًا‌ ؕ وَسَيَـصۡلَوۡنَ سَعِيۡرًا

ترجمہ:

جو لوگ یتیموں کا مال ناجائز طور پر کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ بھرتے ہیں۔ اور دوزخ میں ڈالے جائیں گے۔

تشریح:

اس آیت میں یتیموں کے حقوق اور ان کے مال میں خیانت کی سزا اور وعید کو بیان کیا گیا ہے۔ انسانی معاش میں مال و دولت کی بڑی اہمیت ہے، اس کو جائز اور حلال طریقوں سے کمانا عبادت میں شمار ہوتا ہے، جب کہ باطل طریقوں سے مال جمع کرنےکی سختی سے ممانعت کی گئی ہے، عام لوگوں کے مقابلے میں اگر کمزور، ضعیف، یتیموں اور مسکیوں کے مال میں ناجائز تصرف اور خیانت کرکے ان کی اس طرح حق تلفی کی جائے تو یہ اور بڑی برائی کی بات ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یتیموں کے مال کو ظلم کےطور پر ناحق طریقے سے ہتھیانے اور ناجائزاستعمال کرنے والوں کے لیے فرمایا کہ وہ جو کچھ بھی اس طرح کھاتے ہیں گویا وہ اپنے پیٹ کےاندر جہنم کی آگ جھونک رہے ہیں۔ اور ان کے لیے آخرت کے جھلسانے والی آگ الگ سے تیا رہے۔ حدیث میں بھی یتیم کے مال کھانے کو بڑے گناہوں میں شمار کیا گیا ہے۔ (صحیح بخاری، کتاب المحاربین، حدیث: ۶۸۵۷)

۲۔ سورۃ النساء کی آیت ۶ کی روشنی میں یتیموں کے حقوق تحریر کریں۔

ترجمہ:

اور یتیموں کو بالغ ہونے تک کام کاج میں مصروف رکھو اور جانچتے رہو پھر بالغ ہونے پر اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو تو ان کا مال ان کے حوالے کر دو۔ اور اس خوف سے کہ وہ بڑے ہو جائیں گے۔ یعنی بڑے ہو کر تم سے اپنا مال واپس لے لیں گے اس کو فضول خرچی اور جلدی میں نہ اڑادینا۔ اور جو شخص آسودہ حال ہو اس کے ایسے مال سے قطعی طور پرپرہیزرکھنا چاہئے اور جو ضرورت مند ہو وہ مناسب طور پر یعنی بقدر خدمت کچھ لےلے۔ اور جب ان کا مال ان کے حووالے کرنے لگو تو گواہ کر لیا کرو اور حقیقت میں تو اللہ ہی گواہ اور حساب لینے والا کافی ہے۔

تشریح:

اس آیت میں نابالغ اور یتامیٰ کے اموال کو واپسی کے وقت شرائط کا ذکر ہے اور ان کے اموال کو بے دریغ خرچ کرنے سےممانعت بیان کی گئی ہے۔ اور بتلایاگیا ہے کہ جب ان میں بلوغ ورشد پایا جائے تو ملکیت ان کے حوالے کر دیں۔ دولت کو سنبھالنے، ان کو جائز تجارت میں لگانے اور نفع و نقصان میں فرق سمجھنے جیسے معاملات سے متعلق ان بچوں کی قابلیت اور صلاحیت کی آزمائش کی جائے، اگر وہ اس عمر کو پہنچ چکے ہیں کہ وہ یہ چیزیں سمجھنے لگے ہیں تو ملکیت ان کے حوالے کردو۔ اور ملکیت حوالے کرنے کے وقت گواہ مقرر کر دیے جائیں تاکہ بعد میں کسی پر کوئی الزام عائد نہ ہو، غلط فہمی بھی ختم ہو جائے گی اور آئندہ کسی جھگڑے کا خدشہ بھی نہیں رہے گا۔

دوسری بات یہ بتائی گئی ہے کہ جب تک مال منتقل نہیں ہوا بلکہ مال کفیل کے پاس ہے اور وہ خود دولت مند ہے تو یتیم بچوں کے مال میں سے کچھ استعمال کرنے کی اس کو اجازت نہیں، باقی جو یہ ان کی دیکھ بھال کرتا ہے اس کا اللہ تعالیٰ اس کو بہت بڑا اجردے گا۔ البتہ کفیل خود غریب اور محتاج ہے تو اس کو منصفانہ طریقے سے بقدد ضرورت دستور کے اس مال میں سے لینے کی اجازت ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے یتیموں کے کفیلوں کو ہدایت کر دی ہے، کہ اس خیال سے کے بچے بڑے ہو جائیں گے اور اپنے مال کا تقاضا کریں گے، تو جلدی جلدی اور بے جا استعمال میں ان کے مال کو ختم کرنے کی ہر گزگنجائش نہیں ہے بلکہ یہ ظلم ہوگا۔

(ج) مندرجہ ذیل سوالات کے مختصر جوابات تحریر کریں:

۱: بلوغ اوررشد کا مطلب کیا ہے؟ تحریر کریں۔

جواب: بلوغ سے مراد ہے نکاح کی عمر کو پہنچ جانا۔

رشد: سےمراد مالی انتظام اور کاروبار کی سمجھ بوجھ رکھنا۔

۲۔ قرآن کریم میں یتیم کو مال واپس کرنے کا طریقہ کیا بتایا گیا ہے؟

جواب:اس آیت میں نابالغ اور یتامیٰ کے اموال کو واپسی کے وقت شرائط کا ذکر ہے اور ان کے اموال کو بے دریغ خرچ کرنے سے ممانعت بیان کی گئی ہے۔ اور بتلایا گیا ہے کہ جب ان میں بلوغ ورشد پایا جائے تو ملکیت ان کے حوالے کر دیں۔ دولت کو سنبھالنے، اس کو جائز تجارت میں لگانے اور نفع و نقصان میں فرق سمجھنے جیسے معاملات سے متعلق ان بچوں کی قابلیت اور صلاحیت کی آزمائش کی جائے۔ اگر وہ اس عمر کو پہنچ چکے ہیں کہ یہ چیزیں سمجھنے لگے ہیں تو ملکیت ان کے حوالے کردو۔
دوسری بات یہ بتائی گئی ہے کہ جب تک مال منتقل نہیں ہوا ہو بلکہ مال کفیل کے پاس ہے اور وہ خود دولت مند ہے تو یتیم بچوں کے مال میں سے کچھ استعمال کرنے کی اس کو اجازت نہیں۔ باقی جو یہ ان کی دیکھ بھال کرتا ہےاس کا اللہ تعالیٰ اس کو بہت بڑا اجر دے گا۔لیکن اللہ تعالیٰ نے یتیموں کے کفیلوں کو ہدایت کردی ہے، کہ اس خیال سے کہ بچے بڑے ہو جائیں گے اور اپنے مال کا تقاضا کریں گے، تو جلدی جلدی اور بے جا استعمال میں ان کے مال کو ختم کرنے کی ہر گز گنجائش نہیں ہے بلکہ یہ ظلم ہوگا۔

۳۔ قرآن مجید نے یتیم کے کفیل/ سرپرست کی کیا ذمہ داریاں بتائی ہیں؟

جواب: قرآن کی سرپرست کو یتیموں (جو وارث نہ ہونے کی وجہ سے حصہ نہ پاسکے) سے حسن سلوک اور ان کے حقوق کی طرف متوجہ کیا گیا ہے، کہ ذرا سوچو کہ اگر تم اپنے چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑ کر دینا سے رخصت ہونے لگتے تو تمہیں ان کی کتنی فکر ہوتی؟ پس ہر یتیم کے بارے میں تمہیں ایسا ہی سوچنا اور معاملہ کرنا چاہیے، تاکہ تمہارے دلوں میں ان کے لیے جذبہ رحمت ومحبت پیدا ہو۔ یتیموں سے سیدھی، نرم اور اچھی بات کہنی چاہیے، کوئی سخت بات نہیں کرنی چاہیے جس سے اس کا دل ٹوٹے اور ان کا نقصان ہو بلکہ ان کی اصلاح ہو۔ حضور اکرمﷺ نے یتیموں کی کفالت اور حقوق کی ادائیگی کی بہت تاکید کی ہے۔ (صحیح بخاری، کتاب الوصایا، حدیث: ۲۷۶۷)

۴۔ یتیموں کے مال میں خیانت کرنے والوں کی کیا سزا بیان کی گئی ہے؟

جواب: قرآن میں یتیموں کے حقوق اور ان کے مال میں خیانت کی سزا اور وعید کو بیان کیا گیا ہے۔انسانی معاش میں مال و دولت کی بڑی اہمیت ہے، اس کو جائز اور حلال طریقوں سے کمانا عبادت میں شمار ہوتا ہے، جب کہ باطل طریقوں سے مال جمع کرنے کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے، عام لوگوں کے مقابلے میں اگر کمزور، ضعیف، یتیموں اور مسکینوں کے مال میں ناجائز تصرف اور خیانت کرکے ان کی اس طرح حق تلفی کی جائےتو یہ اور بڑی برائی کی بات ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یتیموں کے مال کو ظلم کے طور پر ناحق طریقے سے ہتھیانے اور ناجائز استعمال کرنے والوں کے لیے فرمایا کہ وہ جو کچھ بھی اس طرح کھاتے ہیں گویا وہ اپنے پیٹ کےاندر جہنم کی آگ جھونک رہے ہیں۔ اور ان کے لیے آخرت کے جھلسانے والی آگ الگ سے تیار ہے۔ حدیث میں بھی یتیم کے مال کھانے کو بڑے گناہوں میں شمارکیا گیا ہے۔(صحیح بخاری، کتاب المحاربین، حدیث، ۶۸۵۷)